الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
حج اور عمرہ کے بیان میں
61. باب الْبَقَرَةِ تُجْزِئُ عَنِ الْبَدَنَةِ:
61. اونٹ کے بدلے گائے کی قربانی کے کافی ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 1942
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا عبد العزيز هو الماجشون، عن عبد الرحمن هو ابن القاسم، عن القاسم، عن عائشة، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نذكر إلا الحج، فلما جئنا سرف، طمثت، فلما كان يوم النحر، طهرت، فارسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم فافضت، فاتي بلحم بقر، فقلت: ما هذا؟ قالوا: "اهدى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه البقرة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ الْمَاجِشُونُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْكُرُ إِلَّا الْحَجَّ، فَلَمَّا جِئْنَا سَرِفَ، طَمِثْتُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ، طَهُرْتُ، فَأَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَضْتُ، فَأُتِيَ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: "أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَةَ".
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کے لئے نکلے اور جب مقام سرف پر پہنچے تو مجھے ماہواری شروع ہو گئی، پھر جب قربانی کا دن آیا تو میں پاک ہو گئی اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کے لئے بھیج دیا، (واپس آئے تو) گائے کا گوشت پیش کیا گیا، میں نے کہا: یہ کیسا گوشت ہے؟ جواب ملا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1946]»
اس حدیث کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1709]، [مسلم 1211]، [أبوداؤد 1750]، [ابن ماجه 3135]، [أبويعلی 4504]، [ابن حبان 3929]، [الحميدي 209]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1941)
اس حدیث سے گائے کی قربانی کا جواز ثابت ہوا جو اونٹ کی طرح سات افراد کی طرف سے کی جا سکتی ہے، نیز یہ کہ قربانی کا گوشت کھانا سنّت ہے، اور طواف کے لئے طہارت شرط ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
62. باب مَنْ قَالَ لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ حَلْقٌ:
62. عورتوں کے اوپر بال منڈانا واجب نہیں ہے
حدیث نمبر: 1943
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا علي بن عبد الله المديني، حدثنا هشام بن يوسف، حدثنا ابن جريج، اخبرني عبد الحميد بن جبير، عن صفية بنت شيبة، قالت: اخبرتني ام عثمان بنت ابي سفيان، ان ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ليس على النساء حلق، إنما على النساء التقصير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ عُثْمَانَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ حَلْقٌ، إِنَّمَا عَلَى النِّسَاءِ التَّقْصِيرُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں پر بال منڈانا (صحیح) نہیں ہے، ان پر صرف بال کترنا (واجب) ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1947]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1984، 1985]، [طبراني 13018]، [مجمع الزوائد 5678]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1942)
عمرے اور حج میں عورت کے لئے بال منڈانا جائز و درست نہیں ہے، وہ صرف بال کتریں گی، ہر لٹ سے ایک پورٹے کے برابر، اس سے زیادہ چھوٹے بال کرنا بھی درست نہیں، بال عورت کی پہچان اور زینت ہیں جو حج و عمرے میں بھی منڈانا یا زیادہ چھوٹے کرنا درست نہیں تو پھر حج یا عمرے کے علاوہ بلا ضرورت بالوں کو چھوٹے کرنا یا منڈا دینا مردوں کے ساتھ مشابہت ہے، اور ایسے مرد اور عورت پر لعنت کی گئی ہے جو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کریں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
63. باب فَضْلِ الْحَلْقِ عَلَى التَّقْصِيرِ:
63. مردوں کے لئے بال چھوٹے کرنے کے بجائے بال منڈانے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1944
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم: انه قال: "رحم الله المحلقين". قيل: والمقصرين؟ قال:"رحم الله المحلقين". قال في الرابعة:"والمقصرين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ قَالَ: "رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ". قِيلَ: وَالْمُقَصِّرِينَ؟ قَالَ:"رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ". قَالَ فِي الرَّابِعَةِ:"وَالْمُقَصِّرِينَ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی رحمت ہو سر منڈانے والوں پر، عرض کیا گیا: اور تقصیر کروانے والوں پر بھی؟ فرمایا: اللہ کی رحمت ہو سر منڈانے والوں پر، جب چوتھی مرتبہ بال کتروانے والوں کے لئے عرض کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اللہ کی رحمت ہو بال کتروانے والوں پر بھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1948]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1727]، [مسلم 1301]، [ترمذي 913]، [ابن حبان 3880]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1943)
اس حدیث میں بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والوں کے لئے دعا فرمائی۔
بخاری کی ایک روایت میں دو بار، ایک روایت میں تین بار اور یہاں مذکور بالا روایت میں بھی ہے کہ تین بار حلق کرنے والوں پر رحمت کی دعا اور چوتھی بار تقصیر کرانے والوں کے لئے دعا فرمائی، اس سے حج و عمرہ میں بال منڈانے والوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، قرآن پاک میں بھی ان کو مقدم رکھا گیا ہے: « ﴿مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ .....﴾ [الفتح: 27] » لہٰذا تقصیر (بال کتروانا) جائز تو ہے لیکن افضل حلق ہے۔
واضح رہے کہ تقصیر میں پورے سر کے بال کتروانے چاہئیں، اِدھر اُدھر سے دو چار بال کتروانا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
64. باب فِيمَنْ قَدَّمَ نُسُكَهُ شَيْئاً قَبْلَ شَيْءٍ:
64. ارکان حج میں تقدیم و تاخیر کا بیان
حدیث نمبر: 1945
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا عبد العزيز هو ابن ابي سلمة الماجشون، عن الزهري، عن عيسى بن طلحة، عن عبد الله بن عمرو، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم عند الجمرة وهو يسال، فقال رجل: يا رسول الله، نحرت قبل ان ارمي؟ قال: "ارم ولا حرج". قال آخر: يا رسول الله، حلقت قبل ان انحر؟ قال: "انحر ولا حرج". قال: فما سئل عن شيء قدم ولا اخر إلا قال:"افعل ولا حرج"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ: "ارْمِ وَلَا حَرَجَ". قَالَ آخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ؟ قَالَ: "انْحَرْ وَلَا حَرَجَ". قَالَ: فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:"افْعَلْ وَلَا حَرَجَ"..
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ کے پاس دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل دریافت کئے جا رہے تھے، ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی، فرمایا: رمی کر لو کوئی حرج نہیں، دوسرے نے کہا: میں نے قربانی سے پہلے بال منڈا لئے؟ فرمایا: جاؤ قربانی کر لو کوئی حرج نہیں، غرضیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کے بھی آگے یا پیچھے کرنے کے متعلق پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہی فرمایا: اب کر لو کوئی حرج نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1949]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 83، 1736]، [مسلم 1306]، [أبوداؤد 2014]، [ترمذي 961]، [ابن ماجه 3051]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1946
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مسدد، حدثنا يحيى، حدثنا مالك بن انس، حدثنا الزهري، عن عيسى بن طلحة، عن عبد الله بن عمرو، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف للناس في حجة الوداع، فقال له رجل: يا رسول الله، حلقت قبل ان اذبح؟ قال:"لا حرج". قال: لم اشعر، ذبحت قبل ان ارمي؟ قال:"لا حرج". فلم يسال يومئذ عن شيء قدم او اخر إلا قال:"لا حرج". قال عبد الله: انا اقول بهذا، واهل الكوفة يشددون..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ لِلنَّاسِ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ قَالَ:"لَا حَرَجَ". قَالَ: لَمْ أَشْعُرْ، ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ؟ قَالَ:"لَا حَرَجَ". فَلَمْ يُسْأَلْ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ أَوْ أُخِّرَ إِلَّا قَالَ:"لَا حَرَجَ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: أَنَا أَقُولُ بِهَذَا، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يُشَدِّدُونَ..
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں (جواب دینے کے لئے) کھڑے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال منڈا لئے ہیں؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، دوسرے نے کہا: مجھے معلوم نہ تھا اور میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ فرمایا: کوئی حرج کی بات نہیں، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: اس دن جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا جس میں تقدیم یا تاخیر ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہ ہی فرمایا: «لا حرج» (کوئی حرج نہیں)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں بھی اسی کا قائل ہوں لیکن کوفہ والے اس بارے میں سختی برتتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1950]»
اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے۔ مزید مراجع کے لئے دیکھئے: [بخاري 124]، [الموطأ: كتاب الحج 251، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1944 سے 1946)
دس ذوالحجہ کو حاجی کو چار کام کرنے ہوتے ہیں: رمی، قربانی، حلق یا تقصیر اور طوافِ زیارہ، یہ ارکان اسی ترتیب سے افضل ہیں، اگر تقدیم یا تأخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، آگے پیچھے ان چاروں ارکان کے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، نہ یہ کوئی گناہ ہے اور نہ اس پر فدیہ، اہلِ حدیث، شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے، حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک ترتیب واجب ہے اور اس کے خلاف کرنے پر دم لازم آئے گا، لیکن ان حضرات کا یہ قول حدیث ہذا کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابلِ توجہ نہیں۔
ہوتے ہوئے مصطفیٰ کی گفتار
مت دیکھے کسی کا قول و کردار
امام دارمی رحمہ اللہ نے اہلِ کوفہ کا ذکر کیا ہے اس سے مراد حنفیہ ہیں جو دم لازم کر کے تشدد و سختی برتتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
65. باب سُنَّةِ الْبَدَنَةِ إِذَا عَطِبَتْ:
65. قربانی کا جانور جب مرنے لگے تو کیا کیا جائے؟
حدیث نمبر: 1947
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الوهاب بن سعيد، حدثنا شعيب بن إسحاق، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن ناجية الاسلمي صاحب هدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف اصنع بما عطب من الهدي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كل بدنة عطبت فانحرها، ثم الق نعلها في دمها، ثم خل بينها وبين الناس فلياكلوها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَاجِيَةَ الْأَسْلَمِيِّ صَاحِبِ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنْ الْهَدْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُّ بَدَنَةٍ عَطِبَتْ فَانْحَرْهَا، ثُمَّ أَلْقِ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ خَلِّ بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ فَلْيَأْكُلُوهَا".
سیدنا ناجیہ اسلمی (خزاعی) رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی لے جا رہے تھے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جو ہدی (قربانی کا اونٹ) مرنے لگ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا: جو اونٹ بھی تھک کر مرنے لگ جائے اس کو ذبح کر دینا اور اس کی جوتی (جو نشانی کے طور پر گلے میں ڈال دی جاتی تھی) اس کے خون میں ڈبو دینا اور لوگوں کے لئے اسے چھوڑ دینا تاکہ وہ اسے کھا لیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1951]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1762]، [ترمذي 910]، [ابن ماجه 3106]، [ابن حبان 4023]، [الموارد 976]، [الحميدي 904]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1948
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن سعيد، حدثنا حفص بن غياث، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن ناجية، نحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَاجِيَةَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی سیدنا ناجیہ رضی اللہ عنہ سے حسب سابق روایت ہے۔ ترجمہ اوپر مذکور ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1952]»
تخریج اوپر گزر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1946 سے 1948)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدی (قربانی کا جانور) اگر ہلاک ہونے لگ جائے تو اس کو ذبح کر دینا چاہئے اور نشانی کے طور پر اس کے جوتے اس کے خون میں ڈبو کر اس پر رکھ دینے چاہئیں تاکہ گزرنے والے لوگ پہچان لیں کہ یہ ہدی کا جانور ہے اور اس کو پکا اور کھا لیں، ہاں صاحبِ ہدی کو اس میں سے کھانا درست نہیں ہے، صاحبِ ہدی صرف قربانی کرنے کے بعد ہی کھا سکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشانی کے طور پر اپنے ہدی کے جوتے لٹکا دیئے تھے تاکہ معلوم رہے کہ یہ جانور قربانی کا ہے، کما سیأتی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
67. باب مَنْ قَالَ الشَّاةُ تُجْزِئُ في الْهَدْيِ:
67. ہدی میں بکری کی قربانی بھی کافی ہے
حدیث نمبر: 1949
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى بن عبيد، وابو نعيم، قالا: حدثنا الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: "اهدى رسول الله صلى الله عليه وسلم مرة غنما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً غَنَمًا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لئے بکریاں بیت اللہ بھیجیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1953]»
یہ روایت صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1701]، [مسلم 1321]، [أبويعلی 4394]، [الحميدي 219]، [ابن ماجه 3096]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1948)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حج میں بکری کی قربانی کی جا سکتی ہے جس طرح گائے اور اونٹ کی قربانی ہوتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
68. باب في الإِشْعَارِ كَيْفَ يُشْعَرُهُ:
68. اونٹ پر کس طرح نشان لگایا جائے
حدیث نمبر: 1950
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن قتادة، قال: سمعت ابا حسان يحدث، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "صلى الظهر بذي الحليفة، ثم دعا ببدنة فاشعرها من صفحة سنامها الايمن، ثم سلت الدم عنها وقلدها نعلين، ثم اتي براحلته، فلما قعد عليها واستوت على البيداء، اهل بالحج".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَسَّانَ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "صَلَّى الظُّهْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، ثُمَّ دَعَا بِبَدَنَةٍ فَأَشْعَرَهَا مِنْ صَفْحَةِ سَنَامِهَا الْأَيْمَنِ، ثُمَّ سَلَتَ الدَّمَ عَنْهَا وَقَلَّدَهَا نَعْلَيْنِ، ثُمَّ أُتِيَ بِرَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا قَعَدَ عَلَيْهَا وَاسْتَوَتْ عَلَى الْبَيْدَاءِ، أَهَلَّ بِالْحَجِّ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں ظہر کی نماز پڑھی، پھر اونٹ کو طلب کیا اور اس کے کوہان کے دائیں طرف چیرا لگایا، پھر اس سے خون صاف کیا اور دو جوتیاں اس کے گلے میں لٹکا دیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری (اونٹنی) کو لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہو گئے اور وہ میدان بیداء میں آ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا تلبیہ پکارا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1954]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1243]، [أبوداؤد 1752]، [ترمذي 906]، [نسائي 2772، 2773]، [ابن ماجه 3097]، [ابن حبان 4000]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1949)
ہدی کا اشعار (یعنی چیرا لگا کر نشان بنانا) سنّت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کے اونٹ پر نشان لگایا جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہے، جمہور علماء اور اہلِ حدیث کا یہی قول ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: اشعار مکروہ ہے، اور کہا کہ یہ ایک قسم کا مثلہ ہے، تعجب ہے جس کام کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا اس کو مکروہ کہا جائے، وکیع بن جراح نے جب اشعار الہدی کی حدیث بیان کی تو ایک شخص بول اٹھا کہ ابوحنیفہ اس کو مثلہ کہتے ہیں، امام وکیع نے کہا: میں تجھ سے حدیث بیان کرتا ہوں اور تو ابوحنیفہ کا قول لاتا ہے، تو اس لائق ہے کہ قید کیا جاوے، پھر قید ہی میں رہے یہاں تک کہ تو توبہ کرے۔
وحیدی [ابن ماجه شرح حديث 3097] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
69. باب في رُكُوبِ الْبَدَنَةِ:
69. قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 1951
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النضر هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، قال: قتادة اخبرني، قال: سمعت انسا يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه انتهى إلى رجل يسوق بدنته، قال: "اركبها". قال: إنها بدنة. قال:"اركبها". قال: إنها بدنة، قال:"اركبها ويحك!".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: قَتَادَةُ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى رَجُلٍ يَسُوقُ بَدَنَتَهُ، قَالَ: "ارْكَبْهَا". قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ. قَالَ:"ارْكَبْهَا". قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ:"ارْكَبْهَا وَيْحَكَ!".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس پہنچے جو قربانی کا جانور لئے جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جاؤ، اس نے کہا: یہ تو قربانی کا جانور ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار ہو جا، اس نے پھر عرض کیا کہ: یہ تو قربانی کا جانور ہے؟ فرمایا: ارے کم بخت سوار ہو جا۔ ( «ديحك» یا «ويلك» سے مراد صرف تنبیہ اور تاکید ہے بددعا نہیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1955]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1689، 1690]، [مسلم 1323]، [ترمذي 911]، [ابن ماجه 3104]، [أبويعلی 2763]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1950)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار سواری کے لئے حکم فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ زمانۂ جاہلیت کے عقیدے کا ابطال کیا جائے اور معلوم ہو جائے کہ قربانی کے اونٹ پر سوار ہونا اس کے شعائر اسلام ہونے کے منافی نہیں۔
زمانۂ جاہلیت میں عرب لوگ سائبہ بحیرہ وغیرہ جو جانور مذہبی نذر و نیاز کے طور پر چھوڑ دیتے تھے ان پر سوار ہونا معیوب جانا کرتے تھے، قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی جو کعبہ میں لے جائے جائیں ان کا ایسا ہی تصور تھا، اسلام نے اس تصور کو ختم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باصرار حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستے کی تھکن سے بچ سکو، قربانی کے جانور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے معطل کر کے چھوڑ دیا جائے، اسلام اسی لئے دینِ فطرت ہے کہ اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو مدِ نظر رکھا ہے، اور ہر جگہ عین ضروریاتِ انسانی کے تحت احکامات صادر کئے ہیں۔
(راز) «الحمد للّٰه الذى هدانا لهذا وما كنا لنتهدي لو لا أن هدانا اللّٰه.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    9    10    11    12    13    14    15    16    17    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.