الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
48. باب مَا جَاءَ فِي اللَّعْنَةِ
48. باب: لعنت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Curse
حدیث نمبر: 1977
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن يحيى الازدي البصري، حدثنا محمد بن سابق، عن إسرائيل، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليس المؤمن بالطعان، ولا اللعان، ولا الفاحش، ولا البذيء "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روي عن عبد الله من غير هذا الوجه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بےحیاء اور بدزبان نہیں ہوتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث عبداللہ سے دوسری سند سے بھی آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9434) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں مومن کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں کہ مومن کامل نہ تو کسی کو حقیر و ذلیل سمجھتا ہے، نہ ہی کسی کی لعنت و ملامت کرتا ہے، اور نہ ہی کسی کو گالی گلوج دیتا ہے، اسی طرح چرب زبانی، زبان درازی اور بےحیائی جیسی مذموم صفات سے بھی وہ خالی ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (320)
حدیث نمبر: 1966
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي اسماء، عن ثوبان، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " افضل الدينار دينار ينفقه الرجل على عياله، ودينار ينفقه الرجل على دابته في سبيل الله، ودينار ينفقه الرجل على اصحابه في سبيل الله "، قال ابو قلابة: بدا بالعيال، ثم قال: " فاي رجل اعظم اجرا من رجل ينفق على عيال له صغار يعفهم الله به ويغنيهم الله به " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَفْضَلُ الدِّينَارِ دِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى عِيَالِهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى دَابَّتِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: بَدَأَ بِالْعِيَالِ، ثُمَّ قَالَ: " فَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ رَجُلٍ يُنْفِقُ عَلَى عِيَالٍ لَهُ صِغَارٍ يُعِفُّهُمُ اللَّهُ بِهِ وَيُغْنِيهِمُ اللَّهُ بِهِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ثوبان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہتر دینار وہ دینار ہے، جسے آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار ہے جسے آدمی اپنے جہاد کی سواری پر خرچ کرتا ہے، اور وہ دینار ہے جسے آدمی اپنے مجاہد ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے، ابوقلابہ کہتے ہیں: آپ نے بال بچوں کے نفقہ (اخراجات) سے شروعات کی پھر فرمایا: اس آدمی سے بڑا اجر و ثواب والا کون ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انہیں حرام چیزوں سے بچاتا ہے اور انہیں مالدار بناتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 12 (994)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 4 (2760) (تحفة الأشراف: 2101)، و مسند احمد (5/277، 279، 284) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2760)
حدیث نمبر: 1967
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي شريح العدوي، انه قال: ابصرت عيناي رسول الله صلى الله عليه وسلم وسمعته اذناي حين تكلم به، قال: " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته "، قالوا: وما جائزته؟ قال: " يوم وليلة، والضيافة ثلاثة ايام، وما كان بعد ذلك فهو صدقة، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليسكت "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ "، قَالُوا: وَمَا جَائِزَتُهُ؟ قَالَ: " يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث بیان فرما رہے تھے تو میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا اور کانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے، صحابہ نے عرض کیا، مہمان کی عزت و تکریم اور آؤ بھگت کیا ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ایک دن اور ایک رات، اور مہمان نوازی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ صدقہ ہے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 31 (6019) و 85 (6135)، والرقاق 23 (6476)، صحیح مسلم/الإیمان 19 (48)، سنن ابی داود/ الأطعمة 5 (3748)، سنن ابن ماجہ/الأدب 5 (3675) (تحفة الأشراف: 12056)، وط/صفة النبي ﷺ 10 (22)، و مسند احمد (4/31)، و (6/384)، وسنن الدارمی/الأطعمة 11 (2078) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی کتنے دن تک اس کے لیے پرتکلف کھانا بنایا جائے۔
۲؎: اس حدیث میں ضیافت اور مہمان نوازی سے متعلق اہم باتیں مذکور ہیں، مہمان کی عزت و تکریم کا یہ مطلب ہے کہ خوشی سے اس کا استقبال کیا جائے، اس کی مہمان نوازی کی جائے، پہلے دن اور رات میں اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کیا جائے، مزید اس کے بعد تین دن تک معمول کے مطابق مہمان نوازی کی جائے، اپنی زبان ذکر الٰہی، توبہ و استغفار اور کلمہ خیر کے لیے وقف رکھے یا بےفائدہ فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے اسے خاموش رکھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3675)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.