الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Chapters Regarding Zakat
17. بَابُ: صَدَقَةِ الزُّرُوعِ وَالثِّمَارِ
باب: غلوں اور پھلوں کی زکاۃ کا بیان۔
Chapter: Sadaqah due on crops and fruits
حدیث نمبر: 1816
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى ابو موسى الانصاري ، حدثنا عاصم بن عبد العزيز بن عاصم ، حدثنا الحارث بن عبد الرحمن بن عبد الله بن سعد بن ابي ذباب ، عن سليمان بن يسار ، وعن بسر بن سعيد ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فيما سقت السماء، والعيون العشر، وفيما سقي بالنضح نصف العشر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غلہ بارش یا چشمہ کے پانی سے پیدا ہوتا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ کا ہے، اور جو غلہ پانی سینچ کر پیدا ہو اس میں بیسواں حصہ زکاۃ ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزکاة 14 (639)، (تحفة الأشراف: 12208، 13483) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اوپر کی حدیث میں آیا ہے کہ زکاۃ پانچ چیزوں میں ہے: گیہوں، جو، کھجور، انگور اور مکئی، اس میں مزید آسانی یہ ہے کہ یہ (عشر اور نصف عشر) دسواں اور بیسواں حصہ بھی صرف انہیں پانچ چیزوں سے لیا جائے گا جن کا ذکر اوپر ہوا، باقی تمام غلے اور میوہ جات،پھل پھول اور سبزیاں و ترکاریاں وغیرہ وغیرہ میں زکاۃ معاف ہے، اور ایک شرط یہ بھی ہے یہ پانچ چیزیں بھی پانچ وسق یعنی (۷۵۰) کلو گرام اور بقول شیخ عبداللہ البسام (۹۰۰ کلو گرام) سے کم نہ ہوں، ورنہ ان میں بھی زکاۃ معاف ہو گی، لیکن امام ابوحنیفہ اس حدیث سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ جملہ پیداوار میں دسواں اور بیسواں حصہ ہے کیونکہ «ماسقت السماء» کا لفظ عام ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں: احادیث میں تطبیق دینا ضروری ہے اور جب غور سے دیکھو تو کوئی تعارض نہیں ہے، اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ بارش سے ہونے والی زراعت (کھیتی) میں دسواں حصہ ہے، کنویں اور نہر سے سینچی جانے والی زراعت میں بیسواں حصہ، (اس لیے کہ اس میں آدمی کو پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور محنت بھی) لیکن اس میں اموال زکاۃ اور مقدار نصاب کی تصریح نہیں ہے، یہ تصریح دوسری احادیث میں وارد ہے کہ زکاۃ صرف پانچ چیزوں میں ہے اور پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں ہے تو یہ عام اسی خاص پر محمول ہو گا۔

Abu Hurairah narrated that: the Messenger of Allah (ﷺ) said: “For crops that are irrigated by the sky (i.e. rain) and springs, one-tenth. For those that are irrigated by watering, one half of one-tenth.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1817
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هارون بن سعيد المصري ابو جعفر ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" فيما سقت السماء، والانهار، والعيون، او كان بعلا العشر، وفيما سقي بالسواني نصف العشر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْمِصْرِيُّ أَبُو جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَالْأَنْهَارُ، وَالْعُيُونُ، أَوْ كَانَ بَعْلًا الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي نِصْفُ الْعُشْرِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو غلہ اور پھل بارش، نہر، چشمہ یا زمین کی تری (سیرابی) سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جسے جانوروں کے ذریعہ سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 55 (1483)، سنن ابی داود/الزکا ة 11 (1596)، سنن الترمذی/الزکاة 14 (640)، سنن النسائی/الزکاة 25 (2490)، (تحفة الأشراف: 6977) (صحیح)» ‏‏‏‏

Salim narrated that: that his Father said: “I heard the Messenger of Allah say: 'For whatever is irrigated by the sky, rivers and springs, or draws up water from deep roots, one-tenth. For whatever is irrigated by animals (i.e. by artificial means) one half of one-tenth.' ”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1818
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي بن عفان ، حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن ابي وائل ، عن مسروق ، عن معاذ بن جبل ، قال:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، وامرني ان آخذ مما سقت السماء، وما سقي بعلا العشر، وما سقي بالدوالي نصف العشر"، قال يحيى بن آدم: البعل، والعثري، والعذي هو الذي يسقى بماء السماء، والعثري ما يزرع للسحاب، وللمطر خاصة ليس يصيبه إلا ماء المطر، والبعل ما كان من الكروم قد ذهبت عروقه في الارض إلى الماء، فلا يحتاج إلى السقي الخمس سنين، والست يحتمل ترك السقي فهذا البعل، والسيل ماء الوادي إذا سال، والغيل سيل دون سيل.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِمَّا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَمَا سُقِيَ بَعْلًا الْعُشْرَ، وَمَا سُقِيَ بِالدَّوَالِي نِصْفَ الْعُشْرِ"، قَالَ يَحْيَى بْنُ آدَمَ: الْبَعْلُ، وَالْعَثَرِيُّ، وَالْعَذْيُ هُوَ الَّذِي يُسْقَى بِمَاءِ السَّمَاءِ، وَالْعَثَرِيُّ مَا يُزْرَعُ لِلسَّحَابِ، وَلِلمَطَرِ خَاصَّةً لَيْسَ يُصِيبُهُ إِلَّا مَاءُ الْمَطَرِ، وَالْبَعْلُ مَا كَانَ مِنَ الْكُرُومِ قَدْ ذَهَبَتْ عُرُوقُهُ فِي الْأَرْضِ إِلَى الْمَاءِ، فَلَا يَحْتَاجُ إِلَى السَّقْيِ الْخَمْسَ سِنِينَ، وَالسِّتَّ يَحْتَمِلُ تَرْكَ السَّقْيِ فَهَذَا الْبَعْلُ، وَالسَّيْلُ مَاءُ الْوَادِي إِذَا سَالَ، وَالْغَيْلُ سَيْلٌ دُونَ سَيْلٍ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا، اور حکم دیا کہ جو پیداوار بارش کے پانی سے ہو اور جو زمین کی تری سے ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ لوں، اور جو چرخی کے پانی سے ہو اس میں بیسواں حصہ لوں۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں: «بعل»، «عثری» اور «عذی» وہ زراعت (کھیتی) ہے جو بارش کے پانی سے سیراب کی جائے، اور «عثری» اس زراعت کو کہتے ہیں: جو خاص بارش کے پانی سے ہی بوئی جائے اور دوسرا پانی اسے نہ پہنچے، اور «بعل» وہ انگور ہے جس کی جڑیں زمین کے اندر پانی تک چلی گئی ہوں اور اوپر سے پانچ چھ سال تک پانی دینے کی حاجت نہ ہو، بغیر سینچائی کے کام چل جائے، اور «سیل» کہتے ہیں وادی کے بہتے پانی کو، اور «غیل» کہتے ہیں چھوٹے «سیل» کو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11364)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الزکاة 25 (2492)، مسند احمد (5/233)، سنن الدارمی/الزکاة 29 (1709) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: «سیل» اور «غیل» دونوں کو اسی لئے بیان کیا کہ بعض روایتوں میں «غیل» کی جگہ «سیل» ہے، مطلب یہ ہے کہ جو زراعت «سیل» (سیلاب) کے پانی سے پیدا ہو اس میں دسواں حصہ لازم ہو گا کیونکہ وہ بارش والے پانی کی زراعت کے مثل ہے۔

It was narrated that: Mu'adh bin Jabal said: “The Messenger of Allah (ﷺ) sent me to Yemen and commanded me to take one-tenth of that which was irrigated by deep roots, and to take one half of one-tenth of that which was irrigated by means of buckets.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.