الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
7. بَابُ ذِكْرِ قَحْطَانَ:
7. باب: ایک مرد قحطانی کا تذکرہ۔
(7) Chapter. The mention of Qahtan tribe.
حدیث نمبر: 3517
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال: حدثني سليمان بن بلال، عن ثور بن زيد، عن ابي الغيث، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تقوم الساعة حتى يخرج رجل من قحطان يسوق الناس بعصاه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابولغیث نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ قبیلہ قحطان میں ایک ایسا شخص پیدا نہیں ہو گا جو لوگوں پر اپنی لاٹھی کے زور سے حکومت کرے گا۔

Narrated Abu Hurairah (ra): The Prophet (saws) said, "The hour will not be established unless a man from the tribe of Qahtan appears, driving the people with his stick (ruling them with violence and oppression)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 719

8. بَابُ مَا يُنْهَى مِنْ دَعْوَةِ الْجَاهِلِيَّةِ:
8. باب: جاہلیت کی سی باتیں کرنا منع ہے۔
(8) Chapter. What is forbidden of the Dawah (call, tradition or custom) of the (Pre-Islamic) Period of Ignorance.
حدیث نمبر: 3518
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد، اخبرنا مخلد بن يزيد، اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرني عمرو بن دينار، انه سمع جابرا رضي الله عنه، يقول: غزونا مع النبي صلى الله عليه وسلم وقد ثاب معه ناس من المهاجرين حتى كثروا وكان من المهاجرين رجل لعاب فكسع انصاريا فغضب الانصاري غضبا شديدا حتى تداعوا، وقال: الانصاري يا للانصار، وقال: المهاجري يا للمهاجرين فخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما بال دعوى اهل الجاهلية ثم، قال: ما شانهم فاخبر بكسعة المهاجري الانصاري، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" دعوها فإنها خبيثة، وقال عبد الله بن ابي ابن سلول: اقد تداعوا علينا لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل، فقال عمر: الا نقتل يا رسول الله، هذا الخبيث لعبد الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا يتحدث الناس انه كان يقتل اصحابه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ ثَابَ مَعَهُ نَاسٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ حَتَّى كَثُرُوا وَكَانَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلٌ لَعَّابٌ فَكَسَعَ أَنْصَارِيًّا فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ غَضَبًا شَدِيدًا حَتَّى تَدَاعَوْا، وَقَالَ: الْأَنْصَارِيُّ يَا لَلْأَنْصَارِ، وَقَالَ: الْمُهَاجِرِيُّ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا بَالُ دَعْوَى أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ ثُمَّ، قَالَ: مَا شَأْنُهُمْ فَأُخْبِرَ بِكَسْعَةِ الْمُهَاجِرِيِّ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعُوهَا فَإِنَّهَا خَبِيثَةٌ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَقَدْ تَدَاعَوْا عَلَيْنَا لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَقَالَ عُمَرُ: أَلَا نَقْتُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْخَبِيثَ لِعَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّهُ كَانَ يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک تھے، مہاجرین بڑی تعداد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔ وجہ یہ ہوئی کہ مہاجرین میں ایک صاحب تھے بڑے دل لگی کرنے والے، انہوں نے ایک انصاری کے سرین پر ضرب لگائی، انصاری بہت سخت غصہ ہوا۔ اس نے اپنی برادری والوں کو مدد کے لیے پکارا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان لوگوں نے یعنی انصاری نے کہا: اے قبائل انصار! مدد کو پہنچو! اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرین! مدد کو پہنچو! یہ غل سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ سے) باہر تشریف لائے اور فرمایا: کیا بات ہے؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صورت حال دریافت کرنے پر مہاجر صحابی کے انصاری صحابی کو مار دینے کا واقعہ بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی جاہلیت کی ناپاک باتیں چھوڑ دو اور عبداللہ بن ابی سلول (منافق) نے کہا کہ یہ مہاجرین اب ہمارے خلاف اپنی قوم والوں کی دہائی دینے لگے۔ مدینہ پہنچ کر ہم سمجھ لیں گے، عزت دار ذلیل کو یقیناً نکال باہر کر دے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی یا رسول اللہ! ہم اس ناپاک پلید عبداللہ بن ابی کو قتل کیوں نہ کر دیں؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ لوگ کہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے لوگوں کو قتل کر دیا کرتے ہیں۔

Narrated Jabir: We were in the company of the Prophet in a Ghazwa. A large number of emigrants joined him and among the emigrants there was a person who used to play jokes (or play with spears); so he (jokingly) stroked an Ansari man on the hip. The Ans-ari got so angry that both of them called their people. The Ansari said, "Help, O Ansar!" And the emigrant said "Help, O emigrants!" The Prophet came out and said, "What is wrong with the people (as they are calling) this call of the period of Ignorance? "Then he said, "What is the matter with them?" So he was told about the stroke of the emigrant to the Ansari. The Prophet said, "Stop this (i.e. appeal for help) for it is an evil call. "Abdullah bin Ubai bin Salul (a hypocrite) said, "The emigrants have called and (gathered against us); so when we return to Medina, surely, the more honorable people will expel therefrom the meaner," Upon that `Umar said, "O Allah's Prophet! Shall we not kill this evil person (i.e. `Abdullah bin Ubai bin Salul) ?" The Prophet) said, "(No), lest the people should say that Muhammad used to kill his companions."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 720

حدیث نمبر: 3519
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني ثابت بن محمد، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ح وعن سفيان، عن زبيد، عن إبراهيم، عن مسروق، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية".(مرفوع) حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ".
ہم سے ثابت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے عبداللہ بن مرہ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، اور سفیان نے زبید سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو (نوحہ کرتے ہوئے) اپنے رخسار پیٹے، گریبان پھاڑ ڈالے، اور جاہلیت کی پکار پکارے۔

Narrated `Abdullah (bin Mas`ud): The Prophet said, "Who-ever slaps his face or tears the bosom of his dress, or calls the calls of the Period of Ignorance, is not from us."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 721

9. بَابُ قِصَّةُ خُزَاعَةَ:
9. باب: قبیلہ خزاعہ کا بیان۔
(9) Chapter. The story of Khuzaa.
حدیث نمبر: 3520
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق بن إبراهيم، حدثنا يحيى بن آدم، اخبرنا إسرائيل، عن ابي حصين، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" عمرو بن لحي بن قمعة بن خندف ابو خزاعة".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عَمْرُو بْنُ لُحَيِّ بْنِ قَمَعَةَ بْنِ خِنْدِفَ أَبُو خُزَاعَةَ".
مجھ سے اسحٰق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، کہا ہم کو اسرائیل نے خبر دی، انہیں ابوحصین نے، انہیں ابوصالح نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو بن لحیی بن قمعہ بن خندف قبیلہ خزاعہ کا باپ تھا۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "`Amr bin Luhai bin Qam'a bin Khindif was the father of Khuza`a.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 722

حدیث نمبر: 3521
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: سمعت سعيد بن المسيب، قال البحيرة: التي يمنع درها للطواغيت ولا يحلبها احد من الناس، والسائبة: التي كانوا يسيبونها لآلهتهم فلا يحمل عليها شيء، قال: وقال ابو هريرة، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" رايت عمرو بن عامر بن لحي الخزاعي يجر قصبه في النار وكان اول من سيب السوائب".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، قَالَ الْبَحِيرَةُ: الَّتِي يُمْنَعُ دَرُّهَا لِلطَّوَاغِيتِ وَلَا يَحْلُبُهَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ، وَالسَّائِبَةُ: الَّتِي كَانُوا يُسَيِّبُونَهَا لِآلِهَتِهِمْ فَلَا يُحْمَلُ عَلَيْهَا شَيْءٌ، قَالَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرِ بْنِ لُحَيٍّ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ".
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ «بحيرة» وہ اونٹنی جس کے دودھ کی ممانعت ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ بتوں کے لیے وقف ہوتی تھی۔ اس لیے کوئی بھی شخص اس کا دودھ نہیں دوھتا تھا اور «سائبة» اسے کہتے جس کو وہ اپنے معبودوں کے لیے چھوڑ دیتے اور ان پر کوئی بوجھ نہ لادتا اور نہ کوئی سواری کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر بن لحیی خزاعی کو دیکھا کہ جہنم میں وہ اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا اور یہی عمرو وہ پہلا شخص ہے جس نے «سائبة» کی رسم نکالی۔

Narrated Sa`id bin Al-Musaiyab: Al-Bahira was an animal whose milk was spared for the idols and other dieties, and so nobody was allowed to milk it. As-Saiba was an animal which they (i.e infidels) used to set free in the names of their gods so that it would not be used for carrying anything. Abu Huraira said, "The Prophet said, 'I saw `Amr bin 'Amir bin Luhai Al-Khuza`i dragging his intestines in the (Hell) Fire, for he was the first man who started the custom of releasing animals (for the sake of false gods).' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 723

10. بَابُ قِصَّةِ إِسْلاَمِ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
10. باب: ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا بیان۔
(10) Chapter. The story of the conversion of Abu Dhar Al-Ghifari to Islam.
حدیث نمبر: 3522
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عمرو بن عباس ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا المثنى ، عن ابي جمرة ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" لما بلغ ابا ذر مبعث النبي صلى الله عليه وسلم، قال: لاخيه اركب إلى هذا الوادي فاعلم لي علم هذا الرجل الذي يزعم انه نبي ياتيه الخبر من السماء , واسمع من قوله ثم ائتني , فانطلق الاخ حتى قدمه وسمع من قوله , ثم رجع إلى ابي ذر، فقال له: رايته يامر بمكارم الاخلاق وكلاما ما هو بالشعر، فقال: ما شفيتني مما اردت فتزود وحمل شنة له فيها ماء حتى قدم مكة فاتى المسجد , فالتمس النبي صلى الله عليه وسلم ولا يعرفه وكره ان يسال عنه حتى ادركه بعض الليل , فاضطجع فرآه علي فعرف انه غريب , فلما رآه تبعه فلم يسال واحد منهما صاحبه عن شيء حتى اصبح , ثم احتمل قربته وزاده إلى المسجد وظل ذلك اليوم ولا يراه النبي صلى الله عليه وسلم حتى امسى , فعاد إلى مضجعه فمر به علي، فقال: اما نال للرجل ان يعلم منزله , فاقامه فذهب به معه لا يسال واحد منهما صاحبه عن شيء حتى إذا كان يوم الثالث , فعاد علي على مثل ذلك فاقام معه، ثم قال: الا تحدثني ما الذي اقدمك، قال: إن اعطيتني عهدا وميثاقا لترشدني فعلت , ففعل فاخبره، قال: فإنه حق وهو رسول الله صلى الله عليه وسلم فإذا اصبحت فاتبعني , فإني إن رايت شيئا اخاف عليك قمت كاني اريق الماء , فإن مضيت فاتبعني حتى تدخل مدخلي , ففعل فانطلق يقفوه حتى دخل على النبي صلى الله عليه وسلم ودخل معه فسمع من قوله واسلم مكانه، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجع إلى قومك فاخبرهم حتى ياتيك امري"، قال: والذي نفسي بيده لاصرخن بها بين ظهرانيهم , فخرج حتى اتى المسجد فنادى باعلى صوته: اشهد ان لا إله إلا الله , وان محمدا رسول الله , ثم قام القوم فضربوه حتى اضجعوه , واتى العباس فاكب عليه، قال:" ويلكم الستم تعلمون انه من غفار وان طريق تجاركم إلى الشام , فانقذه منهم ثم عاد من الغد لمثلها , فضربوه وثاروا إليه فاكب العباس عليه".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لِأَخِيهِ ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ , وَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي , فَانْطَلَقَ الْأَخُ حَتَّى قَدِمَهُ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ , ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ لَهُ: رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، فَقَالَ: مَا شَفَيْتَنِي مِمَّا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَأَتَى الْمَسْجِدَ , فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ بَعْضُ اللَّيْلِ , فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ , فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ , ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى , فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ، فَقَالَ: أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ , فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ لَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ , فَعَادَ عَلِيٌّ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَأَقَامَ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ، قَالَ: إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي فَعَلْتُ , فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ، قَالَ: فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتْبَعْنِي , فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ , فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتْبَعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي , فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي"، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ , فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ , ثُمَّ قَامَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ , وَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، قَالَ:" وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَأَنَّ طَرِيقَ تِجَارِكُمْ إِلَى الشَّأْمِ , فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ لِمِثْلِهَا , فَضَرَبُوهُ وَثَارُوا إِلَيْهِ فَأَكَبَّ الْعَبَّاسُ عَلَيْهِ".
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے مثنیٰ نے، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لیے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے، میرے لیے خبریں حاصل کر کے لا۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کو حکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لیے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی۔ آخر انہوں نے خود توشہ باندھا، پانی سے بھرا ہوا ایک پرانا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے۔ مسجد الحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ کے متعلق پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزر گئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے، علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا آپ میرے گھر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجد الحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے انہیں اپنے خیالات کی خبر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں (راستے میں) کوئی ایسی بات دیکھوں جس سے مجھے تمہارے بارے میں کوئی خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا (کسی دیوار کے قریب) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے۔ اس وقت تم میرا انتظار مت کرنا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے (تو پھر ہمارے پاس آ جانا)۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکار کر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس وہ مسجد الحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا «أشهد أن لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وأن محمدا رسول الله» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سنتے ہی ان پر سارا مجمع ٹوٹ پڑا اور سب نے انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے انہوں نے کہا افسوس! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے، اس طرح سے ان سے ان کو بچایا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجد الحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قوم پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگے۔ اس دن بھی عباس رضی اللہ عنہ ان پر اوندھے پڑ گئے۔

Narrated Abu Jamra: Ibn `Abbas said to us, "Shall I tell you the story of Abu Dhar's conversion to Islam?" We said, "Yes." He said, "Abu Dhar said: I was a man from the tribe of Ghifar. We heard that a man had appeared in Mecca, claiming to be a Prophet. ! said to my brother, 'Go to that man and talk to him and bring me his news.' He set out, met him and returned. I asked him, 'What is the news with you?' He said, 'By Allah, I saw a man enjoining what is good and forbidding what is evil.' I said to him, 'You have not satisfied me with this little information.' So, I took a waterskin and a stick and proceeded towards Mecca. Neither did I know him (i.e. the Prophet ), nor did I like to ask anyone about him. I Kept on drinking Zam zam water and staying in the Mosque. Then `Ali passed by me and said, 'It seems you are a stranger?' I said, 'Yes.' He proceeded to his house and I accompanied him. Neither did he ask me anything, nor did I tell him anything. Next morning I went to the Mosque to ask about the Prophet but no-one told me anything about him. `Ali passed by me again and asked, 'Hasn't the man recognized his dwelling place yet' I said, 'No.' He said, 'Come along with me.' He asked me, 'What is your business? What has brought you to this town?' I said to him, 'If you keep my secret, I will tell you.' He said, 'I will do,' I said to him, 'We have heard that a person has appeared here, claiming to be a Prophet. I sent my brother to speak to him and when he returned, he did not bring a satisfactory report; so I thought of meeting him personally.' `Ali said (to Abu Dhar), 'You have reached your goal; I am going to him just now, so follow me, and wherever I enter, enter after me. If I should see someone who may cause you trouble, I will stand near a wall pretending to mend my shoes (as a warning), and you should go away then.' `Ali proceeded and I accompanied him till he entered a place, and I entered with him to the Prophet to whom I said, 'Present (the principles of) Islam to me.' When he did, I embraced Islam 'immediately. He said to me, 'O Abu Dhar! Keep your conversion as a secret and return to your town; and when you hear of our victory, return to us. ' I said, 'By H him Who has sent you with the Truth, I will announce my conversion to Islam publicly amongst them (i.e. the infidels),' Abu Dhar went to the Mosque, where some people from Quraish were present, and said, 'O folk of Quraish ! I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and I (also) testify that Muhammad is Allah's Slave and His Apostle.' (Hearing that) the Quraishi men said, 'Get at this Sabi (i.e. Muslim) !' They got up and beat me nearly to death. Al `Abbas saw me and threw himself over me to protect me. He then faced them and said, 'Woe to you! You want to kill a man from the tribe of Ghifar, although your trade and your communications are through the territory of Ghifar?' They therefore left me. The next morning I returned (to the Mosque) and said the same as I have said on the previous day. They again said, 'Get at this Sabi!' I was treated in the same way as on the previous day, and again Al-Abbas found me and threw himself over me to protect me and told them the same as he had said the day before.' So, that was the conversion of Abu Dhar (may Allah be Merciful to him) to Islam."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 725

11. بَابُ قِصَّةِ زَمْزَمَ:
11. باب: زمزم کا واقعہ۔
(11) Chapter. The story of Zamzam. (See H. 3369 and 3370)
حدیث نمبر: 3522M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا زيد هو ابن اخزم، قال: حدثنا ابو قتيبة سلم بن قتيبة، حدثني مثنى بن سعيد القصير، قال: حدثني ابو جمرة، قال: قال: لنا ابن عباس الا اخبركم بإسلام ابي ذر، قال: قلنا: بلى، قال: قال ابو ذر: كنت رجلا من غفار فبلغنا ان رجلا قد خرج بمكة يزعم انه نبي، فقلت: لاخي انطلق إلى هذا الرجل كلمه واتني بخبره فانطلق فلقيه ثم رجع، فقلت: ما عندك؟، فقال: والله لقد رايت رجلا يامر بالخير وينهى عن الشر، فقلت له: لم تشفني من الخبر فاخذت جرابا وعصا ثم اقبلت إلى مكة فجعلت لا اعرفه واكره ان اسال عنه واشرب من ماء زمزم واكون في المسجد، قال: فمر بي علي، فقال: كان الرجل غريب، قال: قلت: نعم، قال: فانطلق إلى المنزل، قال: فانطلقت معه لا يسالني عن شيء ولا اخبره فلما اصبحت غدوت إلى المسجد لاسال عنه وليس احد يخبرني عنه بشيء، قال: فمر بي علي، فقال: اما نال للرجل يعرف منزله بعد، قال: قلت: لا، قال: انطلق معي، قال: فقال: ما امرك وما اقدمك هذه البلدة، قال: قلت له: إن كتمت علي اخبرتك، قال: فإني افعل، قال: قلت له: بلغنا انه قد خرج ها هنا رجل يزعم انه نبي فارسلت اخي ليكلمه فرجع ولم يشفني من الخبر فاردت ان القاه، فقال له: اما إنك قد رشدت هذا وجهي إليه فاتبعني ادخل حيث ادخل فإني إن رايت احدا اخافه عليك قمت إلى الحائط كاني اصلح نعلي وامض انت فمضى ومضيت معه حتى دخل ودخلت معه على النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت له: اعرض علي الإسلام فعرضه فاسلمت مكاني، فقال لي:" يا ابا ذر اكتم هذا الامر وارجع إلى بلدك فإذا بلغك ظهورنا فاقبل، فقلت: والذي بعثك بالحق لاصرخن بها بين اظهرهم فجاء إلى المسجد وقريش فيه، فقال: يا معشر قريش إني اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله، فقالوا: قوموا إلى هذا الصابئ فقاموا فضربت لاموت فادركني العباس فاكب علي ثم اقبل عليهم، فقال: ويلكم تقتلون رجلا من غفار ومتجركم وممركم على غفار فاقلعوا عني فلما ان اصبحت الغد رجعت، فقلت: مثل ما، قلت: بالامس، فقالوا: قوموا إلى هذا الصابئ فصنع بي مثل ما صنع بالامس وادركني العباس فاكب علي، وقال: مثل مقالته بالامس، قال: فكان هذا اول إسلام ابي ذر رحمه الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَخْزَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنِي مُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الْقَصِيرُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ: قَالَ: لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِإِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: كُنْتُ رَجُلًا مِنْ غِفَارٍ فَبَلَغَنَا أَنَّ رَجُلًا قَدْ خَرَجَ بِمَكَّةَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَقُلْتُ: لِأَخِي انْطَلِقْ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ كَلِّمْهُ وَأْتِنِي بِخَبَرِهِ فَانْطَلَقَ فَلَقِيَهُ ثُمَّ رَجَعَ، فَقُلْتُ: مَا عِنْدَكَ؟، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ وَيَنْهَى عَنِ الشَّرِّ، فَقُلْتُ لَهُ: لَمْ تَشْفِنِي مِنَ الْخَبَرِ فَأَخَذْتُ جِرَابًا وَعَصًا ثُمَّ أَقْبَلْتُ إِلَى مَكَّةَ فَجَعَلْتُ لَا أَعْرِفُهُ وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْأَلَ عَنْهُ وَأَشْرَبُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ وَأَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ، فَقَالَ: كَأَنَّ الرَّجُلَ غَرِيبٌ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَانْطَلِقْ إِلَى الْمَنْزِلِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ لَا يَسْأَلُنِي عَنْ شَيْءٍ وَلَا أُخْبِرُهُ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ لِأَسْأَلَ عَنْهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يُخْبِرُنِي عَنْهُ بِشَيْءٍ، قَالَ: فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ، فَقَالَ: أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ يَعْرِفُ مَنْزِلَهُ بَعْدُ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: انْطَلِقْ مَعِي، قَالَ: فَقَالَ: مَا أَمْرُكَ وَمَا أَقْدَمَكَ هَذِهِ الْبَلْدَةَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: إِنْ كَتَمْتَ عَلَيَّ أَخْبَرْتُكَ، قَالَ: فَإِنِّي أَفْعَلُ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بَلَغَنَا أَنَّهُ قَدْ خَرَجَ هَا هُنَا رَجُلٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَرْسَلْتُ أَخِي لِيُكَلِّمَهُ فَرَجَعَ وَلَمْ يَشْفِنِي مِنَ الْخَبَرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَلْقَاهُ، فَقَالَ لَهُ: أَمَا إِنَّكَ قَدْ رَشَدْتَ هَذَا وَجْهِي إِلَيْهِ فَاتَّبِعْنِي ادْخُلْ حَيْثُ أَدْخُلُ فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ أَحَدًا أَخَافُهُ عَلَيْكَ قُمْتُ إِلَى الْحَائِطِ كَأَنِّي أُصْلِحُ نَعْلِي وَامْضِ أَنْتَ فَمَضَى وَمَضَيْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ وَدَخَلْتُ مَعَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: اعْرِضْ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ فَعَرَضَهُ فَأَسْلَمْتُ مَكَانِي، فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ اكْتُمْ هَذَا الْأَمْرَ وَارْجِعْ إِلَى بَلَدِكَ فَإِذَا بَلَغَكَ ظُهُورُنَا فَأَقْبِلْ، فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ فَجَاءَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَقُرَيْشٌ فِيهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ إِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَقَالُوا: قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَقَامُوا فَضُرِبْتُ لِأَمُوتَ فَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: وَيْلَكُمْ تَقْتُلُونَ رَجُلًا مِنْ غِفَارَ وَمَتْجَرُكُمْ وَمَمَرُّكُمْ عَلَى غِفَارَ فَأَقْلَعُوا عَنِّي فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحْتُ الْغَدَ رَجَعْتُ، فَقُلْتُ: مِثْلَ مَا، قُلْتُ: بِالْأَمْسِ، فَقَالُوا: قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَصُنِعَ بِي مِثْلَ مَا صُنِعَ بِالْأَمْسِ وَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ، وَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ بِالْأَمْسِ، قَالَ: فَكَانَ هَذَا أَوَّلَ إِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ رَحِمَهُ اللَّهُ".
ہم سے زید نے جو اخزم کے بیٹے ہیں، بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتیبہ سلم بن قتیبہ نے بیان کیا، ان سے مثنیٰ بن سعید قصیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کیا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ تمہیں سناؤں؟ ہم نے عرض کیا ضرور سنائیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بتلایا۔ میرا تعلق قبیلہ غفار سے تھا۔ ہمارے یہاں یہ خبر پہنچی تھی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں (پہلے تو) میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس شخص کے پاس مکہ جا، اس سے گفتگو کر اور پھر اس کے سارے حالات آ کر مجھے بتا۔ چنانچہ میرے بھائی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور واپس آ گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اچھے کاموں کے لیے کہتا ہے اور برے کاموں سے منع کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ تمہاری باتوں سے تو میری تشفی نہیں ہوئی۔ اب میں نے توشے کا تھیلا اور چھڑی اٹھائی اور مکہ آ گیا۔ وہاں میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا اور آپ کے متعلق کسی سے پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ میں (صرف) زمزم کا پانی پی لیا کرتا تھا، اور مسجد الحرام میں ٹھہرا ہوا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس شہر میں مسافر ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: جی ہاں۔ بیان کیا کہ تو پھر میرے گھر چلو۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر ساتھ لے گئے۔ بیان کیا کہ میں آپ کے ساتھ ساتھ گیا۔ نہ انہوں نے کوئی بات پوچھی اور نہ میں نے کچھ کہا۔ صبح ہوئی تو میں پھر مسجد الحرام میں آ گیا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی سے پوچھوں لیکن آپ کے بارے میں کوئی بتانے والا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے کہ کیا ابھی تک آپ اپنے ٹھکانے کو نہیں پا سکے ہیں؟ بیان کیا، میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا پھر میرے ساتھ آئیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ آپ کا مطلب کیا ہے۔ آپ اس شہر میں کیوں آئے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: آپ اگر ظاہر نہ کریں تو میں آپ کو اپنے معاملے کے بارے میں بتاؤں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ تب میں نے ان سے کہا۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں کوئی شخص پیدا ہوئے ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں نے پہلے اپنے بھائی کو ان سے بات کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے مجھے کوئی تشفی بخش اطلاعات نہیں دیں۔ اس لیے میں اس ارادہ سے آیا ہوں کہ ان سے خود ملاقات کروں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ نے اچھا راستہ پایا کہ مجھ سے مل گئے۔ میں انہیں کے پاس جا رہا ہوں۔ آپ میرے پیچھے پیچھے چلیں۔ جہاں میں داخل ہوں آپ بھی داخل ہو جائیں۔ اگر میں کسی ایسے آدمی کو دیکھوں گا جس سے آپ کے بارے میں مجھے خطرہ ہو گا تو میں کسی دیوار کے پاس کھڑا ہو جاؤں گا، گویا کہ میں اپنا جوتا ٹھیک کر رہا ہوں۔ اس وقت آپ آگے بڑھ جائیں چنانچہ وہ چلے اور میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور آخر میں وہ ایک مکان کے اندر گئے اور میں بھی ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اندر داخل ہو گیا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و ارکان مجھے سمجھا دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے ان کی وضاحت فرمائی اور میں مسلمان ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! اس معاملے کو ابھی پوشیدہ رکھنا اور اپنے شہر کو چلے جانا۔ پھر جب تمہیں ہمارے غلبہ کا حال معلوم ہو جائے تب یہاں دوبارہ آنا۔ میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں تو ان سب کے سامنے اسلام کے کلمہ کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ وہ مسجد الحرام میں آئے۔ قریش کے لوگ وہاں موجود تھے اور کہا، اے قریش کی جماعت! (سنو) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ قریشیوں نے کہا کہ اس بددین کی خبر لو۔ چنانچہ وہ میری طرف لپکے اور مجھے اتنا مارا کہ میں مرنے کے قریب ہو گیا۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے چھپا لیا اور قریشیوں کی طرف متوجہ ہو کر انہوں کہا۔ ارے نادانو! قبیلہ غفار کے آدمی کو قتل کرتے ہو۔ غفار سے تو تمہاری تجارت بھی ہے اور تمہارے قافلے بھی اس طرف سے گزرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر جب دوسری صبح ہوئی تو پھر میں مسجد الحرام میں آیا اور جو کچھ میں نے کل پکارا تھا اسی کو پھر دہرایا۔ قریشیوں نے پھر کہا: پکڑو اس بددین کو۔ جو کچھ انہوں نے میرے ساتھ کل کیا تھا وہی آج بھی کیا۔ اتفاق سے پھر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے انہوں نے چھپا لیا اور جیسا انہوں نے قریشیوں سے کل کہا تھا ویسا ہی آج بھی کہا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کی ابتداء اس طرح سے ہوئی تھی۔
12. بَابُ قِصَّةِ زَمْزَمَ وَجَهْلِ الْعَرَبِ:
12. باب: عرب قوم کی جہالت کا بیان۔
(12) Chapter. The story of Zam- zam and the ignorance of the Arabs.
حدیث نمبر: 3523
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب حدثنا حماد عن ايوب عن محمد عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال اسلم وغفار وشيء من مزينة وجهينة- او قال شيء من جهينة او مزينة- خير عند الله- او قال- يوم القيامة من اسد وتميم وهوازن وغطفان.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ أَسْلَمُ وَغِفَارُ وَشَيْءٌ مِنْ مُزَيْنَةَ وَجُهَيْنَةَ- أَوْ قَالَ شَيْءٌ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ مُزَيْنَةَ- خَيْرٌ عِنْدَ اللَّهِ- أَوْ قَالَ- يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ وَتَمِيمٍ وَهَوَازِنَ وَغَطَفَانَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبیلہ اسلم، غفار اور مزینہ اور جہنیہ کے کچھ لوگ یا انہوں نے بیان کیا کہ مزینہ کے کچھ لوگ یا (بیان کیا کہ) جہینہ کے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یا بیان کیا کہ قیامت کے دن قبیلہ اسد، تمیم، ہوازن اور غطفان سے بہتر ہوں گے۔

Narrated Abu Hurairah (ra): The Prophet (saws) said, (The people of) Aslam, Ghifar and some people of Muzaina and Juhaina or said (some people of Juhaina or Muzaina) are better with Allah or said (on the Day of resurrection) than the tribe of Asad, Tamim, Hawazin and Ghatafan.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 726

حدیث نمبر: 3524
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(موقوف) حدثنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" إذا سرك ان تعلم جهل العرب فاقرا ما فوق الثلاثين ومائة في سورة الانعام قد خسر الذين قتلوا اولادهم سفها بغير علم إلى قوله قد ضلوا وما كانوا مهتدين سورة الانعام آية 140".(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" إِذَا سَرَّكَ أَنْ تَعْلَمَ جَهْلَ الْعَرَبِ فَاقْرَأْ مَا فَوْقَ الثَّلَاثِينَ وَمِائَةٍ فِي سُورَةِ الْأَنْعَامِ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ إِلَى قَوْلِهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ سورة الأنعام آية 140".
ہم سے ابولنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے بشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ اگر تم کو عرب کی جہالت معلوم کرنا اچھا لگے تو سورۃ الانعام میں ایک سو تیس آیتوں کے بعد یہ آیتیں پڑھ لو «قد خسر الذين قتلوا أولادهم سفها بغير علم‏» یقیناً وہ لوگ تباہ ہوئے جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی سے مار ڈالا۔ سے لے کر «قد ضلوا وما كانوا مهتدين‏» وہ گمراہ ہیں، راہ پانے والے نہیں۔ تک۔

Narrated Ibn `Abbas: If you wish to know about the ignorance of the Arabs, refer to Surat-al-Anam after Verse No. 130:-- Indeed lost are those who have killed their children From folly without knowledge and have forbidden that which Allah has provided for them, inventing a lie against Allah. They have indeed gone astray and were not guided.' (6.14)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 726

13. بَابُ مَنِ انْتَسَبَ إِلَى آبَائِهِ فِي الإِسْلاَمِ وَالْجَاهِلِيَّةِ:
13. باب: اپنے مسلمان یا غیر مسلم باپ دادوں کی طرف اپنی نسبت کرنا۔
(13) Chapter. Whoever related kinship to his forefathers either in Islam or in the Pre-Islamic Period of Ignorance.
حدیث نمبر: Q3525
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال: ابن عمر وابو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم إن الكريم ابن الكريم ابن الكريم ابن الكريم يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم خليل الله، وقال البراء: عن النبي صلى الله عليه وسلم انا ابن عبد المطلب.وَقَالَ: ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْكَرِيمَ ابْنَ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللَّهِ، وَقَالَ الْبَرَاءُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.
اور عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام تھے۔ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.