الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
The Book of Prayer - Travellers
حدیث نمبر: 1730
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني هناد بن السري ، حدثنا ابو الاحوص ، عن اشعث ، عن ابيه ، عن مسروق ، قال: سالت عائشة ، عن عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: كان يحب الدائم، قال: قلت: اي حين كان يصلي؟ فقالت: " كان إذا سمع الصارخ، قام فصلى ".حَدَّثَنِي هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، عَنْ عَمَلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كَانَ يُحِبُّ الدَّائِمَ، قَالَ: قُلْتُ: أَيَّ حِينٍ كَانَ يُصَلِّي؟ فَقَالَتْ: " كَانَ إِذَا سَمِعَ الصَّارِخَ، قَامَ فَصَلَّى ".
مسروق نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: آپ کو ہمیشہ کیا جانے والا عمل پسند تھا۔ میں نے کہا: آپ کس و قت نماز پڑھتے تھے؟تو انہو ں نے کہا: جب آپ مرغ کی آواز سنتے تو کھڑے ہوجاتے اور نماز پڑھتے۔
مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم عمل پر دوام و ہمیشگی کو پسند فرماتے تھے، میں نے پوچھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کس وقت نماز پڑھتے تھے؟ تو کہا، جب مرغ اذان دیتا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر نماز پڑھتے۔
حدیث نمبر: 1731
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب ، اخبرنا ابن بشر ، عن مسعر ، عن سعد ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، قالت: " ما الفى رسول الله صلى الله عليه وسلم السحر الاعلى في بيتي او عندي، إلا نائما ".حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا أَلْفَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّحَرُ الأَعْلَى فِي بَيْتِي أَوْ عِنْدِي، إِلَّا نَائِمًا ".
ابو سلمہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ر وایت کی، انھوں نے کہا: سحر کے آخری حصے (جب طلوع فجر سے بالکل پہلے سحر اپنی انتہا پر ہوتی ہے) نے میرے گھر میں یا میرے پاس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوئے ہوئے ہی پایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے ہمیشہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے آخری حصہ میں اپنے گھر میں یا اپنے پاس سوئے ہوئے پایا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے آخری حصہ میں، میرے گھر میں یا میرے پاس سوئے ہوئے پایا۔)
حدیث نمبر: 1732
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ونصر بن علي ، وابن ابي عمر ، قال ابو بكر: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابي النضر ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم، " إذا صلى ركعتي الفجر، فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً حَدَّثَنِي وَإِلَّا اضْطَجَعَ ".
ابو نضر نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگتی ہوتی میرے ساتھ گفتگو فرماتے، ورنہ لیٹ جاتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جا گتی ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو فرماتے، ورنہ (اگر میں بیدار نہ ہوتی) آپصلی اللہ علیہ وسلم لیٹ جاتے۔
حدیث نمبر: 1733
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن زياد بن سعد ، عن ابن ابي عتاب ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَتَّابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَة ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
ابن ابی عتاب نے ابو سلمہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی۔
امام صاحب ایک دوسری سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1734
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن تميم بن سلمة ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يصلي من الليل، فإذا اوتر، قال: قومي فاوتري يا عائشة ".وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " يُصَلِّي منَ اللَّيْلِ، فَإِذَا أَوْتَرَ، قَالَ: قُومِي فَأَوْتِرِي يَا عَائِشَةُ ".
عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے رہتے، جب وتر پڑھنے لگتے تو فرماتے: "عائشہ! اٹھو اور وتر پڑھ لو۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو جب وتر پڑھنے لگتے تو فرماتے: اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! اٹھو اور وتر پڑھ لو۔
حدیث نمبر: 1735
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني سليمان بن بلال ، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " كان يصلي صلاته بالليل، وهي معترضة بين يديه، فإذا بقي الوتر، ايقظها فاوترت ".وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " كَانَ يُصَلِّي صَلَاتَهُ بِاللَّيْلِ، وَهِيَ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَإِذَا بَقِيَ الْوِتْرُ، أَيْقَظَهَا فَأَوْتَرَتْ ".
قاسم بن محمد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنی نماز پڑھتے اور وہ (عائشہ رضی اللہ عنہا) آپ کے سامنے لیٹی ہوتی تھیں، جب آپ کے وتر باقی رہ جاتے تو آپ انھیں جگا دیتے اور وہ وتر پڑھ لیتیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنی نماز پڑھتے اور وہ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض میں لیٹی ہوتیں، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وتر باقی ہوتےتو آپصلی اللہ علیہ وسلم انہیں جگا دیتے اور وہ وتر پڑھ لیتیں۔
حدیث نمبر: 1736
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا سفيان بن عيينة ، عن ابي يعفور واسمه واقد ولقبه وقدان . ح، وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش كلاهما ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " من كل الليل قد اوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانتهى وتره إلى السحر ".وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ وَاسْمُهُ وَاقِدٌ وَلَقَبُهُ وَقْدَانُ . ح، وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ كِلَاهُمَا ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ ".
مسلم (بن صبیح) نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر (یارات) کی نماز پڑھی، (لیکن عموماً) آپ کے وتر سحری کے وقت تک پہنچتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں وتر پڑھتے ہیں اور اخیر میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وترسحری کے وقت کو پہنچ گئے۔
حدیث نمبر: 1737
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، قالا: حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن ابي حصين ، عن يحيى بن وثاب ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " من كل الليل قد اوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، من اول الليل، واوسطه، وآخره، فانتهى وتره إلى السحر ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ، وَأَوْسَطِهِ، وَآخِرِهِ، فَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ ".
یحییٰ بن وثاب نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر (رات) کی نماز پڑھی، رات کے ابتدائی حصے میں بھی، درمیان میں بھی اور آخر میں بھی، آپ کے وتر (کے اوقات) سحری تک جاتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں وتر پڑھے ہیں، رات کے ابتدائی حصہ میں درمیان میں اور آخر میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وتر صبح سحری کے وقت تک کو پہنچ گئے۔
حدیث نمبر: 1738
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني علي بن حجر ، حدثنا حسان قاضي كرمان ، عن سعيد بن مسروق ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " كل الليل قد اوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانتهى وتره إلى آخر الليل ".حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ قَاضِي كِرْمَانَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كُلَّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى آخِرِ اللَّيْلِ ".
ابو ضحیٰ نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کےہرحصے میں وتر پڑھے ہیں، (لیکن عموماً) آپ کے وتر رات کے آخری حصے تک چلتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں وتر پڑھے ہیں اور آخر میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وتر رات کے آخری حصہ کو پہنچ گئے یا وتر کی انتہا آخری حصہ پر ہوئی ہے۔
18. باب جَامِعِ صَلاَةِ اللَّيْلِ وَمَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ:
18. باب: رات کی نماز کے احکام اور جس سے سونے یا بیمار ہونے کی وجہ سے رہ جائے۔
Chapter: Night prayer, and the one who sleeps and misses it or is sick
حدیث نمبر: 1739
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى العنزي ، حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن زرارة ، ان سعد بن هشام بن عامر اراد ان يغزو في سبيل الله، فقدم المدينة، فاراد ان يبيع عقارا له بها، فيجعله في السلاح والكراع، ويجاهد الروم حتى يموت، فلما قدم المدينة، لقي اناسا من اهل المدينة فنهوه عن ذلك، واخبروه ان رهطا ستة ارادوا ذلك في حياة نبي الله صلى الله عليه وسلم، فنهاهم نبي الله صلى الله عليه وسلم، وقال:" اليس لكم في اسوة، فلما حدثوه بذلك، راجع امراته وقد كان طلقها واشهد على رجعتها، فاتى ابن عباس، فساله عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابن عباس: الا ادلك على اعلم اهل الارض بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: من؟ قال: عائشة، فاتها فاسالها، ثم ائتني فاخبرني بردها عليك، فانطلقت إليها، فاتيت على حكيم بن افلح، فاستلحقته إليها، فقال: ما انا بقاربها، لاني نهيتها ان تقول في هاتين الشيعتين شيئا، فابت فيهما إلا مضيا، قال: فاقسمت عليه، فجاء فانطلقنا إلى عائشة فاستاذنا عليها، فاذنت لنا فدخلنا عليها، فقالت: احكيم، فعرفته؟ فقال: نعم، فقالت: من معك؟ قال: سعد بن هشام، قالت: من هشام؟ قال: ابن عامر، فترحمت عليه، وقالت: خيرا، قال قتادة وكان اصيب يوم احد: فقلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: الست تقرا القرآن؟ قلت: بلى، قالت: فإن خلق نبي الله صلى الله عليه وسلم، كان القرآن، قال: فهممت ان اقوم ولا اسال احدا عن شيء حتى اموت، ثم بدا لي، فقلت: انبئيني عن قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: الست تقرا يايها المزمل سورة المزمل آية 1؟ قلت: بلى، قالت: فإن الله عز وجل، افترض قيام الليل في اول هذه السورة، فقام نبي الله صلى الله عليه وسلم، واصحابه حولا، وامسك الله خاتمتها اثني عشر شهرا في السماء، حتى انزل الله في آخر هذه السورة التخفيف، فصار قيام الليل تطوعا بعد فريضة، قال: قلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت:" كنا نعد له، سواكه، وطهوره، فيبعثه الله ما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك، ويتوضا، ويصلي تسع ركعات، لا يجلس فيها إلا في الثامنة، فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم ينهض، ولا يسلم، ثم يقوم فيصلي التاسعة، ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه، ثم يسلم تسليما يسمعنا، ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد، وتلك إحدى عشرة ركعة، يا بني، فلما اسن نبي الله صلى الله عليه وسلم واخذ اللحم، اوتر بسبع وصنع في الركعتين مثل صنيعه الاول، فتلك تسع يا بني، وكان نبي الله صلى الله عليه وسلم، إذا صلى صلاة احب ان يداوم عليها، وكان إذا غلبه نوم او وجع عن قيام الليل، صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة، ولا اعلم نبي الله صلى الله عليه وسلم قرا القرآن كله في ليلة، ولا صلى ليلة إلى الصبح، ولا صام شهرا كاملا غير رمضان، قال: فانطلقت إلى ابن عباس، فحدثته بحديثها، فقال: صدقت لو كنت اقربها او ادخل عليها لاتيتها حتى تشافهني به، قال: قلت: لو علمت انك لا تدخل عليها ما حدثتك حديثها.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ أَرَادَ أَنْ يَغْزُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَأَرَادَ أَنْ يَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا، فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ، وَيُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ، لَقِيَ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَنَهَوْهُ عَنْ ذَلِكَ، وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَهْطًا سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِكَ فِي حَيَاةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُمْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ، فَلَمَّا حَدَّثُوهُ بِذَلِكَ، رَاجَعَ امْرَأَتَهُ وَقَدْ كَانَ طَلَّقَهَا وَأَشْهَدَ عَلَى رَجْعَتِهَا، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ، فَسَأَلَهُ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَنْ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا، ثُمَّ ائْتِنِي فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهَا، فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا، لِأَنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا، فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلَّا مُضِيًّا، قَالَ: فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ، فَجَاءَ فَانْطَلَقْنَا إِلَى عَائِشَةَ فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهَا، فَأَذِنَتْ لَنَا فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَحَكِيمٌ، فَعَرَفَتْهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: خَيْرًا، قَالَ قَتَادَةُ وَكَانَ أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ: فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَمُوتَ، ثُمَّ بَدَا لِي، فَقُلْتُ: أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ سورة المزمل آية 1؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا، وَأَمْسَكَ اللَّهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَاءِ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ التَّخْفِيفَ، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" كُنَّا نُعِدُّ لَهُ، سِوَاكَهُ، وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ، وَيَتَوَضَّأُ، وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ، لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يَنْهَضُ، وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي التَّاسِعَةَ، ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ، أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَنَعَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِثْلَ صَنِيعِهِ الأَوَّلِ، فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ، وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ، صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ لَوْ كُنْتُ أَقْرَبُهَا أَوْ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي بِهِ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُكَ حَدِيثَهَا.
ابن ابی عدی نے سعید (ابن ابی عروبہ) سے، انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے زرارہ سے روایت کی کہ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کے قریبی عزیز) سعد بن ہشام بن عامر نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ (جہاد) کریں، وہ مدینہ منورہ آگئے اور وہاں ا پنی ایک جائیداد فروخت کرنی چاہی تاکہ اس سے ہتھیار اور گھوڑے مہیا کریں اور موت آنے تک رومیوں کے خلاف جہاد کریں، چنانچہ جب مدینہ آئے تو اہل مدینہ میں سے کچھ لوگوں سے ملے، انھوں نے اس کو اس ارادے سے روکا اور ان کو بتایا کہ چھ افراد کے ایک گروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ایسا کرنے کاارادہ کیاتھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا تھا۔آپ نے فرمایا تھا: "کیا میرے طرز عمل میں تمھارے لئے نمونہ نہیں ہیں؟"چنانچہ جب ان لوگوں نے انھیں یہ بات بتائی تو انھوں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا جبکہ وہ اسے طلاق دے چکے تھے، اور اس سے رجو ع کے لئے گواہ بنائے۔پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر (بشمول قیام اللیل) کے بارے میں سوال کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمھیں اس ہستی سے آگاہ نہ کروں۔جو روئے زمین کے تمام لوگوں کی نسبت ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کو زیادہ جاننے والی ہے؟سعد نے کہا: وہ کون ہیں؟انھوں نےکہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس جاؤ اور پوچھو، پھر (دوبارہ) میرے پاس آنا اور ان کا جواب مجھے بھی آکر بتانا، (سعدنے کہا:) میں ان کی طرف چل پڑا اور (پہلے) حکیم بن افلح کے پاس آیا اور انھیں اپنے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلنے کو کہا تو انھوں نے کہا: میں ان کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے انھیں (آپس میں لڑنے والی) ان دو جماعتوں کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے روکا تھا۔تو وہ ان دونوں کے بارے میں اسی طریقے پر چلتے رہنے کے سوا اور کچھ نہ مانیں۔ (سعد نے) کہا: تو میں نے انھیں قسم دی تو وہ آگئے، پس ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف چل پڑے، اور ان سے حاضری کی اجازت طلب کی، انھوں نے اجازت مرحمت فرمادی اور ہم ان کے گھر (دروازے) میں داخل ہوئے، انھوں نے کہا: کیا حکیم ہو؟انہوں نے اسے پہچان لیا، اس نے کہا: جی ہاں۔تو انھوں نے کہا: تمہارے ساتھ کون ہے؟اس نے کہا: سعد بن ہشام۔انھوں نے پوچھا: ہشام کون؟ اس نے کہا: عامر رضی اللہ عنہ (بن امیہ انصاری) کے بیٹے۔تو انہوں نے ان کے لئے رحمت کی دعا کی اور کلمات خیر کہے۔قتادہ نے کہا: وہ (عامر رضی اللہ عنہ) غزوہ احد میں شہید ہوگئے تھے۔میں نے کہا: ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق مبارک کے بارے میں بتایئے۔انھوں نے کہا: کیاتم قرآن نہیں پڑھتے؟میں نے عرض کی: کیوں نہیں!انھوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تھا (آپ کی سیرت وکردار قرآن کا عملی نمونہ تھی) کہا: اس پر میں نے یہ چاہا کہ اٹھ (کر چلا) جاؤں اور موت تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں، پھر اچانک ذہن میں آیا تو میں نے کہامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (رات کے) قیام کے بارے میں بتائیں، تو انھوں نے کہا: کیا تم (یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ) نہیں پڑ ھتے؟ میں نے عرض کی کیوں نہیں!انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں رات کا قیام فرض قرار دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے سال بھر قیام کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آخری آیات بارہ ماہ تک آسمان پر روکے رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف کا حکم نازل فرمایاتو رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل (میں تبدیل) ہوگیا۔ سعد نے کہا: میں نے عرض کی: اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتایئے۔تو انھوں نے کہا: ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کی مسواک اور آپ کے وضو کا پانی تیار کرکے رکھتے تھے اللہ تعالیٰ رات کو جب چاہتا، آپ کو بیدار کردیتا تو آپ مسواک کرتے، وضو کرتے اور پھر نو رکعتیں پڑھتے، ان میں آپ آٹھویں کے علاوہ کسی رکعت میں نہ بیٹھتے، پھر اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بیان کرتے اور دعا فرماتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے، پھر کھڑے ہوکرنویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اللہ کا ذکر اور حمد کرتے اور اس سے دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے، پھر سلام کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! یہ گیارہ رکعتیں ہو گئیں۔پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک بڑھی اور (جسم پر کسی حد تک) گوشت چڑھ گیا (جسم مبارک بھاری ہوگیا) تو آپ سات وتر پڑھنے لگ گئے اور دو رکعتوں میں وہی کرتے جو پہلے کرتے تھے (بیٹھ کر پڑھتے) تو بیٹا!یہ نو رکعتیں ہوگئیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ پسند کرتے کہ اس پرقائم رہیں اور جب نیند یا بیماری غالب آجاتی اور رات کا قیام نہ کر سکتے تو آپ دن کو بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔میں نہیں جانتی کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو اور نہ ہی آپ نے کسی رات صبح تک نماز پڑھی اور نہ رمضان کے سوا کبھی پورے مہینے کے روزے رکھے۔ (سعد نے) کہا: پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف گیا اور انھیں ان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کی حدیث سنائی تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، اگر میں ان کے قریب ہوتا یا ان کے گھر جاتا ہوتا تو ان کے پاس جاتا تاکہ وہ مجھے یہ حدیث رو برو سناتیں۔ (سعد نے) کہا: میں نےکہا: اگر مجھے علم ہوتا ہے کہ آپ ان کے ہاں حاضر نہیں ہوتے تو میں آپ کو ان کی حدیث نہ سناتا (یہ سعد بالآخر سرزمین ہند میں شہید ہوئے)
سعد بن ہشام بن عامر نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ (جہاد) کرنے کا ارادہ کیا تو مدینہ منورہ آ گئے اور وہاں ا پنی ایک جائیداد فروخت کرنی چاہی تاکہ اس سے ہتھیار اور گھوڑے مہیا کریں اور موت آنے تک رومیوں کے خلاف جہاد کریں، چنانچہ جب مدینہ آئے تو اہل مدینہ میں سے کچھ لوگوں سے ملے، انھوں نے اس کو اس ارادے سے روکا اور ان کو بتایا کہ چھ افراد کے ایک گروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ایسا کرنے کا ارادہ کیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا تھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: کیا میرے طرز عمل میں تمھارے لئے نمونہ نہیں ہے؟ چنانچہ جب ان لوگوں نے انھیں یہ بات بتائی تو انھوں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا جبکہ وہ اسے طلاق دے چکے تھے، اور اس سے رجوع کے لئے گواہ بنائے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر (بشمول قیام اللیل) کے بارے میں سوال کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: کیا میں تمھیں اس ہستی سے آگاہ نہ کروں، جو روئے زمین کے تمام لوگوں کی نسبت ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کو زیادہ جاننے والی ہے؟ سعد نے کہا: وہ کون ہیں؟ انھوں نےکہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کے پاس جاؤ اور پوچھو، پھر (دوبارہ) میرے پاس آنا اور ان کا جواب مجھے بھی آ کر بتانا، (سعدنے کہا:) میں ان کی طرف چل پڑا اور (پہلے) حکیم بن افلح کے پاس آیا اور انھیں اپنے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلنے کو کہا تو انھوں نے کہا: میں ان کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے انھیں (آپس میں لڑنے والی) ان دو جماعتوں کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے روکا تھا۔ تو وہ ان دونوں کے بارے میں اسی طریقے پر چلتے رہنے کے سوا اور کچھ نہ مانیں۔ (سعد نے) کہا: تو میں نے انھیں قسم دی تو وہ آ گئے، پس ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف چل پڑے، اور ان سے حاضری کی اجازت طلب کی، انھوں نے اجازت مرحمت فرما دی اور ہم ان کے گھر (دروازے) میں داخل ہوئے، انھوں نے کہا: کیا حکیم ہو؟ انہوں نے اسے پہچان لیا، اس نے کہا: جی ہاں۔ تو انھوں نے کہا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: سعد بن ہشام۔ انھوں نے پوچھا: ہشام کون؟ اس نے کہا: عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بن امیہ انصاری) کے بیٹے۔ تو انہوں نے ان کے لئے رحمت کی دعا کی اور کلمات خیر کہے۔ قتادہ نے کہا: وہ (عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے۔ میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق مبارک کے بارے میں بتایئے۔ انھوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! انھوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تھا (آپصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وکردار قرآن کا عملی نمونہ تھی) کہا: اس پر میں نے یہ چاہا کہ اٹھ (کر چلا) جاؤں اور موت تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں، پھر اچانک ذہن میں آیا تو میں نے کہا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (رات کے) قیام کے بارے میں بتائیں، تو انھوں نے کہا: کیا تم ﴿يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ﴾ نہیں پڑ ھتے؟ میں نے عرض کی کیوں نہیں! انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں رات کا قیام فرض قرار دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے سال بھر قیام کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آخری آیات بارہ ماہ تک آسمان پر روکے رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف کا حکم نازل فرمایا تو رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل (میں تبدیل) ہو گیا۔ سعد نے کہا: میں نے عرض کیا: اے اُمُّ الْمُؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتایئے۔ تو انھوں نے کہا: ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی تیار کر کے رکھتے تھے اللہ تعالیٰ رات کو جب چاہتا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کر دیتا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے، وضو کرتے اور پھر نو رکعتیں پڑھتے، ان میں آپصلی اللہ علیہ وسلم آٹھویں کے علاوہ کسی رکعت میں نہ بیٹھتے، پھر اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بیان کرتے اور دعا فرماتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے، پھر کھڑے ہو کرنویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اللہ کا ذکر اور حمد کرتے اور اس سے دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے پھر سلام كے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! یہ گیارہ رکعتیں ہو گئیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک بڑھی اور(جسم پر کسی حد تک) گوشت چڑھ گیا (جسم مبارک بھاری ہو گیا) تو آپصلی اللہ علیہ وسلم سات وتر پڑھنے لگ گئے اور دو رکعتوں میں وہی کرتے جو پہلے کرتے تھے (بیٹھ کر پڑھتے) تو بیٹا! یہ نو رکعتیں ہو گئیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے کہ اس پرقائم رہیں اور جب نیند یا بیماری غالب آ جاتی اور رات کا قیام نہ کر سکتے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم دن کو بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔ میں نہیں جانتی کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو اور نہ ہی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی رات صبح تک نماز پڑھی اور نہ رمضان کے سوا کبھی پورے مہینے کے روزے رکھے۔ (سعد نے) کہا: پھر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف گیا اور انھیں ان (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی حدیث سنائی تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سچ کہا، اگر میں ان کے قریب ہوتا یا ان کے گھر جاتا ہوتا تو ان کے پاس جاتا تاکہ وہ مجھے یہ حدیث رو برو سناتیں۔ سعد کہتے ہیں، میں نے کہا، اگر مجھے علم ہوتا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس نہیں جاتے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی حدیث نہ سناتا۔

Previous    13    14    15    16    17    18    19    20    21    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.