صحيح البخاري
امام بخاری رحمہ اللہ کی تصانیف از عبدالرشید عراقی:
تحریر: عبدالرشید عراقی رحمہ اللہ
امام صاحب کی تصانیف حسب ذیل ہیں:
1۔ التاریخ الکبیر2۔ التاریخ الاوسط3۔ التاریخ الصغیر4۔ الجماع الکبیر5۔ خلق افعال العباد6۔ کتاب الضعفاء الصغیر7۔ المسند الکبیر8۔ التفسیر الکبیر9۔ کتاب الہبہ 10۔ اسامی الصحابہ11۔ کتاب الوحدان12۔ کتاب المبسوط13۔ کتاب العلل 14۔ کتاب الکنی15۔ کتاب الفوائد16۔ الادب المفرد17۔ جزء رفع الیدین 18۔ برالولدین19۔ کتاب الاشر بہ20۔ کتاب الاشر بہ21۔ قضایا الصحابہ والتابعین22۔ کتاب الرقاق 23۔ جزقران خلف الامام24۔ کتاب المناقب 25-الجماع ا الصحیح۔
اب ان تصانیف کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے۔
التاریخ الکبیر:
یہ وہی تاریخ ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ﷫ نے اپنی عمر کے اٹھارہویں سال چاندنی راتوں میں جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اور منبر کے ردمیان بیٹھ کر لکھا تھا۔
اس کتاب کے متعلق حضرت امام فرماتے ہیں:
«لاجى بحديث عن الصحابه والتابعين الاعرفت مولد اكثر هم وفاتهم ومساكنهم-»
یعنی کوئی حدیث صحابہ وتابعین سے نہیں بیان کروں گا مگر اکثر راویوں کے وفات مسکن اور مولد سے واقف ہوں۔
اور آگے لکھتے ہیں:
«ما اسم فى التاريخ الا وله عندي قصة الا اني كه هت ان يطول الكتاب» [مقدمه فتح الباري طبقات الشافعيه ص7ج6]
یعنی تاریخ میں کم نام ایسے ہیں جن کے حالات مجھے مفصل معلوم نہ ہوں لیکن طوالت کے خوف سے میں نے انہیں ترک کر دیا۔
تاریخ الرجال میں بحثیت جامعیت کے یہ کتاب منفرد ہے۔
التاریح الکبیر دائرۃ المعارف حید رآباد دکن سن 260 ہجری میں طبع ہو کر شارئع ہو گئی ہے۔ - [ سيرة البخاري ص167]

2۔ التاریخ الاوسط:
یہ کتاب جرح وتعدیل کے متلق ہے۔ یہ کتاب ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔ مشہور اہل حدیث عالم مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں کہ اس کا قلمی نسخہ دوسری جنگ تک جر منی کے سرکاری کتب خانہ میں موجود تھا۔ [سيرة البخاري ص167]

3۔ التاریخ الصغیر
فن تاریخ میں امام صاحب کی یہ بھی ایک بے مثل تصنیف ہے۔ فن حدیث کوفن رجال کے ساتھ وہی تعلق ہے جوروح کوجسد سے ہے۔ اس لیے امام صاحب کواس ک ساتھ خاص شغف تھا۔ اس تاریخ میں امام بخاری رحمہ اللہ مشاہیر صحابہ وتابعین﷫ کے سن وفات ونسب ولقاء کا ذکر کرتے ہیں۔ اور اکثر جرح وتعدیل کرتے ہیں۔ چنانچہ عنوان تالیف سن ہی پر رکھا ہے۔
شروع کتاب میں فرماتے ہیں:
«من تاريخ النبى صلى الله عليه وسلم والمهاجرين والانصار وطبقات التابعين لهم باحسان من بعدهم ووفاتهم و بعض نسبهم وكناهم ومن يرغب عن حديثه» [بحواله سيرة البخاري ص168]
یعنی یہ ایک مختصر تاریخ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین وانصار طبقات تابعین اور ان کے بعد لوگوں کی اس کتاب میں ان کی وفات ان کے نسب ان کی کنیت وغیرہ اور جن سے حدیث لینے میں اعراض کیا گیا ہے اسب کا بیان ہے۔
یہ کتاب مطبوعہ ہے۔

4۔ الجمامع الکبیر:
اس کتاب کے بارے میں مفصل حالات معلوم نہیں ہو سکے۔ مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں اس کا بھی قلمی نسخہ دارالعلوم جرمن میں دوسر جنگ عظیم سے پہلے موجود تھا۔ [سيرة البخاري ص168]

5خلق افعال العباد:
یہ کتاب علم عقائد اور عقائد کے متعلق ہے۔ اس میں آپ نے اسی طرح فرق باطلہ کی تردید کی ہے۔ جس طرح صحابہ کرام وتابعین ﷫ قرآن وحدیث کی رو شنی میں کرتے تھے اور اس کے ساتھ آپ نے اس کتاب میں آثار صحابہُ واقوال تابعین بھی درد کیے ہیں
یہ کتاب بھی مطبوعہ ہے۔ [ايضا ص168]

6۔ کتاب ا الضعفاء الصغیر
اس کتاب میں آپ نے ضعیف راویوں کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے جمع کیے ہیں اور اس کے ساتھ آپ نے وجہ تضعیف اور راوی کے تلمذ کا بھی ذکر کیا ہے یہ کتاب بھی چھپ چکی ہے۔ [ايضا]

7۔ المسند الکبیر التفسیر الکبیر:
ان دونوں کتابوں کی تفصیل معلوم نہیں ہوسکی مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری ﷫ لکھتے ہیں کہ المسند الکبیر کا ایک قلمی نسخہ کتب خانہ دارالعلوم جر من میں امام ابن تیمیہ﷫ کے ہاتھ کا لکھا ہوا دوسری جنگ عظیم تک موجود تھا۔ [ايضاص169]

9۔ کتاب الہیہ:
اس کتاب سے متعلق محمد بن ابوحاتم بیان کرتے ہیں:
«والف كتابا فى الهية فيه نحو خمس مائة حديث وقال ليس فى كتاب وكيع فى الهية الا حديثان مسنداًن او ثلثة فى كتاب ابن مبارك خمسة او نحوها» [ايضا ص169]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ﷫ نے ہبہ کے مسائل میں ایک کتاب لکھی تو اپنے باپ میں اس قدر جامع تھی کہ وکیع بن جراح اور عبداللہ بن مبارک کی کتاب سے اس کو کچھ نسبت نہیں۔ وکیع کی کتاب الہیہ میں دویا تین حدیثیں مرفوع تھیں۔ اور عبداللہ بن مبارک کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ طبع ہوئی یانہیں؟

10۔ اسامی الصحابہ:
اسماء الرجال پر امام صاحب کی یہ سب سے پہلی کتاب تھی اور اس کتاب کی تصنیف سے پہلے کوئی اور کتاب اسماء الرجال کے موضوع پر نہیں لکھی گئی۔ جو بھی کتابیں اسماء الرجال پر لکھی گئی ہیں وہ سب بعد کی ہیں مثلاً ابن عبدالبر اندلسی(م463ہجری) استعیاب۔ ابن الاثیر الجزری (م230ہجری) کی اسد الغابہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی (م852 ہجری) کی اصابہ فی تمیز الصحابہ۔
اس کتاب کا بھی قلمی نسخہ درالعلوم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک موجود تھا۔ [سيرة ا البخاري ص169]

11۔ کتاب الوحدان:
اس کتاب میں امام بخاری رحمہ اللہ ﷫ نے رواۃ صحابہ کا ذکر کیا ہے جن سے صرف ایک ہی حدیث مروی ہے اور اس موضوع پر امام صاحب نے سب سے پہلے قلم اٹھایا۔ ان سے پہلے اس موضوع پ کوئی تصنیف نہیں ملی۔ آپ کے دوتلامذہ امام مسلم(م261ہجری) اور امام نسائی رحمہ اللہ م302) نے کتاب الوحدان کے نام سے کتابیں لکھیں۔
امام مسلم ﷫ اور امام نسائی رحمہ اللہ﷫ کی کتاب الوحدان آگرہ سے طبع ہو کر شائع ہو چکی ہیں(ایضا ص170) امام صاحب کی کتاب الوحدان کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا یہ کتاب طبع ہوئی ہے یا نہیں؟

12۔ کتاب المبسوط:
اس کتاب کا تعلق فقہ سے ہے اس میں شرح و بسط کے ساتھ فقہی مسائل بیان کیے گئے ہیں اور ان کے مسائل کا احادیث سے استنباط کیا گیا ہے۔
اس کتاب کا قلمی نسخہ کتب خانہ دار لعلوم جر منی میں دوسری جنگ عظیم تک موجود تھا۔ [ايضاص170]

13۔ کتاب العلل: یہ معلل احادیث کے بارے میں ہے۔

14۔ کتاب الکنی:
اس کتاب میں روایوں کے نام اور ان کی کنیتیں یک جاکر دی گئی ہیں۔

15۔ کتاب الفوائد:
اس کتاب کا ذکر آپ کے تلمیذ رشید امام ابوعیسیٰ ترمذی(م سن 279 ہجری) نے اپنی مشہور زمانہ جامع ترمذی میں کتاب المناقب کے تحت کیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت امام کتاب الفوائد میں کسی قسم کے فوائد درج کیے ہیں؟

16۔ الادب المفرد:
یہ وہ کتاب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخلاق وآداب سکھاتی ہے حقیقۃ یہ ہے کہ اس کتاب کی بدولت انسان صحیح معنوں میں انسان بن جاتا ہے۔
یہ کتاب متعدد بار طبع ہو کر شائع ہو چکی ہے۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ توفیق الباری کے نام سے محی ا السنہ والاجاہ حضرت مولاناسید نواب صدیث حسن خان قنوجی رئیس بھوپال (م سن 1307) شائع ہو چکا ہے (ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ص42) مگر نایاب ہے اب ہفت روزہ الاعتصام میں یہ ترجمہ جدید اردو میں ڈھال جبکہ حواشی وتعلیقات کا اضافہ مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف﷫ کے قلم سے ہے۔
الادب المفرد کا ایک دوسرا ترجمہ مولاناعبدالغفار دہلوی مرحوم نے سلیقہ کے نام سے کیا تھا جوآگرہ سے طبع ہو کرشائع ہوا مگر اب تک نایاب ہے۔ [ سيرة البخاري ص171]

17۔ جزءرفع الیدین:
رفع الیدین کے باپ میں بڑی جامع کتاب ہے اثبات رفع الیدین کے علاوہ روایات عدم رفع پر بھی بخوبی تنقید کی ہے۔ یہ کتاب مطبوعہ ہے۔

18۔ برالولدین:
یہ کتاب آداب کاموضوع لیے ہوئے ہے۔

19۔ کتاب الاشربہ:
اس کتاب کا ذکر امام دارقطنی رحمہ اللہ (م سن 385 ہجری) نے اپنی کتاب الموتلف والمختلف میں کیا ہے۔

20۔ قضایا الصحابہ ﷫والتابعین ﷫:
یہ کتاب امام الحدثین نے سن 212 ہجری میں تصنیف کی (سیرۃ البخاری ص172) اس کتاب کاموضوع اس کے نام سے ظاہر ہے مگر اس کتاب کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ طبع ہوئی ہے یانہیں؟

21۔ کتاب الرقاق:
اس کتاب کا ذکر صاحب کشف الظنون نے کیا ہے:
ان کے الفاظ یہ ہیں:
«كتاب الرقاق للبخاري من كتب الحديث-» [ سيرة البخاري صفحه172]

22-الجامع الصغير فی الحدیث:
اس کتاب کے بارے میں مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپور لکھتے ہیں کہ اس قلمی نسخہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے قلم سے کتب خانہ دار لعلوم جر منی میں دوسری جنگ عظیم تک موجود تھا۔ [سيرة البخاري صفحه 173]

23۔ جزء قرأت خلف الامام:
یہ امام بخاری رحمہ اللہ﷫ کی مشہور تصنیف ہے۔ اس کتاب میں قراءۃ خلف الامام کو بدلائل احادیث آثار ثابت کیا گیا ہے۔ یہ رسالہ مصر سے طبع ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ [سيرة البخاري صفحه 173]

24۔ کتاب المناقب:
اس کتاب کا موضوع نام سے ظاہر ہے یہ صحابہ کرام تابعین عظام ﷫ کے مناقب میں ہے اس کے متلق بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کتاب طبع ہوئی ہے یا نہیں؟
امام المحدثین کی تمام تصانیف ایک بہت بڑا علمی ذخیرہ ہیں جن پر اجمالی تبصرہ بھی ایک نہایت وسیع کام ہے۔ مختصرا حضرات امام کی یہ تصنیف سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

الجامع الصحیح کی مقبولیت اور اس کی رفعت شان:
امام صاحب کی تصنیفات میں الجامع الصیحح جوآج صحیح بخاری کے نام سے معروف ومشہور ہے اور دنیا کے تمام ان حصوں میں جہاں اسلامی اثر پہنچاہے خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ آپ کی اسی الجمامع الصحیح بناء ہی مسلمانوں نے امام بخاری رحمہ اللہ﷫ کو امام المحدثین اور امیر المؤمنین فی الحدیث کا لقب دیا ہے اور یہ رتبہ یہ فضیلت یہ شرف یہ امتیاز متقدمین سے لے کر متاخرین تک اسلام میں نہ کسی محدث کی تصنیف کو حاصل ہوا ہے نہ کسی فقیہہ اور امام کی تالیف کو آج اسلام میں کتاب اللہ کے بعد اور ان کون سی کتاب جس کے آگے کل اسلامی دنیاسر تسلیم خم کرتی ہے؟

مدت تالیف:
امام صاحب نے الجامع الصحیح کو 16سال میں مکمل کیاجیسا کہ امام صاحب خود بیان فرماتے ہیں:
«صنفت كتاب الصيح قى ست عشرة سنة» [وفيات الاعيان ج2 ص325]
اس ليے اس کاآغاز سن 217 ہجری میں ہوا ہو گا جب کہ اس وقت حضرت امام کی عمر صر23سال کی تھی۔

صحیح بخاری کی تالیف میں اہتمام:
صحیح بخاری کی کی تالیف میں امام صاحب نے 16سال صرف کیے اور آپ فرماتے ہیں کہ:
میں نے الجامع الصحیح کو مسجد حرام میں تصنیف کیا۔ ہر حدیث درج کرنے سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ سے استخارہ کر کے دورکعت نماز پٗڑھتا اور جب اس کی صحت پو پوری طرح انشراح ہو جاتا تھا اس وقت حدیث کو کتاب میں جگہ دیتاتھا۔ [سيرة البخاري ص168]
اس اہتمام کی وجہ سے بعض لوگوں کا قول ہے کہ ہ امام بخاری رحمہ اللہ نے گویا براہ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ میں الجامع الصحیح کو اپنی نجات کے لیے حجت بنایا ہے اور چھ لاکھ احادیث سے انتخاب کیا ہے۔ [ سيرة البخاري ص186]
امام صاحب نے ترجم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک اور منبر شریف کے درمیان مسودہ سے مبیضہ میں منتقل کیا۔ اور ہر ترجمہ الباب کے لیے دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔

الجمامع الصحیح کی مقبولیت:
الجامع الصحیح کو جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ حافظ ابن صلاح فرماتے ہیں کہ:
صحیح بخاری کی مرتبہ صحت اور کثرت فوائد کے لحاظ سے ممتاز ومقدم ہے
اور امام شاہ ولی اللہ دہلوی (م 1172ھجری) فرماتے ہیں۔
جو شخص اس کتاب کی عظمت کا قائل نہ ہو وہ مبتدع ہے اور مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔ [ حجة البالغة ج1ص297]
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صحیح بخاری کے پڑھنے سے قحط سالی دور ہو جاتی ہے اور قحط کے زمانہ میں اس کی برکت سے بارش کا نزول ہوتا ہے۔ [ارشاد الساري ج1ص29]
اور اس کی مقبولیت سے امام شاہ ولی اللہ دہلوی قسم کھا کر فرماتے ہیں:
صحیح بخاری کی جو مقبولیت و شہرت حاصل ہوئی اس سے زیادہ کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث، اگست 1982ء


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.