1765 صحيح حديث زيد بن ارقم، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، في سفر اصاب الناس فيه شدة فقال عبد الله بن ابي لاصحابه: لا تنفقوا على من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ينفضوا من حوله وقال: لئن رجعنا إلى المدينة، ليخرجن الاعز منها الاذل فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرته فارسل إلى عبد الله بن ابي، فساله، فاجتهد يمينه ما فعل قالوا: كذب زيد رسول الله صلى الله عليه وسلم فوقع في نفسي مما قالوا شدة حتى انزل الله عز وجل تصديقي في (إذا جاءك المنافقون) فدعاهم النبي صلى الله عليه وسلم، ليستغفر لهم فلووا رءوسهم وقوله (خشب مسندة) قال: كانوا رجالا، اجمل شيء1765 صحيح حديث زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي سَفَرٍ أَصَابَ النَّاسَ فِيهِ شِدَّةٌ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ لأَصْحَابِهِ: لاَ تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ وَقَالَ: لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ فَأَرْسَلَ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَيٍّ، فَسَأَلَهُ، فَاجْتَهَدَ يَمِينَهُ مَا فَعَلَ قَالُوا: كَذَبَ زَيْدٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِمَّا قَالُوا شِدَّةٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقِي فِي (إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ) فَدَعَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِيَسْتَغْفِرَ لَهُمْ فَلَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَقَوْلُهُ (خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ) قَالَ: كَانُوا رِجَالاً، أَجْمَلَ شَيْءٍ
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر (غزوۂ تبوک یا بنی المصطلق) میں تھے جس میں لوگوں پر بڑے تنگ اوقات آئے تھے۔ عبد اللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ”جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو تاکہ وہ ان کے پاس سے منتشر ہو جائیں“ اس نے یہ بھی کہا کہ ”اگر ہم اب مدینہ لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلیلوں کو نکال کر باہر کرے گا۔“ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس گفتگو کی اطلاع دی تو آپ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو بلا کر پوچھا۔ اس نے بڑی قسمیں کھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا ہے۔ لوگوں کی اس طرح کی باتوں سے میں بڑا رنجیدہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سوۂ منافقون نازل فرما کر میری تصدیق فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی اذا جاء ک المنافقون الخ(۶) یعنی جب آپ کے پاس منافق آئے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا تاکہ ان کیلئے مغفرت کی دعا کریں لیکن انہوں نے اپنے سر پھیر لئے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد خشب مسندۃ گویا وہ بہت بڑے لکڑی کے کھمبے ہیں (ان کے متعلق اس لئے کہا گیا کہ) وہ بظاہر بڑے خوبصورت اور معقول مگر دل میں منافق تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 63 سورة إذا جاءك المنافقون: 3 باب قوله ذلك بأنهم آمنوا ثم كفروا»
1766 صحيح حديث جابر رضي الله عنه قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم، عبد الله بن ابي، بعد ما دفن فاخرجه، فنفث فيه من ريقه، والبسه قميصه1766 صحيح حديث جَابِرٍ رضي الله عنه قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَيٍّ، بَعْدَ مَا دُفِنَ فَأَخْرَجَهُ، فَنَفَثَ فِيهِ مِنْ رِيقِهِ، وَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی کو دفن کیا جا رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اسے اپنی قمیض پہنائی۔
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 23 باب الكفن في القميص الذي يكف أو لا يكفّ»
1767 صحيح حديث ابن عمر رضي الله عنهما ان عبد الله بن ابي، لما توفي، جاء ابنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله اعطني قميصك اكفنه فيه، وصل عليه، واستغفر له فاعطاه النبي صلى الله عليه وسلم، قميصه فقال: آذني اصلي عليه فآذنه فلما اراد ان يصلي عليه، جذبه عمر رضي الله عنه فقال: اليس الله نهاك ان تصلي على المنافقين فقال: انا بين خيرتين قال (استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة، فلن يغفر الله لهم) فصلى عليه فنزلت (ولا تصل على احد منهم مات ابدا)1767 صحيح حديث ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَيٍّ، لَمَّا تُوُفِّيَ، جَاءَ ابْنُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، وَصلِّ عَلَيْهِ، وَاسْتَغْفِرْ لَهُ فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَمِيصَهُ فَقَالَ: آذِنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ فَآذَنَه فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، جَذَبَهُ عُمَرُ رضي الله عنه فَقَالَ: أَلَيْسَ اللهُ نَهَاكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ فَقَالَ: أَنَا بَيْنَ خِيْرَتَيْنِ قَالَ (اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّة، فَلَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ) فَصَلَّى عَلَيْهِ فَنَزَلَتْ (وَلاَ تصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا (عبداللہ صحابی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! والد کے کفن کے لیے آپ اپنی قمیض عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھئے اور مغفرت کی دعا کیجیے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص (غایت مروت کی وجہ سے) عنایت کی اور فرمایا: مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کی کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اختیا ر دیا گیا ہے جیسا ارشاد باری ہے ”تو ان کے لیے استغفار کر یانہ کر اور اگر تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے تو بھی اللہ انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نما زپڑھائی اس کے بعد یہ آیت اتری ”کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھانا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 23 باب الكفن في القميص الذي يكفّ أو لا يكفّ»
1768 صحيح حديث عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، قال: اجتمع عند البيت قرشيان وثقفي، او ثقفيان وقرشي كثيرة شحم بطونهم قليلة فقه قلوبهم فقال احدهم: اترون ان الله يسمع ما نقول قال الآخر: يسمع إن جهرنا، ولا يسمع إن اخفينا وقال الآخر: إن كان يسمع إذا جهرنا، فإنه يسمع إذا اخفينا فانزل الله عز وجل (وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سمعكم ولا ابصاركم ولا جلودكم) الآية1768 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، قَالَ: اجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَيْتِ قُرَشِيَّانِ وَثَقَفِيٌّ، أَوْ ثَقَفِيَّانِ وَقُرَشِيٌّ كَثِيرَةٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ قَلَيلَةٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتُرَوْنَ أَنَّ اللهَ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ قَالَ الآخَرُ: يَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا، وَلاَ يَسْمَعُ إِنْ أَخْفَيْنَا وَقَالَ الآخَرُ: إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا، فَإِنَّهُ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ (وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ) الآيةَ
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ خانہ کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا ایک قریشی اور دو ثقفی مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پیٹ بہت موٹے تھے لیکن عقل سے کورے۔ ایک نے ان میں سے کہا ٗ تمہار کیا خیال ہے کیا اللہ ہماری باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرے نے کہا اگر ہم زور سے بولیں تو سنتا ہے لیکن آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا اگر اللہ زور سے بولنے پر سن سکتا ہے تو آہستہ بولنے پہ بھی ضرور سنتا ہوگا۔ اس پر یہ آیت اتری کہ ”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے گواہی دیں گے ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بے خبر ہے۔ (حمد السجدۃ: ۲۲)
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 41 سورة فصلت: 2 باب قوله وذلكم ظنكم الآية»
1769 صحيح حديث زيد بن ثابت رضي الله عنه، قال: لما خرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى احد، رجع ناس من اصحابه فقالت فرقة: نقتلهم وقالت فرقة: لا نقتلهم فنزلت (فما لكم في المنافقين فئتين)1769 صحيح حديث زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ، رَجَعَ ناسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَتْ فِرْقَةٌ: نَقْتُلُهُمْ وَقَالَتْ فِرْقَةٌ: لاَ نَقْتُلُهُمْ فَنَزَلَتْ (فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے لیے نکلے تو جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان میں سے کچھ لوگ واپس آ گئے(یہ منافقین تھے) پھر بعض نے تو یہ کہا کہ ہم چل کر انھیں قتل کر دیں گے اور ایک جماعت نے کہا کہ قتل نہ کرنا چاہیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”تمہیں کیا ہو گیا کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو۔ انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اوندھا کر دیا ہے۔ اب کیا تم یہ منصوبے باندھ رہے ہو کہ اللہ کے گمراہ کیے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو۔ جسے اللہ راہ بھلا دے تو ہرگز اس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا۔“(النساء: ۸۸)
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 29 كتاب فضائل المدينة: 10 باب المدينة تنفي الخبث»
1770 صحيح حديث ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، ان رجالا من المنافقين، على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغزو، تخلفوا عنه، وفرحوا بمقعدهم خلاف رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، اعتذروا إليه، وحلفوا، واحبوا ان يحمدوا بما لم يفعلوا فنزلت (لا يحسبن الذين يفرحون) الآية1770 صحيح حديث أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه، أَنَّ رِجَالاً مِنَ الْمُنَافِقِينَ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْغَزْوِ، تَخَلَّفُوا عَنْهُ، وَفَرِحُوا بِمَقْعَدِهِمْ خِلاَفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اعْتَذَرُوا إِلَيْهِ، وَحَلَفُوا، وَأَحَبُّوا أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَنَزَلَتْ (لاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ) الآية
سیّدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چند منافقین ایسے تھے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ مدینہ میں پیچھے رہ جاتے اور پیچھے رہ جانے پر بہت خوش ہوا کرتے تھے لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے تو عذر بیان کرتے اور قسمیں کھا لیتے بلکہ ان کو ایسے کام پر تعریف کروانا پسند ہونا جس کو انہوں نے نہ کیا ہوتا اور بعد میں چکنی چپڑی باتوں سے اپنی بات بنانا چاہتے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ ”وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں تو انہیں عذاب سے چھٹکارہ میں نہ سمجھو ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے۔ (آل عمران: ۱۸۸)
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 3 سورة آل عمران: 16 باب لا يحسبن الذين يفرحون بما أتوا»
1771 صحيح حديث ابن عباس عن علقمة بن وقاص، ان مروان قال لبوابه: اذهب يا رافع إلى ابن عباس، فقل: لئن كان كل امرىء فرح بما اوتي، واحب ان يحمد بما لم يفعل معذبا، لنعذبن اجمعون فقال ابن عباس: وما لكم ولهذه [ص:272] إنما دعا النبي صلى الله عليه وسلم يهود، فسالهم عن شيء، فكتموه إياه، واخبروه بغيره فاروه ان قد استحمدوا إليه بما اخبروه عنه فيما سالهم وفرحوا بما اوتوا من كتمانهم ثم قرا ابن عباس (وإذ اخذ الله ميثاق الذين اوتوا الكتاب) كذلك، حتى قوله (يفرحون بما اتوا ويحبون ان يحمدوا بما لم يفعلوا)1771 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، أَنَّ مَرْوَانَ قَالَ لِبَوَّابِهِ: اذْهَبْ يَا رَافِعُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْ: لَئِنْ كَانَ كُلُّ امْرٍىءٍ فَرِحَ بِمَا أُوتِيَ، وَأَحَبَّ أَنْ يُحْمَدَ بِمَا لَمْ يَفْعَلْ مُعَذَّبًا، لَنُعَذَّبَنَّ أَجْمعُونَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاس: وَمَا لَكُمْ وَلِهذِهِ [ص:272] إِنَّمَا دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودَ، فَسَأَلَهُمْ عَنْ شَيْءٍ، فَكَتَمُوهُ إِيَّاهُ، وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ فَأَرَوْهُ أَنْ قَدِ اسْتَحْمَدُوا إِلَيْهِ بِمَا أَخْبَرُوهُ عَنْهُ فِيمَا سَأَلَهُمْ وَفَرِحُوا بِمَا أُوتُوا مِنْ كِتْمَانِهِمْ ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ (وَإِذْ أَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ) كَذلِكَ، حَتَّى قَوْلِهِ (يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلوا)
علقمہ بن وقاص نے بیان کیا کہ مروان بن حکم نے (جب وہ مدینہ کے امیر تھے) اپنے دربان سے کہا کہ رافع! ابن عباس رضی اللہ عنہماکے یہاں جاؤ اور ان سے پوچھو کہ آیت ولا تحسبن الذین کی رو سے تو ہم سب کو عذاب ہونا چاہیے، کیونکہ ہر ایک آدمی ان نعمتوں پر جو اس کو ملی ہیں، خوش ہے اور یہ چاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا نہیں اس پر بھی اس کی تعریف ہو۔ ابو رافع نے ابن عباس رضی اللہ عنہماسے جا کر پوچھا، تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا، تم مسلمانوں سے اس روایت کا کیا تعلق! یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا تھا اور ان سے ایک دین کی بات پوچھی تھی۔ (جو ان کی آسمانی کتاب میں موجود تھی) انہوں نے اصل بات کو تو چھپایا اور دوسری غلط بات بیان کر دی، پھر بھی اس بات کے خواہشمند رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بتایا ہے، اس پر ان کی تعریف کی جائے اور ادھر اصل حقیقت کو چھپا کر بھی بڑے خوش تھے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے اس آیت کی تلاوت کی ”اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے بیان کرتے رہا کرو اور اسے چھپاؤ نہیں پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈالا، ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں تو انہیں عذاب سے چھٹکارہ میں نہ سمجھ، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے۔“(آل عمران: ۱۸۷، ۱۸۸)
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 3 سورة آل عمران: 16 باب لا يحسبن الذين يفرحون بما أتوا»
1772 صحيح حديث انس رضي الله عنه قال: كان رجل نصرانيا فاسلم، وقرا البقرة، وآل عمران فكان يكتب للنبي صلى الله عليه وسلم فعاد نصرانيا فكان يقول: ما يدري محمد إلا ما كتبت له فاماته الله، فدفنوه، فاصبح وقد لفظته الارض فقالوا: هذا فعل محمد واصحابه لما هرب منهم، نبشوا عن صاحبنا فالقوه فحفروا له، فاعمقوا فاصبح وقد لفظته الارض فقالوا: هذا فعل محمد واصحابه نبشوا عن صاحبنا لما هرب منهم فالقوه فحفروا له، واعمقوا له في الارض، ما استطاعوا فاصبح قد لفظته الارض فعلموا انه ليس من الناس، فالقوه1772 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: كَانَ رَجُلٌ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمَ، وَقَرَأَ الْبَقَرَةَ، وَآلَ عِمْرَانَ فَكَانَ يَكْتُبُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَادَ نَصْرَانِيًّا فَكَانَ يَقُولُ: مَا يَدْرِي مُحَمَّدٌ إِلاَّ مَا كَتَبْتُ لَهُ فَأَمَاتَهُ اللهُ، فَدَفَنُوهُ، فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ فَقَالُوا: هذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ، نَبَشُوا عَنْ صَاحِبنَا فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ، فَأَعْمَقُوا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ فَقَالُوا: هذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِهِ نَبَشُوا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا هَرَبَ مِنْهُمْ فَأَلْقَوْهُ فَحَفَرُوا لَهُ، وَأَعْمَقُوا لَهُ فِي الأَرْضِ، مَا اسْتَطَاعُوا فَأَصْبَحَ قَدْ لَفَظَتْهُ الأَرْضُ فَعَلِمُوا أَنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ، فَأَلْقَوْهُ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص پہلے عیسائی تھا ٗ پھر وہ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے سورۂ بقرہ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے اور کچھ بھی معلوم نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہو گئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کر دیا جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے۔ عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے۔ چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا، اس لئے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھودی جو بہت زیادہ گہری تھی لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا، اس لئے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے۔ پھر انہوں نے قبر کھودی اور جتنی گہری ان کے بس میں تھی کرکے اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اب انہیں یقین آیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہے۔ (بلکہ یہ میت عذاب خداوندی میں گرفتار ہے) چنانچہ انہوں نے اسے یونہی (زمین) پر ڈال دیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 25 باب علامات النبوة في الإسلام»
1773 صحيح حديث ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنه لياتي الرجل العظيم السمين يوم القيامة لا يزن عند الله جناح بعوضة وقال: اقرءوا (فلا نقيم لهم يوم القيامة وزنا)1773 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّهُ لَيَأْتِي الرَّجُلُ الْعَظِيمُ السَّمِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لاَ يَزِنُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ وَقَالَ: اقْرَءُوا (فَلاَ نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بلاشبہ قیامت کے دن ایک بہت بھاری بھرکم موٹا تازہ شخص آئے گا لیکن وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی قدر نہیں رکھے گا اورفرمایا کہ پڑھو۔” قلا نقیم لھم یوم القیمۃ وزنا“(قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن نہ کریں گے)
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 92 كتاب التفسير: 18 سورة الكهف: 6 باب أولئك الذين كفروا بآيات ربهم»
1774 صحيح حديث عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، قال: جاء حبر من الاحبار إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد إنا نجد ان الله يجعل السموات على إصبع، والارضين على إصبع، والشجر على إصبع، والماء والثرى على إصبع، وسائر الخلائق على إصبع فيقول: انا الملك فضحك النبي صلى الله عليه وسلم، حتى بدت نواجذه، تصديقا لقول الحبر ثم قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم وما قدروا الله حق قدره، والارض جميعا قبضته يوم القيامة، والسموات مطويات بيمينه، سبحانه وتعالى عما يشركون1774 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، قَالَ: جَاءَ حَبْرٌ مِنَ الأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّا نَجِدُ أَنَّ اللهَ يَجْعَلُ السَّموَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْمَاءَ وَالثَرَى عَلَى إِصْبَعٍ، وَسَائِرَ الْخَلاَئِقِ عَلَى إِصْبَعٍ فَيَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، تَصْدِيقًا لِقَوْلِ الْحَبْرِ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ، وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَالسَّموَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ، سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علماء یہود میں سے ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! ہم تو رات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور مٹی کوایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھرفرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔”اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی اور حال یہ ہے کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 39 سورة الزمر: 2 باب وما قدروا الله حق قدره»