الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سلامتی اور صحت کا بیان
The Book of Greetings
حدیث نمبر: 5686
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الاعلى ، عن معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يقيمن احدكم اخاه ثم يجلس في مجلسه "، وكان ابن عمر إذا قام له رجل عن مجلسه لم يجلس فيه.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُقِيمَنَّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ ثُمَّ يَجْلِسُ فِي مَجْلِسِهِ "، وَكَانَ ابْنُ عُمَر َ إِذَا قَامَ لَهُ رَجُلٌ عَنْ مَجْلِسِهِ لَمْ يَجْلِسْ فِيهِ.
عبد الا علیٰ نے معمر سے، انھوں نے زہری سے، انھوں نے سالم سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سےروایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اپنے بھا ئی کو اس جگہ سے نہ اٹھا ئےکہ پھر اس کی جگہ پر بیٹھ جائے۔" (سالم نے کہا) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ طریق تھا کہ کوئی شخص ان کے لیے (خود بھی) اپنی جگہ سے اٹھتا تو وہ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے تھے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے دینی بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ میں نہ بیٹھے۔ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے لیے اگر کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھ جاتا تو وہ اس جگہ میں نہیں بیٹھتے تھے۔
حدیث نمبر: 5687
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر بهذا الإسناد مثله.وحدثنا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
عبد الرزاق نے کہا: معمر نے ہمیں اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند خبر دی۔
امام صاحب کو یہی روایت ایک اور استاد نے بھی سنائی۔
حدیث نمبر: 5688
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا سلمة بن شبيب ، حدثنا الحسن بن اعين ، حدثنا معقل وهو ابن عبيد الله ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، عن النبي، قال: " لا يقيمن احدكم اخاه يوم الجمعة، ثم ليخالف إلى مقعده فيقعد فيه، ولكن يقول افسحوا ".وحَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عن النبي، قَالَ: " لَا يُقِيمَنَّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ لَيُخَالِفْ إِلَى مَقْعَدِهِ فَيَقْعُدَ فِيهِ، وَلَكِنْ يَقُولُ افْسَحُوا ".
ابو زبیر نے حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: " تم میں سے کوئی شخص جمعے کے دن اپنے بھا ئی کو کھڑا نہ کرے کہ پھر دوسری طرف سے آکر اس کی جگہ پر خود بیٹھ جائے، بلکہ (جوآئے وہ) کہے "جگہ کشادہ کردو۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی جمعہ کے دن اپنے بھائی کو ہرگز نہ اٹھائے کہ پھر جا کر اس کی جگہ پر بیٹھ جائے، بلکہ یوں کہے، دوسروں کے لیے کھل جاؤ، گنجائش پیدا کرو۔
12. باب إِذَا قَامَ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ عَادَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ:
12. باب: جب کوئی اپنی جگہ سے کھڑا ہو پھر لوٹ کر آئے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔
Chapter: If A Man Gets Up From His Spot Then Comes Back To It, He Has More Right To It
حدیث نمبر: 5689
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، اخبرنا ابو عوانة ، وقال قتيبة ايضا: حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد كلاهما، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إذا قام احدكم، وفي حديث ابي عوانة: " من قام من مجلسه ثم رجع إليه فهو احق به ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، وَقَالَ قُتَيْبَةُ أَيْضًا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ كِلَاهُمَا، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ، وَفِي حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ: " مَنْ قَامَ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ ".
ابو عوانہ اور عبد العزیز بن محمد دونوں نے سہیل سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص کھڑا ہو"اور ابوعوانہ کی حدیث میں ہے"جب تم میں سے کوئی شخص اپنی جگہ سے کھڑا ہو۔پھر اس جگہ لوٹ آئے تو وہی اس (جگہ) کا زیادہ حقدارہے۔۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اٹھے۔ ابو عوانہ کی روایت میں ہے جو اپنی مجلس سے اٹھا، پھر اس کی طرف واپس لوٹ آیا تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے۔
13. باب مَنْعِ الْمُخَنَّثِ مِنَ الدُّخُولِ عَلَى النِّسَاءِ الأَجَانِبِ:
13. باب: زنانہ مخنث، اجنبی عورتوں کے پاس نہ جائے۔
Chapter: Forbidding A Hermaphrodite From Entering Upon Non-Mahram Women
حدیث نمبر: 5690
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا وكيع . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير . ح وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو معاوية كلهم، عن هشام . ح وحدثنا ابو كريب ايضا، واللفظ هذا، حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن زينب بنت ام سلمة ، عن ام سلمة ، ان مخنثا كان عندها ورسول الله صلى الله عليه وسلم في البيت، فقال لاخي ام سلمة: يا عبد الله بن ابي امية إن فتح الله عليكم الطائف غدا، فإني ادلك على بنت غيلان، فإنها تقبل باربع وتدبر بثمان، قال فسمعه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " لا يدخل هؤلاء عليكم ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحدثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ . ح وحدثنا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامٍ . ح وحدثنا أَبُو كُرَيْبٍ أَيْضًا، وَاللَّفْظُ هَذَا، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّ مُخَنَّثًا كَانَ عِنْدَهَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ لِأَخِي أُمِّ سَلَمَةَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّة إِنْ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ الطَّائِفَ غَدًا، فَإِنِّي أَدُلُّكَ عَلَى بِنْتِ غَيْلَانَ، فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، قَالَ فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَا يَدْخُلْ هَؤُلَاءِ عَلَيْكُمْ ".
زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ ایک مخنث ان کے ہاں مو جو دتھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر پر تھے وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بھا ئی سے کہنے لگا: عبد اللہ بن ابی امیہ! اگر کل (کلاں کو) اللہ تعا لیٰ تم لو گوں کو طا ئف پر فتح عطا فر ما ئے تو میں تمھیں غیلا ن کی بیٹی (بادیہ بنت غیلا ن) کا پتہ بتا ؤں گا وہ چار سلوٹوں کے ساتھ سامنے آتی ہے (سامنے سے جسم پر چار سلوٹیں پڑتی ہیں) اور آٹھ سلوٹوں کے ساتھ پیٹھ پھیر کر جا تی ہے۔۔ (انتہائی فربہ جسم کی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن لی تو آپ نے فرمایا: "یہ (مخنث) تمھا رے ہاں داخل نہ ہو ا کریں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ایک ہیجڑا بیٹھا ہوا تھا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود تھے تو اس نے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بھائی سے کہا، اے عبداللہ بن امیہ، اگر کل اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے طائف فتح فرمایا تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی کا پتہ دوں گا، کیونکہ اس کے سامنے سے چار سلوٹیں نظر آتی ہیں اور پست پھیرنے پر سلوٹیں آٹھ بن جاتی ہیں، یعنی وہ خوب موٹی تازی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی بات سن لی اور فرمایا: یہ تمہارے پاس نہ آئیں۔
حدیث نمبر: 5691
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، عن معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: كان يدخل على ازواج النبي صلى الله عليه وسلم مخنث، فكانوا يعدونه من غير اولي الإربة، قال: فدخل النبي صلى الله عليه وسلم يوما وهو عند بعض نسائه وهو ينعت امراة قال: إذا اقبلت اقبلت باربع وإذا ادبرت ادبرت بثمان: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " الا ارى هذا يعرف ما هاهنا لا يدخلن عليكن "، قالت: فحجبوه.وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت: كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخَنَّثٌ، فَكَانُوا يَعُدُّونَهُ مِنْ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ، قَالَ: فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ عِنْدَ بَعْضِ نِسَائِهِ وَهُوَ يَنْعَتُ امْرَأَةً قَالَ: إِذَا أَقْبَلَتْ أَقْبَلَتْ بِأَرْبَعٍ وَإِذَا أَدْبَرَتْ أَدْبَرَتْ بِثَمَانٍ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أَرَى هَذَا يَعْرِفُ مَا هَاهُنَا لَا يَدْخُلَنَّ عَلَيْكُنَّ "، قَالَتْ: فَحَجَبُوهُ.
عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس ایک مخنث آیا کرتا تھا اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا اسے جنسی معاملا ت سے بے بہر ہ سمجھا کرتی تھیں۔فرما یا: "ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا اور وہ آپ کی ایک اہلیہ کے ہاں بیٹھا ہوا ایک عورت کی تعریف کررہا تھا وہ کہنے لگا: جب وہ آتی ہے تو چار سلوٹوں کے ساتھ آتی ہے اور جب پیٹھ پھیرتی ہے تو آٹھ سلوٹوں کے ساتھ پیٹھ پھیرتی ہے۔اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں دیکھ نہیں رہا کہ جو کچھ یہاں ہے اسے سب پتہ ہے، یہ لوگ تمھا رے پاس نہ آیا کریں۔""تو انھوں (امہات المومنین رضی اللہ عنہا) نے اس سے پردہ کر لیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس ایک ہیجڑا آیا کرتا تھا، کیونکہ وہ انہیں ان لوگوں میں سے سمجھتی تھیں، جو عورتوں میں رغبت اور دلچسپی نہیں رکھتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اپنی کسی بیوی کے پاس گئے تو اسے ایک عورت کے اوصاف بیان کرتے پایا کہ جب وہ سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار سلوٹیں پڑتی ہیں اور جب وہ پشت پھیر کر چل دیتی ہے تو وہ سلوٹیں آٹھ بن جاتی ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! میں دیکھ رہا ہوں، یہ تو لوگوں کی چیزوں سے آگاہ، یہ تمہارے پاس نہ آئے اس کے بعد اس کو گھروں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
14. باب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ:
14. باب: اگر اجنبی عورت راہ میں تھک گئی ہو تو اس کو اپنے ساتھ سوار کر لینا درست ہے۔
Chapter: It Is Permissible To Seat A Non-Mahram Woman Behind One (On A Mount) If She Is Exhausted On The Road
حدیث نمبر: 5692
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن العلاء ابو كريب الهمداني ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، اخبرني ابي ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت: تزوجني الزبير وما له في الارض من مال ولا مملوك ولا شيء غير فرسه، قالت: فكنت اعلف فرسه واكفيه مئونته واسوسه وادق النوى لناضحه، واعلفه واستقي الماء واخرز غربه واعجن، ولم اكن احسن اخبز، وكان يخبز لي جارات من الانصار وكن نسوة صدق، قالت: وكنت انقل النوى من ارض الزبير التي اقطعه رسول الله صلى الله عليه وسلم على راسي وهي على ثلثي فرسخ، قالت: فجئت يوما والنوى على راسي، فلقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه نفر من اصحابه، فدعاني، ثم قال: إخ إخ ليحملني خلفه، قالت: فاستحييت وعرفت غيرتك، فقال: " والله لحملك النوى على راسك اشد من ركوبك معه "، قالت: حتى ارسل إلي ابو بكر بعد ذلك بخادم، فكفتني سياسة الفرس فكانما اعتقتني.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوكٍ وَلَا شَيْءٍ غَيْرَ فَرَسِهِ، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَأَكْفِيهِ مَئُونَتَهُ وَأَسُوسُهُ وَأَدُقُّ النَّوَى لِنَاضِحِهِ، وَأَعْلِفُهُ وَأَسْتَقِي الْمَاءَ وَأَخْرُزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ، وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ، وَكَانَ يَخْبِزُ لِي جَارَاتٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ، قَالَتْ: وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِي وَهِيَ عَلَى ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ، قَالَتْ: فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَى عَلَى رَأْسِي، فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَدَعَانِي، ثُمَّ قَالَ: إِخْ إِخْ لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ، قَالَتْ: فَاسْتَحْيَيْتُ وَعَرَفْتُ غَيْرَتَكَ، فَقَالَ: " وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى عَلَى رَأْسِكِ أَشَدُّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ "، قَالَتْ: حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ، فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَتْنِي.
ہشام کے والد (عروہ) نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے (حضرت اسماء رضی اللہ عنہا) نے کہا: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے نکا ح کیا تو ان کے پاس ایک گھوڑے کے سوانہ کچھ مال تھا، نہ غلام تھا، نہ کوئی اور چیز تھی۔ان کے گھوڑے کو میں ہی چارا ڈالتی تھی ان کی طرف سے اس کی ساری ذمہ داری میں سنبھا لتی۔اس کی نگہداشت کرتی ان کے پانی لا نے والے اونٹ کے لیے کھجور کی گٹھلیاں توڑتی اور اسے کھلا تی میں ہی (اس پر) پانی لا تی میں ہی ان کا پانی کا ڈول سیتی آٹا گوندھتی، میں اچھی طرح روٹی نہیں بنا سکتی تھی تو انصار کی خواتین میں سے میری ہمسائیاں میرے لیے روٹی بنا دیتیں، وہ سچی (دوستی والی) عورتیں تھیں، انھوں نے (اسماء رضی اللہ عنہا) نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو زمین کا جو ٹکڑا عطا فرما یا تھا وہاں سے اپنے سر پر گٹھلیاں رکھ کر لا تی یہ (زمین) تقریباً دو تہائی فرسخ (تقریباً 3.35کلو میٹر) کی مسافت پر تھی۔کہا: ایک دن میں آرہی تھی گٹھلیاں میرے سر پر تھیں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کچھ لو گ آپ کے ساتھ تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا یا، پھر آواز سے اونٹ کو بٹھا نے لگے تا کہ (گٹھلیوں کا بوجھ درمیان میں رکھتے ہو ئے) مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیں۔انھوں نے (حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہو ئے) کہا: مجھے شرم آئی مجھے تمھا ری غیرت بھی معلوم تھی تو انھوں (زبیر رضی اللہ عنہ) نے کہا: اللہ جا نتا ہے کہ تمھارا اپنے سر پر گٹھلیوں کا بوجھ اٹھا نا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے۔کہا: (یہی کیفیت رہی) یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ حدیث: 5693۔) ایک کنیز بھجوادی اور اس نے مجھ سے گھوڑے کی ذمہ داری لے لی۔ (مجھے ایسے لگا) جیسے انھوں نے مجھے (غلا می سے) آزاد کرا دیا ہے۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے ساتھ ایسے حالات میں شادی کی کہ ان کے پاس اپنے گھوڑے کے سوا کوئی مال و دولت، غلام یا کوئی اور چیز نہ تھی، میں ان کے گھوڑے کے لیے چارہ لاتی اور اس کی ضروریات سے ان کو کفایت کرتی اور میں ہی اس کی دیکھ بھال یا نگہداشت کرتی اور ان کے پانی ڈھونے کے اونٹ کے لیے گٹھلیاں کوٹتی اور اس کو چارہ ڈالتی، پانی لاتی اور ان کے ڈول کو سیتی، آٹا گوندھتی اور مجھے اچھی طرح روٹی پکانا نہیں آتا تھا، یا میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی اور میری انصاری پڑوسنیں، مجھے روٹی پکا کر دیتی تھیں اور وہ بہت اچھی عورتیں تھیں اور میں زبیر کی اس زمین سے جو آپ نے اسے عنایت فرمائی تھی، اپنے سر پر گٹھلیاں ڈھوتی تھی، جو مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر تھی، ایک دن میں آ رہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں تو میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو گئی، آپ کے چند ساتھی بھی آپ کے ساتھ تھے، آپ نے مجھے آواز دی، پھر اونٹ کو بٹھانے کے لیے کہا اخ، اخ
حدیث نمبر: 5693
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبيد الغبري ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن ابن ابي مليكة ، ان اسماء ، قالت: " كنت اخدم الزبير خدمة البيت، وكان له فرس وكنت اسوسه، فلم يكن من الخدمة شيء اشد علي من سياسة الفرس كنت احتش له واقوم عليه واسوسه، قال: ثم إنها اصابت خادما جاء النبي صلى الله عليه وسلم سبي فاعطاها خادما، قالت: كفتني سياسة الفرس، فالقت عني مئونته فجاءني رجل، فقال يا ام عبد الله: إني رجل فقير اردت ان ابيع في ظل دارك، قالت: إني إن رخصت لك، ابى ذاك الزبير فتعال فاطلب إلي والزبير شاهد، فجاء، فقال يا ام عبد الله: إني رجل فقير اردت ان ابيع في ظل دارك، قالت: ما لك بالمدينة إلا داري؟ فقال لها الزبير: ما لك ان تمنعي رجلا فقيرا يبيع، فكان يبيع إلى ان كسب، فبعته الجارية فدخل علي الزبير وثمنها في حجري، فقال: هبيها لي، قالت: إني قد تصدقت بها ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَخْدُمُ الزُّبَيْرَ خِدْمَةَ الْبَيْتِ، وَكَانَ لَهُ فَرَسٌ وَكُنْتُ أَسُوسُهُ، فَلَمْ يَكُنْ مِنَ الْخِدْمَةِ شَيْءٌ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ سِيَاسَةِ الْفَرَسِ كُنْتُ أَحْتَشُّ لَهُ وَأَقُومُ عَلَيْهِ وَأَسُوسُهُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهَا أَصَابَتْ خَادِمًا جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ فَأَعْطَاهَا خَادِمًا، قَالَتْ: كَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ، فَأَلْقَتْ عَنِّي مَئُونَتَهُ فَجَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ: إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِكِ، قَالَتْ: إِنِّي إِنْ رَخَّصْتُ لَكَ، أَبَى ذَاكَ الزُّبَيْرُ فَتَعَالَ فَاطْلُبْ إِلَيَّ وَالزُّبَيْرُ شَاهِدٌ، فَجَاءَ، فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ: إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِكِ، قَالَتْ: مَا لَكَ بِالْمَدِينَةِ إِلَّا دَارِي؟ فَقَالَ لَهَا الزُّبَيْرُ: مَا لَكِ أَنْ تَمْنَعِي رَجُلًا فَقِيرًا يَبِيعُ، فَكَانَ يَبِيعُ إِلَى أَنْ كَسَبَ، فَبِعْتُهُ الْجَارِيَةَ فَدَخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ وَثَمَنُهَا فِي حَجْرِي، فَقَالَ: هَبِيهَا لِي، قَالَتْ: إِنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهَا ".
ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں گھر کی خدمات سر انجام دےکر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت کرتی تھی، ان کا ایک گھوڑاتھا، میں اس کی دیکھ بھال کرتی تھی، میرے لیے گھر کی خدمات میں سے گھوڑے کی نگہداشت سے بڑھ کر کوئی اورخدمت زیادہ سخت نہ تھی۔میں اس کے لئے چارہ لاتی، اس کی ہرضرورت کا خیال رکھتی اور اس کی نگہداشت کرتی، کہا: پھر انھیں ایک خادمہ مل گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو آپ نے ان کے لئے ایک خادمہ عطا کردی۔کہا: اس نے مجھ سے گھوڑے کی نگہداشت (کی ذمہ داری) سنبھال لی اور مجھ سے بہت بڑا بوجھ ہٹا لیا۔ میرے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: ام عبداللہ! میں ایک فقیر آدمی ہوں: میرا دل چاہتاہے ہے کہ میں آپ کے گھر کے سائے میں (بیٹھ کرسودا) بیچ لیاکروں۔انھوں نے کہا: اگر میں نے تمھیں اجازت دے دی تو زبیر رضی اللہ عنہ انکار کردیں گے۔جب زبیر رضی اللہ عنہ موجود ہوں تو (اس وقت) آکر مجھ سے اجازت مانگنا، پھر وہ شخص (حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) آیا اور کہا: ام عبداللہ! میں ایک فقیرآدمی ہوں اور چاہتاہوں کہ میں آپ کے گھر کے سائے میں (بیٹھ کر کچھ) بیچ لیاکروں، انھوں (حضرت اسماء رضی اللہ عنہا) نے جواب دیا: مدینے میں تمھارے لئے میرے گھر کے سوا اور کوئی گھر نہیں ہے؟تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تمھیں کیا ہوا ہے، ایک فقیر آدمی کو سودا بیچنے سے روک رہی ہو؟وہ بیچنے لگا، یہاں تک کہ اس نے کافی کمائی کرلی، میں نے وہ خادمہ اسے بیچ دی۔زبیر رضی اللہ عنہ اند رآئے تو اس خادمہ کی قیمت میری گود میں پڑی تھی، انھوں نے کہا، یہ مجھے ہبہ کردو۔تو انھوں نے کہا: میں اس کو صدقہ کرچکی ہوں۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی خدمات سر انجام دیتی تھی اور ان کا گھوڑا تھا، اس کی بھی دیکھ بھال اور انتظام کرتی تھی اور گھوڑے کی نگہداشت سے زیادہ کوئی خدمت میرے لیے سنگین نہ تھی، میں اس کے لیے گھاس لاتی، اس کی خدمت کرتی اور اس کی دیکھ بھال کرتی، پھر اسے ایک نوکرانی مل گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو آپ نے اسے ایک نوکرانی دی، جو ان کے لیے گھوڑے کے انتظام کے لیے کافی ہو گئی اور اس کی مشقت کا بوجھ اتار دیا، سو ایک دن میرے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا، اے عبداللہ کی ماں! میں ایک محتاج آدمی ہوں، میں آپ کے گھر کے سایہ میں سودا سلف بیچنا چاہتا ہوں، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، اگر میں نے اپنے طور پر تجھے اجازت دے دی، (تو شاید) حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اس کی اجازت نہیں دیں گے، لہذا تو زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی موجودگی میں آ کر مجھ سے اس کی اجازت طلب کرنا، سو وہ آیا اور کہنے لگا، اے عبداللہ کی ماں! میں ایک محتاج آدمی ہوں، آپ کے گھر کے سایہ میں سامان فروخت کرنا چاہتا ہوں تو میں نے کہا مدینہ میں میرے گھر کے سوا تمہیں کوئی گھر نہیں ملا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا، تم ایک فقیر آدمی کو سامان بیچنے سے کیوں روکتی ہو؟ تو وہ خرید و فروخت کرنے لگا، حتی کہ اس نے کمائی کر لی اور وہ لونڈی میں نے اسے فروخت کر دی، (کیونکہ اب انہیں اس کی ضرورت نہیں تھی) حضرت زبیر میرے پاس آئے تو اس کی قیمت میری جھولی میں تھی، انہوں نے کہا، یہ رقم مجھے دے دو، میں نے کہا، میں یہ صدقہ کر چکی ہوں۔
15. باب تَحْرِيمِ مُنَاجَاةِ الاِثْنَيْنِ دُونَ الثَّالِثِ بِغَيْرِ رِضَاهُ:
15. باب: تین آدمی ہوں تو ان میں دو چپکے چپکے سرگوشی نہ کریں بغیر تیسرے کی رضا کے۔
Chapter: The Prohibition Of Two People Conversing Privately To The Exclusion Of A Third Without His Consent
حدیث نمبر: 5694
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا كان ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون واحد ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قال: قرأت على مالك ، عن نافع ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا كَانَ ثَلَاثَةٌ فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ ".
مالک نےنافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تین شخص (موجود) ہوں تو ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آ پس میں سرگوشی نہ کریں۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو ایک کو چھوڑ کر دو باہمی سرگوشی نہ کریں۔
حدیث نمبر: 5695
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، وابن نمير . ح وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي . ح وحدثنا محمد بن المثنى ، وعبيد الله بن سعيد ، قالا: حدثنا يحيي وهو ابن سعيد كلهم، عن عبيد الله . ح وحدثنا قتيبة ، وابن رمح ، عن الليث بن سعد . ح وحدثنا ابو الربيع ، وابو كامل ، قالا: حدثنا حماد ، عن ايوب . ح وحدثنا ابن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت ايوب بن موسى كل هؤلاء، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمعنى حديث مالك.وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قالا: حَدَّثَنَا يَحْيَي وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحدثنا قُتَيْبَةُ ، وَابْنُ رُمْحٍ ، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ . ح وحدثنا أَبُو الرَّبِيعِ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، قالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ . ح وحدثنا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قال: سَمِعْتُ أَيُّوبَ بْنَ مُوسَى كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ.
عبیداللہ، لیث بن اسعد، ایوب (سختیانی) اور ایوب بن موسیٰ ان سب نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت کی۔
امام صاحب کو یہی روایت ان کے نو اساتذہ نے اپنی چھ سندوں سے، نافع ہی کی سند سے سنائی۔

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.