الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب الجهاد
كتاب الجهاد
حدیبیہ کا قصّہ
حدیث نمبر: 4042
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن المسور بن مخرمة ومروان بن الحكم قالا: خرج النبي صلى الله عليه وسلم عام الحديبية في بضع عشرة مائة من اصحابه فلما اتى ذا الحليفة قلد الهدي واشعر واحرم منها بعمرة وسار حتى إذا كان بالثنية التي يهبط عليهم منها بركت به راحلته فقال الناس: حل حل خلات القصواء خلات القصواء فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ما خلات القصواء وما ذاك لها بخلق ولكن حبسها حابس الفيل» ثم قال: «والذي نفسي بيده لا يسالوني خطة يعظمون فيها حرمات الله إلا اعطيتهم إياها» ثم زجرها فوثبت فعدل عنهم حتى نزل باقصى الحديبية على ثمد قليل الماء يتبرضه الناس تبرضا فلم يلبثه الناس حتى نزحوه وشكي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العطش فانتزع سهما من كنانته ثم امرهم ان يجعلوه فيه فو الله ما زال يجيش لهم بالري حتى صدروا عنه فبينا هم كذلك إذ جاء بديل بن ورقاء الخزاعي في نفر من خزاعة ثم اتاه عروة بن مسعود وساق الحديث إلى ان قال: إذ جاء سهيل بن عمرو فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اكتب: هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله. فقال سهيل: والله لو كنا نعلم انك رسول الله ما صددناك عن البيت ولا قاتلناك ولكن اكتب: محمد بن عبد الله فقال النبي صلى الله عليه وسلم: والله إني لرسول الله وإن كذبتموني اكتب: محمد بن عبد الله فقال سهيل: وعلى ان لا ياتيك منا رجل وإن كان على دينك إلا رددته علينا فلما فرغ من قضية الكتاب قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه: «قوموا فانحروا ثم احلقوا» ثم جاء نسوة مؤمنات فانزل الله تعالى: (يا ايها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات) الآية. فنهاهم الله تعالى ان يردوهن وامرهم ان يردوا الصداق ثم رجع إلى المدينة فجاءه ابو بصير رجل من قريش وهو مسلم فارسلوا في طلبه رجلين فدفعه إلى الرجلين فخرجا به حتى إذا بلغا ذا الحليفة نزلوا ياكلون من تمر لهم فقال ابو بصير لاحد الرجلين: والله إني لارى سيفك هذا يا فلان جيدا ارني انظر إليه فامكنه منه فضربه حتى برد وفر الآخر حتى اتى المدينة فدخل المسجد يعدو فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لقد راى هذا ذعرا» فقال: قتل والله صحابي وإني لمقتول فجاء ابو بصير فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ويل امه مسعر حرب لو كان له احد» فلما سمع ذلك عرف انه سيرده إليهم فخرج حتى اتى سيف البحر قال: وانفلت ابو جندل بن سهيل فلحق بابي بصير فجعل لا يخرج من قريش رجل قد اسلم إلا لحق بابي بصير حتى اجتمعت منهم عصابة فو الله ما يسمعون بعير خرجت لقريش إلى الشام إلا اعترضوا لها فقتلوهم واخذوا اموالهم فارسلت قريش إلى النبي صلى الله عليه وسلم تناشده الله والرحم لما ارسل إليهم فمن اتاه فهو آمن فارسل النبي صلى الله عليه وسلم إليهم. رواه البخاري عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَا: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَ وَأَحْرَمَ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ وَسَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبَطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ خَلَأَتِ القَصْواءُ خلأت الْقَصْوَاء فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ وَمَا ذَاكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ» ثُمَّ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي خُطَّةً يُعَظِّمُونَ فِيهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا» ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ يَتَبَرَّضُهُ النَّاسُ تَبَرُّضًا فَلَمْ يَلْبَثْهُ النَّاسُ حَتَّى نَزَحُوهُ وَشُكِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَطَشَ فَانْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهُ فِيهِ فو الله مَا زَالَ يَجِيشُ لَهُمْ بِالرِّيِّ حَتَّى صَدَرُوا عَنْهُ فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الخزاعيُّ فِي نفَرٍ منْ خُزَاعَةَ ثُمَّ أَتَاهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَسَاقَ الْحَدِيثَ إِلَى أَنْ قَالَ: إِذْ جَاءَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ. فَقَالَ سُهَيْلٌ: وَاللَّهِ لَوْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا صَدَدْنَاكَ عَنِ الْبَيْتِ وَلَا قَاتَلْنَاكَ وَلَكِنِ اكْتُبْ: مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَرَسُولُ اللَّهِ وَإِنْ كَذَّبْتُمُونِي اكْتُبْ: مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ سُهَيْلٌ: وَعَلَى أَنْ لَا يَأْتِيَكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كانَ على دينِكَ إِلاَّ ردَدْتَه علينا فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «قُومُوا فَانْحَرُوا ثُمَّ احْلِقُوا» ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا جاءكُم المؤمناتُ مهاجِراتٌ) الْآيَةَ. فَنَهَاهُمُ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ وَهُوَ مُسْلِمٌ فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ رَجُلَيْنِ فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى إِذَا بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ يَعْدُو فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ رأى هَذَا ذُعراً» فَقَالَ: قُتِلَ واللَّهِ صَحَابِيّ وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ» فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سِيفَ الْبَحْرِ قَالَ: وَانْفَلَتَ أَبُو جَنْدَلِ بْنُ سُهَيْلٍ فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ فَجَعَلَ لَا يَخْرُجُ مِنْ قُرَيْشٍ رَجُلٌ قَدْ أَسْلَمَ إِلَّا لَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ فو الله مَا يَسْمَعُونَ بِعِيرٍ خَرَجَتْ لِقُرَيْشٍ إِلَى الشَّامِ إِلَّا اعْتَرَضُوا لَهَا فَقَتَلُوهُمْ وَأَخَذُوا أَمْوَالَهُمْ فَأَرْسَلَتْ قُرَيْشٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُنَاشِدُهُ اللَّهَ وَالرَّحِمَ لَمَّا أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَمَنْ أَتَاهُ فَهُوَ آمِنٌ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم إِلَيْهِم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صلح حدیبیہ کے سال اپنے ہزار سے چند سینکڑے زیادہ صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قربانی کے جانوروں کے گلے میں قلادہ ڈالا، قربانی کا نشان لگایا اور اسی جگہ سے عمرہ کا احرام باندھا، اور چل پڑے حتی کہ جب آپ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے اتر کر اہل مکہ تک پہنچا جاتا تھا، وہاں آپ کی سواری آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے، حل، حل کہہ کر اٹھانے کی کوشش کی اور کہا کہ قصواء کسی عذر کے بغیر اڑی کر گئی، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قصواء نے اڑی نہیں کی اور اس کا یہ مزاج بھی نہیں، لیکن ہاتھیوں کو روکنے والے نے اسے روک لیا ہے۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ اللہ کی حرمات کی تعظیم کرنے کے متعلق مجھ سے جو مطالبہ کریں گے میں وہی تسلیم کر لوں گا۔ پھر آپ نے اونٹنی کو ڈانٹا اور وہ تیزی کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی، آپ اہل مکہ کی گزر گاہ چھوڑ کر حدیبیہ کے آخری کنارے پر اترے جہاں برائے نام پانی تھا، لوگ وہاں سے تھوڑا تھوڑا پانی حاصل کرنے لگے اور تھوڑی دیر میں انہوں نے سارا پانی اس کنویں سے کھینچ لیا اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی تو آپ نے اپنے ترکش سے تیر نکالا، پھر انہیں حکم فرمایا کہ وہ اسے اس (پانی) میں رکھ دیں، اللہ کی قسم! ان کے لیے پانی خوب ابلتا رہا حتی کہ وہ اس جگہ سے آسودہ ہو کر واپس ہوئے، وہ اسی اثنا میں تھے کہ ہدیل بن ورقاء الخزاعی خزاعہ کے کچھ لوگوں کے ساتھ آیا، پھر عروہ بن مسعود آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، اور حدیث کو آگے بیان کیا، کہ سہیل بن عمرو آیا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صلح کی۔ (اس پر) سہیل نے کہا: اگر ہمیں یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، تو ہم آپ کو بیت اللہ سے کیوں روکتے اور آپ سے قتال کیوں کرتے؟ بلکہ آپ محمد بن عبداللہ لکھیں، راوی بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم نے میری تکذیب کی ہے، (اچھا) لکھو، محمد بن عبداللہ، پھر سہیل نے کہا: اور اس شرط پر معاہدہ ہے کہ اگر ہماری طرف سے کوئی آدمی، خواہ وہ آپ کے دین پر ہو، آپ کے پاس آئے گا؟ آپ اسے ہمیں لوٹائیں گے، جب تحریر سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، قربانی کرو، پھر سر منڈاؤ۔ پھر مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: اسے اہل ایمان جب مومن عورتیں ہجرت کر کے آپ کے پاس آئیں ..... اللہ تعالیٰ نے انہیں منع فرمایا کہ وہ ان (مومن عورتوں) کو (کفار کی طرف) واپس نہ کریں، اور انہیں حکم فرمایا کہ وہ حق مہر واپس کر دیں، پھر آپ مدینہ تشریف لے آئے تو قریش کے ابوبصیر، جو کہ مسلمان تھے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، قریش نے ان کی تلاش میں دو آدمی بھیجے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں ان کے حوالے کر دیا، وہ انہیں لے کر وہاں سے روانہ ہوئے حتی کہ جب وہ ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے وہاں پڑاؤ ڈالا اور کھجوریں کھانے لگے، ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں میں سے ایک سے کہا: اے فلاں! اللہ کی قسم! تمہاری یہ تلوار بہت عمدہ ہے، مجھے دکھاؤ میں بھی دیکھوں، اس شخص نے ان کو (تلوار) دے دی تو انہوں نے اسے ایک ایسی ضرب لگائی کہ اس کا کام تمام کر دیا جبکہ دوسرا فرار ہو کر مدینہ پہنچ گیا اور دوڑتا ہوا مسجد نبوی میں داخل ہو گیا نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس شخص نے کوئی خوف زدہ منظر دیکھا ہے۔ اور اس نے کہا: اللہ کی قسم! میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور میں قتل کیا ہی جانے والا ہوں، اتنے میں ابوبصیر بھی آ گئے تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی ماں برباد ہو، اگر ساتھی مل جائے تو یہ لڑائی کی آگ بھڑکا دے گا۔ جب انہوں نے سنا تو وہ سمجھ گئے کہ آپ مجھے ان کے حوالے کر دیں گے، وہ وہاں سے نکل کر ساحل سمندر پر آ گئے، راوی بیان کرتے ہیں، ابوجندل بن سہل رضی اللہ عنہ بھی (مکہ سے) بھاگے اور ابوبصیر سے آ ملے، اب قریش کا جو بھی آدمی اسلام لا کر بھاگتا تو وہ ابوبصیر سے آ ملتا، حتی کہ ان کی ایک جماعت بن گئی، اللہ کی قسم! ان کو ملک شام کے لیے روانہ ہونے والے کسی بھی قریشی قافلے کا پتہ چلتا تو وہ اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے، انہیں قتل کرتے اور ان کا مال چھین لیتے، قریش نے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اللہ اور رشتہ داری کا واسطہ دیتے ہوئے یہ پیغام بھیجا کہ آپ انہیں اپنے پاس بُلا لیں۔ اب جو شخص آپ کے پاس آ جائے تو وہ مامون رہے گا، (اس پر) نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں (اپنے پاس) بُلا بھیجا۔ رواہ البخاری۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (1694)»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.