ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلام کو عام کرو اور اسے پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور کافروں کا سر مارو (یعنی ان سے جہاد کرو) جنت کے وارث بن جاؤ گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطہ سے ابن زیاد کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر، انس، عبداللہ بن سلام، عبدالرحمٰن بن عائش اور شریح بن ہانی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، شریح بن ہانی نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1854]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14402) (ضعیف) (سند میں عثمان بن عبد الرحمن جمعی ضعیف راوی ہیں، لیکن ”افشوا السلام وأطعموا الطعام“ کا ٹکڑا دیگر صحابہ سے صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (3 / 238) // 777 //، الضعيفة (1324) // ضعيف الجامع الصغير (995) //
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحمن کی عبادت کرو، کھانا کھلاؤ اور سلام کو عام کرو اور اسے پھیلاؤ، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1855]
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کا کھانا کھاؤ گر چہ ایک مٹھی ردی کھجور ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ رات کا کھانا چھوڑنا بڑھاپے کا سبب ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث منکر ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، عنبسہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں اور عبدالملک بن علاق مجہول ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1856]
عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ کے پاس کھانا رکھا تھا، آپ نے فرمایا: ”بیٹے! قریب ہو جاؤ، بسم اللہ پڑھو اور اپنے داہنے ہاتھ سے جو تمہارے قریب ہے اسے کھاؤ“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ سے «عن أبي وجزة السعدي عن رجل من مزينة عن عمر ابن أبي سلمة» کی سند سے مروی ہے، اس حدیث کی روایت کرنے میں ہشام بن عروہ کے شاگردوں کا اختلاف ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1857]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة 7 (3267)، (تحفة الأشراف: 10685)، (وراجع: صحیح البخاری/الأطعمة 2 (5376)، وصحیح مسلم/الأشربة والأطعمة 13 (2022)، و سنن ابی داود/ الأطعمة 20 (3777)، و موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ 10 (32)، وسنن الدارمی/الأطعمة 1 (2062) (صحیح) (”ادْنُ“ کا لفظ صحیح نہیں ہے، تراجع الالبانی 350)»
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم لوگوں میں سے کوئی کھانا کھائے تو «بسم اللہ» پڑھ لے، اگر شروع میں بھول جائے تو یہ کہے «بسم الله في أوله وآخره» ۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1858]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الأطعمة 16 (3767)، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 103 (281)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 7 (3264)، والمؤلف في الشمائل25 (تحفة الأشراف: 17988)، و مسند احمد (6/143)، سنن الدارمی/الأطعمة 1 (2063) (صحیح)»
اسی سند سے عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھ صحابہ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے، اچانک ایک اعرابی آیا اور دو لقمہ میں پورا کھانا کھا لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس نے «بسم اللہ» پڑھ لی ہوتی تو یہ کھانا تم سب کے لیے کافی ہوتا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1858M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (صحیح)»
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان بہت تاڑنے اور چاٹنے والا ہے، اس سے خود کو بچاؤ، جو شخص رات گزارے اور اس کے ہاتھ میں چکنائی کی بو ہو، پھر اسے کوئی بلا پہنچے تو وہ صرف اپنے آپ کو برا بھلا کہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث «سهيل ابن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1859]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 13034) (موضوع) (سند میں یعقوب بن ولید مدنی کذاب راوی ہے، لیکن اس آخری ٹکڑا اگلی حدیث سے صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (5533) ، الروض النضير (2 / 225) // ضعيف الجامع الصغير (1476) //
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات گزارے اور اس کے ہاتھ میں چکنائی کی بو ہو پھر اسے کوئی بلا پہنچے تو وہ صرف اپنے آپ کو برا بھلا کہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اعمش کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1860]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الأطعمة 54 (3852)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 22 (3296)، (تحفة الأشراف: 12464)، و مسند احمد (2/344)، سنن الدارمی/الأطعمة 27 (2107) (صحیح)»