الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Times (of Prayer)
39. بَابُ: الصَّلاَةِ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ
39. باب: طلوع فجر کے بعد نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Prayer After The Appearance of Dawn
حدیث نمبر: 584
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله بن الحكم، قال: حدثنا محمد بن جعفر، قال: حدثنا شعبة، عن زيد بن محمد، قال: سمعت نافعا، يحدث عن ابن عمر، عن حفصة، انها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا طلع الفجر لا يصلي إلا ركعتين خفيفتين".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قال: سَمِعْتُ نَافِعًا، يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، أَنَّهَا قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر طلوع ہونے کے بعد صرف دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 12 (618)، التھجد 29 (1173)، 34 (1181)، صحیح مسلم/المسافرین 14 (723)، سنن الترمذی/الصلاة 203 (433)، سنن ابن ماجہ/إقامة 101 (1145)، (تحفة الأشراف: 15801)، مسند احمد 6/284، سنن الدارمی/الصلاة 146 ویأتي عند المؤلف بأرقام: 1761، 1762 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
40. بَابُ: إِبَاحَةِ الصَّلاَةِ إِلَى أَنْ يُصَلَّى الصُّبْحُ
40. باب: فجر پڑھنے تک (نفل) نماز کے جائز ہونے کا بیان۔
Chapter: Permission To (Continue) Praying Until One Prays Subh
حدیث نمبر: 585
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرني الحسن بن إسماعيل بن سليمان، وايوب بن محمد، قالا: حدثنا حجاج بن محمد، قال ايوب حدثنا، وقال حسن، اخبرني شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن يزيد بن طلق، عن عبد الرحمن بن البيلماني، عن عمرو بن عبسة، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، من اسلم معك؟ قال: حر وعبد، قلت: هل من ساعة اقرب إلى الله عز وجل من اخرى؟ قال:" نعم، جوف الليل الآخر، فصل ما بدا لك حتى تصلي الصبح، ثم انته حتى تطلع الشمس وما دامت، وقال ايوب: فما دامت كانها حجفة حتى تنتشر، ثم صل ما بدا لك حتى يقوم العمود على ظله، ثم انته حتى تزول الشمس فإن جهنم تسجر نصف النهار، ثم صل ما بدا لك حتى تصلي العصر، ثم انته حتى تغرب الشمس فإنها تغرب بين قرني شيطان وتطلع بين قرني شيطان".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سُلَيْمَانَ، وَأَيَّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قال أَيُّوبُ حَدَّثَنَا، وَقَالَ حَسَنٌ، أَخْبَرَنِي شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، قال: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْلَمَ مَعَكَ؟ قَالَ: حُرٌّ وَعَبْدٌ، قُلْتُ: هَلْ مِنْ سَاعَةٍ أَقْرَبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أُخْرَى؟ قَالَ:" نَعَمْ، جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، فَصَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَمَا دَامَتْ، وَقَالَ أَيُّوبُ: فَمَا دَامَتْ كَأَنَّهَا حَجَفَةٌ حَتَّى تَنْتَشِرَ، ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى يَقُومَ الْعَمُودُ عَلَى ظِلِّهِ، ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ فَإِنَّ جَهَنَّمَ تُسْجَرُ نِصْفَ النَّهَارِ، ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ انْتَهِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَتَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ".
عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کے ساتھ کون اسلام لایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آزاد اور ایک غلام ۱؎ میں نے عرض کیا: کوئی ایسی گھڑی ہے جس میں دوسری گھڑیوں کی بنسبت اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ حاصل ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، رات کا آخری حصہ ہے، اس میں فجر پڑھنے تک جتنی نماز چاہو پڑھو، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور اسی طرح اس وقت تک رکے رہو جب تک سورج ڈھال کی طرح رہے (ایوب کی روایت میں «وما دامت» کے بجائے «فما دامت» ہے) یہاں تک کہ روشنی پھیل جائے، پھر جتنی چاہو پڑھو یہاں تک کہ ستون اپنے سایہ پر کھڑا ہو جائے ۲؎ پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اس لیے کہ نصف النہار (کھڑی دوپہر) میں جہنم سلگائی جاتی ہے، پھر جتنا مناسب سمجھو نماز پڑھو یہاں تک کہ عصر پڑھ لو، پھر رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، اس لیے کہ سورج شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان ڈوبتا ہے، اور دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 148 (1251)، 182 (1364)، (تحفة الأشراف: 10762)، مسند احمد 4/111، 113، 114 (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس سند کے اندر ”عبدالرحمن بیلمانی“ ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: آزاد سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور غلام سے بلال رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ ۲؎: یعنی سایہ کم ہوتے ہوتے صرف ستون کے نیچے رہ جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
41. بَابُ: إِبَاحَةِ الصَّلاَةِ فِي السَّاعَاتِ كُلِّهَا بِمَكَّةَ
41. باب: مکہ مکرمہ میں ہر وقت نماز پڑھنے کے جواز کا بیان۔
Chapter: Permission To Pray At All Times In Makkah
حدیث نمبر: 586
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، قال: سمعت من ابي الزبير، قال: سمعت عبد الله بن باباه يحدث، عن جبير بن مطعم، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يا بني عبد مناف لا تمنعوا احدا طاف بهذا البيت وصلى اية ساعة شاء من ليل او نهار".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قال: سَمِعْتُ مِنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، قال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَابَاهَ يُحَدِّثُ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ وَصَلَّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنی عبد مناف! تم کسی کو رات یا دن کسی بھی وقت اس گھر کا طواف کرنے، اور نماز پڑھنے سے نہ روکو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 53 (1894)، سنن الترمذی/الحج 42 (868)، سنن ابن ماجہ/إقامة 149 (1254)، (تحفة الأشراف: 3187)، مسند احمد 4/80، 81، 84، سنن الدارمی/المناسک 79 (1967)، ویأتي عند المؤلف في المناسک 137 (برقم: 2927) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
42. بَابُ: الْوَقْتِ الَّذِي يَجْمَعُ فِيهِ الْمُسَافِرُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ
42. باب: مسافر کس وقت ظہر اور عصر کو جمع کرے؟
Chapter: The Time When A Traveler May Combine Zuhr And 'Asr Prayers
حدیث نمبر: 587
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا مفضل، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا ارتحل قبل ان تزيغ الشمس اخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع بينهما، فإن زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلى الظهر ثم ركب".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو عصر تک ظہر کو مؤخر کر دیتے، پھر سواری سے نیچے اترتے اور جمع بین الصلاتین کرتے یعنی دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ پڑھتے ۱؎، اور اگر سفر کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیرالصلاة 15 (1111)، 16 (1112)، صحیح مسلم/المسافرین 5 (704)، سنن ابی داود/الصلاة 274 (1218)، مسند احمد 3/247، 265، (تحفة الأشراف: 1515) یأتي عند المؤلف برقم: 595 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں سفر میں جمع بین الصلوٰتین کا جواز ثابت ہوتا ہے، احناف سفر اور حضر کسی میں جمع بین الصلوٰتین کے جواز کے قائل نہیں، ان کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہم کی روایت «من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى باباً من أبواب الكبائر» ہے، لیکن یہ روایت حد درجہ ضعیف ہے، قطعاً استدلال کے قابل نہیں، اس کے برعکس سفر میں جمع بین الصلاتین پر جو روایتیں دلالت کرتی ہیں وہ صحیح ہیں، ان کی تخریج مسلم اور ان کے علاوہ اور بہت سے لوگوں نے کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 588
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له، عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن ابي الزبير المكي، عن ابي الطفيل عامر بن واثلة، ان معاذ بن جبل اخبره، انهم خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء، فاخر الصلاة يوما، ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا، ثم دخل، ثم خرج فصلى المغرب والعشاء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ تَبُوكَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، فَأَخَّرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ".
ابوالطفیل عامر بن واثلۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے سال نکلے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے رہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کو مؤخر کیا، پھر نکلے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ ادا کیا، پھر اندر داخل ہوئے، پھر نکلے تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 6 (706)، الفضائل 3 (706) مختصراً، سنن ابی داود/الصلاة 274 (1206، 1208)، سنن ابن ماجہ/إقامة 74 (1070) مختصراً، موطا امام مالک/السفر 1 (2)، (تحفة الأشراف: 11320)، مسند احمد 5/228، 230، 233، 236، 237، 238، سنن الدارمی/الصلاة 182 (1556)، (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
43. بَابُ: بَيَانِ ذَلِكَ
43. باب: جمع بین الصلاتین کا بیان۔
Chapter: Explanation Of That
حدیث نمبر: 589
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن بزيع، قال: حدثنا يزيد بن زريع، قال: حدثنا كثير بن قاروندا، قال: سالت سالم بن عبد الله، عن صلاة ابيه في السفر وسالناه: هل كان يجمع بين شيء من صلاته في سفره؟ فذكر ان صفية بنت ابي عبيد كانت تحته، فكتبت إليه وهو في زراعة له: اني في آخر يوم من ايام الدنيا واول يوم من الآخرة فركب، فاسرع السير إليها حتى إذا حانت صلاة الظهر، قال له المؤذن: الصلاة يا ابا عبد الرحمن، فلم يلتفت حتى إذا كان بين الصلاتين نزل، فقال: اقم، فإذا سلمت فاقم فصلى ثم ركب حتى إذا غابت الشمس، قال له المؤذن: الصلاة، فقال: كفعلك في صلاة الظهر والعصر، ثم سار حتى إذا اشتبكت النجوم نزل، ثم قال للمؤذن: اقم، فإذا سلمت فاقم فصلى، ثم انصرف فالتفت إلينا، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا حضر احدكم الامر الذي يخاف فوته فليصل هذه الصلاة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ قَارَوَنْدَا، قال: سَأَلْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ صَلَاةِ أَبِيهِ فِي السَّفَرِ وَسَأَلْنَاهُ: هَلْ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ فِي سَفَرِهِ؟ فَذَكَرَ أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ كَانَتْ تَحْتَهُ، فَكَتَبَتْ إِلَيْهِ وَهُوَ فِي زَرَّاعَةٍ لَهُ: أَنِّي فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنَ الْآخِرَةِ فَرَكِبَ، فَأَسْرَعَ السَّيْرَ إِلَيْهَا حَتَّى إِذَا حَانَتْ صَلَاةُ الظُّهْرِ، قال لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلَاةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ نَزَلَ، فَقَالَ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ فَصَلَّى ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ، قال لَهُ الْمُؤَذِّنُ: الصَّلَاةَ، فَقَالَ: كَفِعْلِكَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا اشْتَبَكَتِ النُّجُومُ نَزَلَ، ثُمّ قال لِلْمُؤَذِّنِ: أَقِمْ، فَإِذَا سَلَّمْتُ فَأَقِمْ فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْأَمْرُ الَّذِي يَخَافُ فَوْتَهُ فَلْيُصَلِّ هَذِهِ الصَّلَاةَ".
کثیر بن قاروندا کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے سفر میں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) کی نماز کے بارے میں پوچھا، نیز ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سفر کے دوران کسی نماز کو جمع کرتے تھے؟ تو انہوں نے ذکر کیا کہ صفیہ بنت ابی عبید (جو ان کے عقد میں تھیں) نے انہیں لکھا، اور وہ اپنے ایک کھیت میں تھے کہ میرا دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہے (یعنی قریب المرگ ہوں آپ تشریف لائیے) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم سوار ہوئے، اور ان تک پہنچنے کے لیے انہوں نے بڑی تیزی دکھائی یہاں تک کہ جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے ان سے کہا: ابوعبدالرحمٰن! نماز پڑھ لیجئیے، لیکن انہوں نے اس کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی یہاں تک کہ جب دونوں نمازوں کا درمیانی وقت ہو گیا، تو سواری سے اترے اور بولے: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو (پھر) تکبیر کہو، ۲؎ چنانچہ انہوں نے نماز پڑھی، پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا تو ان سے مؤذن نے کہا: نماز پڑھ لیجئیے، انہوں نے کہا: جیسے ظہر اور عصر میں کیا گیا ویسے ہی کرو، پھر چل پڑے یہاں تک کہ جب ستارے گھنے ہو گئے، تو سواری سے اترے، پھر مؤذن سے کہا: تکبیر کہو، اور جب میں سلام پھیر لوں تو پھر تکبیر کہو، تو انہوں نے نماز پڑھی، پھر پلٹے اور ہماری طرف متوجہ ہوئے، اور بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کسی کو ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ اسی طرح (جمع کر کے) نماز پڑھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 6795)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 6 (1091)، العمرة 20 (1805)، الجھاد 136 (3000)، سنن ابی داود/الصلاة 274 (1207)، سنن الترمذی/الصلاة 277 (555)، مسند احمد 2/51، ویأتي عند المؤلف برقم: (598) (حسن) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”کثیر بن قاروندا‘‘ لین الحدیث ہیں)»

وضاحت:
۲؎: یعنی تھوڑا سا رک کر کے جیسا کہ صحیح بخاری میں «فلما يلبث حتى يقيم العشاء» کے الفاظ وارد ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن
44. بَابُ: الْوَقْتِ الَّذِي يَجْمَعُ فِيهِ الْمُقِيمُ
44. باب: مقیم کے جمع بین الصلاتین کرنے کے وقت کا بیان۔
Chapter: Times During Which A Resident May Combine Prayers
حدیث نمبر: 590
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، عن جابر بن زيد، عن ابن عباس، قال:" صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا وسبعا جميعا، اخر الظهر وعجل العصر واخر المغرب وعجل العشاء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال:" صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا، أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ایک ساتھ آٹھ رکعت، اور سات رکعت نماز پڑھی، آپ نے ظہر کو مؤخر کیا، اور عصر میں جلدی کی، اور مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء میں جلدی کی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 12 (543)، 18 (562)، التھجد 30 (1174)، صحیح مسلم/المسافرین 6 (705) سنن ابی داود/الصلاة 274 (1214)، ’’کلہم بدون قولہ: أخّر… إلخ‘‘، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 5377)، مسند احمد 1/221، 223، 273، 285، 366، ویأتی عند المؤلف برقم: 591، 604، (صحیح) (لیکن ’’أخر الظھر…إلخ‘‘ کا ٹکڑا حدیث میں سے نہیں ہے، نسائی کے کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے، یہ مؤلف کے سوا کسی اور کے یہاں ہے بھی نہیں، مدرج ہونے کی صراحت مسلم میں موجود ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله أخر الظهر .. إلخ فإنه مدرج
حدیث نمبر: 591
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني ابو عاصم خشيش بن اصرم، قال: حدثنا حبان بن هلال، حدثنا حبيب وهو ابن ابي حبيب، عن عمرو بن هرم، عن جابر بن زيد، عن ابن عباس، انه صلى بالبصرة الاولى والعصر ليس بينهما شيء والمغرب والعشاء ليس بينهما شيء، فعل ذلك من شغل، وزعم ابن عباس انه" صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة الاولى والعصر ثمان سجدات ليس بينهما شيء".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قال: حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ صَلَّى بِالْبَصْرَةِ الْأُولَى وَالْعَصْرَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ، فَعَلَ ذَلِكَ مِنْ شُغْلٍ، وَزَعَمَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّهُ" صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْأُولَى وَالْعَصْرَ ثَمَانِ سَجَدَاتٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے بصرہ میں پہلی نماز ۱؎ (ظہر) اور عصر ایک ساتھ پڑھی، ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، اور مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، انہوں نے ایسا کسی مشغولیت کی بناء پر کیا، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ انہوں نے مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی نماز (ظہر) اور عصر آٹھ رکعتیں پڑھی، ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز فاصل نہیں تھی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5377) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز ظہر کو اولیٰ کہتے تھے کیونکہ یہی وہ پہلی نماز تھی جسے جبرائیل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھائی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
45. بَابُ: الْوَقْتِ الَّذِي يَجْمَعُ فِيهِ الْمُسَافِرُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ
45. باب: مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔
Chapter: The Time When A Traveler May Combine Maghrib and 'Isha'
حدیث نمبر: 592
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن إسماعيل بن عبد الرحمن شيخ من قريش، قال: صحبت ابن عمر إلى الحمى، فلما غربت الشمس هبت ان اقول له الصلاة،" فسار حتى ذهب بياض الافق وفحمة العشاء ثم نزل فصلى المغرب ثلاث ركعات، ثم صلى ركعتين على إثرها، ثم قال: هكذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ شَيْخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، قال: صَحِبْتُ ابْنَ عُمَرَ إِلَى الْحِمَى، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ هِبْتُ أَنْ أَقُولَ لَهُ الصَّلَاةَ،" فَسَارَ حَتَّى ذَهَبَ بَيَاضُ الْأُفُقِ وَفَحْمَةُ الْعِشَاءِ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ عَلَى إِثْرِهَا، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ".
قریش کے ایک شیخ اسماعیل بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں حمی ۱؎ تک ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا، جب سورج ڈوب گیا تو میں ڈرا کہ ان سے یہ کہوں کہ نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور ابتدائی رات کی تاریکی ختم ہو گئی، پھر وہ اترے اور مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 6649)، مسند احمد 2/12 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ جہاں سرکاری جانور چرا کرتے تھے اور یہ سرکاری چراگاہ تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 593
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرني عمرو بن عثمان، قال: حدثنا بقية، عن ابن ابي حمزة، ح وانبانا احمد بن محمد بن المغيرة، قال: حدثنا عثمان واللفظ له، عن شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سالم، عن ابيه، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا عجله السير في السفر، يؤخر صلاة المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ ابْنِ أَبِي حَمْزَةَ، ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قال: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قال: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنْ أَبِيهِ، قال: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا عَجِلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ، يُؤَخِّرُ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب مؤخر کرتے یہاں تک کہ اس کو اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 6 (1091)، 13 (1106)، 14 (1109)، العمرة 20 (1805)، الجھاد 136 (3000)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 6844)، مسند احمد 2/7، 8، 51، 63 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    6    7    8    9    10    11    12    13    14    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.