الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الفرائض
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
Chapters on Shares of Inheritance
2. بَابُ: فَرَائِضِ الصُّلْبِ
باب: (میراث میں) اولاد کے حصوں کا بیان۔
Chapter: Shares for descendants
حدیث نمبر: 2720
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن ابي عمر العدني ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن جابر بن عبد الله ، قال: جاءت امراة سعد بن الربيع بابنتي سعد إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله هاتان ابنتا سعد قتل معك يوم احد وإن عمهما اخذ جميع ما ترك ابوهما، وإن المراة لا تنكح إلا على مالها، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انزلت آية الميراث، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم اخا سعد بن الربيع فقال:" اعط ابنتي سعد ثلثي ماله واعط امراته الثمن وخذ انت ما بقي".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْ سَعْدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدٍ قُتِلَ مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ جَمِيعَ مَا تَرَكَ أَبُوهُمَا، وَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَا تُنْكَحُ إِلَّا عَلَى مَالِهَا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أُنْزِلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ فَقَالَ:" أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ ثُلُثَيْ مَالِهِ وَأَعْطِ امْرَأَتَهُ الثُّمُنَ وَخُذْ أَنْتَ مَا بَقِيَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی ان کی دونوں بیٹیوں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں، جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں تھے اور شہید ہو گئے، ان کے چچا نے ان کی ساری میراث پر قبضہ کر لیا (اب ان بچیوں کی شادی کا معاملہ ہے) اور عورت سے مال کے بغیر کوئی شادی نہیں کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ میراث والی آیت نازل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بھائی کو طلب کیا اور فرمایا: سعد کی دونوں بیٹیوں کو ان کے مال کا دو تہائی حصہ اور ان کی بیوی کو آٹھواں حصہ دے دو، پھر جو بچے وہ تم لے لو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 4 (2891، 2892)، سنن الترمذی/الفرائض 3 (2092)، (تحفة الأشراف: 2365)، وقد أخرجہ: مسند احمد3/352) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عبد اللہ بن محمد عقیل منکر الحدیث راوی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 2573- 2574)

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 2721
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي قيس الاودي ، عن الهزيل بن شرحبيل ، قال: جاء رجل إلى ابي موسى الاشعري، وسلمان بن ربيعة الباهلي فسالهما عن ابنة، وابنة ابن واخت لاب، وام، فقالا: للابنة النصف وما بقي فللاخت، وائت ابن مسعود فسيتابعنا فاتى الرجل ابن مسعود فساله واخبره بما، قالا، فقال عبد الله: قد ضللت إذا وما انا ولكني ساقضي بما قضى به من المهتدين رسول الله صلى الله عليه وسلم:" للابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وما بقي فللاخت".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ الْأَوْدِيِّ ، عَنِ الْهُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ الْبَاهِلِيِّ فَسَأَلَهُمَا عَنِ ابْنَةٍ، وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ لِأَبٍ، وَأُمٍّ، فَقَالَا: لِلِابْنَةِ النِّصْفُ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ، وَائْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنَا فَأَتَى الرَّجُلُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَأَلَهُ وَأَخْبَرَهُ بِمَا، قَالَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا وَلَكِنِّي سَأَقْضِي بِمَا قَضَى بِهِ مِنَ الْمُهْتَدِينَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِلِابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ".
ہذیل بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری اور سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے اس نے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کے (حصہ کے) بارے میں پوچھا، تو ان دونوں نے کہا: آدھا بیٹی کے لیے ہے، اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے، لیکن تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، اور ان سے بھی معلوم کر لو، وہ بھی ہماری تائید کریں گے، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی مسئلہ معلوم کیا، نیز بتایا کہ ابوموسیٰ اشعری، اور سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما نے یہ بات بتائی ہے، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں ایسا حکم دوں تو گمراہ ہو گیا، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا، لیکن میں وہ فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، بیٹی کے لیے آدھا، اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس طرح دو تہائی پورے ہو جائیں، اور جو ایک تہائی بچا وہ بہن کے لیے ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفرائض 8 (6736)، سنن ابی داود/الفرائض 4 (2890)، سنن الترمذی/الفرائض 4 (2093)، (تحفة الأشراف: 9594)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/389، 428، 440، 463)، سنن الدارمی/الفرائض 7 (2932) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی ترکہ کے مال کو چھ حصوں میں بانٹ دیا جائے، تین حصہ بیٹی کو، ایک پوتی کو اور دو حصے بہن کو ملیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مرنے والے کی ایک لڑکی کے ساتھ اس کی پوتیاں بھی ہوں یا ایک ہی پوتی ہو تو آدھا حصہ بیٹی کو ملے گا اور دو تہائی ۲-۳ پوتیوں پر برابر تقسیم ہو جائے گا، اور بہنیں بیٹی کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہیں یعنی بیٹیوں کے حصہ سے جو بچ رہے وہ بہنوں کو مل جاتا ہے، دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سنا تو کہا کہ مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے، اور جمہور علماء اس فتوی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں، لیکن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ بیٹی کے ہوتے ہوئے بہن میراث سے محروم ہوجاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاہے: «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة إن امرؤ هلك ليس له ولد وله أخت فلها نصف ما ترك وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد فإن كانتا اثنتين فلهما الثلثان مما ترك وإن كانوا إخوة رجالا ونساء فللذكر مثل حظ الأنثيين» (سورة النساء: 176) اے رسول! لوگ آپ سے (کلالہ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ خود تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے،اگر کوئی آدمی مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ اس بہن کو (حقیقی ہو یا علاتی) ترکہ ملے گا، اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا، اگر اولاد نہ ہو پس اگر دو بہنیں ہوں تو انہیں ترکہ کا دو تہائی ملے گا، اور اگر کئی شخص اس رشتہ کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے عورتوں کے دوگنا حصہ ہے) اور ولد کا لفظ عام ہے، بیٹا اور بیٹی دونوں کو شامل ہے، تو معلوم ہوا کہ بہن دونوں سے محروم ہو جاتی ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ ولد سے یہاں بیٹا مراد ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے یوں فرمایا: «وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد» (سورة النساء: 176) ... اور اگر وہ بہن مر جائے تو یہ بھائی اس کا وارث ہو گا، بشرطیکہ اس مرنے والی بہن کی اولاد نہ ہو (اور نہ ہی باپ) ... اور یہاں بالاجماع ولد سے بیٹا مراد ہے، اس لئے کہ اجماعاً مرنے والی کی لڑکی بھائی کو محروم نہیں کر سکتی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح خ المرفوع منه فقط

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.