الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
24. بَابُ: التَّعْرِيسِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ
24. باب: رات ذوالحلیفہ میں پڑاؤ ڈالنے کا بیان۔
Chapter: Stopping To Camp At The End of the Night In dhul-Hulaifah
حدیث نمبر: 2660
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عيسى بن إبراهيم بن مثرود، عن ابن وهب، قال: اخبرني يونس، قال ابن شهاب: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عمر، ان اباه , قال:" بات رسول الله صلى الله عليه وسلم بذي الحليفة ببيداء، وصلى في مسجدها".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَثْرُودٍ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ أَبَاهُ , قَالَ:" بَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ بِبَيْدَاءَ، وَصَلَّى فِي مَسْجِدِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ کے شروع ہونے کی جگہ میں رات گزاری اور اس کی مسجد میں نماز پڑھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج6 (1188)، (تحفة الأشراف: 7308) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2661
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبدة بن عبد الله، عن سويد، عن زهير، عن موسى بن عقبة، عن سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،" انه وهو في المعرس بذي الحليفة اتي فقيل له: إنك ببطحاء مباركة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سُوَيْدٍ، عَنْ زُهَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّهُ وَهُوَ فِي الْمُعَرَّسِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ أُتِيَ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ بِبَطْحَاءَ مُبَارَكَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں آیا گیا اور آپ ذوالحلیفہ کے پڑاؤ کی جگہ میں تھے اور کہا گیا کہ آپ بابرکت بطحاء میں ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 16 (1535)، المزارعة 16 (2336)، مطولا، صحیح مسلم/الحج 77 (1346)، (تحفة الأشراف: 7025)، مسند احمد (2/87، 90، 104، 136) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2662
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة , والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع , عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" اناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة، وصلى بها".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع , عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّتي بِذِي الْحُلَيْفَةِ، وَصَلَّى بِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء میں اپنا اونٹ بٹھایا جو ذوالحلیفہ میں ہے اور اسی جگہ آپ نے نماز پڑھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 14 (1532)، صحیح مسلم/الحج 77 (1257)، سنن ابی داود/المناسک 100 (2044)، (تحفة الأشراف: 8338)، موطا امام مالک/الحج 69 (206)، مسند احمد (2/28، 112، 138) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
25. بَابُ: الْبَيْدَاءِ
25. باب: بیداء کا بیان۔
Chapter: Al-Baida
حدیث نمبر: 2663
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا النضر وهو ابن شميل , قال: حدثنا اشعث وهو ابن عبد الملك، عن الحسن، عن انس ابن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى الظهر بالبيداء، ثم ركب وصعد جبل البيداء، فاهل بالحج والعمرة حين صلى الظهر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ وَهُوَ ابْنُ شُمَيْلٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى الظُّهْرَ بِالْبَيْدَاءِ، ثُمَّ رَكِبَ وَصَعِدَ جَبَلَ الْبَيْدَاءِ، فَأَهَلَّ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز بیداء میں پڑھی، پھر سوار ہوئے اور بیداء پہاڑ پر چڑھے، اور ظہر کی نماز پڑھ کر حج و عمرے کا احرام باندھا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 21 (1774)، (تحفة الأشراف: 524)، مسند احمد (3/207)، ویأتی عند المؤلف بأرقام 2756، 2934 (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’حسن بصری‘‘ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں، دیکھئے صحیح ابی داود ج6/ص 19، 20 رقم 1555، 1556)»

وضاحت:
۱؎: بیداء چٹیل میدان کو کہتے ہیں اور یہاں ذوالحلیفہ کے قریب ایک مخصوص جگہ مراد ہے آگے بھی اس لفظ سے یہی جگہ مراد ہو گی، اور جہاں تک آپ کے بیداء میں ظہر کی نماز پڑھنے کا معاملہ ہے تو کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے، انس رضی الله عنہ ہی سے بخاری (کتاب الحج، ۲۷) میں مروی ہے کہ آپ نے ظہر مدینہ میں چار پڑھی اور عصر ذوالحلیفہ میں دو پڑھی، اور نماز کے بعد ہی احرام باندھ لیا، یعنی حج و عمرہ کی نیت کر کے تلبیہ پکارنا شروع کر دیا تھا، اور ہر جگہ پکارتے رہے، اب جس نے جہاں پہلی بار سنا اس نے وہیں سے تلبیہ پکارنے کی روایت کر دی، سنن ابوداؤد (کتاب الحج، ۲۱) میں عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی مفصل روایت ان تمام اختلافات و اشکالات کو دور کر دیتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
26. بَابُ: الْغُسْلِ لِلإِهْلاَلِ
26. باب: تلبیہ پکارنے کے لیے غسل کرنے کا بیان۔
Chapter: Performing Ghusl to Initiate Ihrams
حدیث نمبر: 2664
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة , والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له، عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن اسماء بنت عميس، انها ولدت محمد بن ابي بكر الصديق بالبيداء، فذكر ابو بكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" مرها فلتغتسل ثم لتهل".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، أَنَّهَا وَلَدَتْ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ بِالْبَيْدَاءِ، فَذَكَرَ أَبُو بَكْرٍ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مُرْهَا فَلْتَغْتَسِلْ ثُمَّ لِتُهِلَّ".
اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے محمد بن ابی بکر صدیق کو بیداء میں جنا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ان سے کہو کہ غسل کر لیں پھر لبیک پکاریں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15761)، موطا امام مالک/الحج 1 (1)، مسند احمد (6/369)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/ الحج16 (1209)، سنن ابن ماجہ/ الحج 12 (2911) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ غسل نظافت کے لیے ہے طہارت کے لیے نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2665
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني احمد بن فضالة بن إبراهيم النسائي، قال: حدثنا خالد بن مخلد، قال: حدثني سليمان بن بلال، قال: حدثني يحيى وهو ابن سعيد الانصاري , قال: سمعت القاسم بن محمد يحدث، عن ابيه، عن ابي بكر، انه خرج حاجا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة الوداع ومعه امراته اسماء بنت عميس الخثعمية، فلما كانوا بذي الحليفة، ولدت اسماء محمد بن ابي بكر، فاتى ابو بكر النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره،" فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يامرها ان تغتسل، ثم تهل بالحج، وتصنع ما يصنع الناس إلا انها لا تطوف بالبيت".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ النَّسَائِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ , قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهُ خَرَجَ حَاجًّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ وَمَعَهُ امْرَأَتُهُ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ الْخَثْعَمِيَّةُ، فَلَمَّا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ، وَلَدَتْ أَسْمَاءُ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَتَى أَبُو بَكْرٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ،" فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْمُرَهَا أَنْ تَغْتَسِلَ، ثُمَّ تُهِلَّ بِالْحَجِّ، وَتَصْنَعَ مَا يَصْنَعُ النَّاسُ إِلَّا أَنَّهَا لَا تَطُوفُ بِالْبَيْتِ".
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے نکلے اور ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس خثعمیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ جب وہ لوگ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو وہاں اسماء نے محمد بن ابوبکر کو جنا۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ کو اس بات کی خبر دی، تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ اسے حکم دیں کہ وہ غسل کر لیں پھر حج کا احرام باندھ لیں، اور وہ سب کام کریں جو دوسرے حاجی کرتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کریں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک12 (2912)، وانظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
27. بَابُ: غُسْلِ الْمُحْرِمِ
27. باب: مُحرِم کے غسل کا بیان۔
Chapter: Ghusl of the Muhrim
حدیث نمبر: 2666
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن إبراهيم بن عبد الله بن حنين، عن ابيه، عن عبد الله بن عباس , والمسور بن مخرمة، انهما اختلفا بالابواء، فقال ابن عباس يغسل المحرم راسه، وقال المسور: لا يغسل راسه، فارسلني ابن عباس إلى ابي ايوب الانصاري اساله عن ذلك، فوجدته يغتسل بين قرني البئر، وهو مستتر بثوب، فسلمت عليه، وقلت: ارسلني إليك عبد الله بن عباس، اسالك كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغسل راسه وهو محرم؟ فوضع ابو ايوب يده على الثوب فطاطاه حتى بدا راسه، ثم قال:" لإنسان يصب على راسه، ثم حرك راسه بيديه، فاقبل بهما وادبر، وقال هكذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ , وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، أَنَّهُمَا اخْتَلَفَا بِالأَبْوَاءِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لَا يَغْسِلُ رَأْسَهُ، فَأَرْسَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ أَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ قَرْنَيِ الْبِئْرِ، وَهُوَ مُسْتَتِرٌ بِثَوْبٍ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، أَسْأَلُكَ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟ فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ فَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا رَأْسُهُ، ثُمَّ قَالَ:" لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ حَرَّكَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، وَقَالَ هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ".
عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ ان دونوں کے درمیان مقام ابواء میں (محرم کے سر دھونے اور نہ دھونے کے بارے میں) اختلاف ہو گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم اپنا سر دھوئے گا اور مسور نے کہا: نہیں دھوئے گا۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ میں ان سے اس بارے میں سوال کروں، چنانچہ میں گیا تو وہ مجھے کنویں کی دونوں لکڑیوں کے درمیان غسل کرتے ہوئے ملے اور وہ کپڑے سے پردہ کئے ہوئے تھے، میں نے انہیں سلام کیا اور کہا: مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آپ سے سوال کروں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں اپنا سر کس طرح دھوتے تھے ۱؎۔ (یہ سن کر) ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا، اور اسے جھکایا یہاں تک کہ ان کا سر دکھائی دینے لگا، پھر ایک شخص سے جو پانی ڈالتا تھا کہا: سر پر پانی ڈالو، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو حرکت دی، (صورت یہ رہی کہ) کہ دونوں ہاتھ کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے، اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید14 (1840)، صحیح مسلم/الحج13 (1205)، سنن ابی داود/الحج38 (1840)، سنن ابن ماجہ/الحج22 (3934)، (تحفة الأشراف: 3463)، مسند احمد 5/416، 418، 421، سنن الدارمی/المناسک 6 (1834) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ دونوں میں اختلاف غسل کرنے یا نہ کرنے میں تھا نہ کہ کیفیت کے بارے میں پھر انہوں نے ابوایوب رضی الله عنہ سے جا کر غسل کی کیفیت کے بارے کیوں سوال کیا؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں نے انہیں دونوں باتیں پوچھنے کے لیے بھیجا تھا لیکن وہاں پہنچ کر جب انہوں نے خود انہی کو حالت احرام میں غسل کرتے دیکھا تو اس سے انہوں نے اس کے جواز کو خودبخود جان لیا اب بچا مسئلہ صرف کیفیت کا تو اس بارے میں انہوں نے پوچھ لیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
28. بَابُ: النَّهْىِ عَنِ الثِّيَابِ الْمَصْبُوغَةِ، بِالْوَرْسِ وَالزَّعْفَرَانِ فِي الإِحْرَامِ
28. باب: احرام میں ورس اور زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے پہننے کی ممانعت کا بیان۔
Chapter: The Prohibition of Wearing Clothes Dyed with wars and Saffron when in Ihram
حدیث نمبر: 2667
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة , والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك , عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يلبس المحرم ثوبا مصبوغا بزعفران او بورس".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَ الْمُحْرِمُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا بِزَعْفَرَانٍ أَوْ بِوَرْسٍ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ محرم زعفران اور ورس میں رنگے ہوئے کپڑے پہننے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 34 (5847)، 37 (5852)، صحیح مسلم/الحج 1 (1177)، سنن ابن ماجہ/الحج 20 (2932)، (تحفة الأشراف: 7226)، موطا امام مالک/الحج3 (8)، 4 (9)، مسند احمد (2/66) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ورس ایک خوشبودار پیلی گھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2668
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، عن سفيان، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يلبس المحرم من الثياب؟ قال:" لا يلبس القميص ولا البرنس ولا السراويل ولا العمامة ولا ثوبا مسه ورس، ولا زعفران، ولا خفين، إلا لمن لا يجد نعلين، فإن لم يجد نعلين فليقطعهما، حتى يكونا اسفل من الكعبين".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ؟ قَالَ:" لَا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ وَلَا الْبُرْنُسَ وَلَا السَّرَاوِيلَ وَلَا الْعِمَامَةَ وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ وَرْسٌ، وَلَا زَعْفَرَانٌ، وَلَا خُفَّيْنِ، إِلَّا لِمَنْ لَا يَجِدُ نَعْلَيْنِ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَقْطَعْهُمَا، حَتَّى يَكُونَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ محرم کون سے کپڑے پہنے؟ آپ نے فرمایا: محرم قمیص (کرتا) ٹوپی، پائجامہ، عمامہ (پگڑی) اور ورس اور زعفران لگا کپڑا نہ پہنے ۱؎، اور موزے نہ پہنے اور اگر جوتے میسر نہ ہوں تو چاہیئے کہ دونوں موزوں کو کاٹ ڈالے یہاں تک کہ انہیں ٹخنوں سے نیچے کر لے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 15 (5806)، صحیح مسلم/الحج 1 (1177)، سنن ابی داود/المناسک 32 (1823)، (تحفة الأشراف: 6817) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس بات پر اجماع ہے کہ حالت احرام میں عورت کے لیے وہ تمام کپڑے پہننے جائز ہیں جن کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے صرف ورس اور زعفران لگے ہوئے کپڑے نہ پہنے، نیز اس بات پر بھی اجماع ہے کہ حالت احرام میں مرد کے لیے حدیث میں مذکور یہ کپڑے پہننے جائز نہیں ہیں قمیص اور سراویل میں تمام سلے ہوئے کپڑے داخل ہیں اسی طرح عمامہ اور خفین سے ہر وہ چیز مراد ہے جو سر اور قدم کو ڈھانپ لے، البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں۔ ۲؎: جمہور نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے موزوں کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیر کاٹے موزہ پہننے کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ ابن عباس کی روایت «من لم یجدنعلین فلیلبس خفین» جو بخاری میں آئی ہے مطلق ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا، حنابلہ نے اس روایت کے کئی جواب دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے قبل مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت عرفات کی ہے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کی روایت حجت کے اعتبار سے ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے، کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو اصح الاسانید ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
29. بَابُ: الْجُبَّةِ فِي الإِحْرَامِ
29. باب: احرام میں جبہ پہننے کا بیان۔
Chapter: Wearing A Jubbah in Ihram
حدیث نمبر: 2669
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا نوح بن حبيب القومسي، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا ابن جريج، قال: قال: حدثني عطاء، عن صفوان بن يعلى بن امية، عن ابيه، انه قال: ليتني ارى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو ينزل عليه، فبينا نحن بالجعرانة والنبي صلى الله عليه وسلم في قبة، فاتاه الوحي، فاشار إلي عمر ان تعال، فادخلت راسي القبة، فاتاه رجل قد احرم في جبة بعمرة متضمخ بطيب، فقال: يا رسول الله ما تقول في رجل قد احرم في جبة إذ انزل عليه الوحي فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يغط لذلك فسري عنه، فقال:" اين الرجل الذي سالني آنفا؟" فاتي بالرجل، فقال:" اما الجبة فاخلعها، واما الطيب فاغسله، ثم احدث إحراما" , قال ابو عبد الرحمن:" ثم احدث إحراما" ما اعلم احدا قاله غير نوح بن حبيب ولا احسبه محفوظا والله سبحانه وتعالى اعلم.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَوْمَسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: لَيْتَنِي أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ، فَبَيْنَا نَحْنُ بِالْجِعِرَّانَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ، فَأَتَاهُ الْوَحْيُ، فَأَشَارَ إِلَيَّ عُمَرُ أَنْ تَعَالَ، فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي الْقُبَّةَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ قَدْ أَحْرَمَ فِي جُبَّةٍ بِعُمْرَةٍ مُتَضَمِّخٌ بِطِيبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَقُولُ فِي رَجُلٍ قَدْ أَحْرَمَ فِي جُبَّةٍ إِذْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغِطُّ لِذَلِكَ فَسُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ:" أَيْنَ الرَّجُلُ الَّذِي سَأَلَنِي آنِفًا؟" فَأُتِيَ بِالرَّجُلِ، فَقَالَ:" أَمَّا الْجُبَّةُ فَاخْلَعْهَا، وَأَمَّا الطِّيبُ فَاغْسِلْهُ، ثُمَّ أَحْدِثْ إِحْرَامًا" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ:" ثُمَّ أَحْدِثْ إِحْرَامًا" مَا أَعْلَمُ أَحَدًا قَالَهُ غَيْرَ نُوحِ بْنِ حَبِيبٍ وَلَا أَحْسِبُهُ مَحْفُوظًا وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھتا، پھر اتفاق ایسا ہوا کہ ہم جعرانہ میں تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تھے کہ آپ پر وحی نازل ہونے لگی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اشارہ کیا کہ آؤ دیکھ لو۔ میں نے اپنا سر خیمہ میں داخل کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا ہوا ہے وہ جبہ میں عمرہ کا احرام باندھے ہوئے تھا، اور خوشبو سے لت پت تھا اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جس نے جبہ پہنے ہوئے احرام باندھ رکھا ہے کہ یکایک آپ پر وحی اترنے لگی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لینے لگے۔ پھر آپ کی یہ کیفیت جاتی رہی، تو آپ نے فرمایا: وہ شخص کہاں ہے جس نے ابھی مجھ سے (مسئلہ) پوچھا تھا تو وہ شخص حاضر کیا گیا، آپ نے (اس سے) فرمایا: رہا جبہ تو اسے اتار ڈالو، اور رہی خوشبو تو اسے دھو ڈالو پھر نئے سرے سے احرام باندھو۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں کہ نئے سرے سے احرام باندھ کا یہ فقرہ نوح بن حبیب کے سوا کسی اور نے روایت کیا ہو یہ میرے علم میں نہیں اور میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 17 (1536)، تعلیقا، العمرة 10 (1789)، جزاء الصید 19 (1847)، المغازی56 (4329)، فضائل القرآن 2 (4985)، صحیح مسلم/الحج 1 (1180)، سنن ابی داود/الحج 31 (1819-1822)، سنن الترمذی/الحج 20 (835) مختصرا، (تحفة الأشراف: 11836)، مسند احمد (4/224) ویأتی عند المؤلف فی44 (برقم2710، 2711) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جعرانہ مکہ کے قریب ایک جگہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ثم أحدث إحراما فإنه شاذ والمحفوظ دونها

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.