الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
كِتَاب جَزَاءِ الصَّيْدِ
کتاب: شکار کے بدلے کا بیان
The Book of Penalty For Hunting
2. بَابُ إِذَا صَادَ الْحَلاَلُ فَأَهْدَى لِلْمُحْرِمِ الصَّيْدَ أَكَلَهُ:
باب: اگر بے احرام والا شکار کرے اور احرام والے کو تحفہ بھیجے تو وہ کھا سکتا ہے۔
(2) Chapter. If a Non-Muhrim hunts (an animal) and gives it as a present to a Muhrim, (it is permissible for) the latter to eat it.
حدیث نمبر: Q1821
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ولم ير ابن عباس، وانس بالذبح باسا وهو غير الصيد نحو الإبل، والغنم، والبقر، والدجاج، والخيل، يقال عدل ذلك مثل، فإذا كسرت عدل فهو زنة ذلك قياما قواما يعدلون يجعلون عدلا.وَلَمْ يَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٌ بِالذَّبْحِ بَأْسًا وَهُوَ غَيْرُ الصَّيْدِ نَحْوُ الْإِبِلِ، وَالْغَنَمِ، وَالْبَقَرِ، وَالدَّجَاجِ، وَالْخَيْلِ، يُقَالُ عَدْلُ ذَلِكَ مِثْلُ، فَإِذَا كُسِرَتْ عِدْلٌ فَهُوَ زِنَةُ ذَلِكَ قِيَامًا قِوَامًا يَعْدِلُونَ يَجْعَلُونَ عَدْلًا.
‏‏‏‏ اور انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم (محرم کے لیے) شکار کے سوا دوسرے جانور مثلاً اونٹ، بکری، گائے، مرغی اور گھوڑے کے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ قرآن میں لفظ «غدل» (بفتح غین) مثل کے معنی میں بولا گیا ہے اور «عدل» (عین کو) جب زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو وزن کے معنی میں ہو گا، «قياما» «قواما‏» (کے معنی میں ہے، «قيم») «يعدلون» کے معنی میں مثل بنانے کے۔
حدیث نمبر: 1821
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن يحيى، عن عبد الله بن ابي قتادة، قال:" انطلق ابي عام الحديبية، فاحرم اصحابه ولم يحرم، وحدث النبي صلى الله عليه وسلم ان عدوا يغزوه، فانطلق النبي صلى الله عليه وسلم، فبينما انا مع اصحابه تضحك بعضهم إلى بعض، فنظرت، فإذا انا بحمار وحش، فحملت عليه، فطعنته، فاثبته واستعنت بهم، فابوا ان يعينوني، فاكلنا من لحمه وخشينا ان نقتطع، فطلبت النبي صلى الله عليه وسلم ارفع فرسي شاوا واسير شاوا، فلقيت رجلا من بني غفار في جوف الليل، قلت: اين تركت النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: تركته بتعهن وهو قائل السقيا، فقلت: يا رسول الله، إن اهلك يقرءون عليك السلام ورحمة الله، إنهم قد خشوا ان يقتطعوا دونك فانتظرهم، قلت: يا رسول الله،" اصبت حمار وحش، وعندي منه فاضلة؟ فقال للقوم: كلوا وهم محرمون".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ:" انْطَلَقَ أَبِي عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ يُحْرِمْ، وَحُدِّثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَدُوًّا يَغْزُوهُ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَيْنَمَا أَنَا مَعَ أَصْحَابِهِ تَضَحَّكَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا أَنَا بِحِمَارِ وَحْشٍ، فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ، فَطَعَنْتُهُ، فَأَثْبَتُّهُ وَاسْتَعَنْتُ بِهِمْ، فَأَبَوْا أَنْ يُعِينُونِي، فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهِ وَخَشِينَا أَنْ نُقْتَطَعَ، فَطَلَبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْفَعُ فَرَسِي شَأْوًا وَأَسِيرُ شَأْوًا، فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ بَنِي غِفَارٍ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، قُلْتُ: أَيْنَ تَرَكْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: تَرَكْتُهُ بِتَعْهَنَ وَهُوَ قَائِلٌ السُّقْيَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَهْلَكَ يَقْرَءُونَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ قَدْ خَشُوا أَنْ يُقْتَطَعُوا دُونَكَ فَانْتَظِرْهُمْ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" أَصَبْتُ حِمَارَ وَحْشٍ، وَعِنْدِي مِنْهُ فَاضِلَةٌ؟ فَقَالَ لِلْقَوْمِ: كُلُوا وَهُمْ مُحْرِمُونَ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ ابن کثیر نے، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے بیان کیا کہ میرے والد صلح حدیبیہ کے موقع پر (دشمنوں کا پتہ لگانے) نکلے۔ پھر ان کے ساتھیوں نے تو احرام باندھا لیا لیکن (خود انہوں نے ابھی) نہیں باندھا تھا (اصل میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے یہ اطلاع دی تھی کہ مقام غیقہ میں دشمن آپ کی تاک میں ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابوقتادہ اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کی تلاش میں) روانہ کیا میرے والد (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے (میرے والد نے بیان کیا کہ) میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ایک جنگلی گدھا سامنے ہے۔ میں اس پر جھپٹا اور نیزے سے اسے ٹھنڈا کر دیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد چاہی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا، پھر ہم نے گوشت کھایا۔ اب ہمیں یہ ڈر ہوا کہ کہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) دور نہ ہو جائیں، چنانچہ میں نے آپ کو تلاش کرنا شروع کر دیا کبھی اپنے گھوڑے تیز کر دیتا اور کبھی آہستہ، آخر رات گئے بنو غفار کے ایک شخص سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جب میں آپ سے جدا ہوا تو آپ مقام تعھن میں تھے اور آپ کا ارادہ تھا کہ مقام سقیا میں پہنچ کر دوپہر کا آرام کریں گے۔ غرض میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور میں نے عرض کی یا رسول اللہ! آپ کے اصحاب آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتے ہیں۔ انہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ بہت پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس لیے آپ ٹھہر کر ان کا انتظار کریں، پھر میں نے کہا یا رسول اللہ! میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا تھا اور اس کا کچھ بچا ہوا گوشت اب بھی میرے پاس موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کھانے کے لیے فرمایا حالانکہ وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔

Narrated `Abdullah bin Abu Qatada: My father set out (for Mecca) in the year of Al-Hudaibiya, and his companions assumed Ihram, but he did not. At that time the Prophet was informed that an enemy wanted to attack him, so the Prophet proceeded onwards. While my father was among his companions, some of them laughed among themselves. (My father said), "I looked up and saw an onager. I attacked, stabbed and caught it. I then sought my companions' help but they refused to help me. (Later) we all ate its meat. We were afraid that we might be left behind (separated) from the Prophet so I went in search of the Prophet and made my horse to run at a galloping speed at times and let it go slow at an ordinary speed at other times till I met a man from the tribe of Bani Ghifar at midnight. I asked him, "Where did you leave the Prophet ?" He replied, "I left him at Ta'hun and he had the intention of having the midday rest at As-Suqya. I followed the trace and joined the Prophet and said, 'O Allah's Apostle! Your people (companions) send you their compliments, and (ask for) Allah's Blessings upon you. They are afraid lest they may be left behind; so please wait for them.' I added, 'O Allah's Apostle! I hunted an onager and some of its meat is with me. The Prophet told the people to eat it though all of them were in the state of Ihram."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 29, Number 47


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.