الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
43. بَابُ كَيْفَ يُبَايِعُ الإِمَامُ النَّاسَ:
43. باب: امام لوگوں سے کن باتوں پر بیعت لے؟
(43) Chapter. How do the people give the Baia (pledge) to the Imam (ruler).
حدیث نمبر: 7207
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن محمد بن اسماء، حدثنا جويرية، عن مالك، عن الزهري، ان حميد بن عبد الرحمن اخبره، ان المسور بن مخرمة اخبره، ان الرهط الذين ولاهم عمر اجتمعوا، فتشاوروا، فقال لهم عبد الرحمن: لست بالذي انافسكم على هذا الامر، ولكنكم إن شئتم اخترت لكم منكم، فجعلوا ذلك إلى عبد الرحمن، فلما ولوا عبد الرحمن امرهم، فمال الناس على عبد الرحمن حتى ما ارى احدا من الناس يتبع اولئك الرهط ولا يطا عقبه، ومال الناس على عبد الرحمن يشاورونه تلك الليالي حتى إذا كانت الليلة التي اصبحنا منها فبايعنا عثمان، قال المسور: طرقني عبد الرحمن بعد هجع من الليل، فضرب الباب حتى استيقظت، فقال: اراك نائما فوالله ما اكتحلت هذه الليلة بكبير نوم، انطلق فادع الزبير، وسعدا، فدعوتهما له فشاورهما ثم دعاني، فقال: ادع لي عليا، فدعوته، فناجاه حتى ابهار الليل، ثم قام علي من عنده وهو على طمع، وقد كان عبد الرحمن يخشى من علي شيئا، ثم قال: ادع لي عثمان، فدعوته، فناجاه حتى فرق بينهما المؤذن بالصبح، فلما صلى للناس الصبح، واجتمع اولئك الرهط عند المنبر، فارسل إلى من كان حاضرا من المهاجرين والانصار وارسل إلى امراء الاجناد، وكانوا وافوا تلك الحجة مع عمر، فلما اجتمعوا، تشهد عبد الرحمن، ثم قال:" اما بعد يا علي، إني قد نظرت في امر الناس فلم ارهم يعدلون بعثمان فلا تجعلن على نفسك سبيلا، فقال: ابايعك على سنة الله ورسوله والخليفتين من بعده"، فبايعه عبد الرحمن وبايعه الناس المهاجرون، والانصار وامراء الاجناد، والمسلمون.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الرَّهْطَ الَّذِينَ وَلَّاهُمْ عُمَرُ اجْتَمَعُوا، فَتَشَاوَرُوا، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: لَسْتُ بِالَّذِي أُنَافِسُكُمْ عَلَى هَذَا الْأَمْرِ، وَلَكِنَّكُمْ إِنْ شِئْتُمُ اخْتَرْتُ لَكُمْ مِنْكُمْ، فَجَعَلُوا ذَلِكَ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَلَمَّا وَلَّوْا عَبْدَ الرَّحْمَنِ أَمْرَهُمْ، فَمَالَ النَّاسُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَتَّى مَا أَرَى أَحَدًا مِنَ النَّاسِ يَتْبَعُ أُولَئِكَ الرَّهْطَ وَلَا يَطَأُ عَقِبَهُ، وَمَالَ النَّاسُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُشَاوِرُونَهُ تِلْكَ اللَّيَالِي حَتَّى إِذَا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَصْبَحْنَا مِنْهَا فَبَايَعْنَا عُثْمَانَ، قَالَ الْمِسْوَرُ: طَرَقَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بَعْدَ هَجْعٍ مِنَ اللَّيْلِ، فَضَرَبَ الْبَابَ حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ، فَقَالَ: أَرَاكَ نَائِمًا فَوَاللَّهِ مَا اكْتَحَلْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ بِكَبِيرِ نَوْمٍ، انْطَلِقْ فَادْعُ الزُّبَيْرَ، وَسَعْدًا، فَدَعَوْتُهُمَا لَهُ فَشَاوَرَهُمَا ثُمَّ دَعَانِي، فَقَالَ: ادْعُ لِي عَلِيًّا، فَدَعَوْتُهُ، فَنَاجَاهُ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ مِنْ عِنْدِهِ وَهُوَ عَلَى طَمَعٍ، وَقَدْ كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَخْشَى مِنْ عَلِيٍّ شَيْئًا، ثُمّ قَالَ: ادْعُ لِي عُثْمَانَ، فَدَعَوْتُهُ، فَنَاجَاهُ حَتَّى فَرَّقَ بَيْنَهُمَا الْمُؤَذِّنُ بِالصُّبْحِ، فَلَمَّا صَلَّى لِلنَّاسِ الصُّبْحَ، وَاجْتَمَعَ أُولَئِكَ الرَّهْطُ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، فَأَرْسَلَ إِلَى مَنْ كَانَ حَاضِرًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَأَرْسل إِلَى أُمَرَاءِ الْأَجْنَادِ، وَكَانُوا وَافَوْا تِلْكَ الْحَجَّةَ مَعَ عُمَرَ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا، تَشَهَّدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثُمّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ يَا عَلِيُّ، إِنِّي قَدْ نَظَرْتُ فِي أَمْرِ النَّاسِ فَلَمْ أَرَهُمْ يَعْدِلُونَ بِعُثْمَانَ فَلَا تَجْعَلَنَّ عَلَى نَفْسِكَ سَبِيلًا، فَقَالَ: أُبَايِعُكَ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْخَلِيفَتَيْنِ مِنْ بَعْدِهِ"، فَبَايَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَبَايَعَهُ النَّاسُ الْمُهَاجِرُونَ، وَالْأَنْصَارُ وَأُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ، وَالْمُسْلِمُونَ.
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں مسور بن مخرمہ نے خبر دی کہ وہ چھ آدمی جن کو عمر رضی اللہ عنہ خلافت کے لیے نامزد کر گئے تھے (یعنی علی ‘ عثمان ‘ زبیر ‘ طلحہ اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم کہ ان میں سے کسی ایک کو اتفاق سے خلیفہ بنا لیا جائے) یہ سب جمع ہوئے اور مشورہ کیا۔ ان سے عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا خلیفہ ہونے کے لیے میں آپ لوگوں سے کوئی مقابلہ نہیں کروں گا۔ البتہ اگر آپ لوگ چاہیں تو آپ لوگوں کے لیے کوئی خلیفہ آپ ہی میں سے میں چن دوں۔ چنانچہ سب نے مل کر اس کا اختیار عبدالرحمٰن بن عوف کو دے دیا۔ جب ان لوگوں نے انتخاب کی ذمہ داری عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی تو سب لوگ ان کی طرف جھک گئے۔ جتنے لوگ بھی اس جماعت کے پیچھے چل رہے تھے، ان میں اب میں نے کسی کو بھی ایسا نہ دیکھا جو عبدالرحمٰن کے پیچھے نہ چل رہا ہو۔ سب لوگ ان ہی کی طرف مائل ہو گئے اور ان دنوں میں ان سے مشورہ کرتے رہے جب وہ رات آئی جس کی صبح کو ہم نے عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔ مسور رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ رات گئے میرے یہاں آئے اور دروازہ کھٹکٹھایا یہاں تک کہ میں بیدار ہو گیا۔ انہوں نے کہا میرا خیال ہے آپ سو رہے تھے، اللہ کی قسم میں ان راتوں میں بہت کم سو سکا ہوں۔ جائیے! زبیر اور سعد کو بلائیے۔ میں ان دونوں بزرگوں کو بلا لایا اور انہوں نے ان سے مشورہ کیا، پھر مجھے بلایا اور کہا کہ میرے لیے علی رضی اللہ عنہ کو بھی بلا دیجئیے۔ میں نے انہیں بھی بلایا اور انہوں نے ان سے بھی سر گوشی کی۔ یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ پھر علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس کھڑے ہو گئے اور ان کو اپنے ہی لیے امید تھی۔ عبدالرحمٰن کے دل میں بھی ان کی طرف سے یہی ڈر تھا، پھر انہوں نے کہا کہ میرے لیے عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی بلا لائیے۔ میں نے انہیں بھی بلا لایا اور انہوں نے ان سے بھی سرگوشی کی۔ آخر صبح کے مؤذن نے ان کے درمیان جدائی کی۔ جب لوگوں نے صبح کی نماز پڑھ لی اور یہ سب لوگ منبر کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے موجود مہاجرین، انصار اور لشکروں کے قائدین کو بلایا۔ ان لوگوں نے اس سال حج عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا پھر کہا امابعد! اے علی! میں نے لوگوں کے خیالات معلوم کئے اور میں نے دیکھا کہ وہ عثمان کو مقدم سمجھتے ہیں اور ان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے، اس لیے آپ اپنے دل میں کوئی میل پیدا نہ کریں۔ پھر کہا میں آپ (عثمان رضی اللہ عنہ) سے اللہ کے دین اور اس کے رسول کی سنت اور آپ کے دو خلفاء کے طریق کے مطابق بیعت کرتا ہوں۔ چنانچہ پہلے ان سے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیعت کی، پھر سب لوگوں نے اور مہاجرین، انصار اور فوجیوں کے سرداروں اور تمام مسلمانوں نے بیعت کی۔

Narrated Al-Miswar bin Makhrama: The group of people whom `Umar had selected as candidates for the Caliphate gathered and consulted each other. `Abdur-Rahman said to them, "I am not going to compete with you in this matter, but if you wish, I would select for you a caliph from among you." So all of them agreed to let `Abdur-Rahman decide the case. So when the candidates placed the case in the hands of `Abdur-Rahman, the people went towards him and nobody followed the rest of the group nor obeyed any after him. So the people followed `Abdur-Rahman and consulted him all those nights till there came the night we gave the oath of allegiance to `Uthman. Al-Miswar (bin Makhrama) added: `Abdur-Rahman called on me after a portion of the night had passed and knocked on my door till I got up, and he said to me, "I see you have been sleeping! By Allah, during the last three nights I have not slept enough. Go and call Az-Zubair and Sa`d.' So I called them for him and he consulted them and then called me saying, 'Call `Ali for me." I called `Ali and he held a private talk with him till very late at night, and then 'Al, got up to leave having had much hope (to be chosen as a Caliph) but `Abdur-Rahman was afraid of something concerning `Ali. `Abdur-Rahman then said to me, "Call `Uthman for me." I called him and he kept on speaking to him privately till the Mu'adh-dhin put an end to their talk by announcing the Adhan for the Fajr prayer. When the people finished their morning prayer and that (six men) group gathered near the pulpit, `Abdur-Rahman sent for all the Muhajirin (emigrants) and the Ansar present there and sent for the army chief who had performed the Hajj with `Umar that year. When all of them had gathered, `Abdur- Rahman said, "None has the right to be worshipped but Allah," and added, "Now then, O `Ali, I have looked at the people's tendencies and noticed that they do not consider anybody equal to `Uthman, so you should not incur blame (by disagreeing)." Then `Abdur-Rahman said (to `Uthman), "I gave the oath of allegiance to you on condition that you will follow Allah's Laws and the traditions of Allah's Apostle and the traditions of the two Caliphs after him." So `Abdur-Rahman gave the oath of allegiance to him, and so did the people including the Muhajirin (emigrants) and the Ansar and the chiefs of the army staff and all the Muslims.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 314

حدیث نمبر: 1392
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قتيبة، حدثنا جرير بن عبد الحميد، حدثنا حصين بن عبد الرحمن، عن عمرو بن ميمون الاودي , قال: رايت عمر بن الخطاب رضي الله عنه , قال: يا عبد الله بن عمر اذهب إلى ام المؤمنين عائشة رضي الله عنها , فقل: يقرا عمر بن الخطاب عليك السلام، ثم سلها ان ادفن مع صاحبي، قالت: كنت اريده لنفسي فلاوثرنه اليوم على نفسي، فلما اقبل , قال له: ما لديك؟ , قال: اذنت لك يا امير المؤمنين، قال: ما كان شيء اهم إلي من ذلك المضجع، فإذا قبضت فاحملوني، ثم سلموا، ثم قل: يستاذن عمر بن الخطاب، فإن اذنت لي فادفنوني، وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين، إني لا اعلم احدا احق بهذا الامر من هؤلاء النفر الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فمن استخلفوا بعدي فهو الخليفة فاسمعوا له واطيعوا، فسمى عثمان، وعليا، وطلحة , والزبير، وعبد الرحمن بن عوف، وسعد بن ابي وقاص، وولج عليه شاب من الانصار , فقال: ابشر يا امير المؤمنين ببشرى الله كان لك من القدم في الإسلام ما قد علمت، ثم استخلفت فعدلت، ثم الشهادة بعد هذا كله، فقال: ليتني يا ابن اخي، وذلك كفافا لا علي ولا لي اوصي الخليفة من بعدي بالمهاجرين الاولين خيرا ان يعرف لهم حقهم وان يحفظ لهم حرمتهم، واوصيه بالانصار خيرا الذين تبوءوا الدار والإيمان ان يقبل من محسنهم ويعفى عن مسيئهم، واوصيه بذمة الله وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم ان يوفى لهم بعهدهم، وان يقاتل من ورائهم وان لا يكلفوا فوق طاقتهم".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ , قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , فَقُلْ: يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ، ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ، قَالَتْ: كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي، فَلَمَّا أَقْبَلَ , قَالَ لَهُ: مَا لَدَيْكَ؟ , قَالَ: أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ، فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي، ثُمَّ سَلِّمُوا، ثُمَّ قُلْ: يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي، وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَمَنِ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، فَسَمَّى عُثْمَانَ، وَعَلِيًّا، وَطَلْحَةَ , وَالزُّبَيْرَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ , فَقَالَ: أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ كَانَ لَكَ مِنَ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ، ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ، ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ، فَقَالَ: لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي، وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ، وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ، وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہو جائے تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کر دینا ‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ میں اس امر خلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں ‘ خلیفہ وہی ہو گا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر عثمان ‘ علی ‘ طلحہ ‘ زبیر ‘ عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو ‘ اللہ عزوجل کی طرف سے ‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاو رکھے ‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاو رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میں جگہ دی۔ (میری وصیت ہے کہ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے (یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کر لڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔

Narrated `Amr bin Maimun Al-Audi: I saw `Umar bin Al-Khattab (when he was stabbed) saying, "O `Abdullah bin `Umar! Go to the mother of the believers Aisha and say, `Umar bin Al-Khattab sends his greetings to you,' and request her to allow me to be buried with my companions." (So, Ibn `Umar conveyed the message to `Aisha.) She said, "I had the idea of having this place for myself but today I prefer him (`Umar) to myself (and allow him to be buried there)." When `Abdullah bin `Umar returned, `Umar asked him, "What (news) do you have?" He replied, "O chief of the believers! She has allowed you (to be buried there)." On that `Umar said, "Nothing was more important to me than to be buried in that (sacred) place. So, when I expire, carry me there and pay my greetings to her (`Aisha ) and say, `Umar bin Al-Khattab asks permission; and if she gives permission, then bury me (there) and if she does not, then take me to the graveyard of the Muslims. I do not think any person has more right for the caliphate than those with whom Allah's Apostle (p.b.u.h) was always pleased till his death. And whoever is chosen by the people after me will be the caliph, and you people must listen to him and obey him," and then he mentioned the name of `Uthman, `Ali, Talha, Az-Zubair, `Abdur-Rahman bin `Auf and Sa`d bin Abi Waqqas. By this time a young man from Ansar came and said, "O chief of the believers! Be happy with Allah's glad tidings. The grade which you have in Islam is known to you, then you became the caliph and you ruled with justice and then you have been awarded martyrdom after all this." `Umar replied, "O son of my brother! Would that all that privileges will counterbalance (my short comings), so that I neither lose nor gain anything. I recommend my successor to be good to the early emigrants and realize their rights and to protect their honor and sacred things. And I also recommend him to be good to the Ansar who before them, had homes (in Medina) and had adopted the Faith. He should accept the good of the righteous among them and should excuse their wrongdoers. I recommend him to abide by the rules and regulations concerning the Dhimmis (protectees) of Allah and His Apostle, to fulfill their contracts completely and fight for them and not to tax (overburden) them beyond their capabilities."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 475


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.