حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، حدثنا ثابت ، عن انس بن مالك ، وهشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم سمع اصواتا فقال:" ما هذا الصوت" قالوا: النخل يؤبرونها، فقال:" لو لم يفعلوا لصلح" فلم يؤبروا عامئذ فصار شيصا، فذكروا للنبي صلى الله عليه وسلم فقال:" إن كان شيئا من امر دنياكم فشانكم به، وإن كان من امور دينكم فإلي". حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ أَصْوَاتًا فَقَالَ:" مَا هَذَا الصَّوْتُ" قَالُوا: النَّخْلُ يُؤَبِّرُونَهَا، فَقَالَ:" لَوْ لَمْ يَفْعَلُوا لَصَلَحَ" فَلَمْ يُؤَبِّرُوا عَامَئِذٍ فَصَارَ شِيصًا، فَذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنْ كَانَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْيَاكُمْ فَشَأْنُكُمْ بِهِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أُمُورِ دِينِكُمْ فَإِلَيَّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں تو پوچھا: ”یہ کیسی آواز ہے“؟ لوگوں نے کہا: لوگ کھجور کے درختوں میں پیوند لگا رہے ہیں ۱؎، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کریں تو بہتر ہو گا“ چنانچہ اس سال ان لوگوں نے پیوند نہیں لگایا تو کھجور خراب ہو گئی، لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری دنیا کا جو کام ہو، اس کو تم جانو، البتہ اگر وہ تمہارے دین سے متعلق ہو تو اسے مجھ سے معلوم کیا کرو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفضائل 38 (2363)، (تحفة الأشراف: 338، 16875)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/123، 152) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «تأبیر» یا «تلقیح»: نر کھجور کے شگوفے (کلی) مادہ کھجور میں ڈالنے کو «تلقیح» یا «تأبیر» کہتے ہیں، ایسا کرنے سے کھجور کے درخت خوب پھل لاتے ہیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو نماز سے غافل ہو جائے، یا سو جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب یاد آ جائے تو پڑھ لے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے ”وہی اس کا وقت ہے“ یعنی جس وقت جاگ کر اٹھے یا جب نماز یاد آ جائے اسی وقت پڑھ لے، اگرچہ اس وقت سورج نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہو یا ٹھیک دوپہر کا وقت ہو، یا فجر یا عصر کے بعد یاد آئے، کیونکہ یہ حدیث عام ہے، اور اس سے ان احادیث کی تخصیص ہو گئی جس میں ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، یہی قول امام احمد کا ہے، اور بعضوں نے کہا نماز پڑھے جب تک سورج نہ نکلے یا ڈوب نہ جائے، اور یہ قول حنفیہ کا ہے، کیونکہ بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب سورج کا کنارہ نکلے تو نماز میں دیر کرو، یہاں تک کہ سورج اونچا ہو جائے، اور جب سورج کا کنارہ غائب ہو جائے، تو نماز میں دیر کرو یہاں تک کہ بالکل غائب ہو جائے“۔
It was narrated that Anas bin Malik said:
'The Prophet was asked about a man who forgets prayer or sleeps and misses it. He said: 'he performs it when he remembers it.'"