الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ
كتاب الاستئذان
481. بَابُ‏:‏ كَيْفَ نَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ‏؟‏
481. پردے کی آیت کیسے نازل ہوئی؟
حدیث نمبر: 1051
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي أَنَسٌ، أَنَّهُ كَانَ ابْنَ عَشْرِ سِنِينَ مَقْدَمَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَكُنَّ أُمَّهَاتِي يُوَطِّوَنَّنِي عَلَى خِدْمَتِهِ، فَخَدَمْتُهُ عَشْرَ سِنِينَ، وَتُوُفِّيَ وَأَنَا ابْنُ عِشْرِينَ، فَكُنْتُ أَعْلَمَ النَّاسِ بِشَأْنِ الْحِجَابِ، فَكَانَ أَوَّلُ مَا نَزَلَ مَا ابْتَنَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، أَصْبَحَ بِهَا عَرُوسًا، فَدَعَى الْقَوْمَ فَأَصَابُوا مِنَ الطَّعَامِ، ثُمَّ خَرَجُوا، وَبَقِيَ رَهْطٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطَالُوا الْمُكْثَ، فَقَامَ فَخَرَجَ وَخَرَجْتُ لِكَيْ يَخْرُجُوا، فَمَشَى فَمَشَيْتُ مَعَهُ، حَتَّى جَاءَ عَتَبَةَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، ثُمَّ ظَنَّ أَنَّهُمْ خَرَجُوا، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ، فَإِذَا هُمْ جُلُوسٌ، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ حَتَّى بَلَغَ عَتَبَةَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، وَظَنَّ أَنَّهُمْ خَرَجُوا، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ، فَإِذَا هُمْ قَدْ خَرَجُوا، فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ السِّتْرَ، وَأَنْزَلَ الْحِجَابَ‏.‏
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ آمد کے وقت وہ دس سال کے تھے۔ میری مائیں (والدہ اور خالہ) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پر آمادہ کرتیں، چنانچہ میں نے دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو میری عمر بیس سال تھی، اس لیے میں حجاب کے مسئلے کو خوب اور سب سے بڑھ کر جانتا ہوں۔ پردے کا حکم سب سے پہلے اس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور انہیں دلہن بنا کر گھر لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کھانے پر بلایا تو وہ کھانا کھا کر چلے گئے اور چند لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے۔ وہ دیر تک بیٹھے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر باہر چلے گئے اور میں بھی باہر نکل گیا تاکہ وہ چلے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتا گیا۔ یہاں تک کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی چوکھٹ پر پہنچے، پھر خیال کیا کہ وہ لوگ چلے گئے ہوں گے تو واپس آگئے، اور میں بھی واپس آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو ابھی تک وہ لوگ بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر واپس ہو گئے تو میں بھی واپس آگیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی چوکھٹ پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگایا کہ وہ چلے گئے ہوں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آگئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس آگیا۔ اب وہ لوگ جا چکے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا دیا اور پردے کا حکم نازل ہوگیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1051]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5166»

قال الشيخ الألباني: صحيح

482. بَابُ الْعَوْرَاتِ الثَّلاثِ
482. تین پردوں (کے اوقات)
حدیث نمبر: 1052
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ الْقُرَظِيِّ، أَنَّهُ رَكِبَ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ سُوَيْدٍ - أَخِي بَنِي حَارِثَةَ بْنِ الْحَارِثِ - يَسْأَلُهُ عَنِ الْعَوْرَاتِ الثَّلاَثِ، وَكَانَ يَعْمَلُ بِهِنَّ، فَقَالَ‏:‏ مَا تُرِيدُ‏؟‏ فَقُلْتُ‏:‏ أُرِيدُ أَنْ أَعْمَلَ بِهِنَّ، فَقَالَ‏:‏ إِذَا وَضَعْتُ ثِيَابِي مِنَ الظَّهِيرَةِ لَمْ يَدْخُلْ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِي بَلَغَ الْحُلُمَ إِلاَّ بِإِذْنِي، إِلاَّ أَنْ أَدْعُوَهُ، فَذَلِكَ إِذْنُهُ‏.‏ وَلاَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ وَتَحَرَّكَ النَّاسُ حَتَّى تُصَلَّى الصَّلاَةُ‏.‏ وَلاَ إِذَا صَلَّيْتُ الْعِشَاءَ وَوَضَعْتُ ثِيَابِي حَتَّى أَنَامَ‏.‏
حضرت ثعلبہ بن ابومالک قرظی سے روایت ہے کہ وہ سوار ہو کر بنوحارثہ کے بھائی عبداللہ بن سوید کے پاس ان سے العورات ثلاث کے بارے میں پوچھنے کے لیے گئے اور حضرت عبداللہ ان پر عمل کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا: آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا: میں ان پر عمل کرنا چاہتا ہوں، حضرت عبداللہ نے فرمایا: جب میں ظہر کے وقت اپنے کپڑے اتارتا ہوں تو میرے گھر والوں میں سے کوئی بالغ فرد میری اجازت کے بغیر میرے پاس نہیں آتا، مگر یہ کہ میں اسے خود بلاؤں، تو یہ اسے اجازت ہوتی ہے۔ اور نہ ہی اس وقت جب فجر طلوع ہو جائے، اور لوگوں کی نقل و حرکت شروع ہو جائے، یہاں تک کہ نماز ادا ہو جائے، اور نہ ہی اس وقت جب میں عشاء کی نماز پڑھ لوں، اور اپنے کپڑے اتار لوں، یہاں تک کہ میں سو جاؤں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1052]
تخریج الحدیث: «صحيح: تفرد به المصنف»

قال الشيخ الألباني: صحيح

483. بَابُ أَكْلِ الرَّجُلِ مَعَ امْرَأَتِهِ
483. اپنی بیوی کے ساتھ کھانا
حدیث نمبر: 1053
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ‏:‏ كُنْتُ آكُلُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْسًا، فَمَرَّ عُمَرُ، فَدَعَاهُ فَأَكَلَ، فَأَصَابَتْ يَدُهُ إِصْبَعِي، فَقَالَ‏:‏ حَسِّ، لَوْ أُطَاعُ فَيَكُنَّ مَا رَأَتْكُنَّ عَيْنٌ‏.‏ فَنَزَلَ الْحِجَابُ‏.‏
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھجور کا حلوہ کھا رہی تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا تو وہ بھی کھانے لگے۔ اس دوران ان کا ہاتھ میری انگلی سے مس ہوا تو انہوں نے فرمایا: اوہ، اگر تمہارے بارے میں میری رائے مانی جاتی تو تمہیں کوئی آنکھ بھی نہ دیکھتی۔ اس پر پردے کا حکم نازل ہوا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1053]
تخریج الحدیث: «صحيح: السنن الكبرى للنسائي: 435/6، ح: 1419 و الطبراني فى الأوسط: 2947 - انظر الصحيحة: 3148»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1054
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ رَافِعِ بْنِ مَكِيثٍ الْجُهَنِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ سَرْجٍ مَوْلَى أُمِّ صَبِيَّةَ بِنْتِ قَيْسٍ وَهِيَ خَوْلَةُ، وَهِيَ جَدَّةُ خَارِجَةَ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ سَمِعَهَا تَقُولُ‏:‏ اخْتَلَفَتْ يَدِي وَيَدُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ‏.‏
سیدہ ام صبیہ بنت قیس رضی اللہ عنہا جن کا نام خولہ تھا، فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک برتن میں اکٹھا کھایا یا پانی استعمال کیا ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1054]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الطهارة، باب الوضوء بفضل المرأة: 78 و ابن ماجه: 382 و أحمد: 366/6»

قال الشيخ الألباني: صحيح

484. بَابُ إِذَا دَخَلَ بَيْتًا غَيْرَ مَسْكُونٍ
484. بے آباد گھر میں داخل ہونا
حدیث نمبر: 1055
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مَعْنٌ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ‏:‏ إِذَا دَخَلَ الْبَيْتَ غَيْرَ الْمَسْكُونِ فَلْيَقُلِ‏:‏ السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ‏.‏
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب کوئی بے آباد گھر میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کہے: السلام علينا ...... سلام ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1055]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن أبى شيبة: 25835»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 1056
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ‏:‏ ﴿لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا‏﴾ [النور: 27]، وَاسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ‏: ﴿‏لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ‏﴾ [النور: 29]‏.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ﴿لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا‏﴾ اپنے گھر کے سوا کسی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو، اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ اس آیت سے یہ حکم مستثنیٰ ہے جو درج ذیل آیت میں ہے: ﴿‏لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ‏﴾ تم پر کوئی گناه نہیں کہ اگر تم ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جن میں کوئی نہیں رہتا اور اس گھر میں تمہارا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1056]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الطبراني فى تفسيره: 147/19»

قال الشيخ الألباني: صحيح

485. بَابُ‏ ﴿لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ‏﴾ [النور: 58]
485. غلاموں کو اندر آنے کی اجازت لینی چاہیے
حدیث نمبر: 1057
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ‏: ﴿‏لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ‏﴾ [النور: 58]، قَالَ‏:‏ هِيَ لِلرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ‏.‏
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ارشادِ باری تعالیٰ: غلاموں کو چاہیے کہ اندر آنے کے لیے اجازت لیں۔ یہ حکم مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے نہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1057]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا: ورواه ابن جرير فى التفسير: 147/18 عن إبن عمر»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوفًا

486. بَابُ قَوْلِ اللهِ‏:‏ ﴿‏وَإِذَا بَلَغَ الأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ‏﴾ [النور: 59]
486. ارشادِ باری تعالیٰ: ”اور جب بچے بالغ ہو جائیں تو ......“ کا بیان
حدیث نمبر: 1058
حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا بَلَغَ بَعْضُ وَلَدِهِ الْحُلُمَ عَزَلَهُ، فَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيْهِ إِلا بِإِذْنٍ‏.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب ان کا کوئی بچہ بلوغت کو پہنچ جاتا تو اس کو الگ کر دیتے، اور وہ اجازت کے بغیر اندر داخل نہیں ہوتا تھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1058]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسدد كما فى إتحاف الخيرة المهرة: 5300»

قال الشيخ الألباني: صحيح

487. بَابُ يَسْتَأْذِنُ عَلَى أُمِّهِ
487. ماں سے اجازت مانگنے کا بیان
حدیث نمبر: 1059
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ‏:‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللهِ قَالَ‏:‏ أَسْتَأْذِنُ عَلَى أُمِّي‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ مَا عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهَا تُحِبُّ أَنْ تَرَاهَا‏.‏
حضرت علقمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: کیا میں اپنی ماں سے بھی اجازت لے کر اس کے گھر جاؤں؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ہر وقت (اور ہر حال میں) اسے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1059]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 17603 و الطبراني فى ”مسند الشاميين“: 1822، من طريق هزيل بن شرجيل»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1060
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ مُسْلِمَ بْنَ نَذِيرٍ يَقُولُ‏:‏ سَأَلَ رَجُلٌ حُذَيْفَةَ فَقَالَ‏:‏ أَسْتَأْذِنُ عَلَى أُمِّي‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ إِنْ لَمْ تَسْتَأْذِنْ عَلَيْهَا رَأَيْتَ مَا تَكْرَهُ‏.‏
مسلم بن نذیر رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا میں اپنی والدہ کے پاس جانے کی بھی اجازت طلب کروں؟ انہوں نے فرمایا: اگر تم اس کے پاس جانے کی اجازت نہیں لو گے تو تم اس کو اس حالت میں دیکھو گے جس حالت میں اسے دیکھنا نا پسند کرتے ہو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الاسْتِئْذَانُ/حدیث: 1060]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه عبدالرزاق: 19421 و البيهقي فى الكبرىٰ: 97/7»

قال الشيخ الألباني: حسن


1    2    3    4    5    Next