سنن ترمذي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
61. باب فضل فاطمة بنت محمد صلى الله عليهما وسلم
باب: فاطمہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3873
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ وَهْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فَاطِمَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا , فَبَكَتْ، ثُمَّ حَدَّثَهَا , فَضَحِكَتْ، قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا وَضَحِكِهَا، قَالَتْ: " أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَمُوتُ , فَبَكَيْتُ، ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَرْيَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فاطمہ کو بلایا، اور ان سے سرگوشی کی تو وہ رو پڑیں، پھر دوبارہ آپ نے ان سے بات کی تو وہ ہنسنے لگیں، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ بتایا کہ آپ عنقریب وفات پا جائیں گے، تو میں رو پڑی، پھر آپ نے مجھے بتایا کہ میں مریم بنت عمران کو چھوڑ کر اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہوں گی تو میں ہنسنے لگی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3873]
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3873]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (وھو عند الجماعة من حدیث فاطمة نفسھا) (تحفة الأشراف: 18187) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پچھلی حدیث اور اس حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے، وہ دوسرا واقعہ اور یہ دوسرا واقعہ ہے، نیز فاطمہ رضی الله عنہا ہنسنے کے دونوں اسباب میں بھی تضاد نہ سمجھا جائے، دونوں باتیں خوش ہونے کی ہیں۔
حدیث نمبر: 3872
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشْبَهَ سَمْتًا , وَدَلًّا , وَهَدْيًا بِرَسُولِ اللَّهِ فِي قِيَامِهَا , وَقُعُودِهَا مِنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَكَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا , وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِهَا فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا، فَلَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ فَأَكَبَّتْ عَلَيْهِ , فَقَبَّلَتْهُ، ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا , فَبَكَتْ، ثُمَّ أَكَبَّتْ عَلَيْهِ , ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا فَضَحِكَتْ، فَقُلْتُ: إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنَّ هَذِهِ مِنْ أَعْقَلِ نِسَائِنَا فَإِذَا هِيَ مِنَ النِّسَاءِ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ لَهَا: أَرَأَيْتِ حِينَ أَكْبَبْتِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ , فَبَكَيْتِ , ثُمَّ أَكْبَبْتِ عَلَيْهِ , فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ , فَضَحِكْتِ، مَا حَمَلَكِ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَتْ: إِنِّي إِذًا لَبَذِرَةٌ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَيِّتٌ مِنْ وَجَعِهِ هَذَا , فَبَكَيْتُ، ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي أَسْرَعُ أَهْلِهِ لُحُوقًا بِهِ , فَذَاكَ حِينَ ضَحِكْتُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ۱؎ رضی الله عنہ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ کہتی ہیں: جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو فاطمہ آئیں اور آپ پر جھکیں اور آپ کو بوسہ لیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور رونے لگیں پھر آپ پر جھکیں اور اپنا سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں، پہلے تو میں یہ خیال کرتی تھی کہ یہ ہم عورتوں میں سب سے زیادہ عقل والی ہیں مگر ان کے ہنسنے پر یہ سمجھی کہ یہ بھی آخر (عام) عورت ہی ہیں، یعنی یہ کون سا موقع ہنسنے کا ہے، پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا بات تھی کہ میں نے تمہیں دیکھا کہ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھکیں پھر سر اٹھایا تو رونے لگیں، پھر جھکیں اور سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں، تو انہوں نے کہا: اگر آپ کی زندگی میں یہ بات بتا دیتی تو میں ایک ایسی عورت ہوتی جو آپ کے راز کو افشاء کرنے والی ہوتی، بات یہ تھی کہ پہلے آپ نے مجھے اس بات کی خبر دی کہ اس بیماری میں میں انتقال کر جانے والا ہوں، یہ سن کر میں رو پڑی، پھر آپ نے مجھے بتایا کہ ان کے گھر والوں میں سب سے پہلے میں ان سے ملوں گی، تو یہ سن کر میں ہنسنے لگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور یہ عائشہ سے متعدد سندوں سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3872]
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور یہ عائشہ سے متعدد سندوں سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3872]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الأدب 155 (5217) (تحفة الأشراف: 17883) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے فاطمہ رضی الله عنہا کی منقبت کئی طرح سے ثابت ہوتی ہے، ۱- فاطمہ رضی الله عنہا آپ سے اخلاق و عادات میں بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں،
۲- فاطمہ رضی الله عنہا آپ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں،
۳- آخرت میں آپ سے شرف رفاقت سب سے پہلے فاطمہ رضی الله عنہا کو حاصل ہوئی۔
۲- فاطمہ رضی الله عنہا آپ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں،
۳- آخرت میں آپ سے شرف رفاقت سب سے پہلے فاطمہ رضی الله عنہا کو حاصل ہوئی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح نقد الكتانى (44 - 45)
حدیث نمبر: 3893
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فَاطِمَةَ عَامَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا , فَبَكَتْ، ثُمَّ حَدَّثَهَا , فَضَحِكَتْ، قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا وَضَحِكِهَا، قَالَتْ: " أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَمُوتُ , فَبَكَيْتُ، ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال فاطمہ کو بلایا اور ان کے کان میں کچھ باتیں کہیں تو وہ رو پڑیں، پھر آپ نے دوبارہ ان سے کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگیں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو میں نے ان سے ان کے رونے اور ہنسنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ بتایا تھا کہ عنقریب آپ وفات پا جائیں گے، تو (یہ سن کر) میں رونے لگی تھی، پھر آپ نے جب مجھے یہ بتایا کہ مریم بنت عمران کو چھوڑ کر میں اہل جنت کے تمام عورتوں کی سردار ہوں گی ۱؎، تو یہ سن کر میں ہنسنے لگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3893]
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3893]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 3873 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بعض روایات میں آیا ہے (الفتح: مناقب خدیجہ) کہ دنیا کی عورتوں کی سردار: مریم، پھر فاطمہ پھر خدیجہ، پھر آسیہ ہیں، اور حاکم کی روایت میں ہے کہ ”جنت کی عورتوں میں سب سے افضل: خدیجہ، فاطمہ، مریم اور آسیہ ہیں، معلوم ہوا کہ یہ چاروں دنیا اور جنت دونوں میں دیگر ساری عورتوں سے افضل ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6184) ، الصحيحة (2 / 439)

