الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
10. مُسْنَدُ أَبِي إِسْحَاقَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 1439
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الوارث ، حدثنا ابن ابي نجيح ، قال: سالت طاوسا عن رجل رمى الجمرة بست حصيات، فقال: ليطعم قبضة من طعام , قال: فلقيت مجاهدا فسالته، وذكرت له قول طاوس، فقال: رحم الله ابا عبد الرحمن، اما بلغه قول سعد بن مالك , قال: رمينا الجمار، او الجمرة في حجتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم جلسنا نتذاكر، فمنا من قال: رميت بست، ومنا من قال: رميت بسبع، ومنا من قال: رميت بثمان، ومنا من قال: رميت بتسع فلم يروا بذلك باسا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنْ رَجُلٍ رَمَى الْجَمْرَةَ بِسِتِّ حَصَيَاتٍ، فَقَالَ: لِيُطْعِمْ قَبْضَةً مِنْ طَعَامٍ , قَالَ: فَلَقِيتُ مُجَاهِدًا فَسَأَلْتُهُ، وَذَكَرْتُ لَهُ قَوْلَ طَاوُسٍ، فَقَالَ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا بَلَغَهُ قَوْلُ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: رَمَيْنَا الْجِمَارَ، أَوْ الْجَمْرَةَ فِي حَجَّتِنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَلَسْنَا نَتَذَاكَرُ، فَمِنَّا مَنْ قَالَ: رَمَيْتُ بِسِتٍّ، وَمِنَّا مَنْ قَالَ: رَمَيْتُ بِسَبْعٍ، وَمِنَّا مَنْ قَالَ: رَمَيْتُ بِثَمَانٍ، وَمِنَّا مَنْ قَالَ: رَمَيْتُ بِتِسْعٍ فَلَمْ يَرَوْا بِذَلِكَ بَأْسًا.
ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے طاؤس سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی جمرات کی رمی کرتے ہوئے کسی جمرہ کو سات کی بجائے چھ کنکریاں مار دے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک مٹھی کے برابر گندم صدقہ کر دے، اس کے بعد میں مجاہد سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا اور طاؤس کا جواب بھی ذکر کر دیا، انہوں نے کہا کہ اللہ ان پر رحم کرے، کیا انہیں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نہیں پہنچی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے جو حج کیا تھا، اس میں جمرات کی رمی کرنے کے بعد جب ہم لوگ بیٹھے اور آپس میں بات چیت ہونے لگی تو کسی نے کہا کہ میں نے چھ کنکریاں ماری ہیں، کسی نے سات کہا، کسی نے آٹھ اور کسی نے نو کہا، لیکن انہوں نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، مجاهد لم يسمع من سعد بن أبى وقاص
حدیث نمبر: 1440
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا ايوب , عن عمرو بن سعيد ، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري ، عن ثلاثة من ولد سعد , عن سعد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليه يعوده وهو مريض، وهو بمكة , فقال: يا رسول الله، قد خشيت ان اموت بالارض التي هاجرت منها كما مات سعد ابن خولة، فادع الله ان يشفيني , قال:" اللهم اشف سعدا، اللهم اشف سعدا، اللهم اشف سعدا" , فقال: يا رسول الله، إن لي مالا كثيرا، وليس لي وارث إلا ابنة، افاوصي بمالي كله؟ قال:" لا"، قال: افاوصي بثلثيه؟ قال:" لا" , قال: افاوصي بنصفه؟ قال:" لا" , قال: افاوصي بالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كثير، إن نفقتك من مالك لك صدقة، وإن نفقتك على عيالك لك صدقة، وإن نفقتك على اهلك لك صدقة، وإنك ان تدع اهلك بعيش او قال: بخير، خير من ان تدعهم يتكففون الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، عَنْ ثَلَاثَةٍ مِنْ وَلَدِ سَعْدٍ , عَنْ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ، وَهُوَ بِمَكَّةَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا كَمَا مَاتَ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَشْفِيَنِي , قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا" , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا، وَلَيْسَ لِي وَارِثٌ إِلَّا ابْنَةً، أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْهِ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: أَفَأُوصِي بِنِصْفِهِ؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: أَفَأُوصِي بِالثُّلُثِ؟ قَالَ:" الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّ نَفَقَتَكَ مِنْ مَالِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ نَفَقَتَكَ عَلَى عِيَالِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ نَفَقَتَكَ عَلَى أَهْلِكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِنَّكَ أَنْ تَدَعَ أَهْلَكَ بِعَيْشٍ أَوْ قَالَ: بِخَيْرٍ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں اس سر زمین میں ہی نہ مرجاؤں جہاں سے میں ہجرت کر کے جا چکا تھا، اور جیسے سعد بن خولہ کے ساتھ ہوا تھا، اس لئے آپ اللہ سے میری صحت کے لئے دعا کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ! سعد کو شفاء عطاء فرما۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کو اللہ کے راستہ میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا: نہیں۔ انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع فرما دیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا، تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، اپنے اہل و عیال پر جو خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو وہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ : 56 ، م : 1628
حدیث نمبر: 1441
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر الحنفي عبد الكبير بن عبد المجيد , حدثنا بكير بن مسمار ، عن عامر بن سعد , ان اخاه عمر انطلق إلى سعد في غنم له خارجا من المدينة، فلما رآه سعد , قال: اعوذ بالله من شر هذا الراكب , فلما اتاه , قال: يا ابة، ارضيت ان تكون اعرابيا في غنمك، والناس يتنازعون في الملك بالمدينة؟ فضرب سعد صدر عمر، وقال: اسكت، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إن الله عز وجل يحب العبد: التقي الغني الخفي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ عَبْدُ الْكَبِيرِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ , حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّ أَخَاهُ عُمَرَ انْطَلَقَ إِلَى سَعْدٍ فِي غَنَمٍ لَهُ خَارِجًا مِنَ الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ , قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا الرَّاكِبِ , فَلَمَّا أَتَاهُ , قَالَ: يَا أَبَةِ، أَرَضِيتَ أَنْ تَكُونَ أَعْرَابِيًّا فِي غَنَمِكَ، وَالنَّاسُ يَتَنَازَعُونَ فِي الْمُلْكِ بِالْمَدِينَةِ؟ فَضَرَبَ سَعْدٌ صَدْرَ عُمَرَ، وَقَالَ: اسْكُتْ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ الْعَبْدَ: التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ".
عامربن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عمر مدینہ منورہ سے باہر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا (تو وہ پریشان ہوگئے کہ اللہ خیر کرے، کوئی اچھی خبر لے کر آیا ہو) اور کہنے لگے کہ اس سوار کے پاس اگر کوئی بری خبر ہے تو میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جب وہ ان کے قریب پہنچے تو کہنے لگے: اباجان! لوگ مدینہ منورہ میں حکومت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں، اور آپ دیہاتیوں کی طرح اپنی بکریوں میں مگن ہیں؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا: خاموش رہو، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بےنیاز ہو اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده قوي ، م : 2965
حدیث نمبر: 1442
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر ، حدثنا فليح ، عن عبد الله بن عبد الرحمن يعني ابن معمر ، قال: حدث عامر بن سعد , عمر بن عبد العزيز، وهو امير على المدينة , ان سعدا , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اكل سبع تمرات عجوة من بين لابتي المدينة على الريق، لم يضره يومه ذلك شيء حتى يمسي" , قال فليح: واظنه قال:" وإن اكلها حين يمسي لم يضره شيء، حتى يصبح" , فقال عمر: انظر يا عامر ما تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: اشهد ما كذبت على سعد، وما كذب سعد على رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَعْمَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ , عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ , أَنَّ سَعْدًا , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَكَلَ سَبْعَ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ مِنْ بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ عَلَى الرِّيقِ، لَمْ يَضُرَّهُ يَوْمَهُ ذَلِكَ شَيْءٌ حَتَّى يُمْسِيَ" , قَالَ فُلَيْحٌ: وَأَظُنُّهُ قَالَ:" وَإِنْ أَكَلَهَا حِينَ يُمْسِي لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ، حَتَّى يُصْبِحَ" , فَقَالَ عُمَرُ: انْظُرْ يَا عَامِرُ مَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: أَشْهَدُ مَا كَذَبْتُ عَلَى سَعْدٍ، وَمَا كَذَبَ سَعْدٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامر بن سعد نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو - جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے - اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھا لے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: عامر! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں باندھ رہا، اور یہ کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خ : 5445، م : 2047
حدیث نمبر: 1443
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر ، حدثنا عبد الله بن جعفر ، عن إسماعيل بن محمد بن سعد ، عن عامر بن سعد , ان سعدا ركب إلى قصره بالعقيق، فوجد غلاما يخبط شجرا، او يقطعه، فسلبه، فلما رجع سعد جاءه اهل الغلام، فكلموه ان يرد ما اخذ من غلامهم، فقال:" معاذ الله ان ارد شيئا نفلنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم" , وابى ان يرد عليهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ , أَنَّ سَعْدًا رَكِبَ إِلَى قَصْرِهِ بِالْعَقِيقِ، فَوَجَدَ غُلَامًا يَخْبِطُ شَجَرًا، أَوْ يَقْطَعُهُ، فَسَلَبَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ سَعْدٌ جَاءَهُ أَهْلُ الْغُلَامِ، فَكَلَّمُوهُ أَنْ يَرُدَّ مَا أَخَذَ مِنْ غُلَامِهِمْ، فَقَالَ:" مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا نَفَّلَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" , وَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ.
عامر بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر سوار ہو کر وادی عقیق میں اپنے محل کی طرف جا رہے تھے، وہاں پہنچے تو ایک غلام کو درخت کاٹتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اس سے وہ ساری لکڑیاں وغیرہ چھین لیں (جو اس نے کاٹی تھیں)، جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ واپس آئے تو غلام کے مالکان ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ انہوں نے غلام سے جو کچھ لیا ہے وہ واپس کر دیں، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز مجھے عطاء فرمائی ہے، میں اسے واپس لوٹا دوں؟ اللہ کی پناہ! اور یہ کہہ کر انہوں نے وہ چیزیں واپس لوٹانے سے انکار کر دیا۔ فائدہ: اس کی وضاحت عنقریب حدیث نمبر 1460 میں آرہی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، م : 1364
حدیث نمبر: 1444
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، املاه علينا ببغداد، حدثنا محمد بن ابي حميد ، عن إسماعيل بن محمد بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه , عن جده سعد بن ابي وقاص ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم" من سعادة ابن آدم استخارته الله، ومن سعادة ابن آدم رضاه بما قضي الله، ومن شقوة ابن آدم تركه استخارة الله، ومن شقوة ابن آدم سخطه بما قضى الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، أَمْلَاهُ عَلَيْنَا بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ اسْتِخَارَتُهُ اللَّهَ، وَمِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَي اللَّهُ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْكُهُ اسْتِخَارَةَ اللَّهِ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ سے استخارہ کرے، اور اس کے فیصلے پر راضی رہے، اور ابن آدم کی بد نصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبي حميد متفق على ضعفه
حدیث نمبر: 1445
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا محمد بن ابي حميد ، حدثنا إسماعيل بن محمد بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه , عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سعادة ابن آدم ثلاثة، ومن شقوة ابن آدم ثلاثة , من سعادة ابن آدم: المراة الصالحة، والمسكن الصالح، والمركب الصالح، ومن شقوة ابن آدم: المراة السوء، والمسكن السوء، والمركب السوء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ , مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ: الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ، وَالْمَسْكَنُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْكَبُ الصَّالِحُ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ: الْمَرْأَةُ السُّوءُ، وَالْمَسْكَنُ السُّوءُ، وَالْمَرْكَبُ السُّوءُ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ابن آدم کی سعات مندی کی علامت ہیں اور تین چیزیں اس کی بدنصیبی کی علامت ہیں، ابن آدم کی خوش نصیبی تو یہ ہے کہ اسے نیک بیوی ملے، اچھی رہائش ملے اور عمدہ سواری ملے، جبکہ اس کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے بری بیوی ملے، بری رہائش ملے اور بری سواری ملے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناده ضعيف لضعف ابن ابي حميد
حدیث نمبر: 1446
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا عبد الله بن لهيعة ، حدثنا بكير بن عبد الله بن الاشج ، انه سمع حسين بن عبد الرحمن يحدث , انه سمع سعد بن ابي وقاص , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" ستكون فتنة القاعد فيها خير من القائم، والقائم فيها خير من الماشي، ويكون الماشي فيها خيرا من الساعي" , قال: واراه قال:" والمضطجع فيها خير من القاعد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ حُسَيْنَ بْنَ عَبْدِ الرَحَّمَنِ يُحَدِّثُ , أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" سَتَكُونُ فِتْنَةٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَيَكُونُ الْمَاشِي فِيهَا خَيْرًا مِنَ السَّاعِي" , قَالَ: وَأُرَاهُ قَالَ:" وَالْمُضْطَجِعُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَاعِدِ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ اور شاید یہ بھی فرمایا کہ لیٹنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، ابن لهيعة سي الحفظ ولكنه توبع
حدیث نمبر: 1447
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا شعبة ، عن سماك بن حرب ، عن ابن اخ لسعد , عن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال لبني ناجية:" انا منهم، وهم مني".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنِ ابْنِ أَخٍ لِسَعْدٍ , عَنْ سَعْدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لِبَنِي نَاجِيَةَ:" أَنَا مِنْهُمْ، وَهُمْ مِنِّي".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن اخي سعد، ولاضطراب سنده
حدیث نمبر: 1448
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، وذكر الحديث بقصة فيه , فقال ابن اخي سعد بن مالك: قد ذكروا بني ناجية عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" هم حي مني" , ولم يذكر فيه سعد.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِقِصَّةٍ فِيهِ , فَقَالَ ابْنُ أَخِي سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ: قَدْ ذَكَرُوا بَنِي نَاجِيَةَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هُمْ حَيٌّ مِنِّي" , وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ سَعْدٌ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كسابقه، والحديث مرسل

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.