الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
حدیث نمبر: 1339
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه سمع سعيد بن المسيب ، يقول: " قطع الذهب والورق من الفساد في الارض" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ: " قَطْعُ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ مِنَ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ" .
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیّب کہتے تھے: روپیہ اشرفی کا کاٹنا گویا ملک میں فساد کرنا ہے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14594، 14595، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 37»
حدیث نمبر: 1339ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: ولا باس ان يشتري الرجل الذهب بالفضة، والفضة بالذهب جزافا إذا كان تبرا او حليا قد صيغ، فاما الدراهم المعدودة والدنانير المعدودة فلا ينبغي لاحد ان يشتري شيئا من ذلك جزافا حتى يعلم ويعد، فإن اشتري ذلك جزافا فإنما يراد به الغرر حين يترك عده ويشترى جزافا، وليس هذا من بيوع المسلمين، فاما ما كان يوزن من التبر والحلي، فلا باس ان يباع ذلك جزافا، وإنما ابتياع ذلك جزافا كهيئة الحنطة والتمر ونحوهما من الاطعمة التي تباع جزافا ومثلها يكال، فليس بابتياع ذلك جزافا باس. قَالَ مَالِك: وَلَا بَأْسَ أَنْ يَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ، وَالْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ جِزَافًا إِذَا كَانَ تِبْرًا أَوْ حَلْيًا قَدْ صِيغَ، فَأَمَّا الدَّرَاهِمُ الْمَعْدُودَةُ وَالدَّنَانِيرُ الْمَعْدُودَةُ فَلَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَشْتَرِيَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ جِزَافًا حَتَّى يُعْلَمَ وَيُعَدَّ، فَإِنِ اشْتُرِيَ ذَلِكَ جِزَافًا فَإِنَّمَا يُرَادُ بِهِ الْغَرَرُ حِينَ يُتْرَكُ عَدُّهُ وَيُشْتَرَى جِزَافًا، وَلَيْسَ هَذَا مِنْ بُيُوعِ الْمُسْلِمِينَ، فَأَمَّا مَا كَانَ يُوزَنُ مِنَ التِّبْرِ وَالْحَلْيِ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُبَاعَ ذَلِكَ جِزَافًا، وَإِنَّمَا ابْتِيَاعُ ذَلِكَ جِزَافًا كَهَيْئَةِ الْحِنْطَةِ وَالتَّمْرِ وَنَحْوِهِمَا مِنَ الْأَطْعِمَةِ الَّتِي تُبَاعُ جِزَافًا وَمِثْلُهَا يُكَالُ، فَلَيْسَ بِابْتِيَاعِ ذَلِكَ جِزَافًا بَأْسٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر سونے کو چاندی کے بدلے میں یا چاندی کو سونے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر خریدے تو کچھ قباحت نہیں ہے، جب وہ ڈلی ہوں یا زیور ہوں، لیکن روپے اشرفی کا خریدنا بغیر گنے ہوئے جائز نہیں، بلکہ اس میں دھوکا ہے، اور مسلمانوں کے دستور کے خلاف ہے، لیکن سونے چاندی کا ڈلا یا زیور جو تل کے بکتا ہے اس کو اٹکل سے خریدنا، جیسے گیہوں یا کھجور وغیرہ کو خریدتے ہیں برا نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 37»
حدیث نمبر: 1339ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: من اشترى مصحفا او سيفا او خاتما وفي شيء من ذلك ذهب او فضة بدنانير او دراهم، فإن ما اشتري من ذلك وفيه الذهب بدنانير فإنه ينظر إلى قيمته، فإن كانت قيمة ذلك الثلثين وقيمة ما فيه من الذهب الثلث، فذلك جائز لا باس به إذا كان ذلك يدا بيد ولا يكون فيه تاخير، وما اشتري من ذلك بالورق مما فيه الورق نظر إلى قيمته، فإن كان قيمة ذلك الثلثين وقيمة ما فيه من الورق الثلث، فذلك جائز لا باس به إذا كان ذلك يدا بيد، ولم يزل ذلك من امر الناس عندناقَالَ مَالِك: مَنِ اشْتَرَى مُصْحَفًا أَوْ سَيْفًا أَوْ خَاتَمًا وَفِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ ذَهَبٌ أَوْ فِضَّةٌ بِدَنَانِيرَ أَوْ دَرَاهِمَ، فَإِنَّ مَا اشْتُرِيَ مِنْ ذَلِكَ وَفِيهِ الذَّهَبُ بِدَنَانِيرَ فَإِنَّهُ يُنْظَرُ إِلَى قِيمَتِهِ، فَإِنْ كَانَتْ قِيمَةُ ذَلِكَ الثُّلُثَيْنِ وَقِيمَةُ مَا فِيهِ مِنَ الذَّهَبِ الثُّلُثَ، فَذَلِكَ جَائِزٌ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ يَدًا بِيَدٍ وَلَا يَكُونُ فِيهِ تَأْخِيرٌ، وَمَا اشْتُرِيَ مِنْ ذَلِكَ بِالْوَرِقِ مِمَّا فِيهِ الْوَرِقُ نُظِرَ إِلَى قِيمَتِهِ، فَإِنْ كَانَ قِيمَةُ ذَلِكَ الثُّلُثَيْنِ وَقِيمَةُ مَا فِيهِ مِنَ الْوَرِقِ الثُّلُثَ، فَذَلِكَ جَائِزٌ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ يَدًا بِيَدٍ، وَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ عِنْدَنَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص کلام مجید یا تلوار یا انگوٹھی جس میں سونا یا چاندی لگا ہو روپے اشرفی کے بدلے میں خرید کرے، تو دیکھیں گے اگر ان چیزوں میں سونا لگا ہوا ہے اور اشرفیوں کے بدلے میں اس کو خرید کیا، اور اس چیز کی قیمت دو تہائی سے کم نہیں ہے، اور جس قدر سونا اس میں لگا ہوا ہے اس کی قیمت ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہے، تو درست ہے جب نقداً نقد ہو، اسی طرح اگر چاندی لگی ہوئی ہے اور روپیوں کے بدلے میں خرید کیا تب بھی یہی حکم ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 37»
17. بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّرْفِ
17. بیع صرف کے بیان میں
حدیث نمبر: 1340
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن مالك بن اوس بن الحدثان النصري ، انه التمس صرفا بمائة دينار، قال: فدعاني طلحة بن عبيد الله فتراوضنا حتى اصطرف مني واخذ الذهب يقلبها في يده، ثم قال: حتى ياتيني خازني من الغابة. وعمر بن الخطاب يسمع، فقال عمر : والله لا تفارقه حتى تاخذ منه. ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الذهب بالورق ربا إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا إلا هاء وهاء" . حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ ، أَنَّهُ الْتَمَسَ صَرْفًا بِمِائَةِ دِينَارٍ، قَالَ: فَدَعَانِي طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَتَرَاوَضْنَا حَتَّى اصْطَرَفَ مِنِّي وَأَخَذَ الذَّهَبَ يُقَلِّبُهَا فِي يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: حَتَّى يَأْتِيَنِي خَازِنِي مِنَ الْغَابَةِ. وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْمَعُ، فَقَالَ عُمَرُ : وَاللَّهِ لَا تُفَارِقْهُ حَتَّى تَأْخُذَ مِنْهُ. ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ" .
حضرت مالک بن اوس نے کہا: مجھے حاجت ہوئی سو دینار کے درہم لینے کی تو مجھے بلایا طلحہ بن عبیداللہ نے۔ پھر ہم دونوں راضی ہوئے صرف کے اوپر اور انہوں نے دینار مجھ سے لے لئے اور ہاتھ سے الٹ پلٹ کرنے لگے، اور کہا: صبر کرو یہاں تک کہ میرا خزانچی غابہ سے آ جائے (غابہ ایک موضوع ہے قریب مدینہ کے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: نہیں، قسم اللہ کی! مت چھوڑنا طلحہ کو بغیر روپے لئے، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: سونے کا بیچنا چاندی کے بدلے میں ربا ہے مگر جب نقداً نقد ہو، اور گہیوں بدلے گیہوں کے بیچنا ربا ہے مگر نقداً نقد، اور کھجور بدلے کھجور کے بیچنا ربا ہے مگر نقداً نقد، اور جو بدلے جو کے بیچنا ربا ہے مگر نقداً نقد، اور نمک بدلے نمک کے بیچنا ربا ہے مگر نقداً نقد۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2134، 2170، 2174، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1586، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5013، 5019، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4562، 4576، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6105، 6120، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3348، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1243، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2620، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2253، 2259، 2260، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10585، وأحمد فى «مسنده» برقم: 164، 244، 320، 28178، والحميدي فى «مسنده» برقم: 12، 762، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 38»
حدیث نمبر: 1340ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: إذا اصطرف الرجل دراهم بدنانير ثم وجد فيها درهما زائفا فاراد رده، انتقض صرف الدينار ورد إليه ورقه واخذ إليه ديناره. وتفسير ما كره من ذلك: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الذهب بالورق ربا إلا هاء وهاء". وقال عمر بن الخطاب: وإن استنظرك إلى ان يلج بيته فلا تنظره، وهو إذا رد عليه درهما من صرف بعد ان يفارقه كان بمنزلة الدين او الشيء المتاخر. فلذلك كره ذلك، وانتقض الصرف، وإنما اراد عمر بن الخطاب ان لا يباع الذهب والورق والطعام كله عاجلا بآجل، فإنه لا ينبغي ان يكون في شيء من ذلك تاخير ولا نظرة، وإن كان من صنف واحد او كان مختلفة اصنافهقَالَ مَالِك: إِذَا اصْطَرَفَ الرَّجُلُ دَرَاهِمَ بِدَنَانِيرَ ثُمَّ وَجَدَ فِيهَا دِرْهَمًا زَائِفًا فَأَرَادَ رَدَّهُ، انْتَقَضَ صَرْفُ الدِّينَارِ وَرَدَّ إِلَيْهِ وَرِقَهُ وَأَخَذَ إِلَيْهِ دِينَارَهُ. وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ". وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: وَإِنِ اسْتَنْظَرَكَ إِلَى أَنْ يَلِجَ بَيْتَهُ فَلَا تُنْظِرْهُ، وَهُوَ إِذَا رَدَّ عَلَيْهِ دِرْهَمًا مِنْ صَرْفٍ بَعْدَ أَنْ يُفَارِقَهُ كَانَ بِمَنْزِلَةِ الدَّيْنِ أَوِ الشَّيْءِ الْمُتَأَخِّرِ. فَلِذَلِكَ كُرِهَ ذَلِكَ، وَانْتَقَضَ الصَّرْفُ، وَإِنَّمَا أَرَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ لَا يُبَاعَ الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ وَالطَّعَامُ كُلُّهُ عَاجِلًا بِآجِلٍ، فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ تَأْخِيرٌ وَلَا نَظِرَةٌ، وَإِنْ كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ أَوْ كَانَ مُخْتَلِفَةً أَصْنَافُهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے روپے اشرفیوں کے بدلے میں لیے، پھر اس میں ایک روپیہ کھوٹا نکلا، اب اس کو پھیرنا چاہے تو سب اشرفیاں اپنی پھیر لے، اور سب روپے اس کے واپس دے دے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا بدلے میں چاندی کے ربا ہے مگر جب نقداً نقد ہو۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تجھ سے اپنے گھر جانے کی مہلت مانگے تو مہلت نہ دے، اگر ایک روپیہ اس کو پھیر دے گا اور اس سے جدا ہو جائے گا تو مثل دین کے یا میعاد کے ہو جائے گا، اسی واسطے یہ مکروہ ہے، خود اس بیع کو توڑ ڈالنا چاہیے کہ ایک طرف نقد ہو دوسری طرف وعدہ، خواہ ایک جنس یا کئی جنس ہوں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 38»
18. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُرَاطَلَةِ
18. مراطلہ کا بیان
حدیث نمبر: 1341
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط ، انه راى سعيد بن المسيب " يراطل الذهب بالذهب، فيفرغ ذهبه في كفة الميزان ويفرغ صاحبه الذي يراطله ذهبه في كفة الميزان الاخرى، فإذا اعتدل لسان الميزان اخذ واعطى" . حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ ، أَنَّهُ رَأَى سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ " يُرَاطِلُ الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ، فَيُفْرِغُ ذَهَبَهُ فِي كِفَّةِ الْمِيزَانِ وَيُفْرِغُ صَاحِبُهُ الَّذِي يُرَاطِلُهُ ذَهَبَهُ فِي كِفَّةِ الْمِيزَانِ الْأُخْرَى، فَإِذَا اعْتَدَلَ لِسَانُ الْمِيزَانِ أَخَذَ وَأَعْطَى" .
حضرت یزید بن عبداللہ بن قسیط نے کہا: سعید بن مسیّب کو دیکھا جب سونے کو سونے کے بدلے میں بیچتے تو اپنے سونے کو ایک پلہ میں رکھتے اور دوسرا شخص اپنے سونے کو دوسرے پلے میں رکھتا، جب ترازو کا کانٹا برابر ہو جاتا تو دوسرے کا سونا لے لیتے اور اپنا سونا دے دیتے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»
حدیث نمبر: 1341ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: الامر عندنا في بيع الذهب بالذهب، والورق بالورق مراطلة: انه لا باس بذلك ان ياخذ احد عشر دينارا بعشرة دنانير يدا بيد إذا كان وزن الذهبين سواء عينا بعين، وإن تفاضل العدد والدراهم ايضا في ذلك بمنزلة الدنانير. قال مالك: من راطل ذهبا بذهب او ورقا بورق، فكان بين الذهبين فضل مثقال فاعطى صاحبه قيمته من الورق او من غيرها، فلا ياخذه، فإن ذلك قبيح وذريعة إلى الربا، لانه إذا جاز له ان ياخذ المثقال بقيمته، حتى كانه اشتراه على حدته، جاز له ان ياخذ المثقال بقيمته مرارا، لان يجيز ذلك البيع بينه وبين صاحبه. قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْوَرِقِ بِالْوَرِقِ مُرَاطَلَةً: أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ أَنْ يَأْخُذَ أَحَدَ عَشَرَ دِينَارًا بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ يَدًا بِيَدٍ إِذَا كَانَ وَزْنُ الذَّهَبَيْنِ سَوَاءً عَيْنًا بِعَيْنٍ، وَإِنْ تَفَاضَلَ الْعَدَدُ وَالدَّرَاهِمُ أَيْضًا فِي ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الدَّنَانِيرِ. قَالَ مَالِك: مَنْ رَاطَلَ ذَهَبًا بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقًا بِوَرِقٍ، فَكَانَ بَيْنَ الذَّهَبَيْنِ فَضْلُ مِثْقَالٍ فَأَعْطَى صَاحِبَهُ قِيمَتَهُ مِنَ الْوَرِقِ أَوْ مِنْ غَيْرِهَا، فَلَا يَأْخُذُهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ قَبِيحٌ وَذَرِيعَةٌ إِلَى الرِّبَا، لِأَنَّهُ إِذَا جَازَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ الْمِثْقَالَ بِقِيمَتِهِ، حَتَّى كَأَنَّهُ اشْتَرَاهُ عَلَى حِدَتِهِ، جَازَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ الْمِثْقَالَ بِقِيمَتِهِ مِرَارًا، لِأَنْ يُجِيزَ ذَلِكَ الْبَيْعَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ صَاحِبِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر بیچے تو کچھ قباحت نہیں، اگرچہ ایک پلڑے میں گیارہ دینار چڑھیں اور دوسری طرف دس دینار، جب نقداً نقد ہوں اور وزن برابر ہو، اگرچہ شمار میں کم زیادہ ہوں، ایسا ہی دراہم کا حکم ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»
حدیث نمبر: 1341ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: ولو انه باعه ذلك المثقال مفردا ليس معه غيره لم ياخذه بعشر الثمن الذي اخذه به، لان يجوز له البيع، فذلك الذريعة إلى إحلال الحرام والامر المنهي عنه. قال مالك في الرجل يراطل الرجل، ويعطيه الذهب العتق الجياد ويجعل معها تبرا ذهبا غير جيدة، وياخذ من صاحبه ذهبا كوفية مقطعة، وتلك الكوفية مكروهة عند الناس، فيتبايعان ذلك مثلا بمثل: إن ذلك لا يصلح. قَالَ مَالِك: وَلَوْ أَنَّهُ بَاعَهُ ذَلِكَ الْمِثْقَالَ مُفْرَدًا لَيْسَ مَعَهُ غَيْرُهُ لَمْ يَأْخُذْهُ بِعُشْرِ الثَّمَنِ الَّذِي أَخَذَهُ بِهِ، لِأَنْ يُجَوِّزَ لَهُ الْبَيْعَ، فَذَلِكَ الذَّرِيعَةُ إِلَى إِحْلَالِ الْحَرَامِ وَالْأَمْرُ الْمَنْهِيُّ عَنْهُ. قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يُرَاطِلُ الرَّجُلَ، وَيُعْطِيهِ الذَّهَبَ الْعُتُقَ الْجِيَادَ وَيَجْعَلُ مَعَهَا تِبْرًا ذَهَبًا غَيْرَ جَيِّدَةٍ، وَيَأْخُذُ مِنْ صَاحِبِهِ ذَهَبًا كُوفِيَّةً مُقَطَّعَةً، وَتِلْكَ الْكُوفِيَّةُ مَكْرُوهَةٌ عِنْدَ النَّاسِ، فَيَتَبَايَعَانِ ذَلِكَ مِثْلًا بِمِثْلٍ: إِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر بیچے، یا چاندی کو چاندی کےبدلے میں، اور ایک طرف کا سونا ایک مثقال زیادہ ہو اس کے بدلے میں دوسرا شخص چاندی یا اور کچھ دے کر سونا لے لے تو یہ درست نہیں، کیونکہ یہ ذریعہ ہے سود کا، کیونکہ اگر علیحدہ اس قدر سونا ہوتا تو کبھی چاندی کے بدلے میں نہ دیتا، یہاں صرف اس واسطے دیا کی یہ بیع درست ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»
حدیث نمبر: 1341ب3
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
. قال مالك: وتفسير ما كره من ذلك: ان صاحب الذهب الجياد اخذ فضل عيون ذهبه في التبر الذي طرح مع ذهبه، ولولا فضل ذهبه على ذهب صاحبه لم يراطله صاحبه بتبره ذلك إلى ذهبه الكوفية فامتنع، وإنما مثل ذلك كمثل رجل اراد ان يبتاع ثلاثة اصوع من تمر عجوة بصاعين ومد من تمر كبيس، فقيل له: هذا لا يصلح، فجعل صاعين من كبيس وصاعا من حشف يريد ان يجيز بذلك بيعه، فذلك لا يصلح لانه لم يكن صاحب العجوة ليعطيه صاعا من العجوة بصاع من حشف، ولكنه إنما اعطاه ذلك لفضل الكبيس، او ان يقول الرجل للرجل: بعني ثلاثة اصوع من البيضاء بصاعين ونصف من حنطة شامية، فيقول: هذا لا يصلح إلا مثلا بمثل، فيجعل صاعين من حنطة شامية وصاعا من شعير، يريد ان يجيز بذلك البيع فيما بينهما، فهذا لا يصلح لانه لم يكن ليعطيه بصاع من شعير صاعا من حنطة بيضاء لو كان ذلك الصاع مفردا، وإنما اعطاه إياه لفضل الشامية على البيضاء، فهذا لا يصلح، وهو مثل ما وصفنا من التبر. قال مالك: فكل شيء من الذهب والورق والطعام كله، الذي لا ينبغي ان يباع إلا مثلا بمثل فلا ينبغي ان يجعل مع الصنف الجيد من المرغوب فيه، الشيء الرديء المسخوط ليجاز البيع وليستحل بذلك ما نهي عنه من الامر الذي لا يصلح إذا جعل ذلك مع الصنف المرغوب فيه، وإنما يريد صاحب ذلك ان يدرك بذلك فضل جودة ما يبيع، فيعطي الشيء الذي لو اعطاه وحده لم يقبله صاحبه ولم يهمم بذلك، وإنما يقبله من اجل الذي ياخذ معه لفضل سلعة صاحبه على سلعته، فلا ينبغي لشيء من الذهب والورق والطعام ان يدخله شيء من هذه الصفة، فإن اراد صاحب الطعام الرديء ان يبيعه بغيره فليبعه على حدته، ولا يجعل مع ذلك شيئا، فلا باس به إذا كان كذلك. قَالَ مَالِك: وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ: أَنَّ صَاحِبَ الذَّهَبِ الْجِيَادِ أَخَذَ فَضْلَ عُيُونِ ذَهَبِهِ فِي التِّبْرِ الَّذِي طَرَحَ مَعَ ذَهَبِهِ، وَلَوْلَا فَضْلُ ذَهَبِهِ عَلَى ذَهَبِ صَاحِبِهِ لَمْ يُرَاطِلْهُ صَاحِبُهُ بِتِبْرِهِ ذَلِكَ إِلَى ذَهَبِهِ الْكُوفِيَّةِ فَامْتَنَعَ، وَإِنَّمَا مَثَلُ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَ ثَلَاثَةَ أَصْوُعٍ مِنْ تَمْرٍ عَجْوَةٍ بِصَاعَيْنِ وَمُدٍّ مِنْ تَمْرٍ كَبِيسٍ، فَقِيلَ لَهُ: هَذَا لَا يَصْلُحُ، فَجَعَلَ صَاعَيْنِ مِنْ كَبِيسٍ وَصَاعًا مِنْ حَشَفٍ يُرِيدُ أَنْ يُجِيزَ بِذَلِكَ بَيْعَهُ، فَذَلِكَ لَا يَصْلُحُ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُ الْعَجْوَةِ لِيُعْطِيَهُ صَاعًا مِنَ الْعَجْوَةِ بِصَاعٍ مِنْ حَشَفٍ، وَلَكِنَّهُ إِنَّمَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ لِفَضْلِ الْكَبِيسِ، أَوْ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: بِعْنِي ثَلَاثَةَ أَصْوُعٍ مِنَ الْبَيْضَاءِ بِصَاعَيْنِ وَنِصْفٍ مِنْ حِنْطَةٍ شَامِيَّةٍ، فَيَقُولُ: هَذَا لَا يَصْلُحُ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَيَجْعَلُ صَاعَيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ شَامِيَّةٍ وَصَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، يُرِيدُ أَنْ يُجِيزَ بِذَلِكَ الْبَيْعَ فِيمَا بَيْنَهُمَا، فَهَذَا لَا يَصْلُحُ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيُعْطِيَهُ بِصَاعٍ مِنْ شَعِيرٍ صَاعًا مِنْ حِنْطَةٍ بَيْضَاءَ لَوْ كَانَ ذَلِكَ الصَّاعُ مُفْرَدًا، وَإِنَّمَا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ لِفَضْلِ الشَّامِيَّةِ عَلَى الْبَيْضَاءِ، فَهَذَا لَا يَصْلُحُ، وَهُوَ مِثْلُ مَا وَصَفْنَا مِنَ التِّبْرِ. قَالَ مَالِك: فَكُلُّ شَيْءٍ مِنَ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ وَالطَّعَامِ كُلِّهِ، الَّذِي لَا يَنْبَغِي أَنْ يُبَاعَ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُجْعَلَ مَعَ الصِّنْفِ الْجَيِّدِ مِنَ الْمَرْغُوبِ فِيهِ، الشَّيْءُ الرَّدِيءُ الْمَسْخُوطُ لِيُجَازَ الْبَيْعُ وَلِيُسْتَحَلَّ بِذَلِكَ مَا نُهِيَ عَنْهُ مِنَ الْأَمْرِ الَّذِي لَا يَصْلُحُ إِذَا جُعِلَ ذَلِكَ مَعَ الصِّنْفِ الْمَرْغُوبِ فِيهِ، وَإِنَّمَا يُرِيدُ صَاحِبُ ذَلِكَ أَنْ يُدْرِكَ بِذَلِكَ فَضْلَ جَوْدَةِ مَا يَبِيعُ، فَيُعْطِي الشَّيْءَ الَّذِي لَوْ أَعْطَاهُ وَحْدَهُ لَمْ يَقْبَلْهُ صَاحِبُهُ وَلَمْ يَهْمُمْ بِذَلِكَ، وَإِنَّمَا يَقْبَلُهُ مِنْ أَجْلِ الَّذِي يَأْخُذُ مَعَهُ لِفَضْلِ سِلْعَةِ صَاحِبِهِ عَلَى سِلْعَتِهِ، فَلَا يَنْبَغِي لِشَيْءٍ مِنَ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ وَالطَّعَامِ أَنْ يَدْخُلَهُ شَيْءٌ مِنْ هَذِهِ الصِّفَةِ، فَإِنْ أَرَادَ صَاحِبُ الطَّعَامِ الرَّدِيءِ أَنْ يَبِيعَهُ بِغَيْرِهِ فَلْيَبِعْهُ عَلَى حِدَتِهِ، وَلَا يَجْعَلُ مَعَ ذَلِكَ شَيْئًا، فَلَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ كَذَلِكَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص کھرا سونا رکھ کر ایک ڈلا کھوٹے سونے کا بھی اس کے ساتھ رکھ دے اور دوسرے شخص سے اس کے ہموزن متوسط سونا خریدے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ کھرے سونے والے نے کھوٹا سونا ملا کر اپنا نقصان دفع کیا، اگر اس کا سونا عمدہ نہ ہوتا تو متوسط سونے والا اپنا سونا کاہے کو دیتا جب اس میں کھوٹا سونا ملا ہوا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے ایک شخص نے چاہا کہ تین صاع کھجور کے سوا دو صاع کبیس کھجور دے کر خریدے، جب اس سے کہا گیا یہ بیع جائز نہیں، اس نے دوصاع کبیس کے اور ایک صاع خراب کھجور کے دے کر تین صاع عجوہ کے خریدے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اگر الگ بیچتا تو کبھی ایک صاع عجوہ کے بدلے میں ایک صاع خراب کھجور نہ لیتا، یہاں پر کبیس کی وجہ سے اس نے لے لیا۔ اس کی مثال یہ بھی ہے کہ ایک شخص تین صاع متوسط گیہوں کی اڑھائی صاع عمده گیہوں کے بدلے میں خریدنا چاہے، جب اس سے کہا گیا: یہ درست نہیں تو اس نے عمدہ گیہوں کے دوصاع کے ساتھ ایک صاع جو ملا دیئے تاکہ متوسط تین صاع گیہوں کی بیع درست ہو جائے، تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اگر الگ بیچتا تو کبھی ایک صاع جو کے بدلے میں ایک صاع متوسط گیہوں کے نہ دیتا۔ حاصل یہ ہے کہ سونا چاندی یا کھانے کی چیزیں جن کو برابر بیچنا چاہیے اگر ان میں ایک طرف کھرا مال ہو اور دوسری طرف متوسط تو یہ درست نہیں، کھرے کے ساتھ تھوڑا کھوٹا ملا دے تاکہ یہ بیع جائز ہو، اور اپنے گھر کے مال کی زیادتی کھوٹ ملانے کی وجہ سے رفع ہو جائے، اور دوسرا شخص اس کھوٹ کو اس وجہ سے لے کہ کھرا مال جو اس کے مال سے بہتر ہے اس کے ساتھ موجود ہے، اگر وہ کھرا اس کے ساتھ نہ ہوتا تو کبھی یہ شخص اپنے متوسط مال کو اس کھوٹ کے بدلے نہ دیتا، البتہ اگر کوئی شخص کھوٹے مال کو علیحدہ کر کے بیچے تو کچھ قباحت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»
حدیث نمبر: 1341ب4
پی ڈی ایف بنائیں اعراب

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.