الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 1410
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا سليمان يعني التيمي ، عن ابي عثمان ، عن عبد الله بن عامر , عن الزبير بن العوام ان رجلا حمل على فرس يقال لها: غمرة، او غمراء، قال: فوجد فرسا او مهرا يباع، فنسبت إلى تلك الفرس، فنهي عنها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي التَّيْمِيَّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ , عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ أَنَّ رَجُلًا حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ يُقَالُ لَهَا: غَمْرَةُ، أَوْ غَمْرَاءُ، َقَالَ: فَوَجَدَ فَرَسًا أَوْ مُهْرًا يُبَاعُ، فَنُسِبَتْ إِلَى تِلْكَ الْفَرَسِ، فَنُهِيَ عَنْهَا.
سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کسی آدمی کو فی سبیل اللہ ایک گھوڑے پر سوار کرایا یعنی اس کا مالک بنا دیا، جس کا نام غمرہ یا غمراء تھا، کچھ عرصے بعد وہی گھوڑا یا اس کا کوئی بچہ فروخت ہوتا ہوا ملا، چونکہ اس کی نسبت اسی گھوڑے کی طرف تھی جسے انہوں نے صدقہ کر دیا تھا اس لئے اسے دوبارہ خریدنے سے انہیں منع کر دیا گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1411
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا ابن ابي ذئب ، عن مسلم بن جندب , عن الزبير بن العوام رضي الله عنه، قال: كنا نصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الجمعة، ثم ننصرف فنبتدر الآجام، فلا نجد إلا قدر موضع اقدامنا , قال يزيد: الآجام: هي الآطام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ جُنْدُبٍ , عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ، ثُمَّ نَنْصَرِفُ فَنَبْتَدِرُ الْآجَامَ، فَلَا نَجِدُ إِلَّا قَدْرَ مَوْضِعِ أَقْدَامِنَا , قَالَ يَزِيدُ: الْآجَامُ: هِيَ الْآطَامُ.
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے اور واپس آ کر ٹیلوں میں بیج بکھیرنے لگ جاتے تھے، اس موقع پر ہمیں سوائے اپنے قدموں کی جگہ کے کہیں سایہ نہ ملتا تھا۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، ابن جندب لم يدرك الزبير
حدیث نمبر: 1412
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا هشام ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن يعيش بن الوليد بن هشام ، وابو معاوية شيبان , عن يحيى بن ابي كثير ، عن يعيش بن الوليد بن هشام , عن الزبير بن العوام رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دب إليكم داء الامم قبلكم: الحسد والبغضاء، والبغضاء هي الحالقة، حالقة الدين، لا حالقة الشعر، والذي نفس محمد بيده، لا تؤمنوا حتى تحابوا، افلا انبئكم بشيء، إذا فعلتموه تحاببتم؟ افشوا السلام بينكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ هِشَامٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ شَيْبَانُ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ هِشَامٍ , عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ: الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ، وَالْبَغْضَاءُ هِيَ الْحَالِقَةُ، حَالِقَةُ الدِّينِ، لَا حَالِقَةُ الشَّعَرِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَفَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِشَيْءٍ، إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ".
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم سے پہلے جو امتیں گذر چکی ہیں ان کی بیماریاں یعنی حسد اور بغض تمہارے اندر بھی سرایت کر گئی ہیں، اور بغض تو مونڈ دینے والی چیز ہے، بالوں کو نہیں بلکہ دین کو مونڈ دیتی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایک ایسا طریقہ نہ بتاؤں جسے اگر تم اختیار کر لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو رواج دو۔

حكم دارالسلام: قسم السلام صحيح لغيره، وسائره حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، يعيش لم يدرك الزبير
حدیث نمبر: 1413
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جامع بن شداد ، عن عامر بن عبد الله بن الزبير ، عن ابيه ، قال: قلت للزبير رضي الله عنه: ما لي لا اسمعك تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كما اسمع ابن مسعود وفلانا وفلانا؟ قال: اما إني لم افارقه منذ اسلمت، ولكني سمعت منه كلمة" من كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قُلْتُ لِلزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه: مَا لِي لَا أَسْمَعُكَ تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا أَسْمَعُ ابْنَ مَسْعُودٍ وَفُلَانًا وَفُلَانًا؟ قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أُفَارِقْهُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً" مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جس طرح سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات کو میں حدیث بیان کرتا ہوا سنتا ہوں، آپ کو نہیں سنتا، اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی جدا نہیں ہوا لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔ (اس لئے میں ڈرتا ہوں)۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وهو حديث متواتر، خ : 107
حدیث نمبر: 1414
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا شداد يعني ابن سعيد ، حدثنا غيلان بن جرير ، عن مطرف ، قال: قلنا للزبير رضي الله عنه: يا ابا عبد الله، ما جاء بكم؟ ضيعتم الخليفة حتى قتل، ثم جئتم تطلبون بدمه؟ قال الزبير رضي الله عنه: إنا قراناها على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابي بكر، وعمر، وعثمان رضي الله عنهم , واتقوا فتنة لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة سورة الانفال آية 25، لم نكن نحسب انا اهلها حتى وقعت منا حيث وقعت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيد مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: قُلْنَا لِلزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا جَاءَ بِكُمْ؟ ضَيَّعْتُمْ الْخَلِيفَةَ حَتَّى قُتِلَ، ثُمَّ جِئْتُمْ تَطْلُبُونَ بِدَمِهِ؟ قَالَ الزُّبَيْر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّا قَرَأْنَاهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَاتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً سورة الأنفال آية 25، لَمْ نَكُنْ نَحْسَبُ أَنَّا أَهْلُهَا حَتَّى وَقَعَتْ مِنَّا حَيْثُ وَقَعَتْ.
مطرف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوعبداللہ! آپ لوگ کس مقصد کی خاطر آئے ہیں؟ آپ لوگوں نے ایک خلیفہ کو ضائع کر دیا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے، اب آپ ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے تھے: «﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً﴾ [الأنفال: 25] » اس آزمائش سے بچو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں کی نہیں ہو گی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہوگا (بلکہ عمومی ہوگی)، لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا اطلاق ہم پر ہی ہوگا، یہاں تک کہ ہم پر یہ آزمائش آ گئی۔

حكم دارالسلام: إسناده جيد
حدیث نمبر: 1415
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن كناسة ، حدثنا هشام بن عروة ، عن عثمان بن عروة ، عن ابيه , عن الزبير رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" غيروا الشيب، ولا تشبهوا باليهود".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كُنَاسَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ , عَنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" غَيِّرُوا الشَّيْبَ، وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ".
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اپنے بالوں کی سفیدی کو تبدیل کر سکتے ہو لیکن یہودیوں کی مشابہت اس موقع پر بھی اختیار کرنے سے بچو۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف تفرد برفعه ابن كناسة و اصحاب هشام رووه عن عروة مرسلاً، وهو الصواب
حدیث نمبر: 1416
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن الحارث ، من اهل مكة مخزومي، حدثني محمد بن عبد الله بن عبد الله بن إنسان ، قال: واثنى عليه خيرا، عن ابيه ، عن عروة بن الزبير , عن الزبير رضي الله عنه، قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من ليلة، حتى إذا كنا عند السدرة، وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم في طرف القرن الاسود حذوها، فاستقبل نخبا ببصره يعني: واديا ووقف حتى اتقف الناس كلهم، ثم قال:" إن صيد وج , وعضاهه حرم محرم لله" وذلك قبل نزوله الطائف وحصاره ثقيف.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ ، مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ مَخْزُومِيٌّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بن عَبْد الله بْنِ إِنْسَانَ ، قَالَ: وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ لَيْلَةٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا عِنْدَ السِّدْرَةِ، وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَرَفِ الْقَرْنِ الْأَسْوَدِ حَذْوَهَا، فَاسْتَقْبَلَ نَخِبًا بِبَصَرِهِ يَعْنِي: وَادِيًا وَوَقَفَ حَتَّى اتَّقَفَ النَّاسُ كُلُّهُمْ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ صَيْدَ وَجٍّ , وَعِضَاهَهُ حَرَمٌ مُحَرَّمٌ لِلَّهِ" وَذَلِكَ قَبْلَ نُزُولِهِ الطَّائِفَ وَحِصَارِهِ ثَقِيفَ.
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ لیلہ نامی جگہ سے آ رہے تھے، جب ہم لوگ بیری کے درخت کے قریب پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرن اسود نامی پہاڑ کی ایک جانب اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور وادی نخب کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا اور کچھ دیر کھڑے رہے، لوگ بھی سب کے سب وہیں رک گئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وج - جو کہ طائف کی ایک وادی کا نام ہے - کا شکار اور ہر کانٹے دار درخت حرم میں داخل ہے، اور اسے شکار کرنا یا کاٹنا اللہ کے حکم کی تعمیل کے لئے حرام ہے۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف پہنچنے اور بنو ثقیف کا محاصرہ کرنے سے پہلے فرمائی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف محمد
حدیث نمبر: 1417
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن ابيه ، عن عبد الله بن الزبير , عن الزبير رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول يومئذ:" اوجب طلحة" , حين صنع برسول الله صلى الله عليه وسلم ما صنع، يعني: حين برك له طلحة، فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم على ظهره.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ يَوْمَئِذٍ:" أَوْجَبَ طَلْحَةُ" , حِينَ صَنَعَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا صَنَعَ، يَعْنِي: حِينَ بَرَكَ لَهُ طَلْحَةُ، فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ظَهْرِهِ.
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اس دن - جبکہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ خدمت کی جو انہوں نے کی، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھک کر بیٹھ گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کمر پر سوار ہوگئے - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ طلحہ نے اپنے لئے جنت کو واجب کر لیا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1418
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود الهاشمي ، انبانا عبد الرحمن يعني ابن ابي الزناد ، عن هشام ، عن عروة ، قال: اخبرني ابي الزبير رضي الله عنه انه لما كان يوم احد اقبلت امراة تسعى، حتى إذا كادت ان تشرف على القتلى، قال: فكره النبي صلى الله عليه وسلم ان تراهم، فقال:" المراة المراة" , قال الزبير رضي الله عنه: فتوسمت انها امي صفية، قال: فخرجت اسعى إليها، فادركتها قبل ان تنتهي إلى القتلى، قال: فلدمت في صدري، وكانت امراة جلدة، قالت: إليك، لا ارض لك , قال: فقلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم عزم عليك , قال: فوقفت، واخرجت ثوبين معها، فقالت: هذان ثوبان , جئت بهما لاخي حمزة، فقد بلغني مقتله، فكفنوه فيهما , قال: فجئنا بالثوبين لنكفن فيهما حمزة، فإذا إلى جنبه رجل من الانصار قتيل، قد فعل به كما فعل بحمزة، قال: فوجدنا غضاضة وحياء ان نكفن حمزة في ثوبين، والانصاري لا كفن له، فقلنا لحمزة ثوب، وللانصاري ثوب، فقدرناهما فكان احدهما اكبر من الآخر، فاقرعنا بينهما، فكفنا كل واحد منهما في الثوب الذي طار له.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ أَقْبَلَتْ امْرَأَةٌ تَسْعَى، حَتَّى إِذَا كَادَتْ أَنْ تُشْرِفَ عَلَى الْقَتْلَى، قَالَ: فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَرَاهُمْ، فَقَالَ:" الْمَرْأَةَ الْمَرْأَةَ" , قَالَ الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَتَوَسَّمْتُ أَنَّهَا أُمِّي صَفِيَّةُ، قَالَ: فَخَرَجْتُ أَسْعَى إِلَيْهَا، فَأَدْرَكْتُهَا قَبْلَ أَنْ تَنْتَهِيَ إِلَى الْقَتْلَى، قَالَ: فَلَدَمَتْ فِي صَدْرِي، وَكَانَتْ امْرَأَةً جَلْدَةً، قَالَتْ: إِلَيْكَ، لَا أَرْضَ لَكَ , قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَزَمَ عَلَيْكِ , قَالَ: فَوَقَفَتْ، وَأَخْرَجَتْ ثَوْبَيْنِ مَعَهَا، فَقَالَتْ: هَذَانِ ثَوْبَانِ , جِئْتُ بِهِمَا لِأَخِي حَمْزَةَ، فَقَدْ بَلَغَنِي مَقْتَلُهُ، فَكَفِّنُوهُ فِيهِمَا , قَالَ: فَجِئْنَا بِالثَّوْبَيْنِ لِنُكَفِّنَ فِيهِمَا حَمْزَةَ، فَإِذَا إِلَى جَنْبِهِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ قَتِيلٌ، قَدْ فُعِلَ بِهِ كَمَا فُعِلَ بِحَمْزَةَ، قَالَ: فَوَجَدْنَا غَضَاضَةً وَحَيَاءً أَنْ نُكَفِّنَ حَمْزَةَ فِي ثَوْبَيْنِ، وَالْأَنْصَارِيُّ لَا كَفَنَ لَهُ، فَقُلْنَا لِحَمْزَةَ ثَوْبٌ، وَلِلْأَنْصَارِيِّ ثَوْبٌ، فَقَدَرْنَاهُمَا فَكَانَ أَحَدُهُمَا أَكْبَرَ مِنَ الْآخَرِ، فَأَقْرَعْنَا بَيْنَهُمَا، فَكَفَّنَّا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فِي الثَّوْبِ الَّذِي طَارَ لَهُ.
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن اختتام پر ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی، قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ وہ خاتون انہیں دیکھ سکے، اس لئے فرمایا کہ اس عورت کو روکو، اس عورت کو روکو۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ میری والدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں، چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور شہداء کی لاشوں تک ان کے پہنچنے سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر میرے سینے پر دو ہتڑ مار کر مجھے پیچھے کو دھکیل دیا، وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو، میں تم سے نہیں بولتی، میں نے عرض کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قسم دلائی ہے کہ ان لاشوں کو مت دیکھیں، یہ سنتے ہی وہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا: یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لئے لائی ہوں، کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے، تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا۔ جب ہم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں، ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا گیا تھا، ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو دو کپڑوں میں کفن دے دیں اور اس انصاری کو کفن کا ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو، اس لئے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کو کفن دیں گے، اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کے تھے، ہم نے قرعہ اندازی کی اور جس کے نام جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں کفن دے دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1419
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، قال: اخبرني عروة بن الزبير , ان الزبير رضي الله عنه كان يحدث , انه خاصم رجلا من الانصار قد شهد بدرا إلى النبي صلى الله عليه وسلم في شراج الحرة، كانا يستقيان بها كلاهما، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للزبير رضي الله عنه:" اسق، ثم ارسل إلى جارك" , فغضب الانصاري , وقال: يا رسول الله، ان كان ابن عمتك! فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال للزبير رضي الله عنه:" اسق، ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر" , فاستوعى النبي صلى الله عليه وسلم حينئذ للزبير حقه، وكان النبي صلى الله عليه وسلم قبل ذلك اشار على الزبير رضي الله عنه براي اراد فيه سعة له وللانصاري، فلما احفظ الانصاري رسول الله صلى الله عليه وسلم، استوعى رسول الله صلى الله عليه وسلم للزبير حقه في صريح الحكم , قال عروة: فقال الزبير رضي الله عنه: والله ما احسب هذه الآية انزلت إلا في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في انفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما سورة النساء آية 65.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّ الزُّبَيْرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يُحَدِّثُ , أَنَّهُ خَاصَمَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ، كَانَا يَسْتَقِيَانِ بِهَا كِلَاهُمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" اسْقِ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ" , فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ , وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ! فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لِلزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" اسْقِ، ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ" , فَاسْتَوْعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَئِذٍ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِكَ أَشَارَ عَلَى الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِرَأْيٍ أَرَادَ فِيهِ سَعَةً لَهُ وَلِلْأَنْصَارِيِّ، فَلَمَّا أَحْفَظَ الْأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اسْتَوْعَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ , قَالَ عُرْوَةُ: فَقَالَ الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَاللَّهِ مَا أَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ أُنْزِلَتْ إِلَّا فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا سورة النساء آية 65.
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ان کا ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے - جو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں پانی کی اس نالی میں اختلاف رائے ہو گیا جس سے وہ دونوں اپنے اپنے کھیت کو سیراب کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کو ختم کرتے ہوئے فرمایا: زبیر! تم اپنے کھیت کو سیراب کر کے اپنے پڑوسی کے لئے پانی چھوڑ دو، انصاری کو اس پر ناگواری ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! یہ آپ کے پھوپھی زاد ہیں ناں اس لئے آپ یہ فیصلہ فرما رہے ہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اب تم اپنے کھیت کو سیراب کرو اور جب تک پانی منڈیر تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک پانی کو روکے رکھو۔ گویا اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوا دیا، جبکہ اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں ان کے لئے اور انصاری کے لئے گنجائش اور وسعت کا پہلو تھا، لیکن جب انصاری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح حکم کے ساتھ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: واللہ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ مندرجہ ذیل آیت اسی واقعے سے متعلق نازل ہوئی ہے: «﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [النساء: 65] » آپ کے رب کی قسم! یہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے اختلافات میں آپ کو ثالث مقرر نہ کر لیں، پھر اس فیصلے کے متعلق اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے مکمل طور پر تسلیم نہ کریں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، خ : 2708، م : 2357

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.