الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب
حدیث نمبر: 501
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عارم، قال: حدثنا سعيد بن زيد، قال: حدثنا سنان ابوربيعة، قال: حدثنا انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”ما من مسلم ابتلاه الله في جسده إلا كتب له ما كان يعمل في صحته، ما كان مريضا، فإن عافاه اراه قال: عسله، وإن قبضه غفر له.“ حدثنا موسى، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن سنان، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله، وزاد قال: ”فإن شفاه عسله.“حَدَّثَنَا عَارِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سِنَانٌ أبورَبِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَا مِنْ مُسْلِمٍ ابْتَلاهُ اللَّهُ فِي جَسَدِهِ إِلا كُتِبَ لَهُ مَا كَانَ يَعْمَلُ فِي صِحَّتِهِ، مَا كَانَ مَرِيضًا، فَإِنْ عَافَاهُ أُرَاهُ قَالَ: عَسَلَهُ، وَإِنْ قَبَضَهُ غَفَرَ لَهُ.“ حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، وَزَادَ قَالَ: ”فَإِنْ شَفَاهُ عَسَلَهُ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان کو اللہ تعالیٰ کسی جسمانی بیماری میں مبتلا کرے تو جب تک وہ بیمار رہتا ہے تو اسے ان اعمال کا ثواب ملتا ہے جو وہ صحت کے زمانہ میں کرتا تھا۔ پھر اگر اسے عافیت دے دے تو موت سے پہلے نیکی کی توفیق دے دیتا ہے، اور اگر اس کو وفات دے دے تو اسے بخش دیتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: اگر اسے شفا دے تو اس کو وفات سے قبل نیکی کی توفیق دے دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه أحمد: 12503 و ابن أبى شيبة: 10831 و ابن أبى الدنيا فى المرض و الكفارات: 160 و أبويعلى: 4233 و البيهقي فى الشعب: 325/12 - انظر الإرواء: 346/2»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حدیث نمبر: 502
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قرة بن حبيب، قال: حدثنا إياس بن ابي تميمة، عن عطاء بن ابي رباح، عن ابي هريرة، قال: جاءت الحمى إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: ابعثني إلى آثر اهلك عندك، فبعثها إلى الانصار، فبقيت عليهم ستة ايام ولياليهن، فاشتد ذلك عليهم، فاتاهم في ديارهم، فشكوا ذلك إليه، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يدخل دارا دارا، وبيتا بيتا، يدعو لهم بالعافية، فلما رجع تبعته امراة منهم، فقالت: والذي بعثك بالحق، إني لمن الانصار، وإن ابي لمن الانصار، فادع الله لي كما دعوت للانصار، قال: ”ما شئت، إن شئت دعوت الله ان يعافيك، وإن شئت صبرت ولك الجنة“، قالت: بل اصبر، ولا اجعل الجنة خطرا.حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَتِ الْحُمَّى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ: ابْعَثْنِي إِلَى آثَرِ أَهْلِكَ عِنْدَكَ، فَبَعَثَهَا إِلَى الأَنْصَارِ، فَبَقِيَتْ عَلَيْهِمْ سِتَّةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ، فَأَتَاهُمْ فِي دِيَارِهِمْ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَيْهِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ دَارًا دَارًا، وَبَيْتًا بَيْتًا، يَدْعُو لَهُمْ بِالْعَافِيَةِ، فَلَمَّا رَجَعَ تَبِعَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْهُمْ، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، إِنِّي لِمَنَ الأَنْصَارِ، وَإِنَّ أَبِي لِمَنَ الأَنْصَارِ، فَادْعُ اللَّهَ لِي كَمَا دَعَوْتَ لِلأَنْصَارِ، قَالَ: ”مَا شِئْتِ، إِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ، وَإِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الْجَنَّةُ“، قَالَتْ: بَلْ أَصْبِرُ، وَلا أَجْعَلُ الْجَنَّةَ خَطَرًا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بخار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ مجھے ان لوگوں کی طرف بھیجیں جن سے آپ کو بہت زیادہ تعلق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے انصار کے پاس بھیج دیا۔ ان پر بخار چھ دن اور چھ راتیں رہا۔ یہ تکلیف انہیں بہت گراں گزری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھروں میں تشریف لے گئے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر گھر جا کر ان کے لیے عافیت کی دعا کی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ان کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آئی اور عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! یقیناً میں بھی انصار سے ہوں۔ میرا باپ بھی انصاری ہی ہے، لہٰذا میرے لیے بھی دعا کریں جس طرح آپ نے انصار کے لیے دعا کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا چاہتی ہے، اگر تو چاہتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ تجھے عافیت دے، اور اگر تو چاہے تو صبر کر اور تیرے لیے جنت ہے۔ اس نے عرض کیا: بلکہ میں صبر کروں گی اور جنت میں داخلے کو خطرے میں نہیں ڈالوں گی۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البيهقي فى الشعب الإيمان: 9496 - انظر الصحيحة: 2502»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 503
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن عطاء، عن ابي هريرة، قال: ما من مرض يصيبني احب إلي من الحمى، لانها تدخل في كل عضو مني، وإن الله عز و جل يعطي كل عضو قسطه من الاجر.وَعَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَا مِنْ مَرَضٍ يُصِيبُنِي أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الْحُمَّى، لأَنَّهَا تَدْخُلُ فِي كُلِّ عُضْوٍ مِنِّي، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُعْطِي كُلَّ عُضْوٍ قِسْطَهُ مِنَ الأَجْرِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بخار سے زیادہ مجھے کوئی بیماری محبوب نہیں کیونکہ وہ جسم کے ہر جوڑ میں داخل ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر عضو کو اس کے حصے کا اجر عطا فرماتا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح: أخرجه ابن أبي شيبة: 10817 و ابن أبي الدنيا في المرض و الكفارات: 240 و البيهقي في شعب الإیمان: 9407 و الدلابي في الكني: 1742 و الطبراني في الكبير: 378/22

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 504
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن ابي نحيلة، قيل له: ادع الله، قال:اللهم انقص من المرض، ولا تنقص من الاجر، فقيل له: ادع، ادع، فقال: اللهم اجعلني من المقربين، واجعل امي من الحور العين.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي نُحَيْلَةَ، قِيلَ لَهُ: ادْعُ اللَّهَ، قَالَ:اللَّهُمَّ انْقُصْ مِنَ الْمَرَضِ، وَلا تَنْقُصْ مِنَ الأَجْرِ، فَقِيلَ لَهُ: ادْعُ، ادْعُ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الْمُقَرَّبِينَ، وَاجْعَلْ أُمِّي مِنَ الْحُورِ الْعِينِ.
سیدنا ابونحیلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ان سے کہا گیا: دعا کیجیے۔ انہوں نے یوں دعا کی: اے اللہ بیماری کو کم کر دے لیکن اجر میں کمی نہ کرنا۔ ان سے عرض کیا گیا: مزید دعا کریں۔ انہوں نے کہا: اے اللہ! مجھے اپنے مقرب بندوں میں شامل فرما اور میری والدہ کو حورعین کے ساتھ ملا دے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسدد كما فى إتحاف المهرة: 474/6»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 505
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت دکھاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ سیاہ فام عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: مجھے بے ہوشی کا دورہ پڑتا ہے اور میں بے لباس ہو جاتی ہوں، لہٰذا میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو صبر کرو، اس کے بدلے میں تیرے لیے جنت ہے، اور اگر چاہو تو الله تعالیٰ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتا ہوں۔“ اس نے عرض کیا: میں صبر کرتی ہوں، پھر کہا: میرے کپڑے اتر جاتے ہیں، لہٰذا اللہ سے دعا فرمائیں کہ کپڑے نہ اترا کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت دکھاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ سیاہ فام عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: مجھے بے ہوشی کا دورہ پڑتا ہے اور میں بے لباس ہو جاتی ہوں، لہٰذا میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو صبر کرو، اس کے بدلے میں تیرے لیے جنت ہے، اور اگر چاہو تو الله تعالیٰ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتا ہوں۔“ اس نے عرض کیا: میں صبر کرتی ہوں، پھر کہا: میرے کپڑے اتر جاتے ہیں، لہٰذا اللہ سے دعا فرمائیں کہ کپڑے نہ اترا کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت دکھاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ سیاہ فام عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: مجھے بےہوشی کا دورہ پڑتا ہے اور میں بےلباس ہو جاتی ہوں، لہٰذا میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو صبر کرو، اس کے بدلے میں تیرے لیے جنت ہے، اور اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتا ہوں۔ اس نے عرض کیا: میں صبر کرتی ہوں، پھر کہا: میرے کپڑے اتر جاتے ہیں، لہٰذا اللہ سے دعا فرمائیں کہ کپڑے نہ اترا کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المرضى، باب فضل من يصرع من الريح: 5652 و مسلم: 2576 - انظر الصحيحة: 2502»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 506
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن سلام، قال: حدثنا مخلد، عن ابن جريج، قال: اخبرني عطاء، انه راى ام زفر، تلك المراة، طويلة سوداء على سلم الكعبة، قال: واخبرني عبد الله بن ابي مليكة، ان القاسم اخبره، ان عائشة اخبرته، ان النبي صلى الله عليه وسلم، كان يقول: ”ما اصاب المؤمن من شوكة فما فوقها، فهو كفارة.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ رَأَى أُمَّ زُفَرَ، تِلْكَ الْمَرْأَةُ، طَوِيلَةً سَوْدَاءَ عَلَى سُلَّمِ الْكَعْبَةِ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ الْقَاسِمَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: ”مَا أَصَابَ الْمُؤْمِنَ مِنْ شَوْكَةٍ فَمَا فَوْقَهَا، فَهُوَ كَفَّارَةٌ.“
ابن جریج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مجھے عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ نے بتایا کہ انہوں نے سیدہ ام زفر رضی اللہ عنہا کو کعبہ کی سیڑھیوں پر دیکھا کہ وہ لمبے قد کی تھیں اور ان کا رنگ کالا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: مومن کو اگر کانٹا چبھے یا اس سے بھی کم تکلیف پہنچے تو وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري: 5652 و أخرجه أحمد: 25676 و معناه فى البخاري: 5640 و مسلم: 2572»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 507
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا بشر، قال: حدثنا عبد الله، قال: حدثنا عبيد الله بن عبد الرحمن بن عبد الله بن موهب، قال: حدثني عمي عبيد الله بن عبد الله بن موهب، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما من مسلم يشاك شوكة في الدنيا يحتسبها، إلا قص بها من خطاياه يوم القيامة.“حَدَّثَنَا بِشْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُشَاكُ شَوْكَةً فِي الدُّنْيَا يَحْتَسِبُهَا، إِلا قُصَّ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی مسلمان کو دنیا میں کوئی کانٹا لگ جاتا ہے اور وہ اس پر ثواب کی امید رکھتا ہے تو قیامت کے دن اس کی وجہ سے ضرور اس کی خطاؤں میں کمی کی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 9219 و ابن أبى الدنيا فى المرض و الكفارات: 38 - انظر الصحيحة: 2503»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 508
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عمر، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا الاعمش، قال: حدثني ابوسفيان، عن جابر، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: ”ما من مؤمن ولا مؤمنة، ولا مسلم ولا مسلمة، يمرض مرضا إلا قص الله به عنه من خطاياه.“حَدَّثَنَا عُمَرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابوسُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ”مَا مِنْ مُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ، وَلا مُسْلِمٍ وَلا مَسْلَمَةٍ، يَمْرَضُ مَرَضًا إِلا قَصَّ اللَّهُ بِهِ عَنْهُ مِنْ خَطَايَاهُ.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب کوئی مومن مرد یا عورت، اسی طرح مسلمان مرد یا عورت کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے ذریعے سے اس کے گناہ کم کر دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 15146 و الطيالسي: 1882 و أبويعلى: 2305 - انظر الصحيحة: 2503»

قال الشيخ الألباني: صحيح
229. بَابُ هَلْ يَكُونُ قَوْلُ الْمَرِيضِ: إِنِّي وَجِعٌ، شِكَايَةً؟
229. کیا مریض کا یہ کہنا کہ ”مجھے تکلیف ہے“ شکوہ ہے؟
حدیث نمبر: 509
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زكريا، قال: حدثنا ابواسامة، عن هشام، عن ابيه، قال: دخلت انا وعبد الله بن الزبير على اسماء، قبل قتل عبد الله بعشر ليال، واسماء وجعة، فقال لها عبد الله: كيف تجدينك؟ قالت: وجعة، قال: إني في الموت، فقالت: لعلك تشتهي موتي، فلذلك تتمناه؟ فلا تفعل، فوالله ما اشتهي ان اموت حتى ياتي علي احد طرفيك، او تقتل فاحتسبك، وإما ان تظفر فتقر عيني، فإياك ان تعرض عليك خطة، فلا توافقك، فتقبلها كراهية الموت، وإنما عنى ابن الزبير ليقتل فيحزنها ذلك.حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنَا أبوأُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ عَلَى أَسْمَاءَ، قَبْلَ قَتْلِ عَبْدِ اللَّهِ بِعَشْرِ لَيَالٍ، وَأَسْمَاءُ وَجِعَةٌ، فَقَالَ لَهَا عَبْدُ اللَّهِ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: وَجِعَةٌ، قَالَ: إِنِّي فِي الْمَوْتِ، فَقَالَتْ: لَعَلَّكَ تَشْتَهِي مَوْتِي، فَلِذَلِكَ تَتَمَنَّاهُ؟ فَلا تَفْعَلْ، فَوَاللَّهِ مَا أَشْتَهِي أَنْ أَمُوتَ حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ أَحَدُ طَرَفَيْكَ، أَوْ تُقْتَلَ فَأَحْتَسِبَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَظْفُرَ فَتَقَرَّ عَيْنِي، فَإِيَّاكَ أَنْ تُعْرَضَ عَلَيْكَ خُطَّةٌ، فَلا تُوَافِقُكَ، فَتَقْبَلُهَا كَرَاهِيَةَ الْمَوْتِ، وَإِنَّمَا عَنَى ابْنُ الزُّبَيْرِ لِيُقْتَلَ فَيُحْزِنُهَا ذَلِكَ.
سیدنا عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے سے دس دن پہلے کی بات ہے، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے پوچھا: آپ کی صحت کیسی ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے تکلیف ہے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں بھی موت کی حالت میں ہوں۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: شاید تم میری موت چاہتے ہو اس لیے اس کی تمنا کرتے ہو، تم ایسا نہ کرو۔ اللہ کی قسم میں اس وقت تک موت نہیں چاہتی جب تک معاملہ ایک طرف نہ ہو جائے، یا تم قتل کر دیے جاؤ اور میں اس پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ سے ثواب لے لوں، یا تم کامیاب ہو جاؤ اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ تم اس بات سے بچنا کہ تم پر کوئی ایسا معاملہ پیش کیا جائے جس کی تم موافقت نہ کرتے ہو اور موت کے ڈر سے اسے قبول کر لو۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ تھا کہ والدہ کی وفات پہلے ہو جائے تاکہ اگر میں قتل ہو جاؤں تو اس کا انہیں غم نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 37326 و أبونعيم فى الحلية: 56/2 و ابن عبدالبر فى الاستيعاب: 907/3 و ابن عساكر فى تاريخه: 22/69»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 510
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن عيسى، قال: حدثنا عبد الله بن وهب قال: اخبرني هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، انه دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو موعوك، عليه قطيفة، فوضع يده عليه، فوجد حرارتها فوق القطيفة، فقال ابوسعيد: ما اشد حماك يا رسول الله، قال: ”إنا كذلك، يشتد علينا البلاء، ويضاعف لنا الاجر“، فقال: يا رسول الله، اي الناس اشد بلاء؟ قال: ”الانبياء، ثم الصالحون، وقد كان احدهم يبتلى بالفقر حتى ما يجد إلا العباءة يجوبها فيلبسها، ويبتلى بالقمل حتى يقتله، ولاحدهم كان اشد فرحا بالبلاء من احدكم بالعطاء.“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَوْعُوكٌ، عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ، فَوَجَدَ حَرَارَتَهَا فَوْقَ الْقَطِيفَةِ، فَقَالَ أبوسَعِيدٍ: مَا أَشَدَّ حُمَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ”إِنَّا كَذَلِكَ، يَشْتَدُّ عَلَيْنَا الْبَلاءُ، وَيُضَاعَفُ لَنَا الأَجْرُ“، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاءً؟ قَالَ: ”الأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الصَّالِحُونَ، وَقَدْ كَانَ أَحَدُهُمْ يُبْتَلَى بِالْفَقْرِ حَتَّى مَا يَجِدُ إِلا الْعَبَاءَةَ يَجُوبُهَا فَيَلْبَسُهَا، وَيُبْتَلَى بِالْقُمَّلِ حَتَّى يَقْتُلَهُ، وَلأَحَدُهُمْ كَانَ أَشَدَّ فَرَحًا بِالْبَلاءِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِالْعَطَاءِ.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے چادر کے اوپر سے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رکھا تو اس کے اوپر سے بھی حرارت محسوس کی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کس قدر شدید بخار ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم پر آزمائشیں اسی طرح سخت آتی ہیں اور ہمارے لیے اجر بھی دگنا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! سب سے زیادہ سخت آزمائشیں کن لوگوں پر آتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام پر، پھر نیک لوگوں پر۔ ان میں سے کسی کو اس قدر تنگ دستی کی آزمائش میں ڈالا جاتا کہ اس کے پاس ایک عبا کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا، جسے وہ پھاڑ کر پہن لیتے تھے۔ اور انہیں جوؤں اور پسوؤں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا جاتا یہاں تک وہ انہیں مار ڈالتیں۔ وہ آزمائش سے اتنے خوش ہوتے تھے جتنے تم عطیہ ملنے سے خوش ہوتے ہو۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الفتن، باب الصبر على البلاء: 4024 - انظر الصحيحة: 144»

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.