الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ
کتاب: نذروں کے بیان میں
1. بَابُ مَا يَجِبُ مِنَ النُّذُورِ فِي الْمَشْيِ
پیدل چلنے کی نذروں کا بیان
حدیث نمبر: 1009
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن عبد الله بن عباس ، ان سعد بن عبادة استفتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن امي ماتت وعليها نذر ولم تقضه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقضه عنها" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرٌ وَلَمْ تَقْضِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْضِهِ عَنْهَا"
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ میری ماں مر گئی اور اس پر ایک نذر واجب تھی اس نے ادا نہیں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ادا کرو اس کی طرف سے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2761، 6698، 6959، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1638، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3307، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1546، والنسائي: 3848، وابن ماجه: 3132، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1893، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 1»
حدیث نمبر: 1010
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن عمته انها حدثته، عن جدته انها كانت جعلت على نفسها مشيا إلى مسجد قباء، فماتت، ولم تقضه فافتى عبد الله بن عباس ابنتها، ان تمشي عنها" .وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَمَّتِهِ أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ، عَنْ جَدَّتِهِ أَنَّهَا كَانَتْ جَعَلَتْ عَلَى نَفْسِهَا مَشْيًا إِلَى مَسْجِدِ قُبَاءٍ، فَمَاتَتْ، وَلَمْ تَقْضِهِ فَأَفْتَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ابْنَتَهَا، أَنْ تَمْشِيَ عَنْهَا" .
حضرت عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا اپنی پھوپھی سے، انہوں نے بیان کیا کہ ان کی دادی نے نذر کی مسجدِ قباء میں پیدل جانے کی، پھر مر گئیں اور اس نذر کو ادا نہیں کیا۔ تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کی بیٹی کو حکم کیا کہ وہ ان کی طرف سے اس نذر کو ادا کریں۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 2»
حدیث نمبر: 1010ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال يحيى: وسمعت مالكا، يقول: لا يمشي احد عن احدقَالَ يَحْيَى: وَسَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: لَا يَمْشِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: کوئی کسی کی طرف سے پیدل چلنے کی نذر ادا نہ کرے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 2»
حدیث نمبر: 1011
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن عبد الله بن ابي حبيبة ، قال: قلت لرجل وانا حديث السن ما على الرجل، ان يقول: علي مشي إلى بيت الله، ولم يقل علي نذر مشي، فقال لي رجل: هل لك ان اعطيك هذا الجرو لجرو قثاء في يده، وتقول علي مشي إلى بيت الله، قال: فقلت: نعم، فقلته وانا يومئذ حديث السن، ثم مكثت حتى عقلت، فقيل لي: إن عليك مشيا، فجئت سعيد بن المسيب ، فسالته عن ذلك، فقال لي: " عليك مشي فمشيت" .
قال مالك: وهذا الامر عندنا
وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِرَجُلٍ وَأَنَا حَدِيثُ السِّنِّ مَا عَلَى الرَّجُلِ، أَنْ يَقُولَ: عَلَيَّ مَشْيٌ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، وَلَمْ يَقُلْ عَلَيَّ نَذْرُ مَشْيٍ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ: هَلْ لَكَ أَنْ أُعْطِيَكَ هَذَا الْجِرْوَ لِجِرْوِ قِثَّاءٍ فِي يَدِهِ، وَتَقُولُ عَلَيَّ مَشْيٌ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقُلْتُهُ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ، ثُمَّ مَكَثْتُ حَتَّى عَقَلْتُ، فَقِيلَ لِي: إِنَّ عَلَيْكَ مَشْيًا، فَجِئْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ لِي: " عَلَيْكَ مَشْيٌ فَمَشَيْتُ" .
قَالَ مَالِك: وَهَذَا الْأَمْرُ عِنْدَنَا
حضرت عبداللہ بن ابی حبیبہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا ایک شخص سے اور میں کم سن تھا کہ اگر کوئی شخص صرف اتنا ہی کہے کہ «عَلَيَّ مَشْيٌ إِلَى بَيْتِ اللّٰهِ» یعنی میرے اوپر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک، اور یہ نہیں کہے کہ میرے اوپر نذر ہے پیدل چلنے کی بیت اللہ تک، تو اس پر کچھ لازم نہیں آتا۔ وہ شخص مجھ سے بولا کہ میرے ہاتھ میں یہ ککڑی ہے تجھے دیتا ہوں، تو اتنا کہہ دے کہ میرے اوپر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک، میں نے کہا: ہاں، کہتا ہوں، تو میں نے کہہ دیا اور میں کم سن تھا۔ پھر ٹھہر کر تھوڑی دیر میں مجھے عقل آئی اور لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تجھ پر پیدل چلنا بیت اللہ تک واجب ہوا۔ میں سعید بن مسیّب کے پاس آیا اور ان سے پوچھا، انہوں نے بھی کہا کہ تجھ پر پیدل چلنا واجب ہوا بیت اللہ تک، تو میں پیدل چلا بیت اللہ تک۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البخاری فى «تاريخ الكبير» برقم: 75/4 وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم:12337، 12421، فواد عبدالباقي نمبر: 22 - كِتَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ-ح: 3»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.