قال مالك: والامر عندنا في بيع البطيخ، والقثاء، والخربز، والجزر إن بيعه إذا بدا صلاحه حلال جائز، ثم يكون للمشتري ما ينبت حتى ينقطع ثمره ويهلك، وليس في ذلك وقت يؤقت، وذلك ان وقته معروف عند الناس، وربما دخلته العاهة، فقطعت ثمرته قبل ان ياتي ذلك الوقت، فإذا دخلته العاهة بجائحة تبلغ الثلث فصاعدا، كان ذلك موضوعا عن الذي ابتاعهقَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي بَيْعِ الْبِطِّيخِ، وَالْقِثَّاءِ، وَالْخِرْبِزِ، وَالْجَزَرِ إِنَّ بَيْعَهُ إِذَا بَدَا صَلَاحُهُ حَلَالٌ جَائِزٌ، ثُمَّ يَكُونُ لِلْمُشْتَرِي مَا يَنْبُتُ حَتَّى يَنْقَطِعَ ثَمَرُهُ وَيَهْلِكَ، وَلَيْسَ فِي ذَلِكَ وَقْتٌ يُؤَقَّتُ، وَذَلِكَ أَنَّ وَقْتَهُ مَعْرُوفٌ عِنْدَ النَّاسِ، وَرُبَّمَا دَخَلَتْهُ الْعَاهَةُ، فَقَطَعَتْ ثَمَرَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ ذَلِكَ الْوَقْتُ، فَإِذَا دَخَلَتْهُ الْعَاهَةُ بِجَائِحَةٍ تَبْلُغُ الثُّلُثَ فَصَاعِدًا، كَانَ ذَلِكَ مَوْضُوعًا عَنِ الَّذِي ابْتَاعَهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ خربوزہ اور ککڑی اور گاجر کا بیچنا درست ہے جب ان کی بہتری کا حال معلوم ہو جائے، پھر جو کچھ اُگیں وہ فصل کے تمام ہونے تک مشتری کے ہونگے، اس کا کوئی وقت مقرر نہیں، ہر جگہ کے دستور اور رواج کے موافق حکم ہوگا، اگر قبل اس وقت کے کسی آفت کے سبب نقصان ہو تہائی مال تک تو مشتری کو وہ نقصان مجرا دیا جائے گا، اور تہائی سے کم اگر نقصان ہو تو مجرا نہ دیا جائے گا۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، عن زيد بن ثابت ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " ارخص لصاحب العرية ان يبيعها بخرصها" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَرْخَصَ لِصَاحِبِ الْعَرِيَّةِ أَنْ يَبِيعَهَا بِخَرْصِهَا"
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی عریہ والے کو اپنا میوہ بیچنے کی اٹکل سے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2173، 2184، 2188، 2192، 2380، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1534، 1539، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5001، 5004، 5005، 5009، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8182، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4542، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6078، 6082، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3362، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1300، 1302، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2600، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2268، 2269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10758، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21965، والحميدي فى «مسنده» برقم: 403، 634، 689، والطبراني فى «الصغير» برقم: 40، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 14»
وحدثني، عن مالك، عن داود بن الحصين ، عن ابي سفيان مولى ابن ابي احمد، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " ارخص في بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة اوسق" . او في خمسة اوسق. يشك داود، قال: خمسة اوسق او دون خمسة اوسق. وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ" . أَوْ فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ. يَشُكُّ دَاوُدُ، قَالَ: خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَوْ دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی عریوں کے بیچنے کی اٹکل سے، بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہوں یا پانچ وسق کے اندر ہوں۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2190، 2382، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1541، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5006، 5007، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4545، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6087، 11706، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3364، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1301، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10777، 10778، 10779، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7235، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5603، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 14»
قال مالك: وإنما تباع العرايا بخرصها من التمر يتحرى ذلك، ويخرص في رءوس النخل، وإنما ارخص فيه لانه انزل بمنزلة التولية والإقالة والشرك، ولو كان بمنزلة غيره من البيوع ما اشرك احد احدا في طعامه حتى يقبضه المبتاعقَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا تُبَاعُ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا مِنَ التَّمْرِ يُتَحَرَّى ذَلِكَ، وَيُخْرَصُ فِي رُءُوسِ النَّخْلِ، وَإِنَّمَا أُرْخِصَ فِيهِ لِأَنَّهُ أُنْزِلَ بِمَنْزِلَةِ التَّوْلِيَةِ وَالْإِقَالَةِ وَالشِّرْكِ، وَلَوْ كَانَ بِمَنْزِلَةِ غَيْرِهِ مِنَ الْبُيُوعِ مَا أَشْرَكَ أَحَدٌ أَحَدًا فِي طَعَامِهِ حَتَّى يَقْبِضَهُ الْمُبْتَاعُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عریہ کا اندازہ درختوں پر کر لیا جائے گا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا، یہ تولیہ یا اقالہ یا شرکت کے مثل ہے، اگر یہ اور بیعوں کے مثل ہوتا تو کھانے کی چیزوں کا تولیہ یا اقالہ یا شرکت قبل قبضے کے نا درست ہے، یہ بھی درست نہ ہوتا۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن ابي الرجال محمد بن عبد الرحمن ، عن امه عمرة بنت عبد الرحمن ، انه سمعها تقول: ابتاع رجل ثمر حائط في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعالجه وقام فيه حتى تبين له النقصان، فسال رب الحائط ان يضع له او ان يقيله، فحلف ان لا يفعل، فذهبت ام المشتري إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تالى ان لا يفعل خيرا". فسمع بذلك رب الحائط، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، هو له حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَمِعَهَا تَقُولُ: ابْتَاعَ رَجُلٌ ثَمَرَ حَائِطٍ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَالَجَهُ وَقَامَ فِيهِ حَتَّى تَبَيَّنَ لَهُ النُّقْصَانُ، فَسَأَلَ رَبَّ الْحَائِطِ أَنْ يَضَعَ لَهُ أَوْ أَنْ يُقِيلَهُ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يَفْعَلَ، فَذَهَبَتْ أُمُّ الْمُشْتَرِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَأَلَّى أَنْ لَا يَفْعَلَ خَيْرًا". فَسَمِعَ بِذَلِكَ رَبُّ الْحَائِطِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ لَهُ
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے باغ کے پھل خریدے اور اس کی درستی میں مصروف ہوا، مگر ایسی آفت آئی جس سے نقصان معلوم ہوا، تو باغ کے مالک سے کہا: یا تو پھلوں کی قیمت کچھ کم کر دو یا اس بیع کو فسخ کر ڈالو، اس نے قسم کھا لی میں ہرگز نہ کروں گا، تب خریدار کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آن کر یہ سب قصّہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا قسم کھا لی اس نے کہ میں یہ بہتری کا کام نہ کروں گا۔“ جب مالکِ باغ کو یہ خبر پہنچی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جیسا خریدار کہے وہ مجھ کو منظور ہے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2705، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1557، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24909، 25249، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10667، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 15»
وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان عمر بن عبد العزيز " قضى بوضع الجائحة" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ " قَضَى بِوَضْعِ الْجَائِحَةِ" .
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حکم کیا مشتری کو نقصان دلانے کا، جب کھیت یا میوے کو آفت پہنچے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 16»
قال مالك: وعلى ذلك الامر عندنا. قال مالك: والجائحة التي توضع عن المشتري الثلث فصاعدا، ولا يكون ما دون ذلك جائحةقَالَ مَالِك: وَعَلَى ذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا. قَالَ مَالِك: وَالْجَائِحَةُ الَّتِي تُوضَعُ عَنِ الْمُشْتَرِي الثُّلُثُ فَصَاعِدًا، وَلَا يَكُونُ مَا دُونَ ذَلِكَ جَائِحَةً
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس آفت سے تہائی مال یا زیادہ کا نقصان ہوا ہو، اگر اس سے کم نقصان ہوگا اس کا شمار نہیں۔
حضرت عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ اُن کے دادا محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے باغ کا میوہ بیچا چار ہزار درہم کو، اس میں سے آٹھ سو درہم کے کھجور مستثنیٰ کر لئے، اس باغ کا نام افرق تھا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 15151، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 21197، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3415، والشافعي فى «الاُم» برقم: 60/3، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 18»