الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 1783
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن علي ، عن زائدة ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، عن العباس ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، علمني شيئا ادعو به؟ فقال:" سل الله العفو والعافية"، قال: ثم اتيته مرة اخرى، فقلت: يا رسول الله، علمني شيئا ادعو به، قال: فقال:" يا عباس يا عم رسول الله صلى الله عليه وسلم، سل الله العافية في الدنيا والآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ الْعَبَّاسِ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي شَيْئًا أَدْعُو بِهِ؟ فَقَالَ:" سَلْ اللَّهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ"، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُهُ مَرَّةً أُخْرَى، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي شَيْئًا أَدْعُو بِهِ، قَالَ: فَقَالَ:" يَا عَبَّاسُ يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَلْ اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ".
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں درگزر اور عافیت کی دعا مانگتے رہا کریں۔ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ایک سال بعد دوبارہ آئے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی دعا تلقین فرمائی۔

حكم دارالسلام: . حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد.
حدیث نمبر: 1784
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا قيس بن الربيع ، حدثني عبد الله بن ابي السفر ، عن ابن شرحبيل ، عن ابن عباس ، عن العباس ، قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نساؤه، فاستترن مني إلا ميمونة، فقال:" لا يبقى في البيت احد شهد اللد إلا لد، إلا ان يميني لم تصب العباس"، ثم قال:" مروا ابا بكر ان يصلي بالناس"، فقالت عائشة , لحفصة قولي له: إن ابا بكر رجل إذا قام مقامك بكى، قال:" مروا ابا بكر ليصل بالناس" , فقام فصلى، فوجد النبي صلى الله عليه وسلم خفة فجاء، فنكص ابو بكر رضي الله عنه، فاراد ان يتاخر، فجلس إلى جنبه، ثم اقترا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ ، عَنِ ابْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاؤُهُ، فَاسْتَتَرْنَ مِنِّي إِلَّا مَيْمُونَةَ، فَقَالَ:" لَا يَبْقَى فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ شَهِدَ اللَّدَّ إِلَّا لُدَّ، إِلَّا أَنَّ يَمِينِي لَمْ تُصِبْ الْعَبَّاسَ"، ثُمَّ قَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ , لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ إِذَا قَامَ مَقَامَكَ بَكَى، قَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ لِيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , فَقَامَ فَصَلَّى، فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِفَّةً فَجَاءَ، فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ اقْتَرَأَ.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں تمام ازواج مطہرات موجود تھیں، ان سب نے مجھ سے پردہ کیا سوائے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے (کیونکہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی سالی تھیں)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے منہ میں زبردستی دوا ڈالنے کے موقع پر جو شخص بھی موجود تھا اس کے منہ میں بھی زبردستی دوا ڈالی جائے لیکن میری اس قسم کا تعلق عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو وہ رونے لگیں گے (اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکیں گے)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز کے لئے آ گئے، اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے الٹے پاؤں پیچھے ہونا چاہا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئے اور قرأت فرمائی۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، قيس بن الربيع مختلف فيه، وحديثه حسن فى الشواهد، وهذا منها.
حدیث نمبر: 1785
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا قيس ، حدثنا عبد الله بن ابي السفر ، عن ارقم بن شرحبيل ، عن ابن عباس ، عن العباس بن عبد المطلب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال في مرضه:" مروا ابا بكر يصلي بالناس"، فخرج ابو بكر فكبر، ووجد النبي صلى الله عليه وسلم راحة، فخرج يهادى بين رجلين، فلما رآه ابو بكر تاخر، فاشار إليه النبي صلى الله عليه وسلم مكانك، ثم جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جنب ابي بكر، فاقترا من المكان الذي بلغ ابو بكر رضي الله تعالى عنه , من السورة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ ، عَنْ أَرْقَمَ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ فِي مَرَضِهِ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ"، فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَكَبَّرَ، وَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاحَةً، فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ تَأَخَّرَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَكَ، ثُمَّ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، فَاقْتَرَأَ مِنَ الْمَكَانِ الَّذِي بَلَغَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ , مِنَ السُّورَةِ.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اپنے مرض الوفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لئے آ گئے، اس پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے الٹے پاؤں پیچھے ہونا چاہا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر ہی رہو۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئے اور اسی جگہ سے قرأت فرمائی جہاں تک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تھے۔

حكم دارالسلام: هو مكرر ما قبله.
حدیث نمبر: 1786
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبيد بن ابي قرة ، حدثنا ليث بن سعد ، عن ابي قبيل ، عن ابي ميسرة , عن العباس , قال: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فقال:" انظر هل ترى في السماء من نجم؟" , قال: قلت: نعم، قال:" ما ترى؟" , قال: قلت: ارى الثريا، قال:" اما إنه يلي هذه الامة بعددها من صلبك، اثنين في فتنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي قَبِيلٍ ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ , عَنِ الْعَبَّاسِ , قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ:" انْظُرْ هَلْ تَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ نَجْمٍ؟" , قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" مَا تَرَى؟" , قَالَ: قُلْتُ: أَرَى الثُّرَيَّا، قَالَ:" أَمَا إِنَّهُ يَلِي هَذِهِ الْأُمَّةَ بِعَدَدِهَا مِنْ صُلْبِكَ، اثْنَيْنِ فِي فِتْنَةٍ".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھئے، آسمان میں آپ کو کوئی ستارہ نظر آتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: کون سا ستارہ نظر آتا ہے؟ میں نے عرض کیا: ثریا، فرمایا: تمہاری نسل میں سے اس ثریا ستارے کی تعداد کے برابر لوگ اس امت کے حکمران ہوں گے جن میں سے دو آزمائش کا شکار ہوں گے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، لثلاث علل.
حدیث نمبر: 1787
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي , عن ابن إسحاق ، حدثني يحيى بن ابي الاشعث ، عن إسماعيل بن إياس بن عفيف الكندي ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" كنت امرا تاجرا، فقدمت الحج، فاتيت العباس بن عبد المطلب لابتاع منه بعض التجارة، وكان امرا تاجرا، فوالله إنني لعنده بمنى إذ خرج رجل من خباء قريب منه، فنظر إلى الشمس، فلما رآها مالت يعني قام يصلي، قال: ثم خرجت امراة من ذلك الخباء الذي خرج منه ذلك الرجل، فقامت خلفه تصلي، ثم خرج غلام حين راهق الحلم من ذلك الخباء، فقام معه يصلي، قال: فقلت للعباس : من هذا يا عباس؟ قال: هذا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب ابن اخي، قال: فقلت: من هذه المراة؟ قال: هذه امراته خديجة ابنة خويلد، قال: قلت: من هذا الفتى؟ قال: هذا علي بن ابي طالب ابن عمه، قال: فقلت: فما هذا الذي يصنع؟ قال: يصلي، وهو يزعم انه نبي، ولم يتبعه على امره إلا امراته وابن عمه هذا الفتى، وهو يزعم انه سيفتح عليه كنوز كسرى , وقيصر،: قال فكان عفيف وهو ابن عم الاشعث بن قيس، يقول: واسلم بعد ذلك فحسن إسلامه، لو كان الله رزقني الإسلام يومئذ، فاكون ثالثا مع علي بن ابي طالب رضي الله عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي , عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي الْأَشْعَثِ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِيَاسِ بْنِ عَفِيفٍ الْكِنْدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" كُنْتُ امْرَأً تَاجِرًا، فَقَدِمْتُ الْحَجَّ، فَأَتَيْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لِأَبْتَاعَ مِنْهُ بَعْضَ التِّجَارَةِ، وَكَانَ امْرَأً تَاجِرًا، فَوَاللَّهِ إِنَّنِي لَعِنْدَهُ بِمِنًى إِذْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ خِبَاءٍ قَرِيبٍ مِنْهُ، فَنَظَرَ إِلَى الشَّمْسِ، فَلَمَّا رَآهَا مَالَتْ يَعْنِي قَامَ يُصَلِّي، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَتْ امْرَأَةٌ مِنْ ذَلِكَ الْخِبَاءِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ ذَلِكَ الرَّجُلُ، فَقَامَتْ خَلْفَهُ تُصَلِّي، ثُمَّ خَرَجَ غُلَامٌ حِينَ رَاهَقَ الْحُلُمَ مِنْ ذَلِكَ الْخِبَاءِ، فَقَامَ مَعَهُ يُصَلِّي، قَالَ: فَقُلْتُ لِلْعَبَّاسِ : مَنْ هَذَا يَا عَبَّاسُ؟ قَالَ: هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنُ أَخِي، قَالَ: فَقُلْتُ: مَنْ هَذِهِ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ: هَذِهِ امْرَأَتُهُ خَدِيجَةُ ابْنَةُ خُوَيْلِدٍ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا الْفَتَى؟ قَالَ: هَذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ابْنُ عَمِّهِ، قَالَ: فَقُلْتُ: فَمَا هَذَا الَّذِي يَصْنَعُ؟ قَالَ: يُصَلِّي، وَهُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَلَمْ يَتْبَعْهُ عَلَى أَمْرِهِ إِلَّا امْرَأَتُهُ وَابْنُ عَمِّهِ هَذَا الْفَتَى، وَهُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَيُفْتَحُ عَلَيْهِ كُنُوزُ كِسْرَى , وَقَيْصَرَ،: قَالَ فَكَانَ عَفِيفٌ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، يَقُولُ: وَأَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِكَ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ، لَوْ كَانَ اللَّهُ رَزَقَنِي الْإِسْلَامَ يَوْمَئِذٍ، فَأَكُونُ ثَالِثًا مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عفیف کندی کہتے ہیں کہ میں ایک تاجر آدمی تھا، ایک مرتبہ میں حج کے لئے آیا، میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے پاس - جو خود بھی تاجر تھے - کچھ مال تجارت خریدنے کے لئے آیا، میں ان کے پاس اس وقت منیٰ میں تھا کہ اچانک قریب کے خیمے سے ایک آدمی نکلا، اس نے سورج کو جب ڈھلتے ہوئے دیکھا تو نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا، پھر ایک عورت اسی خیمے سے نکلی جس سے وہ مرد نکلا تھا، اس عورت نے اس مرد کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دی، پھر ایک لڑکا - جو قریب البلوغ تھا - وہ بھی اسی خیمے سے نکلا اور اس مرد کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ میں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عباس! یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں، میں نے پوچھا: یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہیں، میں نے پوچھا: یہ نوجوان کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے چچا کے بیٹے علی بن ابی طالب ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ نماز پڑھ رہے ہیں، ان کا خیال یہ ہے کہ یہ اللہ کے نبی ہیں لیکن ابھی تک ان کی پیروی صرف ان کی بیوی اور اس نوجوان نے ہی شروع کی ہے، اور ان کا خیال یہ بھی ہے کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانوں کو ان کے لئے کھول دیا جائے گا۔ عفیف - جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا - کہتے ہیں کہ اگر اللہ مجھے اسی دن اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دیتا تو میں تیسرا مسلمان ہوتا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، لثلاث علل.
حدیث نمبر: 1788
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، عن سفيان ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن المطلب بن ابي وداعة , قال: قال العباس : بلغه صلى الله عليه وسلم بعض ما يقول الناس، قال: فصعد المنبر، فقال:" من انا"، قالوا: انت رسول الله، فقال:" انا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب، إن الله خلق الخلق فجعلني في خير خلقه، وجعلهم فرقتين، فجعلني في خير فرقة، وخلق القبائل، فجعلني في خير قبيلة، وجعلهم بيوتا، فجعلني في خيرهم بيتا، فانا خيركم بيتا، وخيركم نفسا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ , قَالَ: قَالَ الْعَبَّاسُ : بَلَغَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ:" مَنْ أَنَا"، قَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ:" أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ خَلْقِهِ، وَجَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ فِرْقَةٍ، وَخَلَقَ الْقَبَائِلَ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ قَبِيلَةٍ، وَجَعَلَهُمْ بُيُوتًا، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا، فَأَنَا خَيْرُكُمْ بَيْتًا، وَخَيْرُكُمْ نَفْسًا".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی طرف سے کچھ باتیں معلوم ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے اور لوگوں سے مخاطب ہو کر پوچھا: میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ نے مخلوقات کو پیدا کیا اور مجھے ان میں سب سے بہتر مخلوق میں رکھا، پھر اللہ نے انہیں دو گروہوں میں تقسیم کر دیا اور مجھے بہترین گروہ میں رکھا، پھر اللہ نے قبائل کو پیدا کیا اور مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا، پھر اللہ نے رہائشیں مقرر کیں اور مجھے سب سے بہترین رہائش میں رکھا، اس لئے میں رہائش کے اعتبار سے بھی تم سب سے بہتر ہوں اور اپنی ذات کے اعتبار سے بھی تم سب سے بہتر ہوں۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، يزيد بن أبى زياد إن كان فيه ضعف لكن حديثه حسن فى المتابعات.
حدیث نمبر: 1789
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا عبد الملك بن عمير ، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن عباس بن عبد المطلب ، قال: يا رسول الله , هل نفعت ابا طالب بشيء؟ فإنه قد كان يحوطك ويغضب لك؟ قال:" نعم، هو في ضحضاح من النار، لولا ذلك لكان هو في الدرك الاسفل من النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ؟ فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ، لَوْلَا ذَلِكَ لَكَانَ هُوَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ".
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے چچا ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا: وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3883، م: 209.
حدیث نمبر: 1790
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا اسباط بن محمد ، حدثنا هشام بن سعد ، عن عبيد الله بن عباس بن عبد المطلب , اخي عبد الله، قال:" كان للعباس ميزاب على طريق عمر بن الخطاب، فلبس عمر ثيابه يوم الجمعة، وقد كان ذبح للعباس فرخان، فلما وافى الميزاب صب ماء بدم الفرخين، فاصاب عمر، وفيه دم الفرخين، فامر عمر بقلعه ثم رجع عمر فطرح ثيابه، ولبس ثيابا غير ثيابه، ثم جاء فصلى بالناس , فاتاه العباس , فقال: والله إنه للموضع الذي وضعه النبي صلى الله عليه وسلم، فقال عمر , للعباس: وانا اعزم عليك لما صعدت على ظهري، حتى تضعه في الموضع الذي وضعه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ففعل ذلك العباس رضي الله تعالى عنه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ , أَخِي عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كَانَ لِلْعَبَّاسِ مِيزَابٌ عَلَى طَرِيقِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَلَبِسَ عُمَرُ ثِيَابَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَدْ كَانَ ذُبِحَ لِلْعَبَّاسِ فَرْخَانِ، فَلَمَّا وَافَى الْمِيزَابَ صُبَّ مَاءٌ بِدَمِ الْفَرْخَيْنِ، فَأَصَابَ عُمَرَ، وَفِيهِ دَمُ الْفَرْخَيْنِ، فَأَمَرَ عُمَرُ بِقَلْعِهِ ثُمَّ رَجَعَ عُمَرُ فَطَرَحَ ثِيَابَهُ، وَلَبِسَ ثِيَابًا غَيْرَ ثِيَابِهِ، ثُمَّ جَاءَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ , فَأَتَاهُ الْعَبَّاسُ , فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنَّهُ لَلْمَوْضِعُ الَّذِي وَضَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ , لِلْعَبَّاسِ: وَأَنَا أَعْزِمُ عَلَيْكَ لَمَّا صَعِدْتَ عَلَى ظَهْرِي، حَتَّى تَضَعَهُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَعَلَ ذَلِكَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ".
عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا ایک پرنالہ تھا جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے راستے میں آتا تھا، ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن نئے کپڑے پہنے، اسی دن سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے یہاں دو چوزے ذبح ہوئے تھے، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس پرنالے کے قریب پہنچے تو اس میں چوزوں کا خون ملا پانی بہنے لگا، وہ پانی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر گرا اور اس میں چوزوں کا خون بھی تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس پرنالے کو وہاں سے ہٹا دینے کا حکم دیا، اور گھر واپس جا کر وہ کپڑے اتار کر دوسرے کپڑے پہنے اور آ کر لوگوں کو نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد ان کے پاس سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے کہ واللہ! اس جگہ اس پرنالے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ میری کمر پر کھڑے ہو کر اسے وہیں لگا دیجئے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لگایا تھا، چنانچہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے وہ پرنالہ اسی طرح دوبارہ لگا دیا۔

حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد منقطع، هشام بن سعد لم يدرك عبيدالله بن عباس.
24. مسنَد الفَضلِ بنِ عَبَّاس رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
حدیث نمبر: 1791
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عباد بن عباد ، عن ابن جريج ، عن عطاء ، عن ابن عباس ، عن الفضل بن عباس ، انه كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم من جمع،" فلم يزل يلبي حتى رمى الجمرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ كَانَ رِدْيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَمْعٍ،" فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ".
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ مزدلفہ سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے سوار تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543، م: 1281.
حدیث نمبر: 1792
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) قرئ على سفيان , سمعت محمد بن ابي حرملة ، عن كريب ، عن ابن عباس ، عن الفضل ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" لبى حتى رمى الجمرة".(حديث مرفوع) قُرِئَ عَلَى سُفْيَانَ , سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْفَضْلِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَبَّى حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ".
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1543، م: 1281.

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.