الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
حدیث نمبر: 139
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏الفجر فجران: فجر يحرم الطعام وتحل فيه الصلاة وفجر تحرم فيه الصلاة أي صلاة الصبح ويحل فيه الطعام» .‏‏‏‏ رواه ابن خزيمة والحاكم وصححاه. وللحاكم من حديث جابر نحوه وزاد في الذي يحرم الطعام: «‏‏‏‏أنه يذهب مستطيلا في الأفق» .‏‏‏‏ وفي الآخر: «‏‏‏‏إنه كذنب السرحان» .‏‏‏‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فجر کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ فجر جس میں کھانا حرام ہے اور نماز ادا کرنا جائز و حلال اور ایک وہ فجر ہے جس میں نماز پڑھنا حرام ہے اور کھانا جائز و حلال ہے۔
اسے ابن خزیمہ اور حاکم نے روایت کیا ہے اور دونوں نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اور مستدرک حاکم میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ جس صبح میں کھانا حرام ہے وہ آسمان کے کناروں اور اطراف میں پھیل جاتی ہے اور دوسری بھیڑیئے کی دم کی طرح اونچی چلی جاتی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 139]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن خزيمة:1 /184 و3 /210، حديث:356، 1927، والحاكم:1 /191، 425 وصححاه، وللحديث شاهد عند الحاكم من حديث جابر رضي الله تعاليٰ عنه:1 /191، حديث:688 وسنده حسن.»

حدیث نمبر: 140
وعن ابن مسعود رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏أفضل الأعمال الصلاة في أول وقتها» .‏‏‏‏ رواه الترمذي والحاكم وصححاه وأصله في الصحيحين.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اول وقت میں نماز پڑھنا سب اعمال سے افضل ہے۔
اسے ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور دونوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی اصل بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 140]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل، حديث:173، والحاكم:1 /188، 189 واللفظ له وصححاه علي شرط الشيخين، وابن خزيمة، حديث:327، وابن حبان (الموارد)، حديث:28 وسنده صحيح* والبخاري، مواقيت الصلاة، حديث:527، ومسلم، الإيمان، حديث:85 بأصله.»

حدیث نمبر: 141
وعن أبي محذورة أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏أول الوقت رضوان الله وأوسطه رحمة الله وآخره عفو الله» .‏‏‏‏ أخرجه الدارقطني بسند ضعيف جدا. وللترمذي من حديث ابن عمر نحوه دون الأوسط وهو ضعيف أيضا.
سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اول وقت (میں نماز پڑھنا) رضائے الٰہی کا موجب ہے اور درمیانی وقت (میں ادائیگی نماز) رحمت الٰہی کا سبب ہے اور آخر وقت (میں ادا کرنا) اللہ تعالیٰ سے معافی کا موجب ہے۔
دارقطنی نے اسے نہایت ہی ضعیف سند سے روایت کیا ہے اور ترمذی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی اسی طرح ہے لیکن اس میں لفظ «وسط» مذکور نہیں اور وہ ضعیف بھی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 141]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدار قطني: 1 /250* إبراهيم بن زكريا ضعيف وحديثه منكر، وقال ابن عدي: "حدث بالبواطيل"، وحديث ابن عمر أخرجه الترمذي، حديث:172 وفيه يعقوب بن الوليد، كذبه أحمدوغيره.»

حدیث نمبر: 142
وعن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏لا صلاة بعد الفجر إلا سجدتين» أخرجه الخمسة إلا النسائي. وفي رواية عبد الرزاق: «‏‏‏‏لا صلاة بعد طلوع الفجر إلا ركعتي الفجر» .‏‏‏‏ ومثله للدارقطني عن ابن عمرو بن العاص رضي الله عنه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے فجر (کی فرض نماز) کے بعد صرف دو سنتوں کے علاوہ اور کوئی (نفل) نماز نہیں۔
اسے نسائی کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے۔ اور عبدالرزاق کی روایت میں ہے کہ طلوع فجر کے بعد صرف فجر کی دو رکعات ہیں اور دارقطنی میں ابن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 142]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، التطوع، باب من رخص فيهما إذا كانت الشمس مرتفعة، حديث:1278، والترمذي، الصلاة، حديث:419، وابن ماجه، السنة، حديث:235 مختصرًا، وأحمد:2 /104، وعبدالرزاق: 3 /53، حديث:4757، ابن الحصين: مجهول، وحديث ابن عمرو أخرجه الدار قطني: 1 /419 وسنده ضعيف.»

حدیث نمبر: 143
وعن أم سلمة رضي الله تعالى عنها قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم العصر. ثم دخل بيتي فصلى ركعتين. فسألته فقال: «‏‏‏‏شغلت عن ركعتين بعد الظهر فصليتهما الآن» ‏‏‏‏ فقلت: أفنقضيهما إذا فاتتا؟ قال: «‏‏‏‏لا» .‏‏‏‏ أخرجه أحمد. ولأبي داود عن عائشة رضي الله تعالى عنها بمعناه.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر پڑھ کر میرے حجرے میں تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ میں نے عرض کیا یہ دو رکعت کیسی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا ظہر کے فرائض کے بعد کی دو سنتیں پڑھ نہیں سکا تھا وہ اب میں نے پڑھی ہیں۔ میں نے پھر عرض کیا کہ اگر یہ دو سنتیں قضاء ہو جائیں تو کیا ہم بھی ان کی قضاء دیا کریں۔ فرمایا نہیں
اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ابوداؤد میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 143]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:6 /315 وفيه ذكوان أبو عمرو، فالسند صحيح، وحديث عائشة أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1273، والبخاري، السهو، حديث:1233، ومسلم، الصلاة، حديث:834.»

2. باب الأذان
2. اذان کا بیان
حدیث نمبر: 144
عن عبد الله بن زيد بن عبد ربه قال: طاف بي وأنا نائم رجل فقال: تقول: الله أكبر الله أكبر فذكر الأذان بتربيع التكبير بغير ترجيع والإقامة فرادى إلا قد قامت الصلاة قال: فلما أصبحت أتيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقال:«‏‏‏‏إنها لرؤيا حق» الحديث. أخرجه أحمد وأبو داود. وصححه الترمذي وابن خزيمة.وزاد أحمد في آخره،‏‏‏‏ قصة قول بلال في أذان الفجر: الصلاة خير من النوم. ولابن خزيمة عن أنس رضي الله عنه قال: من السنة إذا قال المؤذن في الفجر: حي على الفلاح قال: الصلاة خير من النوم.
سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خواب میں مجھے ایک آدمی ملا جس نے مجھے کہا کہ کہو «الله أكبر الله أكبر» پھر اس نے ساری اذان کہی، چار مرتبہ «الله أكبر» کہا۔ بغیر ترجیع کے اور اقامت میں صرف ایک ایک مرتبہ کہا، مگر «قد قامت الصلاة» کو دو مرتبہ کہا۔ صبح جب میں بیدار ہوا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (اور اپنا خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً یہ خواب سچا ہے۔
اس حدیث کو احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ احمد نے اس روایت کے آخر میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی فجر کی اذان میں «الصلاة خير من النوم» کا قصہ بھی مزید بیان کیا ہے اور ابن خزیمہ میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا سنت ہے کہ جب مؤذن صبح کی اذان میں «حي على الفلاح» کہے تو وہ کہے «الصلاة خير من النوم» ۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 144]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب كيف الأذان، حديث:499، وأحمد:4 /43، والترمذيٰ، الصلاة، حديث:189، وابن خزيمة: 1 /198، بالأسانيد، وحديث بلال أخرجه أحمد:4 /43 وهو حديث حسن، ابن إسحاق والزهري عنعنا، وللحديث شواهد صحيحة، وحديث أنس أخرجه ابن خزيمة:1 /202، حديث:386.»

حدیث نمبر: 145
وعن أبي محذورة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم علمه الأذان فذكر فيه الترجيع. أخرجه مسلم. ولكن ذكر التكبير في أوله مرتين فقط. ورواه الخمسة فذكروه مربعا.
سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان سکھائی۔ اس میں انہوں نے ترجیع کا ذکر کیا ہے۔ مسلم نے روایت کیا ہے لیکن اس میں پہلی دفعہ «الله أكبر» کو صرف دو مرتبہ کہنے کا ذکر ہے۔ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو پانچوں نے روایت کیا ہے اور انہوں نے «الله أكبر» کو پہلی دفعہ چار مرتبہ کہنے کا ذکر کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 145]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب صفة الأذان، حديث:379، وأبوداود، الصلاة، حديث:500، 505، والترمذي، الصلاة، حديث:191، والسنائي، الصلاة، حديث:630، وابن ماجه، الصلاة، حديث:708، وأحمد:3 /409.»

حدیث نمبر: 146
وعن أنس رضي الله عنه قال: أمر بلال: أن يشفع الأذان شفعا ويوتر الإقامة إلا الإقامة يعني: إلا قد قامت الصلاة. متفق عليه،‏‏‏‏ ولم يذكر مسلم الاستثناء. وللنسائي: أمر النبي صلى الله عليه وآله وسلم بلالا.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے کلمات دو، دو مرتبہ اور تکبیر «قد قامت الصلاة» کے علاوہ باقی جملہ کلمات کو ایک، ایک مرتبہ کہنے کا حکم دیا گیا (بخاری و مسلم)
البتہ مسلم نے «قد قامت الصلاة» کے استثناء کا ذکر نہیں کیا اور نسائی میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 146]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب الأذان مثني مثني، حديث:605، ومسلم، الصلاة، با الأمر بشفع الأذان وإيتار الإقامة...، حديث:378، والنسائي، الأذان، حديث:628 وسنده صحيح.»

حدیث نمبر: 147
وعن أبي جحيفة رضي الله عنه قال: رأيت بلالا يؤذن وأتتبع فاه ههنا وههنا وإصبعاه في أذنيه. رواه أحمد والترمذي وصححه. ولابن ماجه: وجعل إصبعيه في أذنيه. ولأبي داود: لوى عنقه لما بلغ حي على الصلاة يمينا وشمالا ولم يستدر. وأصله في الصحيحين.
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے دیکھا کہ وہ اپنا چہرہ، ادھر ادھر پھیرتے تھے۔ اس وقت ان کی دونوں انگلیاں (انگشت ہائے شہادت) ان کے کانوں میں تھیں۔
احمد اور ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کر لیں اور ابوداؤد میں ہے کہ جب «حي على الصلاة» کہتے تو اپنے دائیں بائیں ذرا رخ موڑ لیتے بالکل گھومتے نہیں تھے۔ اس کی اصل صحیحین میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 147]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ماجاء في إدخال الإصبع في الأذن عند الأذان، حديث:197، وأحمد:4 /308، 309، وأصله في الصحيحين، البخاري، الأذان، حديث:634، ومسلم، الصلاة، حديث:503، وابن ماجه، الصلاة، حديث:711، وأبوداود، الصلاة، حديث:520.»

حدیث نمبر: 148
وعن أبي محذورة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أعجبه صوته فعلمه الأذان. رواه ابن خزيمة.
سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی آواز بہت پسند آئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو) اذان کی تعلیم خود دی (اذان سکھائی)۔ (ابن خزیمہ) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 148]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن خزيمة: 1 /195، حديث:377.»


Previous    1    2    3    4    5    6    Next