أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات حدیث نمبر 8
ثم شهدت العيد مع عثمان بن عفان فوافق ذلك يوم جمعة , فبدا بالصلاة قبل الخطبة ثم قال: «إن هذا يوم اجتمع فيه عيدان للمسلمين فمن كان هاهنا من اهل العوالي فاحب ان يذهب فقد اذنا له، ومن احب ان يمكث فليمكث» ثم شهدت العيد مع علي بن ابي طالب فبدا بالصلاة قبل الخطبة قال: «لا ياكلن احدكم من لحم نسكه فوق ثلاث» قال ابو بكر الحميدي قلت لسفيان: إنهم يرفعون هذه الكلمة عن علي بن ابي طالب قال سفيان لا احفظها مرفوعة وهي منسوخة ابوعبید بیان کرتے ہیں: میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید کی نماز میں شریک ہوا، انہوں نے خطبہ دینے سے پہلے نماز ادا کی پھر یہ بات بیان کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں کا روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ عیدالفطر کا دن اور عید الاضحیٰ کا دن، جہاں تک عید الفطر کے دن کا تعلق ہے، تو یہ ایک ایسا دن ہے، جب تم روزے رکھنے ختم کر دیتے ہو، تو اس دن تم کھاؤ پیو گے۔ جہاں تک عید الاضحیٰ کے دن کا تعلق ہے، تو اس دن تم اپنی قربانی کا گوشت کھاؤ۔
راوی کہتے ہیں: پھر میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں عید کی نماز میں شریک ہوا تو اس دن جمعہ بھی تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز ادا کی پھر یہ بات بیان کی: آج وہ دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے دو عیدیں اکٹھی کر دی ہیں، تو یہاں نواحی علاقوں میں رہنے والے جو لوگ موجود ہیں ان میں سے اگر کوئی شخص واپس جانا چاہے، تو ہم اسے اجازت دیتے ہیں اور جو شخص ٹھہرنا چاہے، وہ ٹھہر جائے۔ راوی کہتے ہیں: پھر میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں عید کی نماز میں شریک ہوا تو انہوں نے خطبے سے پہلے نماز ادا کی اور یہ بات ارشاد فرمائی: کوئی بھی شخص اپنی قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ ہرگز نہ کھائے۔ ● امام ابوبکر حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: محدثین نے تو یہ کلمات، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ”مرفوع“ حدیث کے طور پر روایت کیے ہیں، تو سفیان بولے: میری یاداشت کے مطابق یہ روایت ”مرفوع“ حدیث کے طور پر منقول نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ روایت ”منسوخ“ ہے۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 5571، 5572، 5573، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1137، ومالك فى «الموطأ» برقم: 613، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2802، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2416، والترمذي فى «جامعه» برقم: 771، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1722، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5393، 5936، وأحمد فى «مسنده» برقم: 165، 229، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 150، 232 وابن حبان: 3600»
|