الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
تفسیر قرآن مجید
اللہ تعالیٰ کے فرمان ((ا نّ الّذین جاوک بالافک ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ النور)۔
حدیث نمبر: 2153
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث روایت کی، جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی اور کہا جو کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی تہمت سے پاک کیا۔ زہری نے کہا کہ ان سب لوگوں نے مجھ سے اس حدیث کا ایک ایک ٹکڑا روایت کیا اور ان میں سے بعض دوسروں سے اس حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے تھے اور زیادہ حافظ اور عمدہ بیان کرنے والے تھے اور میں نے ہر ایک سے جو اس نے روایت کی یاد رکھا اور بعض کی حدیث بعض کی تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے اور جس عورت کے نام پر قرعہ نکلتا اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے تھے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے ایک سفر میں قرعہ ڈالا تو اس میں میرا نام نکلا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی اور یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پردہ کا حکم اتر چکا تھا۔ میں اپنے ہودج میں سوار ہوتی اور راہ میں جب پڑاؤ ہوتا تو میرا ہودج اتار لیا جاتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے فارغ ہو کر لوٹے اور مدینہ سے قریب ہو گئے تو ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو کوچ کا حکم دیا؟ جب لوگوں نے کوچ کی خبر کر دی تو میں کھڑی ہوئی اور چلی یہاں تک کہ لشکر سے ایک طرف چلی گئی۔ جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور سینہ کو چھوا تو معلوم ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا ہار گم ہو گیا ہے (ظفار یمن میں ایک گاؤں کا نام ہے) میں لوٹی اور اس ہار کو ڈھونڈھنے لگی، اس کے ڈھونڈنے میں مجھے دیر لگی اور وہ لوگ آ پہنچے جو میرا ہودہ اٹھاتے تھے، انہوں نے ہودہ اٹھایا اور اس اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی اور وہ یہ سمجھے کہ میں اسی ہودے میں ہوں۔ اس وقت عورتیں ہلکی (دبلی) ہوتی تھیں کیونکہ تھوڑا کھانا کھاتی تھیں۔ اس لئے جب انہوں نے ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا تو انہیں اس کا وزن ہلکا محسوس نہ ہوا میں ویسے بھی ایک کم سن لڑکی تھی۔ آخر لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل دئیے۔ میں نے اپنا ہار اس وقت پایا جب سارا لشکر چل دیا تھا اور میں جو ان کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں نہ کسی کی آواز تھی اور نہ کوئی آواز سننے والا تھا۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھ جاؤں اور میں سمجھی کہ لوگ جب مجھے نہ پائیں گے تو یہیں لوٹ کر آئیں گے۔ تو میں اسی ٹھکانے پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو رہی۔ اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانی رضی اللہ عنہ ایک آدمی جو کہ آرام کے لئے آخر رات میں لشکر کے پیچھے ٹھہرے تھے جب وہ روانہ ہوئے تو صبح کو میرے ٹھکانے پر پہنچے۔ ان کو ایک آدمی کا جسم معلوم ہوا جو سو رہا ہو، وہ میرے پاس آیا اور مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ پردہ کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ میں ان کی آواز سن کر جاگ اٹھی جب اس نے مجھے پہچان کر ((اناللہ وانا الیہ راجعون)) پڑھا پس میں نے اپنی اوڑھنی سے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم! اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ میں نے اس کی کوئی بات سوائے اناللہ وانا الیہ راجعون کہنے کے سنی۔ پھر اس نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اونٹ کے گھٹنے پر اپنا پاؤں میرے سوار ہونے کے لئے رکھا۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ اونٹ کو کھینچتا ہوا پیدل چلا، یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے اور لشکر کے لوگ دوپہر کی سخت گرمی میں اتر چکے تھے۔ سو میرے اس معاملہ میں بدگمانی کی وجہ سے ہلاک ہوئے جو ہوئے، اور قرآن میں جس کے متعلق تولّٰی کبرہ آیا ہے، یعنی اس تہمت کا بانی مبانی، وہ عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافقوں کا سردار) تھا۔ آخر ہم مدینہ میں آئے اور جب میں مدینہ میں پہنچی تو بیمار ہو گئی۔ ایک مہینہ تک بیمار رہی اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ بہتان لگانے والوں کی باتوں میں غور کرتے تھے اور مجھے ان کی کسی بات کی کوئی خبر نہ تھی۔ صرف مجھے اس بات سے شک ہوا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ شفقت نہ دیکھی جو پہلے میری بیماری کی حالت میں ہوتی تھی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اندر آتے، سلام کرتے اور پھر فرماتے کہ تمہارا کیا حال ہے؟ پس اس بات سے مجھے شک ہوتا لیکن مجھے اس خرابی کی خبر نہ تھی، یہاں تک کہ جب میں بیماری کے جانے کے بعد دبلی ہو گئی تو میں مناصع کی طرف نکلی اور میرے ساتھ ام مسطح بھی نکلی (مناصع مدینہ کے باہر جگہ تھی) لوگوں کے (پائخانے بننے سے پہلے) پائخانے تھے۔ پھر دوسری رات کو جاتے تھے۔ یہ ذکر اس وقت کا ہے جب ہمارے گھروں میں پائخانے نہیں بنے تھے اور ہم لوگ اگلے عربوں کی طرح (پائخانے کے لئے) جنگل میں جایا کرتے تھے اور گھر کے پاس پائخانے بنانے سے نفرت رکھتے تھے۔ تو میں چلی اور ام مسطح بھی میرے ساتھ تھی اور وہ ابی رہم بن مطلب بن عبدمناف کی بیٹی تھی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خالہ تھی (اس کا نام سلمیٰ تھا)۔ اس کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا۔ غرض میں اور ام مسطح دونوں جب قضائے حاجت سے فارغ ہو چکیں تو واپسی پر اپنے گھر کی طرف آ رہی تھیں کہ ام مسطح کا پاؤں اپنی چادر میں الجھا تو وہ بولی کہ مسطح ہلاک ہو۔ میں نے کہا کہ تو نے بری بات کہی۔ تو اس شخص کو برا کہتی ہے جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا؟ وہ بولی کہ اے نادان! تو نے کچھ نہیں سنا کہ مسطح نے کیا کہا؟ میں نے کہا کہ اس نے کیا کہا؟ اس نے مجھ سے بیان کیا جو بہتان والوں نے کہا تھا۔ یہ سن کر میری بیماری زیادہ ہو گئی۔ میں جب اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور سلام کیا اور فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے کہا کہ آپ مجھے اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی اجازت دیتے ہیں؟ اور میرا اس وقت یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ کے پاس جا کر اس خبر کی تصدیق کروں گی۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا کہ امی جان! یہ لوگ کیا بک رہے ہیں؟ وہ بولی کہ بیٹا تو اس کا خیال نہ کر اور اس کو بڑی بات مت سمجھ، اللہ کی قسم! ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مرد کے پاس ایک خوبصورت عورت ہو جو اس کو چاہتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور سوکنیں اس کے عیب نہ نکالیں۔ میں نے کہا کہ سبحان اللہ! لوگوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا۔ میں ساری رات روتی رہی، صبح تک میرے آنسو نہ ٹھہرے اور نہ نیند آئی، صبح کو بھی میں رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی نہیں اتری تھی اور ان دونوں سے مجھے جدا کرنے (یعنی طلاق دینے) کا مشورہ لیا اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے تو وہی رائے دی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کے حال کو جانتے تھے اور اس کی عصمت کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کے ساتھ محبت کو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! عائشہ (رضی اللہ عنہا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور ہم تو ان کی سوائے بہتری کے اور کوئی بات نہیں جانتے۔ علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگی نہیں کی اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا عورتیں بہت ہیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لونڈی سے پوچھیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ کہہ دے گی (لونڈی سے مراد بریرہ رضی اللہ عنہا ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتی تھی) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے بریرہ! تو نے کبھی عائشہ سے ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھے اس کی پاکدامنی پر شک پڑے؟ بریرہ نے کہا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے، اگر میں ان کا کوئی کام دیکھتی تو میں عیب بیان کرتی، اس سے زیادہ کوئی عیب نہیں ہے کہ عائشہ کم عمر لڑکی ہے، گھر کا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے، پھر بکری آتی ہے اور اس کو کھا لیتی ہے (مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی عیب نہیں جس کو تم پوچھتے ہو نہ اس کے سوا کوئی عیب ہے، جو عیب ہے وہ یہی ہے کہ بھولی بھالی لڑکی ہے اور کم عمری کی وجہ سے گھر کا بندوبست نہیں کر سکتی)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول سے جواب طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا کہ اے مسلمان لوگو! اس شخص سے مجھے کون انصاف دلائے گا جس کی ایذا دینے والی سخت بات میرے گھر والوں کی نسبت مجھ تک پہنچی، اللہ کی قسم! میں تو اپنی گھر والی (یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کو نیک سمجھتا ہوں اور جس شخص پر یہ تہمت لگاتے ہیں (یعنی صفوان بن معطل) اس کو بھی میں نیک سمجھتا ہوں اور وہ کبھی میرے گھر نہیں گیا مگر میرے ساتھ۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ (جو قبیلہ اوس کے سردار تھے) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدلہ لیتا ہوں اگر تہمت کرنے والا ہماری قوم اوس میں سے ہو تو ہم اس کی گردن مارتے ہیں اور جو ہمارے خزرج بھائیوں میں سے ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کیجئے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کریں گے (یعنی اس کی گردن ماریں گے)۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور نیک آدمی تھے۔ لیکن اس وقت ان کو اپنی قوم کی غیرت آ گئی اور کہنے لگے کہ اے سعد بن معاذ! اللہ کے بقا کی قسم! تو نے جھوٹ بولا ہے، تو ہماری قوم کے شخص کو قتل نہ کر سکے گا (یہ سن کر) سیدنا اسید بن حضیر جو سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی تھے، کھڑے ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ تو نے غلط کہا، اللہ کے بقا کی قسم! ہم اس کو قتل کریں گے اور تو منافق ہے جبھی تو منافقوں کی طرف سے لڑتا ہے۔ غرض کہ دونوں قبیلے اوس اور خزج کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ خونریزی شروع ہو جاتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ان کو سمجھا رہے تھے اور ان کا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے، یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو رہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس دن بھی سارا دن روتی رہی، میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی اور میرے باپ نے یہ گمان کیا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میرے ماں باپ میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی۔ اتنے میں انصار کی ایک عورت نے اجازت مانگی۔ میں نے اس کو اجازت دی وہ بھی آ کر رونے لگی۔ پھر ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے اور جس روز سے مجھ پر تہمت ہوئی تھی، اس روز سے آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ یونہی گزر چکا تھا کہ میرے مقدمہ میں کوئی وحی نہیں اتری تھی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھتے ہی تشہد پڑھا اور فرمایا کہ امابعد! اے عائشہ مجھے تمہاری طرف سے ایسی ایسی خبر پہنچی ہے، پھر اگر تم پاکدامن ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکدامنی بیان کر دے گا اور اگر تو نے گناہ کیا ہے تو توبہ کر اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ، اس واسطے کہ بندہ جب گناہ کا اقرار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات مکمل کر چکے تو میرے آنسو بالکل بند ہو گئے، یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں۔ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں (سبحان اللہ ان کے والد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے گو ان کی بیٹی کا مقدمہ تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دم نہ مارا۔ باوجودت زمن آواز نیامد کہ منم) میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ تم میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دو تو وہ بولی کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں۔ آخر میں نے خود ہی کہا اور میں کمسن لڑکی تھی، میں قرآن زیادہ نہیں پڑھی تھی، اللہ کی قسم! مجھے یہ معلوم ہے کہ تم لوگوں نے اس بات کو یہاں تک سنا ہے کہ تمہارے دل میں جم گئی ہے اور تم نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے (اور یہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے غصہ سے فرمایا ورنہ سچ کسی نے نہیں سمجھا تھا سوائے تہمت کرنے والوں کے)، پھر اگر تم سے کہوں کہ میں بےگناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بےگناہ ہوں، تو بھی تم مجھے سچا نہیں سمجھو گے اور اگر میں اس گناہ کا اعتراف کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں، تو تم مجھے سچا سمجھو گے اور میں اپنی اور تمہاری مثال سوا اس کے اور کوئی نہیں پاتی جو یوسف علیہ السلام کے والد (یعقوب علیہ السلام) کی تھی (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو رنج میں ان کا نام یاد نہ آیا تو یوسف علیہ السلام کے والد کہا) جب انہوں نے کہا کہ اب صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری اس گفتگو پر اللہ ہی کی مدد کی ضرورت ہے (سورۃ یوسف) پھر میں نے کروٹ موڑ لی اور میں اپنے بچھونے پر لیٹ رہی۔ اور اللہ کی قسم! میں اس وقت جانتی تھی کہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ ضرور میری برات ظاہر کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میری شان میں قرآن اترے گا جو (قیامت تک) پڑھا جائے گا، کیونکہ میری شان خود میرے گمان میں اس لائق نہ تھی کہ اللہ جل جلالہ عزت اور بزرگی والا میرے مقدمہ میں کلام کرے گا اور کلام بھی ایسا کہ جو پڑھا جائے، البتہ مجھے یہ امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں کوئی ایسا مضمون دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ میری پاکیزگی ظاہر کر دے گا۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بھیجی اور قرآن اتارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی سختی معلوم ہونے لگی، یہاں تک کہ سردی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر سے اس کلام کی سختی کی وجہ سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا، موتی کی طرح پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے (اس لئے کہ بڑے شہنشاہ کا کلام تھا)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت جاتی رہی (یعنی وحی ختم ہو چکی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے اور اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ سے یہ کلمہ نکالا اور فرمایا کہ اے عائشہ! خوش ہو جا، اللہ تعالیٰ نے تجھے بےگناہ اور پاک فرمایا ہے۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کر (اور شکر کر)۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ اٹھوں گی اور نہ کسی کی تعریف کروں گی سوا اللہ تعالیٰ کے کہ اسی نے میری پاکدامنی اتاری۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اتارا کہ بیشک جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں، وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہیں، اس (واقعے) کو اپنے لئے شر (برا) نہ سمجھو بلکہ تمہارے لئے خیر (اچھا) ہی ہے آخر تک دس آیتوں کو اللہ تعالیٰ نے میری پاکدامنی کے لئے اتارا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو مسطح کی قریبی رشتہ داری، غربت کی وجہ سے اس پر خرچ کیا کرتے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم! جب اس نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی نسبت ایسا کہا تو اب میں اس کو کچھ نہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ تم میں سے جو لوگ فضل اور مقدرت والے ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ کچھ (نہ) دیں گے، اپنے رشتہ داروں اور مساکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ حبان بن موسیٰ نے کہا کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ آیت اللہ کی کتاب میں بڑی امید کی ہے (کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے میں بخشش کا وعدہ کیا ہے) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخشے۔ پھر مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا اور کہا کہ میں کبھی بند نہ کروں گا۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا جانتی ہیں؟ یا انہوں نے کیا دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا (حالانکہ وہ سوکن تھیں) کہ یا رسول اللہ! میں اپنے کان اور آنکھ کی احتیاط رکھتی ہوں (یعنی بن سنے کوئی بات نہیں کہتی اور نہ بن دیکھے کو دیکھی ہوئی کہتی ہوں)، میں تو عائشہ کو نیک ہی سمجھتی ہوں۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ زینب رضی اللہ عنہا ہی ایک بیوی تھیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے میرے مقابل کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے اس تہمت سے بچایا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہن کے لئے تعصب کیا اور ان کے لئے لڑیں تو جو لوگ تباہ ہوئے ان میں وہ بھی تھیں (یعنی تہمت میں شریک تھیں)۔ زہری نے کہا کہ تو ان لوگوں کا یہ آخر حال ہے جو ہم تک پہنچا۔
حدیث نمبر: 2154
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ ایک آدمی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم سے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد لونڈی) کو تہمت لگاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جا اور اس شخص کی گردن مار (شاید وہ منافق ہو گا یا کسی اور وجہ سے قتل کے لائق ہو گا)۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے، دیکھا تو وہ ٹھنڈک کے لئے ایک کنوئیں میں غسل کر رہا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ نکل۔ اس نے اپنا ہاتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا۔ انہوں نے اس کو باہر نکالا تو دیکھا کہ اس کا عضو تناسل کٹا ہوا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل نہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ تو مجبوب ہے (یعنی ذکر کٹا ہوا)۔ اس کا ذکر ہی نہیں۔ (تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہی سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے خیال سے اس کے قتل کا حکم دیا ہے، اس واسطے انہوں نے قتل نہ کیا اور شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ وہ قتل نہ کیا جائے گا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا حکم دیا تاکہ اس کا حال ظاہر ہو جائے اور لوگ اپنی تہمت پر نادم ہوں اور ان کا جھوٹ کھل جائے)۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.