الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of Salah
1. بَابُ: فَرْضِ الصَّلاَةِ وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضى الله عنه - وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِهِمْ فِيهِ
1. باب: نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Enjoining As-Salah And Mentioning The Differences Reported by The Narrators In The Chain Of The Hadith Of Anas Bin Malik (May Allah Be Pleased With Him), And The Different Wordings In It
حدیث نمبر: 449
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا هشام الدستوائي، قال: حدثنا قتادة، عن انس بن مالك، عن مالك بن صعصعة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" بينا انا عند البيت بين النائم واليقظان، إذ اقبل احد الثلاثة بين الرجلين، فاتيت بطست من ذهب ملآن حكمة وإيمانا فشق من النحر إلى مراق البطن فغسل القلب بماء زمزم ثم ملئ حكمة وإيمانا، ثم اتيت بدابة دون البغل وفوق الحمار، ثم انطلقت مع جبريل عليه السلام فاتينا السماء الدنيا، فقيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، قيل: وقد ارسل إليه، مرحبا به ونعم المجيء جاء، فاتيت على آدم عليه السلام فسلمت عليه، قال: مرحبا بك من ابن ونبي، ثم اتينا السماء الثانية، قيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، فمثل ذلك، فاتيت على يحيى، وعيسى فسلمت عليهما، فقالا: مرحبا بك من اخ ونبي، ثم اتينا السماء الثالثة، قيل: من هذا؟ قال: جبريل، قيل: ومن معك؟ قال: محمد، فمثل ذلك، فاتيت على يوسف عليه السلام فسلمت عليه، قال: مرحبا بك من اخ ونبي، ثم اتينا السماء الرابعة، فمثل ذلك، فاتيت على إدريس عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي، ثم اتينا السماء الخامسة، فمثل ذلك، فاتيت على هارون عليه السلام فسلمت عليه، قال: مرحبا بك من اخ ونبي، ثم اتينا السماء السادسة، فمثل ذلك، ثم اتيت على موسى عليه السلام فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من اخ ونبي، فلما جاوزته بكى، قيل: ما يبكيك؟ قال: يا رب، هذا الغلام الذي بعثته بعدي يدخل من امته الجنة اكثر وافضل مما يدخل من امتي، ثم اتينا السماء السابعة، فمثل ذلك، فاتيت على إبراهيم عليه السلام، فسلمت عليه، فقال: مرحبا بك من ابن ونبي، ثم رفع لي البيت المعمور، فسالت جبريل، فقال: هذا البيت المعمور يصلي فيه كل يوم سبعون الف ملك فإذا خرجوا منه لم يعودوا فيه آخر ما عليهم، ثم رفعت لي سدرة المنتهى فإذا نبقها مثل قلال هجر وإذا ورقها مثل آذان الفيلة وإذا في اصلها اربعة انهار نهران باطنان ونهران ظاهران، فسالت جبريل، فقال: اما الباطنان ففي الجنة واما الظاهران فالفرات والنيل، ثم فرضت علي خمسون صلاة فاتيت على موسى، فقال: ما صنعت؟ قلت: فرضت علي خمسون صلاة، قال: إني اعلم بالناس منك، إني عالجت بني إسرائيل اشد المعالجة وإن امتك لن يطيقوا ذلك فارجع إلى ربك فاساله ان يخفف عنك، فرجعت إلى ربي فسالته ان يخفف عني فجعلها اربعين، ثم رجعت إلى موسى عليه السلام، فقال: ما صنعت؟ قلت: جعلها اربعين، فقال لي مثل مقالته الاولى، فرجعت إلى ربي عز وجل فجعلها ثلاثين، فاتيت على موسى عليه السلام فاخبرته، فقال لي مثل مقالته الاولى، فرجعت إلى ربي فجعلها عشرين ثم عشرة ثم خمسة، فاتيت على موسى عليه السلام، فقال لي مثل مقالته الاولى، فقلت: إني استحي من ربي عز وجل ان ارجع إليه، فنودي ان قد امضيت فريضتي وخففت عن عبادي واجزي بالحسنة عشر امثالها".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ، قال: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، إِذْ أَقْبَلَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَلْآنَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَشَقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ فَغَسَلَ الْقَلْبَ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، مَرْحَبًا بِهِ وَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يَحْيَى، وَعِيسَى فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِمَا، فَقَالَا: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى هَارُونَ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّادِسَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَلَمَّا جَاوَزْتُهُ بَكَى، قِيلَ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: يَا رَبِّ، هَذَا الْغُلَامُ الَّذِي بَعَثْتَهُ بَعْدِي يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِهِ الْجَنَّةَ أَكْثَرُ وَأَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ فَإِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ، ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرٍ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ وَإِذَا فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَفِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالْفُرَاتُ وَالنَّيْل، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً، قَالَ: إِنِّي أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ، إِنِّي عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ وَإِنَّ أُمَّتَكَ لَنْ يُطِيقُوا ذَلِكَ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنِّي فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: جَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَجَعَلَهَا ثَلَاثِينَ، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي فَجَعَلَهَا عِشْرِينَ ثُمَّ عَشْرَةً ثُمَّ خَمْسَةً، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الْأُولَى، فَقُلْتُ: إِنِّي أَسْتَحِي مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَنُودِيَ أَنْ قَدْ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي وَأَجْزِي بِالْحَسَنَةِ عَشْرَ أَمْثَالِهَا".
انس بن مالک، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں تھا کہ اسی دوران میرے پاس تین (فرشتے) آئے، ان تینوں میں سے ایک جو دو کے بیچ میں تھا میری طرف آیا، اور میرے پاس حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، تو اس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، اور دل کو آب زمزم سے دھویا، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جانور لایا گیا، میں جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا، تو ہم آسمان دنیا پر آئے، تو پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں، پوچھا گیا: کیا بلائے گئے ہیں؟ مرحبا مبارک ہو ان کی تشریف آوری، پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا: کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے ان دونوں کو سلام کیا، ان دونوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں یوسف علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں ادریس علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، میں ہارون علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی، اور نبی! پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! تو جب میں ان سے آگے بڑھا، تو وہ رونے لگے ۱؎، ان سے پوچھا گیا آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ اور افضل ہوں گے، پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر بیت معمور ۲؎ میرے قریب کر دیا گیا، میں نے (اس کے متعلق) جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے، پھر سدرۃ المنتھی میرے قریب کر دیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے، اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، اور اس کی جڑ سے چار نہریں نکلی ہوئی تھی، دو نہریں باطنی ہیں، اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: باطنی نہریں تو جنت میں ہیں، اور ظاہری نہریں فرات اور نیل ہیں، پھر میرے اوپر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں، میں لوٹ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میرے اوپر پچاس نمازیں فرض کی گئیں ہیں، انہوں نے کہا: میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، میں بنی اسرائیل کو خوب جھیل چکا ہوں، آپ کی امت اس کی طاقت بالکل نہیں رکھتی، اپنے رب کے پاس واپس جایئے، اور اس سے گزارش کیجئیے کہ اس میں تخفیف کر دے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اللہ تعالیٰ نے چالیس نمازیں کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس کر دی ہیں، پھر انہوں نے مجھ سے وہی بات کہی جو پہلی بار کہی تھی، تو میں پھر اپنے رب عزوجل کے پاس واپس آیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تیس کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے انہیں بیس پھر دس اور پھر پانچ کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں نے کہا: (اب مجھے) اپنے رب عزوجل کے پاس (باربار) جانے سے شرم آ رہی ہے، تو آواز آئی: میں نے اپنا فریضہ نافذ کر دیا ہے، اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے، اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3207)، أحادیث الأنبیاء 22 (3393)، 42 (3430)، مناقب الأنصار 42 (3887)، صحیح مسلم/الإیمان 74 (164)، سنن الترمذی/تفسیر سورة الم نشرح (3346) (مختصراً، وقال: في الحدیث قصة طویلة)، (تحفة الأشراف: 11202)، مسند احمد 2/207، 208، 210 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: موسیٰ علیہ السلام کا یہ رونا حسد کے طور پر نہیں تھا، بلکہ یہ بطور تاسف و رنج تھا کہ میری امت نے میری ایسی پیروی نہیں کی جیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کی امت نے کی۔ ۲؎: بیت معمور خانہ کعبہ کے عین اور ساتویں آسمان پر ایک عبادت خانہ ہے جہاں فرشتے بہت بڑی تعداد میں عبادت کرتے ہیں۔ ۳؎: سدرۃ المنتھی بیری کا وہ درخت جو ساتویں آسمان پر ہے، اور جس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا۔ ۴؎: ان دونوں سے مراد جنت کی دونوں نہریں کوثر اور سلسبیل ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 450
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا يونس بن عبد الاعلى، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، قال انس بن مالك، وابن حزم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فرض الله عز وجل على امتي خمسين صلاة فرجعت بذلك حتى امر بموسى عليه السلام، فقال: ما فرض ربك على امتك؟ قلت: فرض عليهم خمسين صلاة، قال لي موسى: فراجع ربك عز وجل فإن امتك لا تطيق ذلك، فراجعت ربي عز وجل فوضع شطرها، فرجعت إلى موسى فاخبرته، فقال: راجع ربك فإن امتك لا تطيق ذلك، فراجعت ربي عز وجل، فقال: هي خمس وهي خمسون لا يبدل القول لدي، فرجعت إلى موسى، فقال: راجع ربك، فقلت: قد استحييت من ربي عز وجل".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قال أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، وَابْنُ حَزْمٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ لِي مُوسَى: فَرَاجِعْ رَبَّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: قَدِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ".
انس بن مالک اور ابن حزم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو میں انہیں لے کر لوٹا، تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا، تو انہوں نے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اس نے ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں، تو موسیٰ علیہ السلام نے مجھ سے کہا: جا کر اپنے رب سے پھر سے بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، تو میں نے اپنے رب عزوجل سے بات کی، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں سے آدھا ۱؎ معاف کر دیا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے کہا: اپنے رب سے پھر بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، چنانچہ میں نے اپنے رب سے پھر سے بات کی، تو اس نے کہا: یہ پانچ نمازیں ہیں جو (اجر میں) پچاس (کے برابر) ہیں، میرے نزدیک فرمان بدلا نہیں جاتا، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: اپنے رب سے جا کر پھر بات کیجئے، میں نے کہا: مجھے اپنے رب کے پاس (باربار) جانے سے شرم آ رہی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلا ة1/349 وأحادیث الأنبیاء 5 (3342)، صحیح مسلم/الإیمان 74 (163)، سنن ابن ماجہ/إقامة 194 (1399)، (تحفة الأشراف: 1556) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی پانچ پانچ کر کے پانچ بار میں آدھا معاف کیا، یا «شطر» سے مراد آدھا نہیں بلکہ کچھ حصہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 451
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن هشام، قال: حدثنا مخلد، عن سعيد بن عبد العزيز، قال: حدثنا يزيد بن ابي مالك، قال: حدثنا انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" اتيت بدابة فوق الحمار ودون البغل خطوها عند منتهى طرفها فركبت ومعي جبريل عليه السلام فسرت، فقال: انزل فصل، ففعلت، فقال: اتدري اين صليت، صليت بطيبة وإليها المهاجر، ثم قال: انزل فصل فصليت، فقال: اتدري اين صليت، صليت بطور سيناء حيث كلم الله عز وجل موسى عليه السلام، ثم قال: انزل فصل فنزلت فصليت، فقال: اتدري اين صليت، صليت ببيت لحم حيث ولد عيسى عليه السلام، ثم دخلت بيت المقدس فجمع لي الانبياء عليهم السلام، فقدمني جبريل حتى اممتهم، ثم صعد بي إلى السماء الدنيا فإذا فيها آدم عليه السلام، ثم صعد بي إلى السماء الثانية فإذا فيها ابنا الخالة عيسى 56، ويحيى عليهما السلام، ثم صعد بي إلى السماء الثالثة فإذا فيها يوسف عليه السلام، ثم صعد بي إلى السماء الرابعة فإذا فيها هارون عليه السلام، ثم صعد بي إلى السماء الخامسة فإذا فيها إدريس عليه السلام، ثم صعد بي إلى السماء السادسة فإذا فيها موسى عليه السلام، ثم صعد بي إلى السماء السابعة فإذا فيها إبراهيم عليه السلام، ثم صعد بي فوق سبع سموات فاتينا سدرة المنتهى فغشيتني ضبابة فخررت ساجدا، فقيل لي: إني يوم خلقت السموات والارض فرضت عليك وعلى امتك خمسين صلاة فقم بها انت وامتك، فرجعت إلى إبراهيم فلم يسالني عن شيء، ثم اتيت على موسى، فقال: كم فرض الله عليك وعلى امتك؟ قلت: خمسين صلاة، قال: فإنك لا تستطيع ان تقوم بها انت ولا امتك، فارجع إلى ربك فاساله التخفيف، فرجعت إلى ربي فخفف عني عشرا، ثم اتيت موسى فامرني بالرجوع، فرجعت فخفف عني عشرا، ثم ردت إلى خمس صلوات، قال: فارجع إلى ربك فاساله التخفيف فإنه فرض على بني إسرائيل صلاتين فما قاموا بهما، فرجعت إلى ربي عز وجل فسالته التخفيف، فقال: إني يوم خلقت السموات والارض فرضت عليك وعلى امتك خمسين صلاة فخمس بخمسين فقم بها انت وامتك، فعرفت انها من الله تبارك وتعالى صرى، فرجعت إلى موسى عليه السلام، فقال: ارجع، فعرفت انها من الله صرى اي حتم فلم ارجع".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ، قال: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ، قال: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أُتِيتُ بِدَابَّةٍ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ خَطْوُهَا عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهَا فَرَكِبْتُ وَمَعِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَسِرْتُ، فَقَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَفَعَلْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ، صَلَّيْتَ بِطَيْبَةَ وَإِلَيْهَا الْمُهَاجَرُ، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ، صَلَّيْتَ بِطُورِ سَيْنَاءَ حَيْثُ كَلَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ فَنَزَلْتُ فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ، صَلَّيْتَ بِبَيْتِ لَحْمٍ حَيْثُ وُلِدَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَجُمِعَ لِي الْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَام، فَقَدَّمَنِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَإِذَا فِيهَا آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ فَإِذَا فِيهَا ابْنَا الْخَالَةِ عِيسَى 56، وَيَحْيَى عَلَيْهِمَا السَّلَام، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَإِذَا فِيهَا يُوسُفُ عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ فَإِذَا فِيهَا هَارُونُ عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الْخَامِسَةِ فَإِذَا فِيهَا إِدْرِيسُ عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ فَإِذَا فِيهَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَإِذَا فِيهَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ صُعِدَ بِي فَوْقَ سَبْعِ سَمَوَاتٍ فَأَتَيْنَا سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى فَغَشِيَتْنِي ضَبَابَةٌ فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، فَقِيلَ لِي: إِنِّي يَوْمَ خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَرَضْتُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ خَمْسِينَ صَلَاةً فَقُمْ بِهَا أَنْتَ وَأُمَّتُكَ، فَرَجَعْتُ إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَلَمْ يَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: كَمْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ أَنْ تَقُومَ بِهَا أَنْتَ وَلَا أُمَّتُكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي فَخَفَّفَ عَنِّي عَشْرًا، ثُمَّ أَتَيْتُ مُوسَى فَأَمَرَنِي بِالرُّجُوعِ، فَرَجَعْتُ فَخَفَّفَ عَنِّي عَشْرًا، ثُمَّ رُدَّتْ إِلَى خَمْسِ صَلَوَاتٍ، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ فَإِنَّهُ فَرَضَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ صَلَاتَيْنِ فَمَا قَامُوا بِهِمَا، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَسَأَلْتُهُ التَّخْفِيفَ، فَقَالَ: إِنِّي يَوْمَ خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَرَضْتُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ خَمْسِينَ صَلَاةً فَخَمْسٌ بِخَمْسِينَ فَقُمْ بِهَا أَنْتَ وَأُمَّتُكَ، فَعَرَفْتُ أَنَّهَا مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى صِرَّى، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: ارْجِعْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهَا مِنَ اللَّهِ صِرَّى أَيْ حَتْمٌ فَلَمْ أَرْجِعْ".
یزید بن ابی مالک کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہو گیا، اور میرے ہمراہ جبرائیل علیہ السلام تھے، میں چلا، پھر جبرائیل نے کہا: اتر کر نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہو گی، پھر انہوں نے کہا: اتر کر نماز پڑھئے، تو میں نے نماز پڑھی، انہوں نے کہا: کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طور سینا پر نماز پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، پھر کہا: اتر کر نماز پڑھئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام کو اکٹھا کیا گیا، جبرائیل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی، پھر مجھے لے کر جبرائیل آسمان دنیا پر چڑھے، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں آدم علیہ السلام موجود ہیں، پھر وہ مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں دونوں خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام موجود ہیں، پھر تیسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں یوسف علیہ السلام موجود ہیں، پھر چوتھے آسمان پر چڑھے تو وہاں ہارون علیہ السلام ملے، پھر پانچویں آسمان پر چڑھے تو وہاں ادریس علیہ السلام موجود تھے، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں موسیٰ علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان پر چڑھے وہاں ابراہیم علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر چڑھے اور ہم سدرۃ المنتہیٰ تک آئے، وہاں مجھے بدلی نے ڈھانپ لیا، اور میں سجدے میں گر پڑا، تو مجھ سے کہا گیا: جس دن میں نے زمین و آسمان کی تخلیق کی تم پر اور تمہاری امت پر میں نے پچاس نمازیں فرض کیں، تو تم اور تمہاری امت انہیں ادا کرو، پھر میں لوٹ کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: تم پر اور تمہاری امت پر کتنی (نمازیں) فرض کی گئیں؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں، تو انہوں نے کہا: نہ آپ اسے انجام دے سکیں گے اور نہ ہی آپ کی امت، تو اپنے رب کے پاس واپس جایئے اور اس سے تخفیف کی درخواست کیجئے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں پھر واپس گیا تو اس نے (پھر) دس نمازیں تخفیف کر دیں، میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں واپس گیا، تو اس نے مجھ سے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر (باربار درخواست کرنے سے) پانچ نمازیں کر دی گئیں، (اس پر بھی) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کے حضور واپس جایئے اور تخفیف کی گزارش کیجئے، اس لیے کہ بنی اسرائیل پر دو نمازیں فرض کی گئیں تھیں، تو وہ اسے ادا نہیں کر سکے، چنانچہ میں اپنے رب کے حضور واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے فرمایا: جس دن میں نے زمین و آسمان پیدا کیا، اسی دن میں نے تم پر اور تمہاری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو اب یہ پانچ پچاس کے برابر ہیں، انہیں تم ادا کرو، اور تمہاری امت (بھی)، تو میں نے جان لیا کہ یہ اللہ عزوجل کا قطعی حکم ہے، چنانچہ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: پھر جایئے، لیکن میں نے جان لیا تھا کہ یہ اللہ کا قطعی یعنی حتمی فیصلہ ہے، چنانچہ میں پھر واپس نہیں گیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف 1701) (منکر) (فریضئہ صلاة پانچ وقت ہو جانے کے بعد پھر اللہ سے رجوع، اور اس کے جواب سے متعلق ٹکڑا صحیح نہیں ہے، صحیح یہی ہے کہ پانچ ہو جانے کے بعد آپ نے شرم سے رجوع ہی نہیں کیا)»

قال الشيخ الألباني: منكر
حدیث نمبر: 452
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يحيى بن آدم، قال: حدثنا مالك بن مغول، عن الزبير بن عدي، عن طلحة بن مصرف، عن مرة، عن عبد الله، قال:" لما اسري برسول الله صلى الله عليه وسلم انتهي به إلى سدرة المنتهى وهي في السماء السادسة وإليها ينتهي ما عرج به من تحتها وإليها ينتهي ما اهبط به من فوقها حتى يقبض منها، قال: إذ يغشى السدرة ما يغشى سورة النجم آية 16، قال: فراش من ذهب، فاعطي ثلاثا: الصلوات الخمس وخواتيم سورة البقرة ويغفر لمن مات من امته لا يشرك بالله شيئا المقحمات".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قال: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال:" لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى وَهِيَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا عُرِجَ بِهِ مِنْ تَحْتِهَا وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا أُهْبِطَ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا حَتَّى يُقْبَضَ مِنْهَا، قَالَ: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16، قَالَ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَأُعْطِيَ ثَلَاثًا: الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَيُغْفَرُ لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِهِ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (معراج کی شب) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جایا گیا تو جبرائیل علیہ السلام آپ کو لے کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، یہ چھٹے آسمان پر ہے ۱؎ جو چیزیں نیچے سے اوپر چڑھتی ہیں ۲؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے اوپر سے اترتی ہیں ۳؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، یہاں تک کہ یہاں سے وہ لی جاتی ہیں ۴؎ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ «إذ يغشى السدرة ما يغشى» ۵؎ (جب کہ سدرۃ کو ڈھانپ لیتی تھیں وہ چیزیں جو اس پر چھا جاتی تھیں) پڑھی اور (اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے) کہا: وہ سونے کے پروانے تھے، تو (وہاں) آپ کو تین چیزیں دی گئیں: پانچ نمازیں، سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں ۶؎، اور آپ کی امت میں سے اس شخص کی کبیرہ گناہوں کی بخشش، جو اللہ کے ساتھ بغیر کچھ شرک کئے مرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 76 (173)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النجم (3276)، (تحفة الأشراف 9548)، مسند احمد 1/387، 422) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے پہلے انس رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ ساتویں آسمان پر ہے، دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں۔ ۲؎: یعنی نیک اعمال یا روحیں وغیرہ۔ ۳؎: یعنی اوامر اور فرامین الٰہی وغیرہ۔ ۴؎: مطلب یہ ہے کہ فرشتے یہیں سے اسے وصول کرتے ہیں اور جہاں حکم ہوتا ہے اسے پہنچاتے ہیں۔ ۵؎: النجم: ۱۶۔ ۶؎: یعنی یہ طے ہوا کہ آپ کو عنقریب یہ آیتیں دی جائیں گی، یہ تاویل اس لیے کرنی پڑ رہی ہے کہ یہ آیتیں مدنی ہیں اور معراج کا واقعہ مکی دور میں پیش آیا تھا، یا یہ کہا جائے کہ یہ آیتیں مکی ہیں اور باقی پوری سورت مدنی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
2. بَابُ: أَيْنَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ
2. باب: نماز کہاں فرض ہوئی؟
Chapter: Where was The Salah Made Obligatory?
حدیث نمبر: 453
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود، عن ابن وهب، قال: اخبرني عمرو بن الحارث، ان عبد ربه بن سعيد حدثه، ان البناني حدثه، عن انس بن مالك" ان الصلوات فرضت بمكة، وان ملكين اتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهبا به إلى زمزم فشقا بطنه واخرجا حشوه في طست من ذهب فغسلاه بماء زمزم ثم كبسا جوفه حكمة وعلما".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ عَبْدَ رَبِّهِ بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْبُنَانِيَّ حَدَّثَهُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ" أَنَّ الصَّلَوَاتِ فُرِضَتْ بِمَكَّةَ، وَأَنَّ مَلَكَيْنِ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَا بِهِ إِلَى زَمْزَمَ فَشَقَّا بَطْنَهُ وَأَخْرَجَا حَشْوَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فَغَسَلَاهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ كَبَسَا جَوْفَهُ حِكْمَةً وَعِلْمًا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پنج وقتہ نمازیں مکہ میں فرض کی گئیں، دو فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ دونوں آپ کو زمزم کے پاس لے گئے، اور آپ کا پیٹ چاک کیا، اور اندر کی چیزیں نکال کر سونے کے ایک طشت میں رکھیں، اور انہیں آب زمزم سے دھویا، پھر آپ کا پیٹ علم و حکمت سے بھر کر بند کر دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف 454) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
3. بَابُ: كَيْفَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ
3. باب: نماز کیسے فرض ہوئی؟
Chapter: How The Salah Was Made Obligatory
حدیث نمبر: 454
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت:" اول ما فرضت الصلاة ركعتين، فاقرت صلاة السفر واتمت صلاة الحضر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت:" أَوَّلَ مَا فُرِضَتِ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابتداء میں دو رکعت نماز فرض کی گئی، پھر سفر کی نماز (دو ہی) باقی رکھی گئی اور حضر کی نماز (بڑھا کر) پوری کر دی گئی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 1 (350)، وتقصیر الصلاة 5 (1090)، ومناقب الأنصار 8 (3935)، صحیح مسلم/صلاة المسافرین1 (685)، (تحفة الأشراف: 16439)، سنن الدارمی/ الصلاة 179 (1550)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 270 (1198) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 455
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن هاشم البعلبكي، قال: انبانا الوليد، قال: اخبرني ابو عمرو يعني الاوزاعي، انه سال الزهري عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة قبل الهجرة إلى المدينة، قال: اخبرني عروة، عن عائشة، قالت:" فرض الله عز وجل الصلاة على رسوله صلى الله عليه وسلم اول ما فرضها ركعتين ركعتين، ثم اتمت في الحضر اربعا، واقرت صلاة السفر على الفريضة الاولى".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ الْبَعْلَبَكِّيُّ، قال: أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ، قال: أَخْبَرَنِي أَبُو عَمْرٍو يَعْنِي الْأَوْزَاعِيَّ، أَنَّهُ سَأَلَ الزُّهْرِيَّ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الصَّلَاةَ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَ مَا فَرَضَهَا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أُتِمَّتْ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ عَلَى الْفَرِيضَةِ الْأُولَى".
ولید کہتے ہیں کہ ابوعمرو اوزاعی نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے زہری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مکہ میں آپ کی نماز کیسی ہوتی تھی، تو انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے خبر دی ہے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو دو رکعت نماز فرض کی، پھر حضر میں چار رکعت کر کے انہیں مکمل کر دی، اور سفر کی نماز سابق حکم ہی پر برقرار رکھی گئی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف: 16526) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 456
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن صالح بن كيسان، عن عروة، عن عائشة، قالت:" فرضت الصلاة ركعتين ركعتين، فاقرت صلاة السفر وزيد في صلاة الحضر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت:" فُرِضَتِ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نماز دو دو رکعت فرض کی گئی، پھر سفر کی نماز (دو ہی) برقرار رکھی گئی، اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 1 (350)، صحیح مسلم/صلاة المسافرین1 (685)، سنن ابی داود/الصلاة 270 (1198)، (تحفة الأشراف: 16348)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 2 (8)، مسند احمد 6/272 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ابن خزیمہ (۱/۱۵۷) اور ابن حبان (۳/۱۸۰) کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے، تو حضر کی نماز میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کر دیا گیا، اور فجر اور مغرب کی نماز میں اضافہ اس لیے نہیں کیا گیا کہ فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے اور مغرب دن کی وتر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 457
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، وعبد الرحمن، قالا: حدثنا ابو عوانة، عن بكير بن الاخنس، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال:" فرضت الصلاة على لسان النبي صلى الله عليه وسلم في الحضر اربعا وفي السفر ركعتين وفي الخوف ركعة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال:" فُرِضَتِ الصَّلَاةُ عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَفِي الْخَوْفِ رَكْعَةً".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نماز بزبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضر میں چار رکعت، سفر میں دو رکعت، اور خوف میں ایک رکعت فرض کی گئی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین حدیث 6 (687)، سنن ابی داود/الصلاة 287 (1247)، سنن ابن ماجہ/إقامة 73 (1068)، (تحفة الأشراف: 6380)، بدون الشطر الأخیر، حم1/237، 243، 254، 355، ویأتی عند المؤلف (برقم: 1442، 1443، 1533) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی خوف کی حالت میں ایک ہی رکعت پر اکتفا کرے تو جائز ہے، کئی ایک صحابہ کرام اور ائمہ عظام اس کے قائل بھی ہیں، حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی صراحت بھی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 458
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا يوسف بن سعيد، قال: حدثنا حجاج بن محمد، قال: حدثنا محمد بن عبد الله الشعيثي، عن عبد الله بن ابي بكر بن الحارث بن هشام، عن امية بن عبد الله بن خالد بن اسيد، انه قال لابن عمر: كيف تقصر الصلاة، وإنما قال الله عز وجل: فليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلاة إن خفتم سورة النساء آية 101؟ فقال ابن عمر: يا ابن اخي، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" اتانا ونحن ضلال فعلمنا، فكان فيما علمنا ان الله عز وجل امرنا ان نصلي ركعتين في السفر". قال الشعيثي: وكان الزهري، يحدث بهذا الحديث عن عبد الله بن ابي بكر.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشُّعَيْثِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أَسِيدٍ، أَنَّهُ قَالَ لِابْنِ عُمَرَ: كَيْفَ تَقْصُرُ الصَّلَاةَ، وَإِنَّمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ سورة النساء آية 101؟ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَتَانَا وَنَحْنُ ضُلَّالٌ فَعَلَّمَنَا، فَكَانَ فِيمَا عَلَّمَنَا أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَنَا أَنْ نُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ فِي السَّفَرِ". قَالَ الشُّعَيْثِيُّ: وَكَانَ الزُّهْرِيُّ، يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ.
امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ آپ نماز (بغیر خوف کے) کیسے قصر کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: «‏فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم‏» اگر خوف کی وجہ سے تم لوگ نماز قصر کرتے ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں (النساء: ۱۰۱) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم نے کہا: بھتیجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت آئے جب ہم گمراہ تھے، آپ نے ہمیں تعلیم دی، آپ کی تعلیمات میں سے یہ بھی تھا کہ ہم سفر میں دو رکعت نماز پڑھیں، شعیثی کہتے ہیں کہ زہری اس حدیث کو عبداللہ بن ابوبکر کے طریق سے روایت کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة 73 (1066)، مسند احمد 2/94، 148، ویأتي عند المؤلف (برقم: 1435) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.