الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Book on Marriage
43. باب مَا جَاءَ فِي الزَّوْجَيْنِ الْمُشْرِكَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا
43. باب: اگر مشرک و کافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟
Chapter: What Has Been Related About A Married Couple Who Are Idolaters, Then One Of Them Accepted Islam
حدیث نمبر: 1143
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، قال: حدثني داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" رد النبي صلى الله عليه وسلم ابنته زينب على ابي العاصي بن الربيع، بعد ست سنين بالنكاح الاول ولم يحدث نكاحا". قال ابو عيسى: هذا حديث ليس بإسناده باس ولكن لا نعرف وجه هذا الحديث، ولعله قد جاء هذا من قبل داود بن حصين، من قبل حفظه.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" رَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بْنِ الرَّبِيعِ، بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ وَلَمْ يُحْدِثْ نِكَاحًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ وَلَكِنْ لَا نَعْرِفُ وَجْهَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَعَلَّهُ قَدْ جَاءَ هَذَا مِنْ قِبَلِ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے پاس چھ سال بعد ۱؎ پہلے نکاح ہی پر واپس بھیج دیا اور پھر سے نکاح نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ہم اس حدیث میں نقد کی وجہ نہیں جانتے ہیں۔ شاید یہ چیز داود بن حصین کی جانب سے ان کے حفظ کی طرف سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 24 (2240)، سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2009)، (تحفة الأشراف: 6073) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دو سال بعد انہیں واپس کیا، اور ایک روایت میں ہے تین سال کے بعد، حافظ ابن حجر نے ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ چھ سال سے مراد زینب کی ہجرت اور ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کا واقعہ ہے، اور دو اور تین سے مراد آیت کریمہ «لاهن حل لهم» کے نازل ہونے اور ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کی مدت ہے جو دو سال اور چند مہینوں پر مشتمل۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2009)

قال الشيخ زبير على زئي: (1143) إسناده ضعيف / د 2240، جه 2009
حدیث نمبر: 1142
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن منيع، وهناد، قالا: حدثنا ابو معاوية، عن الحجاج، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رد ابنته زينب على ابي العاصي بن الربيع، بمهر جديد ونكاح جديد". قال ابو عيسى: هذا حديث في إسناده، مقال: والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم، ان المراة إذا اسلمت قبل زوجها، ثم اسلم زوجها، وهي في العدة، ان زوجها احق بها ما كانت في العدة، وهو قول: مالك بن انس، والاوزاعي، والشافعي، واحمد، وإسحاق.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بْنِ الرَّبِيعِ، بِمَهْرٍ جَدِيدٍ وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ، مَقَالٌ: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَسْلَمَتْ قَبْلَ زَوْجِهَا، ثُمَّ أَسْلَمَ زَوْجُهَا، وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ، أَنَّ زَوْجَهَا أَحَقُّ بِهَا مَا كَانَتْ فِي الْعِدَّةِ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لڑکی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے پاس نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹا دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند میں کچھ کلام ہے اور دوسری حدیث میں بھی کلام ہے،
۲- اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ عورت جب شوہر سے پہلے اسلام قبول کر لے، پھر اس کا شوہر عدت کے دوران اسلام لے آئے تو اس کا شوہر ہی اس کا زیادہ حقدار ہے جب وہ عدت میں ہو۔ یہی مالک بن انس، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2010)، (تحفة الأشراف: 8672)، مسند احمد (2/207) (ضعیف) (اس کے راوی ”حجاج بن ارطاة“ ایک تو ضعیف ہیں، دوسرے سند میں ان کے اور ”عمروبن شعیب“ کے درمیان انقطاع ہے، اس کے بالمقابل اگلی حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث ابن عباس کی حدیث کے جو آگے آ رہی ہے مخالف ہے اس میں ہے کہ پہلے ہی نکاح پر آپ نے انہیں لوٹا دیا نیا نکاح نہیں پڑھایا اور یہی صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2010) // ضعيف ابن ماجة برقم (436)، الإرواء (1992) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1142) إسناده ضعيف /جه 2010
حجاج بن أرطاة ضعيف (تقدم:527)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.