الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
The Book of Divorce
8. بَابُ: {لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ”اے پیغمبر! جو چیز اللہ نے تیرے لیے حلال کی ہے اسے تو اپنے اوپر کیوں حرام کرتا ہے“۔
(8) Chapter. “O Prophet! Why do you forbid (for yourself) that which Allah has allowed to you…?” (V.66:1)
حدیث نمبر: 5266
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني الحسن بن صباح، سمع الربيع بن نافع، حدثنا معاوية، عن يحيى بن ابي كثير، عن يعلى بن حكيم، عن سعيد بن جبير، انه اخبره، انه سمع ابن عباس، يقول:" إذا حرم امراته ليس بشيء، وقال: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21".(مرفوع) حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ، سَمِعَ الرَّبِيعَ بْنَ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ:" إِذَا حَرَّمَ امْرَأَتَهُ لَيْسَ بِشَيْءٍ، وَقَالَ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21".
مجھ سے حسن بن الصباح نے بیان کیا، انہوں نے ربیع بن نافع سے سنا کہ ہم سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے یعلیٰ بن حکیم نے، ان سے سعید بن جبیر نے، انہوں نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کہا تو یہ کوئی چیز نہیں اور فرمایا کہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی عمدہ پیروی ہے۔

Narrated Sa`id bin Jubair: that he heard Ibn `Abbas saying, "If a man makes his wife unlawful for him, it does not mean that she is divorced." He added, "Indeed in the Apostle of Allah , you have a good example to follow."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 191

حدیث نمبر: 5267
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني الحسن بن محمد بن صباح، حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: زعم عطاء انه سمع عبيد بن عمير، يقول: سمعت عائشة رضي الله عنها،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يمكث عند زينب بنت جحش ويشرب عندها عسلا، فتواصيت انا وحفصة ان ايتنا دخل عليها النبي صلى الله عليه وسلم فلتقل إني اجد منك ريح مغافير اكلت مغافير، فدخل على إحداهما، فقالت له ذلك، فقال: لا، بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش ولن اعود له، فنزلت يايها النبي لم تحرم ما احل الله لك إلى إن تتوبا إلى الله سورة التحريم آية 1 - 4 لعائشة وحفصة، وإذ اسر النبي إلى بعض ازواجه سورة التحريم آية 3 لقوله: بل شربت عسلا".(مرفوع) حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: زَعَمَ عَطَاءٌ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْتَقُلْ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا، بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَلَنْ أَعُودَ لَهُ، فَنَزَلَتْ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِلَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 1 - 4 لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ سورة التحريم آية 3 لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا".
مجھ سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے، ان سے ابن جریج نے کہ عطاء بن ابی رباح نے یقین کے ساتھ کہا کہ انہوں نے عبید بن عمیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں ٹھہرتے تھے اور ان کے یہاں شہد پیا کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے مل کر صلاح کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے جس کے یہاں بھی تشریف لائیں تو آپ سے یہ کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر (ایک خاص قسم کے بدبودار گوند) کی مہک آتی ہے، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد ہم میں سے ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك‏» کہ اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔ سے «‏‏‏‏إن تتوبا إلى الله‏» تک۔ یہ عائشہ رضی اللہ عنہما اور حفصہ رضی اللہ عنہما کی طرف خطاب ہے «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه‏» ۔ حدیث سے آپ کا یہی فرمانا مراد ہے کہ میں نے مغافیر نہیں کھایا بلکہ شہد پیا ہے۔

Narrated `Ubaid bin `Umar: I heard `Aisha saying, "The Prophet used to stay for a long while with Zanab bint Jahsh and drink honey at her house. So Hafsa and I decided that if the Prophet came to anyone of us, she should say him, "I detect the smell of Maghafir (a nasty smelling gum) in you. Have you eaten Maghafir?' " So the Prophet visited one of them and she said to him similarly. The Prophet said, "Never mind, I have taken some honey at the house of Zainab bint Jahsh, but I shall never drink of it anymore." So there was revealed: 'O Prophet ! Why do you ban (for you) that which Allah has made lawful for you . . . If you two (wives of Prophet) turn in repentance to Allah,' (66.1-4) addressing Aisha and Hafsa. 'When the Prophet disclosed a matter in confidence to some of his wives.' (66.3) namely his saying: But I have taken some honey."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 192

حدیث نمبر: 5268
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا فروة بن ابي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب العسل والحلواء، وكان إذا انصرف من العصر دخل على نسائه فيدنو من إحداهن، فدخل على حفصة بنت عمر فاحتبس اكثر ما كان يحتبس، فغرت فسالت عن ذلك، فقيل لي: اهدت لها امراة من قومها عكة من عسل، فسقت النبي صلى الله عليه وسلم منه شربة، فقلت: اما والله لنحتالن له، فقلت لسودة بنت زمعة: إنه سيدنو منك، فإذا دنا منك فقولي: اكلت مغافير؟ فإنه سيقول لك: لا، فقولي له: ما هذه الريح التي اجد منك، فإنه سيقول لك: سقتني حفصة شربة عسل، فقولي له: جرست نحله العرفط وساقول ذلك، وقولي انت يا صفية ذاك، قالت: تقول سودة: فوالله ما هو إلا ان قام على الباب فاردت ان اباديه بما امرتني به فرقا منك، فلما دنا منها، قالت له سودة: يا رسول الله، اكلت مغافير؟ قال: لا، قالت: فما هذه الريح التي اجد منك، قال: سقتني حفصة شربة عسل، فقالت: جرست نحله العرفط، فلما دار إلي قلت له نحو ذلك، فلما دار إلى صفية، قالت له مثل ذلك، فلما دار إلى حفصة، قالت: يا رسول الله، الا اسقيك منه؟ قال: لا حاجة لي فيه، قالت: تقول سودة: والله لقد حرمناه، قلت لها: اسكتي".(مرفوع) حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْعَسَلَ وَالْحَلْوَاءَ، وَكَانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنَ الْعَصْرِ دَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْ إِحْدَاهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ فَاحْتَبَسَ أَكْثَرَ مَا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَغِرْتُ فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ، فَقِيلَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةً مِنْ عَسَلٍ، فَسَقَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ، فَقُلْتُ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ: إِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَإِذَا دَنَا مِنْكِ فَقُولِي: أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: لَا، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيحُ الَّتِي أَجِدُ مِنْكَ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ وَسَأَقُولُ ذَلِكِ، وَقُولِي أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ ذَاكِ، قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَامَ عَلَى الْبَابِ فَأَرَدْتُ أَنْ أُبَادِيَهُ بِمَا أَمَرْتِنِي بِهِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا مِنْهَا، قَالَتْ لَهُ سَوْدَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ قَالَ: لَا، قَالَتْ: فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ الَّتِي أَجِدُ مِنْكَ، قَالَ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقَالَتْ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَارَ إِلَيَّ قُلْتُ لَهُ نَحْوَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَارَ إِلَى صَفِيَّةَ، قَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَارَ إِلَى حَفْصَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ؟ قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ، قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي".
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد اور میٹھی چیزیں پسند کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جب واپس آتے تو اپنی ازواج کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور بعض سے قریب بھی ہوتے تھے۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور معمول سے زیادہ دیر ان کے گھر ٹھہرے۔ مجھے اس پر غیرت آئی اور میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو ان کی قوم کی کسی خاتون نے انہیں شہد کا ایک ڈبہ دیا ہے اور انہوں نے اسی کا شربت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کیا ہے۔ میں نے اپنے جی میں کہا: اللہ کی قسم! میں تو ایک حیلہ کروں گی، پھر میں نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں گے اور جب آئیں تو کہنا کہ معلوم ہوتا ہے آپ نے مغافیر کھا رکھا ہے؟ ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں انکار کریں گے۔ اس وقت کہنا کہ پھر یہ بو کیسی ہے جو آپ کے منہ سے معلوم کر رہی ہوں؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے کہ حفصہ نے شہد کا شربت مجھے پلایا ہے۔ تم کہنا کہ غالباً اس شہد کی مکھی نے مغافیر کے درخت کا عرق چوسا ہو گا۔ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہوں گی اور صفیہ تم بھی یہی کہنا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سودہ رضی اللہ عنہ کہتی تھیں کہ اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جونہی دروازے پر آ کر کھڑے ہوئے تو تمہارے خوف سے میں نے ارادہ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بات کہوں جو تم نے مجھ سے کہی تھی۔ چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کے قریب تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا، پھر یہ بو کیسی ہے جو آپ کے منہ سے محسوس کرتی ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے۔ اس پر سودہ رضی اللہ عنہ بولیں اس شہد کی مکھی نے مغافیر کے درخت کا عرق چوسا ہو گا۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو میں نے بھی یہی بات کہی اس کے بعد جب صفیہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی اسی کو دہرایا۔ اس کے بعد جب پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ شہد پھر نوش فرمائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس پر سودہ بولیں، واللہ! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے میں کامیاب ہو گئے، میں نے ان سے کہا کہ ابھی چپ رہو۔

Narrated `Aisha: Allah's Apostle was fond of honey and sweet edible things and (it was his habit) that after finishing the `Asr prayer he would visit his wives and stay with one of them at that time. Once he went to Hafsa, the daughter of `Umar and stayed with her more than usual. I got jealous and asked the reason for that. I was told that a lady of her folk had given her a skin filled with honey as a present, and that she made a syrup from it and gave it to the Prophet to drink (and that was the reason for the delay). I said, "By Allah we will play a trick on him (to prevent him from doing so)." So I said to Sa`da bint Zam`a "The Prophet will approach you, and when he comes near you, say: 'Have you taken Maghafir (a bad-smelling gum)?' He will say, 'No.' Then say to him: 'Then what is this bad smell which i smell from you?' He will say to you, 'Hafsa made me drink honey syrup.' Then say: Perhaps the bees of that honey had sucked the juice of the tree of Al-`Urfut.' I shall also say the same. O you, Safiyya, say the same." Later Sa`da said, "By Allah, as soon as he (the Prophet ) stood at the door, I was about to say to him what you had ordered me to say because I was afraid of you." So when the Prophet came near Sa`da, she said to him, "O Allah's Apostle! Have you taken Maghafir?" He said, "No." She said. "Then what is this bad smell which I detect on you?" He said, "Hafsa made me drink honey syrup." She said, "Perhaps its bees had sucked the juice of Al-`Urfut tree." When he came to me, I also said the same, and when he went to Safiyya, she also said the same. And when the Prophet again went to Hafsa, she said, 'O Allah's Apostle! Shall I give you more of that drink?" He said, "I am not in need of it." Sa`da said, "By Allah, we deprived him (of it)." I said to her, "Keep quiet." '
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 193


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.