الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
42. بَابُ : التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ
42. باب: لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان تفریق کر دینے کا بیان۔
Chapter: Separating The Two Who Engage In Li'an
حدیث نمبر: 3504
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا عمرو بن علي، ومحمد بن المثنى واللفظ له , قالا: حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن عزرة، عن سعيد بن جبير، قال: لم يفرق المصعب بين المتلاعنين، قال سعيد: فذكرت ذلك لابن عمر، فقال:" فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اخوي بني العجلان".
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَاللَّفْظُ لَهُ , قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: لَمْ يُفَرِّقْ الْمُصْعَبُ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، قَالَ سَعِيدٌ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ:" فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب نے دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق نہیں کی (لعان کے بعد انہیں ایک ساتھ رہنے دیا)۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عجلان کے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے مابین تفریق کر دی تھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللعان 1 (1493)، (تحفة الأشراف: 7061) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 3503
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا عمرو بن علي، ومحمد بن المثنى، قالا: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا عبد الملك بن ابي سليمان، قال: سمعت سعيد بن جبير، يقول:" سئلت عن المتلاعنين في إمارة ابن الزبير: ايفرق بينهما؟ فما دريت ما اقول، فقمت من مقامي إلى منزل ابن عمر، فقلت: يا ابا عبد الرحمن، المتلاعنين: ايفرق بينهما؟ قال: نعم، سبحان الله، إن اول من سال عن ذلك فلان بن فلان، فقال: يا رسول الله، ارايت؟ ولم يقل عمرو: ارايت الرجل منا يرى على امراته فاحشة، إن تكلم فامر عظيم؟ وقال عمرو: اتى امرا عظيما، وإن سكت سكت على مثل ذلك، فلم يجبه , فلما كان بعد ذلك اتاه، فقال: إن" الامر الذي سالتك ابتليت به، فانزل الله عز وجل هؤلاء الآيات في سورة النور: والذين يرمون ازواجهم سورة النور آية 6 حتى بلغ والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين سورة النور آية 9، فبدا بالرجل، فوعظه، وذكره، واخبره ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقال: والذي بعثك بالحق ما كذبت، ثم ثنى بالمراة، فوعظها، وذكرها، فقالت: والذي بعثك بالحق إنه لكاذب، فبدا بالرجل، فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم ثنى بالمراة، فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين، والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ففرق بينهما".
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ:" سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَقُمْتُ مِنْ مَقَامِي إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْمُتَلَاعِنَيْنِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: نَعَمْ، سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ؟ وَلَمْ يَقُلْ عَمْرٌو: أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ مِنَّا يَرَى عَلَى امْرَأَتِهِ فَاحِشَةً، إِنْ تَكَلَّمَ فَأَمْرٌ عَظِيمٌ؟ وَقَالَ عَمْرٌو: أَتَى أَمْرًا عَظِيمًا، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ، فَلَمْ يُجِبْهُ , فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ" الْأَمْرَ الَّذِي سَأَلْتُكَ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6 حَتَّى بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 9، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَوَعَظَهُ، وَذَكَّرَهُ، وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَوَعَظَهَا، وَذَكَّرَهَا، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی امارت کے زمانہ میں دو لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا (کہ جب وہ دونوں لعان کر چکیں گے تو) کیا ان دونوں کے درمیان تفریق (جدائی) کر دی جائے گی؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں، میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر چلا گیا، میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی جائے گی؟ انہوں نے کہا: ہاں، سبحان اللہ، پاک و برتر ہے ذات اللہ کی۔ سب سے پہلے اس بارے میں فلاں ابن فلاں نے مسئلہ پوچھا تھا (ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کا نام نہیں لیا) اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! ( «ارأیت» عمرو بن علی جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں انہوں نے اپنی روایت میں «ارأیت» کا لفظ نہیں استعمال کیا ہے)، آپ بتائیے ہم میں سے کوئی شخص کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھے (تو کیا کرے؟) اگر وہ زبان کھولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے ۱؎ اور اگر وہ چپ رہتا ہے تو بھی وہ ایسی بڑی اور بری بات پر چپ رہتا ہے (جو ناقابل برداشت ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا (اس روایت میں ـ «فأمر عظیم» کے الفاظ آئے ہیں، یہ اس روایت کے ایک راوی محمد بن مثنیٰ کے الفاظ ہیں، اس روایت کے دوسرے راوی عمرو بن علی نے اس کے بجائے «اتی امراً عظیماً» کے الفاظ استعمال کیے ہیں)۔ پھر جب اس کے بعد ایسا واقعہ پیش آ گیا تو وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: جس بارے میں، میں نے آپ سے مسئلہ پوچھا تھا میں خود ہی اس سے دوچار ہو گیا، (اس وقت) اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی یہ آیت: «والذين يرمون أزواجهم» سے لے کر «والخامسة أن غضب اللہ عليها إن كان من الصادقين» تک نازل فرمائیں، (اس کارروائی کا) آغاز آپ نے مرد کو وعظ و نصیحت سے کیا، آپ نے اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکا، آسان اور کم تر ہے۔ اس شخص نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے جھوٹ نہیں کہا ہے، پھر آپ نے عورت کو بھی خطاب کیا، آپ نے اسے بھی وعظ و نصیحت کی، ڈرایا اور آخرت کے سخت عذاب کا خوف دلایا۔ اس نے بھی کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ شخص جھوٹا ہے۔ (اس وعظ و نصیحت کے بعد لعان کی کارروائی روبہ عمل آئی) تو آپ نے (یہ کارروائی) مرد سے شروع کی۔ اس نے اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہے اور پانچویں بار اس نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے عورت سے گواہی لینی شروع کی، اس نے بھی اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے اور اس نے پانچویں بار کہا: اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب نازل ہو اگر وہ (شوہر) سچوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللعان 1 (1493)، سنن الترمذی/الطلاق 22 (1102)، صحیح البخاری/الطلاق 32 (5311)، 35 (5315)، 53 (5350)، الفرائض 17 (6748)، سنن ابی داود/الطلاق 27 (2258)، (تحفة الأشراف: 7058)، مسند احمد (2/12)، سنن الدارمی/النکاح 39 (2275) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس سے کہا جائے گا کہ چار گواہ لاؤ، چار گواہ نہ پیش کر سکو تو کوڑے کھاؤ۔ ۲؎: لعان کرنے والوں کے مابین جدائی کے سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ لعان کے بعد دونوں کے مابین جدائی ہو جائے گی، حاکم کے فیصلہ کی ضرورت نہیں، تفصیل کے لیے دیکھئیے زادالمعاد (۵/۳۸۸)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 3505
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا زياد بن ايوب، قال: حدثنا ابن علية، عن ايوب، عن سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عمر: رجل قذف امراته، قال: فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اخوي بني العجلان، وقال:" الله يعلم إن احدكما كاذب، فهل منكما تائب؟ قال لهما ثلاثا: فابيا، ففرق بينهما"، قال ايوب: وقال عمرو بن دينار: إن في هذا الحديث شيئا لا اراك تحدث به، قال: قال الرجل: مالي، قال: لا مال لك، إن كنت صادقا فقد دخلت بها، وإن كنت كاذبا فهي ابعد منك".
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ:" اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ قَالَ لَهُمَا ثَلَاثًا: فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا"، قَالَ أَيُّوبُ: وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: إِنَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ شَيْئًا لَا أَرَاكَ تُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ: مَالِي، قَالَ: لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهِيَ أَبْعَدُ مِنْكَ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: کسی نے اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگایا (تو کیا کرے)؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے ایک مرد اور عورت کے مابین تفریق کر دی تھی۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کا ارادہ رکھتا ہے، آپ نے یہ بات ان دونوں سے تین بار کہی پھر بھی ان دونوں نے (توبہ کرنے سے) انکار کیا تو آپ نے ان دونوں کے مابین جدائی کر دی۔ (ایوب کہتے ہیں: عمرو بن دینار نے کہا: اس حدیث میں ایک ایسی بات ہے، میں نہیں سمجھتا کہ تم اسے بیان کرو گے؟ کہتے ہیں: اس شخص نے کہا: میرے مال کا کیا ہو گا (ملے گا یا نہیں)؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ تو اپنی بات میں سچا ہو پھر بھی تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا کیونکہ تو اس کے ساتھ دخول کر چکا ہے اور اگر اپنی بات میں تو جھوٹا ہے تو تیری جانب مال کا واپس ہونا بعید ترشئی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 32 (5311)، 33 (5312)، 53 (5349)، صحیح مسلم/اللعان 1 (1493) مختصراً، سنن ابی داود/الصلاة 27 (2258)، (تحفة الأشراف: 7050)، مسند احمد (1/75، 2/4، 37) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ اس عورت سے فائدہ اٹھایا، اس پر تہمت لگائی اور پھر مال کی حرص بھی رکھتا ہے، اس لیے تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3506
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، قال: سمعت سعيد بن جبير , يقول: سالت ابن عمر عن المتلاعنين، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للمتلاعنين:" حسابكما على الله احدكما كاذب، ولا سبيل لك عليها"، قال: يا رسول الله، مالي، قال:" لا مال لك، إن كنت صدقت عليها، فهو بما استحللت من فرجها، وإن كنت كذبت عليها، فذاك ابعد لك".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ , يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ:" حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، وَلَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي، قَالَ:" لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں سے کہا: تمہارا حساب تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تم میں سے کوئی ایک ضرور جھوٹا ہے، (مرد سے کہا:) تمہارا اب اس (عورت) پر کچھ حق و اختیار نہیں ہے ۱؎، مرد نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں ہے۔ اگر تم نے اس پر صحیح تہمت لگائی ہے تو تم نے اب تک اس کی شرمگاہ سے حلت کا جو فائدہ حاصل کیا ہے وہ مال اس کا بدل ہو گیا اور اگر تم نے اس عورت پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو یہ تو تمہارے لیے اور بھی غیر مناسب ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 33 (5312)، 53 (5350)، صحیح مسلم/اللعان 1 (1493)، سنن ابی داود/الطلاق 27 (2257)، (تحفة الأشراف: 7051)، مسند احمد 2/11) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ لعان کے بعد دونوں میں جدائی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہو جائے گی، حدیث رسول اور اقوال صحابہ سے یہی ثابت ہے۔ ۲؎: یعنی تو نے اس کی شرمگاہ کو حلال بھی کیا، اس پر جھوٹا الزام بھی لگایا اور اس سے اپنا مال بھی لینے وپانے کا متمنی ہے یہ تو اور بھی غیر ممکن ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3507
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" لاعن رسول الله صلى الله عليه وسلم بين رجل وامراته، وفرق بينهما، والحق الولد بالام".
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" لَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَتِهِ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْأُمِّ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کا حکم دیا اور ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی اور بچے کو ماں کی سپردگی میں دے دیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 35 (5315)، الفرائض 17 (6748)، صحیح مسلم/اللعان 1 (1494)، سنن ابی داود/الطلاق 27 (2259)، سنن الترمذی/الطلاق 22 (1203)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 27 (2069)، (تحفة الأشراف: 8322)، موطا امام مالک/الطلاق 13 (35)، مسند احمد (2/7، 38، 64، 71)، سنن الدارمی/النکاح 39 (2278) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.