الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
حدیث نمبر: 3030
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد العزيز بن ابي رزمة، عن إسرائيل، عن سماك بن حرب، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " مر رجل من بني سليم على نفر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه غنم له فسلم عليهم، قالوا: ما سلم عليكم إلا ليتعوذ منكم؟ فقاموا: فقتلوه واخذوا غنمه فاتوا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانزل الله تعالى: يايها الذين آمنوا إذا ضربتم في سبيل الله فتبينوا ولا تقولوا لمن القى إليكم السلام لست مؤمنا سورة النساء آية 94 "، قال ابو عيسى 12: هذا حديث حسن، وفي الباب، عن اسامة بن زيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " مَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ غَنَمٌ لَهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، قَالُوا: مَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا لِيَتَعَوَّذَ مِنْكُمْ؟ فَقَامُوا: فَقَتَلُوهُ وَأَخَذُوا غَنَمَهُ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا سورة النساء آية 94 "، قَالَ أَبُو عِيسَى 12: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ بنو سلیم کا ایک آدمی صحابہ کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا، اس کے ساتھ اس کی بکریاں بھی تھیں، اس نے ان لوگوں کو سلام کیا، ان لوگوں نے کہا: اس نے تم لوگوں کی پناہ لینے کے لیے تمہیں سلام کیا ہے، پھر ان لوگوں نے بڑھ کر اسے قتل کر دیا، اس کی بکریاں اپنے قبضہ میں لے لیں۔ اور انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «يا أيها الذين آمنوا إذا ضربتم في سبيل الله فتبينوا ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا» اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں (النساء: ۹۴) نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں اسامہ بن زید سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6119) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3031
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب، قال: " لما نزلت لا يستوي القاعدون من المؤمنين سورة النساء آية 95، جاء عمرو ابن ام مكتوم إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال: وكان ضرير البصر، فقال: يا رسول الله، ما تامرني إني ضرير البصر، فانزل الله تعالى هذه الآية: غير اولي الضرر سورة النساء آية 95، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إيتوني بالكتف والدواة او اللوح والدواة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ويقال عمرو ابن ام مكتوم، ويقال عبد الله ابن ام مكتوم، وهو عبد الله بن زائدة، وام مكتوم امه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، جَاءَ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانَ ضَرِيرَ الْبَصَرِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَأْمُرُنِي إِنِّي ضَرِيرُ الْبَصَرِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُقَالُ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَيُقَالُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَائِدَةَ، وَأُمُّ مَكْتُومٍ أُمُّهُ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بیٹھے رہ جانے والے مومن برابر نہیں (النساء: ۹۵) نازل ہوئی تو عمرو بن ام مکتوم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ نابینا تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں، میں تو اندھا ہوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے آیت: «غير أولي الضرر» نازل فرمائی، یعنی مریض اور معذور لوگوں کو چھوڑ کر، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس شانہ کی ہڈی اور دوات لے آؤ (یا یہ کہا) تختی اور دوات لے آؤ کہ میں لکھا کر دے دوں کہ تم معذور لوگوں میں سے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس روایت میں عمرو بن ام مکتوم رضی الله عنہ کہا گیا ہے، انہیں عبداللہ بن ام مکتوم بھی کہا جاتا ہے، وہ عبداللہ بن زائدہ ہیں، اور ام مکتوم ان کی ماں ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 31 (2831)، وتفسیر النساء 18 (4593، 4594)، وفضائل القرآن 4 (4990)، صحیح مسلم/الإمارة 40 (1898) (تحفة الأشراف: 1854) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بیٹھے رہ جانے والے مومن برابر نہیں (النساء: ۹۵)، اس کے بعد والے ٹکڑے نے بیٹھے رہ جانے والوں میں سے معذروں کو مستثنیٰ کر دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3032
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن محمد الزعفراني، حدثنا الحجاج بن محمد، عن ابن جريج، اخبرني عبد الكريم، سمع مقسما مولى عبد الله بن الحارث يحدث، عن ابن عباس، انه قال: " لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير اولي الضرر سورة النساء آية 95 عن بدر، والخارجون إلى بدر لما نزلت غزوة بدر، قال عبد الله بن جحش، وابن ام مكتوم: إنا اعميان يا رسول الله، فهل لنا رخصة؟ فنزلت لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير اولي الضرر سورة النساء آية 95 وفضل الله المجاهدين على القاعدين درجة، فهؤلاء القاعدون غير اولي الضرر وفضل الله المجاهدين على القاعدين اجرا عظيما {95} درجات منه سورة النساء آية 94-95 على القاعدين من المؤمنين غير اولي الضرر "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه من حديث ابن عباس، ومقسم يقال: هو مولى عبد الله بن الحارث، ويقال: هو مولى ابن عباس وكنيته ابو القاسم.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ، سَمِعَ مِقْسَمًا مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: " لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 عَنْ بَدْرٍ، وَالْخَارِجُونَ إِلَى بَدْرٍ لَمَّا نَزَلَتْ غَزْوَةُ بَدْرٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَحْشِ، وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ: إِنَّا أَعْمَيَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَهَلْ لَنَا رُخْصَةٌ؟ فَنَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً، فَهَؤُلَاءِ الْقَاعِدُونَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا {95} دَرَجَاتٍ مِنْهُ سورة النساء آية 94-95 عَلَى الْقَاعِدِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرِ أُولِي الضَّرَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَمِقْسَمٌ يُقَالُ: هُوَ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، وَيُقَالُ: هُوَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَكُنْيَتُهُ أَبُو الْقَاسِمِ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر» کی تفسیر میں کہتے ہیں: جب جنگ بدر کا موقع آیا تو اس موقع پر یہ آیت جنگ بدر میں شریک ہونے والے اور نہ شریک ہونے والے مسلمانوں کے متعلق نازل ہوئی۔ تو عبداللہ بن جحش اور ابن ام مکتوم رضی الله عنہما دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم دونوں اندھے ہیں کیا ہمارے لیے رخصت ہے کہ ہم جہاد میں نہ جائیں؟ تو آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر» نازل ہوئی، اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ ان بیٹھ رہنے والوں سے مراد اس آیت میں غیر معذور لوگ ہیں، باقی رہے معذور لوگ تو وہ مجاہدین کے برابر ہیں۔ اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ذریعہ فضیلت دی ہے۔ اور بیٹھ رہنے والے مومنین پر اپنی جانب سے ان کے درجے بڑھا کر فضیلت دی ہے۔ اور یہ بیٹھ رہنے والے مومنین وہ ہیں جو بیمار و معذور نہیں ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- مقسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عبداللہ بن حارث کے آزاد کردہ غلام ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ابن عباس کے آزاد کردہ غلام ہیں اور مقسم کی کنیت ابوالقاسم ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 5 (3954)، وتفسیر النساء 19 (4595) (تحفة الأشراف: 6492) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3033
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، عن ابيه، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، حدثني سهل بن سعد، قال: رايت مروان بن الحكم جالسا في المسجد فاقبلت حتى جلست إلى جنبه فاخبرنا، ان زيد بن ثابت اخبره، ان النبي صلى الله عليه وسلم " املى عليه، " لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله "، قال: فجاءه ابن ام مكتوم وهو يمليها علي، فقال: يا رسول الله، والله لو استطيع الجهاد لجاهدت وكان رجلا اعمى، فانزل الله على رسوله صلى الله عليه وسلم وفخذه على فخذي فثقلت حتى همت ترض فخذي ثم سري عنه، فانزل الله عليه غير اولي الضرر سورة النساء آية 95 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، هكذا روى غير واحد عن الزهري، عن سهل بن سعد نحو هذا، وروى معمر، عن الزهري هذا الحديث، عن قبيصة بن ذؤيب، عن زيد بن ثابت، وفي هذا الحديث رواية رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن رجل من التابعين، رواه سهل بن سعد الانصاري، عن مروان بن الحكم، ومروان لم يسمع من النبي صلى الله عليه وسلم، وهو من التابعين.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَأَخْبَرَنَا، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمْلَى عَلَيْهِ، " لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ: فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمْلِيهَا عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي فَثَقُلَتْ حَتَّى هَمَّتْ تَرُضُّ فَخِذِي ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ رِوَايَةُ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ مِنَ التَّابِعِين، رَوَاهُ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، وَمَرْوَانُ لم يسمع من النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مِنَ التَّابِعِين.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھا تو میں بھی آگے بڑھ کر ان کے پہلو میں جا بیٹھا انہوں نے ہمیں بتایا کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں املا کرایا «‏‏‏‏(لا يستوي القاعدون من المؤمنين» «والمجاهدون في سبيل الله» گھروں میں بیٹھ رہنے والے مسلمان، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے اسی دوران ابن ام مکتوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ پہنچے اور آپ اس آیت کا ہمیں املا کرا رہے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی، اگر میں جہاد کی طاقت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا، وہ نابینا شخص تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت «غير أولي الضرر» نازل فرمائی اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت آپ کی ران (قریب بیٹھے ہونے کی وجہ سے) میری ران پر تھی، وہ (نزول وحی کے دباؤ سے) بوجھل ہو گئی، لگتا تھا کہ میری ران پس جائے گی۔ پھر (جب نزول وحی کی کیفیت ختم ہو گئی) تو آپ کی پریشانی دور ہو گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح کئی راویوں نے زہری سے اور زہری نے سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت کی ہے،
۳- معمر نے زہری سے یہ حدیث قبیصہ بن ذویب کے واسطہ سے، قبیصہ نے زید بن ثابت سے روایت کی ہے، اور اس حدیث میں ایک روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کی ایک تابعی سے ہے، روایت کیا ہے سہل بن سعد انصاری (صحابی) نے مروان بن حکم (تابعی) سے۔ اور مروان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے، وہ تابعی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 31 (2832)، وتفسیر النساء 19 (4592) (تحفة الأشراف: 3739) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3034
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، قال: سمعت عبد الرحمن بن عبد الله بن ابي عمار يحدث، عن عبد الله بن باباه، عن يعلى بن امية، قال: قلت لعمر بن الخطاب: إنما قال الله: ان تقصروا من الصلاة إن خفتم ان يفتنكم الذين كفروا سورة النساء آية 101، وقد امن الناس، فقال عمر: عجبت مما عجبت منه، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " صدقة تصدق الله بها عليكم، فاقبلوا صدقته "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: إِنَّمَا قَالَ اللَّهُ: أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة النساء آية 101، وَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ، فَقَالَ عُمَرُ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی الله عنہ سے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم» تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں پریشان کریں گے (النساء: ۱۰۱)، اور اب تو لوگ امن و امان میں ہیں (پھر قصر کیوں کر جائز ہو گی؟) عمر رضی الله عنہ نے کہا: جو بات تمہیں کھٹکی وہ مجھے بھی کھٹک چکی ہے، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی جانب سے تمہارے لیے ایک صدقہ ہے جو اللہ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے، پس تم اس کے صدقے کو قبول کر لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 1 (686)، سنن ابی داود/ الصلاة 270 (1199)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 1 (1434)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 73 (1065) (تحفة الأشراف: 10659)، و مسند احمد (1/25، 36)، وسنن الدارمی/الصلاة 179 (1546) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1065)
حدیث نمبر: 3035
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا سعيد بن عبيد الهنائي، حدثنا عبد الله بن شقيق، حدثنا ابو هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل بين ضجنان وعسفان، فقال المشركون: إن لهؤلاء صلاة هي احب إليهم من آبائهم وابنائهم وهي العصر، فاجمعوا امركم فميلوا عليهم ميلة واحدة، وان جبريل اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فامره ان يقسم اصحابه شطرين فيصلي بهم وتقوم طائفة اخرى وراءهم ولياخذوا حذرهم واسلحتهم، ثم ياتي الآخرون ويصلون معه ركعة واحدة ثم ياخذ هؤلاء حذرهم واسلحتهم، فتكون لهم ركعة ركعة ولرسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتان "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه من حديث عبد الله بن شقيق، عن ابي هريرة، وفي الباب، عن عبد الله بن مسعود، وزيد بن ثابت، وابن عباس، وجابر، وابي عياش الزرقي، وابن عمر، وحذيفة، وابي بكرة، وسهل بن ابي حثمة، وابو عياش الزرقي اسمه زيد بن صامت.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْهُنَائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ بَيْنَ ضَجْنَانَ وَعُسْفَانَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّ لِهَؤُلَاءِ صَلَاةً هِيَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ وَهِيَ الْعَصْرُ، فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ فَمِيلُوا عَلَيْهِمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً، وَأَنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ أَصْحَابَهُ شَطْرَيْنِ فَيُصَلِّيَ بِهِمْ وَتَقُومُ طَائِفَةٌ أُخْرَى وَرَاءَهُمْ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي الْآخَرُونَ وَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَكْعَةً وَاحِدَةً ثُمَّ يَأْخُذُ هَؤُلَاءِ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ، فَتَكُونُ لَهُمْ رَكْعَةٌ رَكْعَةٌ وَلِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَحُذَيْفَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَأَبُو عَيَّاشٍ الزُّرَقِيُّ اسْمُهُ زَيْدُ بْنُ صَامِتٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضجنان اور عسفان (نامی مقامات) کے درمیان قیام فرما ہوئے، مشرکین نے کہا: ان کے یہاں ایک نماز ہوتی ہے جو انہیں اپنے باپ بیٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے، اور وہ نماز عصر ہے، تو تم پوری طرح تیاری کر لو پھر ان پر یک بارگی ٹوٹ پڑو۔ (اس پر) جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں (ان میں سے) ایک گروہ کے ساتھ آپ نماز پڑھیں اور دوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لے کر کھڑا رہے۔ پھر دوسرے گروہ کے لوگ آئیں اور آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں پھر یہ (پہلے گروہ والے لوگ) اپنی ڈھالیں اور ہتھیار لے کر ان کے پیچھے کھڑے رہیں ۱؎ اس طرح ان سب کی ایک ایک رکعت ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہوں گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس سند سے عبداللہ بن شقیق کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، ابن عباس، جابر، ابوعیاش زرقی، ابن عمر، حذیفہ، ابوبکرہ اور سہل بن ابوحشمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور ابوعیاش کا نام زید بن صامت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 13566) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف «وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طآئفة منهم معك وليأخذوا أسلحتهم» (النساء: ۱۰۲)۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
حدیث نمبر: 3036
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن احمد بن ابي شعيب ابو مسلم الحراني، حدثنا محمد بن سلمة الحراني، حدثنا محمد بن إسحاق، عن عاصم بن عمر بن قتادة، عن ابيه، عن جده قتادة بن النعمان، قال: " كان اهل بيت منا يقال لهم بنو ابيرق بشر، وبشير، ومبشر، وكان بشير رجلا منافقا يقول: الشعر يهجو به اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم ينحله بعض العرب، ثم يقول: قال فلان كذا وكذا، قال فلان كذا وكذا، فإذا سمع اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك الشعر، قالوا: والله ما يقول هذا الشعر إلا هذا الخبيث او كما قال الرجل، وقالوا: ابن الابيرق قالها، قال: وكانوا اهل بيت حاجة وفاقة في الجاهلية والإسلام، وكان الناس إنما طعامهم بالمدينة التمر والشعير وكان الرجل إذا كان له يسار فقدمت ضافطة من الشام، من الدرمك، ابتاع الرجل منها فخص بها نفسه، واما العيال فإنما طعامهم التمر والشعير، فقدمت ضافطة من الشام فابتاع عمي رفاعة بن زيد حملا من الدرمك، فجعله في مشربة له، وفي المشربة سلاح ودرع وسيف، فعدي عليه من تحت البيت فنقبت المشربة واخذ الطعام والسلاح، فلما اصبح اتاني عمي رفاعة، فقال: يا ابن اخي، إنه قد عدي علينا في ليلتنا هذه فنقبت مشربتنا فذهب بطعامنا وسلاحنا، قال: فتحسسنا في الدار وسالنا، فقيل لنا: قد راينا بني ابيرق استوقدوا في هذه الليلة، ولا نرى فيما نرى إلا على بعض طعامكم، قال: وكان بنو ابيرق، قالوا: ونحن نسال في الدار والله ما نرى صاحبكم إلا لبيد بن سهل رجل منا له صلاح وإسلام، فلما سمع لبيد اخترط سيفه، وقال: انا اسرق! فوالله ليخالطنكم هذا السيف او لتبينن هذه السرقة، قالوا: إليك عنها ايها الرجل فما انت بصاحبها، فسالنا في الدار حتى لم نشك انهم اصحابها، فقال لي عمي: يا ابن اخي، لو اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، قال قتادة: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن اهل بيت منا اهل جفاء عمدوا إلى عمي رفاعة بن زيد فنقبوا مشربة له واخذوا سلاحه وطعامه فليردوا علينا سلاحنا فاما الطعام فلا حاجة لنا فيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: سآمر في ذلك، فلما سمع بنو ابيرق اتوا رجلا منهم، يقال له: اسير بن عروة فكلموه في ذلك، فاجتمع في ذلك ناس من اهل الدار، فقالوا: يا رسول الله، إن قتادة بن النعمان وعمه عمدا إلى اهل بيت منا اهل إسلام وصلاح يرمونهم بالسرقة من غير بينة ولا ثبت، قال قتادة: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكلمته، فقال: عمدت إلى اهل بيت ذكر منهم إسلام وصلاح ترمهم بالسرقة على غير ثبت ولا بينة، قال: فرجعت ولوددت اني خرجت من بعض مالي ولم اكلم رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك، فاتاني عمي رفاعة، فقال: يا ابن اخي، ما صنعت فاخبرته بما قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: الله المستعان فلم يلبث ان نزل القرآن إنا انزلنا إليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما اراك الله ولا تكن للخائنين خصيما سورة النساء آية 105 بني ابيرق واستغفر الله سورة النساء آية 106 اي مما قلت لقتادة: إن الله كان غفورا رحيما {106} ولا تجادل عن الذين يختانون انفسهم إن الله لا يحب من كان خوانا اثيما {107} يستخفون من الناس ولا يستخفون من الله إلى قوله غفورا رحيما سورة النساء آية 106 ـ 110 اي لو استغفروا الله لغفر لهم ومن يكسب إثما فإنما يكسبه على نفسه إلى قوله وإثما مبينا سورة النساء آية 111 قوله للبيد ولولا فضل الله عليك ورحمته إلى قوله فسوف نؤتيه اجرا عظيما سورة النساء آية 113 ـ 114، فلما نزل القرآن اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسلاح فرده إلى رفاعة، فقال قتادة: لما اتيت عمي بالسلاح وكان شيخا قد عشا او عسى في الجاهلية وكنت ارى إسلامه مدخولا، فلما اتيته بالسلاح، قال: يا ابن اخي، هو في سبيل الله، فعرفت ان إسلامه كان صحيحا، فلما نزل القرآن لحق بشير بالمشركين فنزل على سلافة بنت سعد ابن سمية فانزل الله ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا {115} إن الله لا يغفر ان يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد ضل ضلالا بعيدا {116} سورة النساء آية 115-116 فلما نزل على سلافة رماها حسان بن ثابت بابيات من شعره، فاخذت رحله فوضعته على راسها، ثم خرجت به فرمت به في الابطح ثم قالت: اهديت لي شعر حسان ما كنت تاتيني بخير "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعلم احدا اسنده غير محمد بن سلمة الحراني، وروى يونس بن بكير وغير واحد هذا الحديث عن محمد بن إسحاق، عن عاصم بن عمر بن قتادة مرسل، لم يذكروا فيه عن ابيه، عن جده، وقتادة بن النعمان هو اخو ابي سعيد الخدري لامه، وابو سعيد الخدري اسمه سعد بن مالك بن سنان.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَ: " كَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَّا يُقَالُ لَهُمْ بَنُو أُبَيْرِقٍ بِشْرٌ، وَبُشَيْرٌ، وَمُبَشِّرٌ، وَكَانَ بُشَيْرٌ رَجُلًا مُنَافِقًا يَقُولُ: الشِّعْرَ يَهْجُو بِهِ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَنْحَلُهُ بَعْضَ الْعَرَبِ، ثُمَّ يَقُولُ: قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا، قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا، فَإِذَا سَمِعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ الشِّعْرَ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَقُولُ هَذَا الشِّعْرَ إِلَّا هَذَا الْخَبِيثُ أَوْ كَمَا قَالَ الرَّجُلُ، وَقَالُوا: ابْنُ الْأُبَيْرِقِ قَالَهَا، قَالَ: وَكَانُوا أَهْلَ بَيْتِ حَاجَةٍ وَفَاقَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَالْإِسْلَامِ، وَكَانَ النَّاسُ إِنَّمَا طَعَامُهُمْ بِالْمَدِينَةِ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ لَهُ يَسَارٌ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنَ الشَّامِ، مِنَ الدَّرْمَكِ، ابْتَاعَ الرَّجُلُ مِنْهَا فَخَصَّ بِهَا نَفْسَهُ، وَأَمَّا الْعِيَالُ فَإِنَّمَا طَعَامُهُمُ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ، فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنَ الشَّامِ فَابْتَاعَ عَمِّي رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ حِمْلًا مِنَ الدَّرْمَكِ، فَجَعَلَهُ فِي مَشْرَبَةٍ لَهُ، وَفِي الْمَشْرَبَةِ سِلَاحٌ وَدِرْعٌ وَسَيْفٌ، فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنْ تَحْتِ الْبَيْتِ فَنُقِبَتِ الْمَشْرَبَةُ وَأُخِذَ الطَّعَامُ وَالسِّلَاحُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنَّهُ قَدْ عُدِيَ عَلَيْنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَنُقِبَتْ مَشْرَبَتُنَا فَذُهِبَ بِطَعَامِنَا وَسِلَاحِنَا، قَالَ: فَتَحَسَّسْنَا فِي الدَّارِ وَسَأَلْنَا، فَقِيلَ لَنَا: قَدْ رَأَيْنَا بَنِي أُبَيْرِقٍ اسْتَوْقَدُوا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ، وَلَا نَرَى فِيمَا نَرَى إِلَّا عَلَى بَعْضِ طَعَامِكُمْ، قَالَ: وَكَانَ بَنُو أُبَيْرِقٍ، قَالُوا: وَنَحْنُ نَسْأَلُ فِي الدَّارِ وَاللَّهِ مَا نُرَى صَاحِبَكُمْ إِلَّا لَبِيدَ بْنَ سَهْلٍ رَجُلٌ مِنَّا لَهُ صَلَاحٌ وَإِسْلَامٌ، فَلَمَّا سَمِعَ لَبِيدٌ اخْتَرَطَ سَيْفَهُ، وَقَالَ: أَنَا أَسْرِقُ! فَوَاللَّهِ لَيُخَالِطَنَّكُمْ هَذَا السَّيْفُ أَوْ لَتُبَيِّنُنَّ هَذِهِ السَّرِقَةَ، قَالُوا: إِلَيْكَ عَنْهَا أَيُّهَا الرَّجُلُ فَمَا أَنْتَ بِصَاحِبِهَا، فَسَأَلْنَا فِي الدَّارِ حَتَّى لَمْ نَشُكَّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهَا، فَقَالَ لِي عَمِّي: يَا ابْنَ أَخِي، لَوْ أَتَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتَ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ قَتَادَةُ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلَ جَفَاءٍ عَمَدُوا إِلَى عَمِّي رِفَاعَةَ بْنِ زَيْدٍ فَنَقَبُوا مَشْرَبَةً لَهُ وَأَخَذُوا سِلَاحَهُ وَطَعَامَهُ فَلْيَرُدُّوا عَلَيْنَا سِلَاحَنَا فَأَمَّا الطَّعَامُ فَلَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَآمُرُ فِي ذَلِكَ، فَلَمَّا سَمِعَ بَنُو أُبَيْرِقٍ أَتَوْا رَجُلًا مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: أَسَيْرُ بْنُ عُرْوَةَ فَكَلَّمُوهُ فِي ذَلِكَ، فَاجْتَمَعَ فِي ذَلِكَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ وَعَمَّهُ عَمَدَا إِلَى أَهْلِ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلِ إِسْلَامٍ وَصَلَاحٍ يَرْمُونَهُمْ بِالسَّرِقَةِ مِنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ وَلَا ثَبَتٍ، قَالَ قَتَادَةُ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمْتُهُ، فَقَالَ: عَمَدْتَ إِلَى أَهْلِ بَيْتٍ ذُكِرَ مِنْهُمْ إِسْلَامٌ وَصَلَاحٌ تَرْمِهِمْ بِالسَّرِقَةِ عَلَى غَيْرِ ثَبَتٍ وَلَا بَيِّنَةٍ، قَالَ: فَرَجَعْتُ وَلَوَدِدْتُ أَنِّي خَرَجْتُ مِنْ بَعْضِ مَالِي وَلَمْ أُكَلِّمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَأَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، مَا صَنَعْتَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ نَزَلَ الْقُرْآنُ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا سورة النساء آية 105 بَنِي أُبَيْرِقٍ وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ سورة النساء آية 106 أَيْ مِمَّا قُلْتَ لِقَتَادَةَ: إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا {106} وَلا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا {107} يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورًا رَحِيمًا سورة النساء آية 106 ـ 110 أَيْ لَوِ اسْتَغْفَرُوا اللَّهَ لَغَفَرَ لَهُمْ وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ إِلَى قَوْلِهِ وَإِثْمًا مُبِينًا سورة النساء آية 111 قَوْلَهُ لِلَبِيدٍ وَلَوْلا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ إِلَى قَوْلِهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا سورة النساء آية 113 ـ 114، فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسِّلَاحِ فَرَدَّهُ إِلَى رِفَاعَةَ، فَقَالَ قَتَادَةُ: لَمَّا أَتَيْتُ عَمِّي بِالسِّلَاحِ وَكَانَ شَيْخًا قَدْ عَشَا أَوْ عَسَى فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكُنْتُ أُرَى إِسْلَامُهُ مَدْخُولًا، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ بِالسِّلَاحِ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، هُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَعَرَفْتُ أَنَّ إِسْلَامَهُ كَانَ صَحِيحًا، فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ لَحِقَ بُشَيْرٌ بِالْمُشْرِكِينَ فَنَزَلَ عَلَى سُلَافَةَ بِنْتِ سَعْدِ ابْنِ سُمَيَّةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا {115} إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا بَعِيدًا {116} سورة النساء آية 115-116 فَلَمَّا نَزَلَ عَلَى سُلَافَةَ رَمَاهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ بِأَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِهِ، فَأَخَذَتْ رَحْلَهُ فَوَضَعَتْهُ عَلَى رَأْسِهَا، ثُمَّ خَرَجَتْ بِهِ فَرَمَتْ بِهِ فِي الْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَتْ: أَهْدَيْتَ لِي شِعْرَ حَسَّانَ مَا كُنْتَ تَأْتِينِي بِخَيْرٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيِّ، وَرَوَى يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ مُرْسَلٌ، لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ هُوَ أَخُو أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لِأُمِّهِ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ.
قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (انصار) میں سے ایک خاندان ایسا تھا، جنہیں بنو ابیرق کہا جاتا تھا۔ اور وہ تین بھائی تھے، بشر، بشیر اور مبشر، بشیر منافق تھا، شعر کہتا تھا اور صحابہ کی ہجو کرتا تھا، پھر ان کو بعض عرب کی طرف منسوب کر کے کہتا تھا: فلان نے ایسا ایسا کہا، اور فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ صحابہ نے یہ شعر سنا تو کہا: اللہ کی قسم! یہ کسی اور کے نہیں بلکہ اسی خبیث کے کہے ہوئے ہیں - یا جیسا کہ راوی نے «خبیث» کی جگہ «الرجل» کہا - انہوں (یعنی صحابہ) نے کہا: یہ اشعار ابن ابیرق کے کہے ہوئے ہیں، وہ لوگ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں ہی میں محتاج اور فاقہ زدہ لوگ تھے، مدینہ میں لوگوں کا کھانا کھجور اور جو ہی تھا، جب کسی شخص کے یہاں مالداری و کشادگی ہو جاتی اور کوئی غلوں کا تاجر شام سے سفید آٹا (میدہ) لے کر آتا تو وہ مالدار شخص اس میں سے کچھ خرید لیتا اور اسے اپنے کھانے کے لیے مخصوص کر لیتا، اور بال بچے کھجور اور جو ہی کھاتے رہتے۔ (ایک بار ایسا ہوا) ایک مال بردار شتربان شام سے آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زید نے میدے کی ایک بوری خرید لی اور اسے اپنے اسٹاک روم میں رکھ دی، اور اس اسٹور روم میں ہتھیار، زرہ اور تلوار بھی رکھی ہوئی تھی۔ ان پر ظلم و زیادتی یہ ہوئی کہ گھر کے نیچے سے اس اسٹاک روم میں نقب لگائی گئی اور راشن اور ہتھیار سب کا سب چرا لیا گیا، صبح کے وقت میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے اور کہا: میرے بھتیجے آج کی رات تو مجھ پر بڑی زیادتی کی گئی۔ میرے اسٹور روم میں نقب لگائی گئی ہے اور ہمارا راشن اور ہمارا ہتھیار سب کچھ چرا لیا گیا ہے۔ ہم نے محلے میں پتہ لگانے کی کوشش کی اور لوگوں سے پوچھ تاچھ کی تو ہم سے کہا گیا کہ ہم نے بنی ابیرق کو آج رات دیکھا ہے، انہوں نے آگ جلا رکھی تھی، اور ہمارا خیال ہے کہ تمہارے ہی کھانے پر (جشن) منا رہے ہوں گے۔ (یعنی چوری کا مال پکا رہے ہوں گے) جب ہم محلے میں پوچھ تاچھ کر رہے تھے تو ابوابیرق نے کہا: قسم اللہ کی! ہمیں تو تمہارا چور لبید بن سہل ہی لگتا ہے، لبید ہم میں ایک صالح مرد اور مسلمان شخص تھے، جب لبید نے سنا کہ بنو ابیرق اس پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی تلوار سونت لی، اور کہا میں چور ہوں؟ قسم اللہ کی! میری یہ تلوار تمہارے بیچ رہے گی یا پھر تم اس چوری کا پتہ لگا کر دو۔ لوگوں نے کہا: جناب! آپ اپنی تلوار ہم سے دور ہی رکھیں، آپ چور نہیں ہو سکتے، ہم نے محلے میں مزید پوچھ تاچھ کی، تو ہمیں اس میں شک نہیں رہ گیا کہ بنو ابیرق ہی چور ہیں۔ میرے چچا نے کہا: بھتیجے! اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور آپ سے اس (حادثے) کا ذکر کرتے (تو ہو سکتا ہے میرا مال مجھے مل جاتا) قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کیا: ہمارے ہی لوگوں میں سے ایک گھر والے نے ظلم و زیادتی کی ہے۔ انہوں نے ہمارے چچا رفاعہ بن زید (کے گھر) کا رخ کیا ہے اور ان کے اسٹور روم میں نقب لگا کر ان کا ہتھیار اور ان کا راشن (کھانا) چرا لے گئے ہیں، تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ہتھیار ہمیں واپس دے دیں۔ راشن (غلے) کی واپسی کا ہم مطالبہ نہیں کرتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس بارے میں مشورہ (اور پوچھ تاچھ) کے بعد ہی کوئی فیصلہ دوں گا۔ جب یہ بات بنو ابیرق نے سنی تو وہ اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس آئے، اس شخص کو اسیر بن عروہ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اس سے اس معاملے میں بات چیت کی اور محلے کے کچھ لوگ بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ ایک رائے ہو گئے۔ اور ان سب نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر) کہا: اللہ کے رسول! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا دونوں ہم ہی لوگوں میں سے ایک گھر والوں پر جو مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں بغیر کسی گواہ اور بغیر کسی ثبوت کے چوری کا الزام لگاتے ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «ومن يكسب إثما فإنما يكسبه على نفسه» إلی قولہ «إثما مبينا» ۳؎ اس سے اشارہ نبی ابیرق کی اس بات کی طرف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ چوری لبید بن سہل نے کی ہے۔ اور آگے اللہ نے فرمایا: «ولولا فضل الله عليك ورحمته» سے «فسوف نؤتيه أجرا عظيما» ۴؎ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو وہ (بنی ابیرق) ہتھیار رسول اللہ کے پاس لے آئے۔ اور آپ نے رفاعہ کو لوٹا دیئے، قتادہ کہتے ہیں: میرے چچا بوڑھے تھے اور اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت ہی میں ان کی نگاہیں کمزور ہو چکی تھیں، اور میں سمجھتا تھا کہ ان کے ایمان میں کچھ خلل ہے لیکن جب میں ہتھیار لے کر اپنے چچا کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: اے میرے بھتیجے! اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ میں دیتا ہوں، اس وقت میں نے جان لیا (اور یقین کر لیا) کہ چچا کا اسلام پختہ اور درست تھا (اور ہے) جب قرآن کی آیتیں نازل ہوئی تو بشیر مشرکوں میں جا شامل ہوا۔ اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے پاس جا ٹھہرا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد ضل ضلالا بعيدا» نازل فرمائی ۵؎ جب وہ سلافہ کے پاس جا کر ٹھہرا تو حسان بن ثابت رضی الله عنہ نے اپنے چند اشعار کے ذریعہ اس کی ہجو کی، (یہ سن کر) اس نے سدافہ بنت سعد کا سامان اپنے سر پر رکھ کر گھر سے نکلی اور میدان میں پھینک آئی۔ پھر (اس سے) کہا: تم نے ہمیں حسان کے شعر کا تحفہ دیا ہے؟ تم سے مجھے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اور ہم محمد بن سلمہ حرانی کے سوا کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو،
۲- یونس بن بکیر اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو محمد بن اسحاق سے اور محمد بن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ عاصم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ان کے دادا سے روایت کی ہے،
۳- قتادہ بن نعمان، ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے اخیافی بھائی ہیں،
۴- ابو سعید خدری سعد بن مالک بن سنان ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11075) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یقیناً ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس بصیرت کے مطابق فیصلہ کریں جس سے اللہ نے آپ کو نوازا ہے، اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو (النساء: ۱۰۵)۔
۲؎: اور ان کی طرف سے جھگڑا نہ کرو جو خود اپنی ہی خیانت کرتے ہیں، یقیناً دغا باز، گنہگار اللہ تعالیٰ کو اچھا نہیں لگتا، وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتے، وہ راتوں کے وقت جب کہ اللہ کے ناپسندیدہ باتوں کے خفیہ مشورے کرتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کے پاس ہوتا ہے، ان کے تمام اعمال کو وہ گھیرے ہوئے ہے، ہاں، تو یہ تم لوگ ہو کہ جنہوں نے ان لوگوں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں جھگڑا کر لیا (ان کی حمایت کر دی) لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا؟ اور وہ کون ہے جو ان کے وکیل بن کر کھڑا ہو سکے گا، جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کر والا پائے گا (النساء: ۱۰۷تا۱۱۰)۔
۳؎: اور جو گناہ کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے اور اللہ بخوبی جاننے والا اور پوری حکمت والا ہے، اور جو شخص کوئی گناہ یا خطا کر کے کسی بےگناہ کے ذمہ تھوپ دے، اس نے بہت بڑا بہتان اٹھایا اور کھلا گناہ کیا (النساء: ۱۱۱-۱۱۲)۔
۴؎: اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و رحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا، دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا، اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے، ان کے اکثر مصلحتیٰ مشورے خیر سے عاری ہیں، ہاں، بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے۔
۵؎: ہدایت کے واضح ہونے کے بعد جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلے گا تو جدھر کا وہ رخ کرے گا ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے، اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ اور جہنم بری جگہ ہے، اللہ اسے معاف نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور شرک کے سوا جو چیز بھی اللہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا۔ اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا وہ بہت بڑی گمراہی میں جا پڑے گا (النساء: ۱۱۵، ۱۱۶)۔

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 3037
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا خلاد بن اسلم البغدادي، حدثنا النضر بن شميل، عن إسرائيل، عن ثوير بن ابي فاختة، عن ابيه، عن علي بن ابي طالب، قال: " ما في القرآن آية احب إلي من هذه الآية إن الله لا يغفر ان يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء سورة النساء آية 48 "، قال: هذا حديث حسن غريب، وابو فاختة اسمه سعيد بن علاقة، وثوير يكنى ابا جهم وهو رجل كوفي من التابعين، وقد سمع من ابن عمر، وابن الزبير، وابن مهدي كان يغمزه قليلا.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: " مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ سورة النساء آية 48 "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو فَاخِتَةَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ، وَثُوَيْرٌ يُكْنَى أَبَا جَهْمٍ وَهُوَ رَجُلٌ كُوفِيٌّ مِنَ التَّابِعِينَ، وَقَدْ سَمِعَ مِنَ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ مَهْدِيٍّ كَانَ يَغْمِزُهُ قَلِيلًا.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت مجھے اس آیت: «إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء» اللہ اس بات کو معاف نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، ہاں اس کے سوا جس کسی بھی چیز کو چاہے گا معاف کر دے گا (النساء: ۱۱۶)، سے زیادہ محبوب و پسندیدہ نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ابوفاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے،
۳- ثویر کی کنیت ابوجہم ہے اور وہ کوفہ کے رہنے والے ہیں تابعی ہیں اور ابن عمر اور ابن زبیر سے ان کا سماع ہے، ابن مہدی ان پر کچھ طعن کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10111) (ضعیف الإسناد) (سند میں ثویر شیعی اور ضعیف راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 3038
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى بن ابي عمر، وعبد الله بن ابي زياد المعنى واحد، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابن محيصن، عن محمد بن قيس بن مخرمة، عن ابي هريرة، قال: " لما نزل من يعمل سوءا يجز به سورة النساء آية 123 شق ذلك على المسلمين فشكوا ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " قاربوا وسددوا وفي كل ما يصيب المؤمن كفارة حتى الشوكة يشاكها او النكبة ينكبها "، ابن محيصن هو عمر بن عبد الرحمن بن محيصن، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ مُحَيْصِنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ سورة النساء آية 123 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " قَارِبُوا وَسَدِّدُوا وَفِي كُلِّ مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ كَفَّارَةٌ حَتَّى الشَّوْكَةَ يُشَاكُهَا أَوِ النَّكْبَةَ يُنْكَبُهَا "، ابْنُ مُحَيْصِنٍ هُوَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْصِنٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «من يعمل سوءا يجز به» جو کوئی برائی کرے گا ضرور اس کا بدلہ پائے گا (النساء: ۱۲۳)، نازل ہوئی تو یہ بات مسلمانوں پر بڑی گراں گزری، اس کی شکایت انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی، تو آپ نے فرمایا: حق کے قریب ہو جاؤ، اور سیدھے رہو، مومن کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ آدمی کو کوئی کانٹا چبھ جائے یا اسے کوئی مصیبت پہنچ جائے (تو اس کے سبب سے بھی اس کے گناہ جھڑ جاتے ہیں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة 14 (2574) (تحفة الأشراف: 14598) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج الطحاوية (390)، الضعيفة تحت الحديث (2924)
حدیث نمبر: 3039
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، وعبد بن حميد، قالا: حدثنا روح بن عبادة، عن موسى بن عبيدة، اخبرني مولى ابن سباع، قال: سمعت عبد الله بن عمر يحدث، عن ابي بكر الصديق، قال: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فانزلت عليه هذه الآية: من يعمل سوءا يجز به ولا يجد له من دون الله وليا ولا نصيرا سورة النساء آية 123، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ابا بكر، الا اقرئك آية انزلت علي؟ قلت: بلى يا رسول الله، قال: فاقرانيها فلا اعلم إلا اني قد كنت وجدت انقصاما في ظهري فتمطات لها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما شانك يا ابا بكر؟ قلت: يا رسول الله، بابي انت وامي واينا لم يعمل سوءا وإنا لمجزون بما عملنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما انت يا ابا بكر والمؤمنون فتجزون بذلك في الدنيا، حتى تلقوا الله وليس لكم ذنوب، واما الآخرون فيجمع ذلك لهم حتى يجزوا به يوم القيامة "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وفي إسناده مقال، وموسى بن عبيدة يضعف في الحديث، ضعفه يحيى بن سعيد، واحمد بن حنبل، ومولى ابن سباع مجهول، وقد روي هذا الحديث من غير هذا الوجه عن ابي بكر، وليس له إسناد صحيح ايضا، وفي الباب، عن عائشة.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَعَبْدُ بْنُ حميد، قَالَا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، أَخْبَرَنِي مَوْلَى ابْنِ سِبَاعٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ: مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصِيرًا سورة النساء آية 123، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا أُقْرِئُكَ آيَةً أُنْزِلَتْ عَلَيَّ؟ قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَقْرَأَنِيهَا فَلَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنِّي قَدْ كُنْتُ وَجَدْتُ انْقِصَامًا فِي ظَهْرِي فَتَمَطَّأْتُ لَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَأْنُكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي وَأَيُّنَا لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا وَإِنَّا لَمُجْزَوْنَ بِمَا عَمِلْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَنْتَ يَا أَبَا بَكْرٍ وَالْمُؤْمِنُونَ فَتُجْزَوْنَ بِذَلِكَ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَلَيْسَ لَكُمْ ذُنُوبٌ، وَأَمَّا الْآخَرُونَ فَيُجْمَعُ ذَلِكَ لَهُمْ حَتَّى يُجْزَوْا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمَوْلَى ابْنِ سِبَاعٍ مَجْهُولٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَلَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَائِشَةَ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اس وقت آپ پر یہ آیت: «من يعمل سوءا يجز به ولا يجد له من دون الله وليا ولا نصيرا» نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابوبکر! کیا میں تمہیں ایک آیت جو (ابھی) مجھ پر اتری ہے نہ پڑھا دوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ ابوبکر رضی الله عنہ کہتے ہیں: تو آپ نے مجھے (مذکورہ آیت) پڑھائی۔ میں نہیں جانتا کیا بات تھی، مگر میں نے اتنا پایا کہ کمر ٹوٹ رہی ہے تو میں نے اس کی وجہ سے انگڑائی لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کیا حال ہے! میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، بھلا ہم میں کون ہے ایسا جس سے کوئی برائی سرزد نہ ہوتی ہو؟ اور حال یہ ہے کہ ہم سے جو بھی عمل صادر ہو گا ہمیں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (گھبراؤ نہیں) ابوبکر تم اور سارے مومن لوگ یہ (چھوٹی موٹی) سزائیں تمہیں اسی دنیا ہی میں دے دی جائیں گی، یہاں تک کہ جب تم اللہ سے ملو گے تو تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ ہو گا، البتہ دوسروں کا حال یہ ہو گا کہ ان کی برائیاں جمع اور اکٹھی ہوتی رہیں گی جن کا بدلہ انہیں قیامت کے دن دیا جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اور اس کی سند میں کلام ہے،
۲- موسیٰ بن عبیدہ حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور احمد بن حنبل نے ضعیف کہا ہے۔ اور مولی بن سباع مجہول ہیں،
۳- اور یہ حدیث اس سند کے علاوہ سند سے ابوبکر سے مروی ہے، لیکن اس کی کوئی سند بھی صحیح نہیں ہے،
۴- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6604) (ضعیف الإسناد) (سند میں موسی بن عبیدہ ضعیف راوی ہے، اور مولی بن سباع مجہول)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (1237) //

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.