وقال النبي صلى الله عليه وسلم: لعل بعضكم الحن بحجته من بعض، وقال طاوس، وإبراهيم، وشريح: البينة العادلة احق من اليمين الفاجرة.وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، وَقَالَ طَاوُسٌ، وَإِبْرَاهِيمُ، وَشُرَيْحٌ: الْبَيِّنَةُ الْعَادِلَةُ أَحَقُّ مِنَ الْيَمِينِ الْفَاجِرَةِ.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ (مدعی اور مدعیٰ علیہ میں کوئی) ایک دوسرے سے بہتر طریقہ پر اپنا مقدمہ پیش کر سکتا ہو۔ طاؤس، ابراہیم اور شریح رحمۃ اللہ علیہم نے کہا کہ عادل گواہ جھوٹی قسم کے مقابلے میں قبول کیے جانے کا زیادہ مستحق ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب، عن ام سلمة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم الحن بحجته من بعض، فمن قضيت له بحق اخيه شيئا بقوله فإنما اقطع له قطعة من النار، فلا ياخذها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا بِقَوْلِهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ، فَلَا يَأْخُذْهَا".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا امام مالک سے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے زینب نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے (قوت بیانیہ بڑھ کر رکھتا ہے) پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق (غلطی سے) دلا دوں، تو وہ حلال (نہ سمجھے) اس کو نہ لے، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں۔“
Narrated Um Salama: Once Allah's Apostle said, "You people present your cases to me and some of you may be more eloquent and persuasive in presenting their argument. So, if I give some one's right to another (wrongly) because of the latter's (tricky) presentation of the case, I am really giving him a piece of fire; so he should not take it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 48, Number 845