الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4035 :ترقیم البانی
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4103 :حدیث نمبر
سلسله احاديث صحيحه
ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق
जगत निर्माण, नबी और रसूलों का ज़िक्र और चमत्कार
2509. سیدہ ہاجرہ علیہا السلام نے مائے زمزم کو کیسے روکا؟
“ हज़रत हाजरा अलैहिस्सलाम ने ज़मज़म के पानी को कैसे रोका ? ”
حدیث نمبر: 3863
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" إن جبريل عليه السلام حين ركض زمزم بعقبه جعلت ام إسماعيل تجمع البطحاء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: رحم الله هاجرا ام إسماعيل، لو تركتها كانت عينا معينا".-" إن جبريل عليه السلام حين ركض زمزم بعقبه جعلت أم إسماعيل تجمع البطحاء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: رحم الله هاجرا أم إسماعيل، لو تركتها كانت عينا معينا".
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جبریل علیہ السلام نے زمزم کا پانی نکالنے کے لیے اپنی ایڑی پر زور دیا تو اسماعیل علیہ السلام کی ماں کشادہ وادی (‏‏‏‏پر بنیری بنا کر) اس کو جمع کرنے لگ گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ام ّ اسماعیل ہاجرہ پر رحم فرمائے، اگر اس پانی کو چھوڑ دیتی تو یہ جاری چشمہ ہوتا۔
2510. بنو اسرائیل کے قرضدار اور قرض خواہ کا ایک عجیب واقعہ، صدق دل سے اللہ تعالیٰ کو کفیل بنانے والوں کا انجام
“ बनि इसराईल के एक उधार लेने वाले की कहानी ، सच्चे दिल से अल्लाह को कफ़ील बनाने का फल ”
حدیث نمبر: 3864
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" إن رجلا من بني إسرائيل سال رجلا ان يسلفه الف دينار، فقال له: ائتني بشهداء اشهدهم عليك، فقال: كفى بالله شهيدا. قال: فائتني بكفيل. قال: كفى بالله كفيلا. قال: صدقت. قال: فدفع إليه الف دينار إلى اجل مسمى فخرج في البحر وقضى حاجته وجاء الاجل الذي اجل له، فطلب مركبا فلم يجده فاخذ خشبة فنقرها فادخل فيها الف دينار، وكتب صحيفة إلى صاحبها ثم زجج موضعها، ثم اتى بها البحر فقال: اللهم إنك قد علمت اني استسلفت من فلان الف دينار فسالني شهودا وسالني كفيلا، فقلت: كفى بالله كفيلا فرضي بك وقد جهدت ان اجد مركبا ابعث إليه بحقه فلم اجد وإني استودعتكها، فرمى بها في البحر! فخرج الرجل الذي كان اسلفه ينظر لعل مركبا يقدم بماله فإذا هو بالخشبة التي فيها المال، فاخذها حطبا فلما كسرها وجد المال والصحيفة فاخذها، فلما قدم الرجل قال له: إني لم اجد مركبا يخرج، فقال: إن الله قد ادى عنك الذي بعثت به في الخشبة، فانصرف بالالف راشدا".-" إن رجلا من بني إسرائيل سأل رجلا أن يسلفه ألف دينار، فقال له: ائتني بشهداء أشهدهم عليك، فقال: كفى بالله شهيدا. قال: فائتني بكفيل. قال: كفى بالله كفيلا. قال: صدقت. قال: فدفع إليه ألف دينار إلى أجل مسمى فخرج في البحر وقضى حاجته وجاء الأجل الذي أجل له، فطلب مركبا فلم يجده فأخذ خشبة فنقرها فأدخل فيها ألف دينار، وكتب صحيفة إلى صاحبها ثم زجج موضعها، ثم أتى بها البحر فقال: اللهم إنك قد علمت أني استسلفت من فلان ألف دينار فسألني شهودا وسألني كفيلا، فقلت: كفى بالله كفيلا فرضي بك وقد جهدت أن أجد مركبا أبعث إليه بحقه فلم أجد وإني استودعتكها، فرمى بها في البحر! فخرج الرجل الذي كان أسلفه ينظر لعل مركبا يقدم بماله فإذا هو بالخشبة التي فيها المال، فأخذها حطبا فلما كسرها وجد المال والصحيفة فأخذها، فلما قدم الرجل قال له: إني لم أجد مركبا يخرج، فقال: إن الله قد أدى عنك الذي بعثت به في الخشبة، فانصرف بالألف راشدا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنواسرائیل کے ایک آدمی نے کسی سے ایک ہزار دینار ادھار لینے کا سوال کیا۔ اس نے کہا: کوئی گواہ لاؤ، جسے میں تجھ پر گواہ بنا سکوں۔ اس نے کہا: اللہ ہی بطور گواہ کافی ہے۔ اس نے کہا: تو پھر کوئی کفیل لاؤ۔ اس نے کہا: اللہ ہی بطور کفیل کافی ہے۔ اس نے کہا: تو نے سچ کہا ہے۔ پس اس نے اسے ایک مقررہ وقت تک ایک ہزار دینار قرضہ دے دیا۔ وہ آدمی سمندر کی طرف روانہ ہو گیا اور اپنی ضرورت پوری کی۔ جب مقررہ وقت آ پہنچا تو اس نے کوئی سواری تلاش کی، لیکن نہ مل سکی۔ سو اس نے ایک لکڑی لی اور اس میں کھدائی کر کے ایک ہزار دینار رکھ دیا اور ان کے مالک کی طرف ایک خط لکھا اور (‏‏‏‏لوہے وغیرہ کے ذریعے اس سوراخ کو) بند کر دیا، پھر وہ لکڑی لے کر سمندر کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں آدمی سے ایک ہزار دینار اھار لیا تھا، جب اس نے مجھ سے شاہد اور کفیل کا مطالبہ کیا تو میں نے کہا تھا کہ اللہ ہی بطور کفیل کافی ہے۔ وہ (‏‏‏‏تیری کفالت پر) راضی ہو گیا تھا اور اب میں نے سواری تلاش تو کی تاکہ اس کا حق اس تک پہنچا دوں، لیکن سواری نہیں مل رہی۔ اب میں اس مال کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔ پھر اس نے وہ لکڑی سمندر میں پھینک دی۔ ا‏‏‏‏دھر ادھار دینے والا آدمی اس غرض سے نکلا کہ شاید (‏‏‏‏کوئی سوار) کسی سواری پر سوار ہو کر (‏‏‏‏میرا قرضہ چکانے کے لیے) میرا مال لے کر آ رہا ہو۔ اچانک (‏‏‏‏اسے سمندر کے کنارے پر) ایک لکڑی نظر آئی جس میں اس کا مال تھا۔ اس نے ایندھن کا کام لینے کے لیے وہ لکڑی اٹھا لی، جب اسے توڑا تو اسے مال اور خط موصول ہوا، اس نے وہ لے لیا۔ بعد میں قرضہ لینے والا آدمی (‏‏‏‏ایک ہزار دینار لے کر) خود بھی پہنچ گیا اور کہا: مجھے کوئی سواری نہیں مل سکی تھی (‏‏‏‏لہٰذا اب یہ قرضہ چکانے آیا ہوں)۔ قرضہ دینے والے نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ تک وہ چیزیں پہنچا دی، جو تو نے لکڑی میں بھیجی تھی۔ سو وہ کامیاب ہو کر واپس پلٹ گیا۔ ‏‏‏‏
2511. یوشع نبی کے لیے سورج کا رکنا اور اس کی وجہ، سابقہ امتوں کے مجاہدوں کا مال غنیمت آگ کھا جاتی تھی
“ यूशअ बिन नून के लिए सूर्य का रुक जाना ، पिछली उम्मतों का माल ग़नीमत आग खा जाती थी ”
حدیث نمبر: 3865
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" إن الشمس لم تحبس على بشر إلا ليوشع ليالي سار إلى بيت المقدس" وفي رواية" غزا نبي من الانبياء، فقال لقومه: لا يتبعني رجل قد ملك بضع امراة، وهو يريد ان يبني بها، ولما يبن" بها"، ولا آخر قد بنى بنيانا، ولما يرفع سقفها، ولا آخر قد اشترى غنما او خلفات، وهو منتظر ولادها، قال: فغزا، فادنى للقرية حين صلاة العصر، او قريبا من ذلك،" وفي رواية: فلقي العدو عند غيبوبة الشمس"، فقال للشمس: انت مامورة، وانا مامور، اللهم احبسها علي شيئا، فحبست عليه، حتى فتح الله عليه،" فغنموا الغنائم"، قال: فجمعوا ما غنموا، فاقبلت النار لتاكله، فابت ان تطعمه" وكانوا إذا غنموا الغنمية بعث الله تعالى عليها النار فاكلتها" فقال: فيكم غلول، فليبايعني من كل قبيلة رجل، فبايعوه، فلصقت يد رجل بيده، فقال: فيكم الغلول، فلتبايعني قبيلتك، فبايعته، قال: فلصقت بيد رجلين او ثلاثة" يده"، فقال: فيكم الغلول، انتم غللتم،" قال: اجل قد غللنا صورة وجه بقرة من ذهب"، قال: فاخرجوه له مثل راس بقرة من ذهب، قال: فوضعوه في المال، وهو بالصعيد، فاقبلت النار فاكلته، فلم تحل الغنائم لاحد من قبلنا، ذلك بان الله تبارك وتعالى راى ضعفنا وعجزنا فطيبها لنا،" وفي رواية" فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: إن الله اطعمنا الغنائم رحمة بنا وتخفيفا، لما علم من ضعفنا".-" إن الشمس لم تحبس على بشر إلا ليوشع ليالي سار إلى بيت المقدس" وفي رواية" غزا نبي من الأنبياء، فقال لقومه: لا يتبعني رجل قد ملك بضع امرأة، وهو يريد أن يبني بها، ولما يبن" بها"، ولا آخر قد بنى بنيانا، ولما يرفع سقفها، ولا آخر قد اشترى غنما أو خلفات، وهو منتظر ولادها، قال: فغزا، فأدنى للقرية حين صلاة العصر، أو قريبا من ذلك،" وفي رواية: فلقي العدو عند غيبوبة الشمس"، فقال للشمس: أنت مأمورة، وأنا مأمور، اللهم احبسها علي شيئا، فحبست عليه، حتى فتح الله عليه،" فغنموا الغنائم"، قال: فجمعوا ما غنموا، فأقبلت النار لتأكله، فأبت أن تطعمه" وكانوا إذا غنموا الغنمية بعث الله تعالى عليها النار فأكلتها" فقال: فيكم غلول، فليبايعني من كل قبيلة رجل، فبايعوه، فلصقت يد رجل بيده، فقال: فيكم الغلول، فلتبايعني قبيلتك، فبايعته، قال: فلصقت بيد رجلين أو ثلاثة" يده"، فقال: فيكم الغلول، أنتم غللتم،" قال: أجل قد غللنا صورة وجه بقرة من ذهب"، قال: فأخرجوه له مثل رأس بقرة من ذهب، قال: فوضعوه في المال، وهو بالصعيد، فأقبلت النار فأكلته، فلم تحل الغنائم لأحد من قبلنا، ذلك بأن الله تبارك وتعالى رأى ضعفنا وعجزنا فطيبها لنا،" وفي رواية" فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: إن الله أطعمنا الغنائم رحمة بنا وتخفيفا، لما علم من ضعفنا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک سورج کسی بشر کے لیے کبھی بھی نہیں روکا گیا، سوائے یوشع بن نون کے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے، ایک روایت میں ہے: انبیاء میں سے ایک نبی نے جہاد کیا، اس نے اپنی قوم سے کہا: وہ آدمی میرے ساتھ نہ آئے جو کسی عورت کی شرمگاہ کا مالک بن چکا ہے (‏‏‏‏یعنی اس نے نکاح کر لیا ہے) اور رخصتی کرنا چاہتا ہے، لیکن ابھی تک نہیں کی، وہ آدمی بھی (‏‏‏‏میرے لشکر میں شریک) نہ ہو، جس نے کوئی گھر بنانا شروع کیا ہے، لیکن ابھی تک چھت نہیں کیا اور جو آدمی بکریاں یا ایسے حاملہ جانور خرید چکا ہے، کہ جن کے بچوں کی ولادت کا اسے انتظار ہے، وہ بھی ہمارے ساتھ نہ آئے۔ (‏‏‏‏یہ اعلان کرنے کے بعد) وہ غزوہ کے لیے روانہ ہو گیا، جب وہ ایک گاؤں کے پاس پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا، یا قریب تھا۔ (‏‏‏‏اور ایک روایت میں ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے دشمنوں سے مقابلہ ہوا)۔ اس وقت اس نبی نے سورج سے کہا: تو بھی (‏‏‏‏اللہ تعالیٰ کا) مامور ہے اور میں بھی (‏‏‏‏اسی کا) مامور ہوں۔ اے اللہ! تو اس سورج کو میرے لیے کچھ دیر تک روک لے۔ پس اسے روک دیا گیا، (‏‏‏‏وہ جہاد میں مگن رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح عطا کی اور کافی غنیمتیں حاصل ہوئیں۔ اس لشکر والوں نے (‏‏‏‏اس وقت کے شرعی قانون کے مطابق) غنیمتوں کا مال جمع کیا، اسے کھانے کے لیے آگ آئی، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا اصول یہ تھا کہ جب وہ غنیمت کا مال حاصل کرتے تو اللہ تعالیٰ آگ بھیجتا جو اسے کھا جاتی۔ اس نبی نے (‏‏‏‏آگ کے نہ کھانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہا: تم میں سے کسی نے خیانت کی ہے، لہٰذا ہر قبلیے سے ایک ایک آدمی میری بیعت کرے۔ انہوں نے بیعت کی۔ بیعت کے دوران ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے ساتھ چپک گیا۔ اس وقت انہوں نے کہا: تم میں خیانت ہے۔ اب تیرے قبیلے کا ہر آدمی میری بیعت کرے گا (‏‏‏‏تاکہ مجرم کا پتہ چل سکے)، انہوں نے بیعت شروع کی، بالآخر دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ چپک گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تم میں خیانت ہے، تم نے خیانت کی ہے۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، ہم نے گائے کے چہرے کی مانند بنی ہوئی سونے کی ایک مورتی کی خیانت کی ہے۔ پھر وہ گائے کے چہرے کی طرح کی بنی ہوئی چیز لے کر آئے اور اسے مٹی کے ساتھ مال غنیمت میں رکھ دیا، پھر آگ متوجہ ہوئی اور مال غنیمت کھا گئی۔ ہم (‏‏‏‏امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے کسی کے لیے بھی مال غنیمت حلال نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ ہم ضعیف اور بے بس ہیں تو غنیمتوں کو ہمارے لیے حلال قرار دیا۔ ‏‏‏‏ اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ رحم کرتے ہوئے اور ہماری کمزوری کی بنا پر ہمارے ساتھ تخفیف کرتے ہوئے ہمیں غنیمت کا مال کھانے کی اجازت دے دی۔
حدیث نمبر: 3866
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" ما حبست الشمس على بشر قط إلا على يوشع بن نون ليالي سار إلى بيت المقدس".-" ما حبست الشمس على بشر قط إلا على يوشع بن نون ليالي سار إلى بيت المقدس".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏کسی بشر کے لئے کبھی بھی سورج کو نہیں روکا گیا، سوائے یوشع بن نون کے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے۔
2512. شیطان ایک جوتے میں چلتا ہے، اس لیے . . .
“ शैतान एक जूते में चलता है ، इस लिए . . ”
حدیث نمبر: 3867
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" إن الشيطان يمشي في النعل الواحدة".-" إن الشيطان يمشي في النعل الواحدة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک شیطان ایک جوتا پہن کر چلتا ہے۔
2513. صور پھونکنے والے فرشتے کی کیفیت
“ सूर फूंकने वाले फ़रिश्ते का हाल ”
حدیث نمبر: 3868
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" إن طرف صاحب الصور منذ وكل به مستعد ينظر نحو العرش مخافة ان يؤمر قبل ان يرتد إليه طرفه كان عينيه كوكبان دريان".-" إن طرف صاحب الصور منذ وكل به مستعد ينظر نحو العرش مخافة أن يؤمر قبل أن يرتد إليه طرفه كأن عينيه كوكبان دريان".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سے صور پھونکنے کی ذمہ داری صور پھونکنے والے فرشتے کو سونپی گئی، اس وقت سے اس کی نگاہ پلکوں کی جھپک کے بغیر عرش کی طرف لگی ہوئی ہے، اس ڈر سے کہ کہیں پلکوں کی جھپک کے لوٹنے سے پہلے ہی حکم نہ دے دیا جائے۔ (‏‏‏‏ہمیشہ سے کھلا رہنے کی وجہ سے) اس کی آنکھیں دو چمکدار ستاروں کی مانند لگتی ہیں۔
2514. سو افراد کے قاتل کی توبہ
“ एक सौ लोगों को क़त्ल करने वाले की तौबा ”
حدیث نمبر: 3869
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" إن عبدا قتل تسعة وتسعين نفسا، ثم عرضت له التوبة، فسال عن اعلم اهل الارض، فدل على رجل (وفي رواية راهب)، فاتاه، فقال: إني قتلت تسعة وتسعين نفسا، فهل لي من توبة؟؟ قال: بعد قتل تسعة وتسعين نفسا؟! قال: فانتضى سيفه فقتله به، فاكمل به مائة، ثم عرضت له التوبة، فسال عن اعلم اهل الارض؟ فدل على رجل [عالم]، فاتاه فقال: إني قتلت مائة نفس فهل لي من توبة؟ فقال: ومن يحول بينك وبين التوبة؟! اخرج من القرية الخبيثة التي انت فيها إلى القرية الصالحة قرية كذا وكذا، [فإن بها اناسا يعبدون الله]، فاعبد ربك [ معهم] فيها، [ولا ترجع إلى ارضك فإنها ارض سوء]، قال: فخرج إلى القرية الصالحة، فعرض له اجله في [بعض] الطريق، [فناء بصدره نحوها]، قال: فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، قال: فقال إبليس: انا اولى به، إنه لم يعصني ساعة قط! قال: فقالت ملائكة الرحمة: إنه خرج تائبا [مقبلا بقلبه إلى الله، وقالت ملائكة العذاب: إنه لم يعمل خيرا قط]- فبعث الله عز وجل ملكا [في صورة آدمي] فاختصموا إليه - قال: فقال: انظروا اي القريتين كان اقرب إليه فالحقوه باهلها، [فاوحى الله إلى هذه ان تقربي، واوحى إلى هذه ان تباعدي]، [فقاسوه، فوجدوه ادنى إلى الارض التي اراد [بشبر]، فقبضته ملائكة الرحمة] [فغفر له]. قال الحسن: لما عرف الموت احتفز بنفسه (وفي رواية: ناء بصدره) فقرب الله عز وجل منه القرية الصالحة، وباعد منه القرية الخبيثة، فالحقوه باهل القرية الصالحة".-" إن عبدا قتل تسعة وتسعين نفسا، ثم عرضت له التوبة، فسأل عن أعلم أهل الأرض، فدل على رجل (وفي رواية راهب)، فأتاه، فقال: إني قتلت تسعة وتسعين نفسا، فهل لي من توبة؟؟ قال: بعد قتل تسعة وتسعين نفسا؟! قال: فانتضى سيفه فقتله به، فأكمل به مائة، ثم عرضت له التوبة، فسأل عن أعلم أهل الأرض؟ فدل على رجل [عالم]، فأتاه فقال: إني قتلت مائة نفس فهل لي من توبة؟ فقال: ومن يحول بينك وبين التوبة؟! اخرج من القرية الخبيثة التي أنت فيها إلى القرية الصالحة قرية كذا وكذا، [فإن بها أناسا يعبدون الله]، فاعبد ربك [ معهم] فيها، [ولا ترجع إلى أرضك فإنها أرض سوء]، قال: فخرج إلى القرية الصالحة، فعرض له أجله في [بعض] الطريق، [فناء بصدره نحوها]، قال: فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، قال: فقال إبليس: أنا أولى به، إنه لم يعصني ساعة قط! قال: فقالت ملائكة الرحمة: إنه خرج تائبا [مقبلا بقلبه إلى الله، وقالت ملائكة العذاب: إنه لم يعمل خيرا قط]- فبعث الله عز وجل ملكا [في صورة آدمي] فاختصموا إليه - قال: فقال: انظروا أي القريتين كان أقرب إليه فألحقوه بأهلها، [فأوحى الله إلى هذه أن تقربي، وأوحى إلى هذه أن تباعدي]، [فقاسوه، فوجدوه أدنى إلى الأرض التي أراد [بشبر]، فقبضته ملائكة الرحمة] [فغفر له]. قال الحسن: لما عرف الموت احتفز بنفسه (وفي رواية: ناء بصدره) فقرب الله عز وجل منه القرية الصالحة، وباعد منه القرية الخبيثة، فألحقوه بأهل القرية الصالحة".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کیا میں تمہیں وہ حدیث بیان نہ کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنی، میرے کانوں نے وہ حدیث سنی اور میرے دل نے اسے یاد کیا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے ننانوے افراد قتل کر دیے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا۔ اس نے روئے زمین کے سب سے بڑے عالم کی بابت لوگوں سے پوچھا؟ اسے ایک راہب (‏‏‏‏پادری) کا پتہ بتایا گیا۔ وہ اس کے پاس پہنچا اور پوچھا کہ وہ ننانوے آدمی قتل کر چکا ہے، کیا ایسے فرد کے لیے توبہ ہے؟ اس نے جواب دیا: کیا ننانوے افراد کے قتل کے بعد؟ (‏‏‏‏ایسے شخص کے لیے کوئی توبہ نہیں)۔ اس نے تلوار میان سے نکالی اور اسے قتل کر کے سو کی تعداد پوری کر لی۔ پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اس نے لوگوں سے اہل زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا۔ اس کے لیے ایک عالم کی نشاندہی کی گئی، وہ اس کے پاس گیا اور کہا میں سو افراد قتل کر چکا ہوں، کیا میرے لیے توبہ (‏‏‏‏کی کوئی گنجائش) ہے۔ اس نے کہا تیرے اور تیری توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ لیکن تو اس طرح کر کہ اس خبیث بستی سے نکل کر فلاں فلاں کسی نیک بستی کی طرف چلا جا۔ کیونکہ وہاں کے لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تو بھی ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اپنے علاقے کی طرف مت لوٹنا کیونکہ یہ بری سر زمین ہے۔ وہ نیک بستی کی طرف چل پڑا، لیکن راستے میں اسے موت آ گئی، وہ اپنے سینے کے سہارے سرک کر پہلی زمین سے دور ہو کر (‏‏‏‏تھوڑا سا) دوسری طرف ہو گیا۔ (‏‏‏‏اسے لینے کے لیے) رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں آ گئے اور ان کے مابین جھگڑا شروع ہو گیا۔ ابلیس نے کہا: میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، اس نے کبھی بھی میری نافرمانی نہیں کی تھی۔ لیکن ملائکہ رحمت نے کہا: یہ تائب ہو کر آیا تھا اور دل کی پوری توجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے والا تھا اور ملائکہ عذاب نے کہا: اس نے کبھی بھی کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو ایک آدمی کی شکل میں بھیجا۔ انہوں نے اس کے سامنے یہ جھگڑا پیش کیا۔ اس نے کہا دیکھو کہ کون سی بستی اس کے قریب ہے، اسی بستی والوں سے اس کو ملا دیا جائے۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو (‏‏‏‏جہاں سے وہ آ رہا تھا) حکم دیا کہ تو دور ہو جا اور ارض صالحین (‏‏‏‏جس کی طرف وہ جا رہا تھا) حکم دیا کہ تو قریب ہو جا۔ جب انہوں نے اس کی پیمائش کی تو جس زمین کی طرف وہ جا رہا تھا، اسے (‏‏‏‏دوسری کی بہ نسبت) ایک بالشت زیادہ قریب پایا۔ پس رحمت کے فرشتے اسے لے گئے اور اسے بخش دیا گیا۔ حسن راوی کہتے ہیں: جب اسے موت کا علم ہوا تو وہ (‏‏‏‏ ‏‏‏‏نیک بستی کی طرف) سکڑ گیا، اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے سینے کے سہارے (‏‏‏‏نیک بستی کی طرف) سرک گیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اسے قریۂ صالحہ کے قریب کر دیا اور قریۂ خبیثہ سے دور کر دیا، تو ان فرشتوں نے اسے نیک بستی والے لوگوں میں شامل کر دیا۔
2515. فرشتے فرعون کی بیوی پر سایہ کرتے تھے، آسیہ کی دعا کی قبولیت
“ फ़िरऔन की पत्नी आसियह पर बाबलों की छाया , आसियह की दुआ स्वीकार की गई ”
حدیث نمبر: 3870
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" إن فرعون اوتد لامراته اربعة اوتاد في يديها ورجليها، فكان إذا تفرقوا عنها ظللتها الملائكة، فقالت: * (رب ابن لي عندك بيتا في الجنة ونجني من فرعون وعمله ونجني من القوم الظالمين) *، فكشف لها عن بيتها في الجنة".-" إن فرعون أوتد لامرأته أربعة أوتاد في يديها ورجليها، فكان إذا تفرقوا عنها ظللتها الملائكة، فقالت: * (رب ابن لي عندك بيتا في الجنة ونجني من فرعون وعمله ونجني من القوم الظالمين) *، فكشف لها عن بيتها في الجنة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: فرعون نے اپنی بیوی کے دو ہاتھوں اور دو پاؤں میں چار میخیں گاڑ دیں۔ جب وہ (‏‏‏‏فرعونی) اس سے جدا ہوتے تھے تو فرشتے اس پر سایہ کر لیتے تھے، اس بیوی نے کہا: ‏‏‏‏ اے میرے رب! اپنے ہاں میرے لیے جنت میں گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے بھی چھٹکارا نصیب فرما، سو اللہ تعالیٰ نے جنت میں اس کے گھر سے پردہ ہٹا کر (‏‏‏‏اسے اس کا گھر دکھایا)۔
2516. شراب ام الخبائث ہے، ایک آدمی نے زنا، قتل اور خنزیر کے گوشت سے بچنے کے لیے شراب پی لی، لیکن . . .
“ शराब बुराइयों की मां है , एक आदमी ने ज़िना , क़त्ल और सूअर के मांस से बचने के लिए शराब पी थी , लेकिन . . ”
حدیث نمبر: 3871
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" إن ملكا من بني إسرائيل اخذ رجلا، فخيره بين ان يشرب الخمر او يقتل صبيا او يزني او ياكل لحم الخنزير او يقتلوه إن ابى، فاختار ان يشرب الخمر وإنه لما شربها لم يمتنع من شيء ارادوه منه، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا حينئذ: ما من احد يشربها فتقبل له صلاة اربعين ليلة، ولا يموت وفي مثانته منها شيء إلا حرمت عليه الجنة، وإن مات في الاربعين مات ميتة جاهلية".-" إن ملكا من بني إسرائيل أخذ رجلا، فخيره بين أن يشرب الخمر أو يقتل صبيا أو يزني أو يأكل لحم الخنزير أو يقتلوه إن أبى، فاختار أن يشرب الخمر وإنه لما شربها لم يمتنع من شيء أرادوه منه، وأن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا حينئذ: ما من أحد يشربها فتقبل له صلاة أربعين ليلة، ولا يموت وفي مثانته منها شيء إلا حرمت عليه الجنة، وإن مات في الأربعين مات ميتة جاهلية".
سالم بن عبداللہ بن عمر اپنے باپ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، وہ سب سے بڑے گناہوں کا تذکرہ کرنے لگے۔ لیکن ان کے پاس کوئی ایسی علمی بات نہ تھی، جس پر موضوع ختم ہو سکے۔ پس انہوں نے مجھ (‏‏‏‏ ‏‏‏‏عبداللہ) کو سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، تاکہ میں ان سے اس کے بارے میں سوال کر سکوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ سب سے بڑا گناہ شراب نوشی ہے۔ میں ان کے پاس واپس آیا اور انہیں یہ بات بتلائی، لیکن انہوں نے اس بات کو تسلیم نہ کیا اور وہ سارے اٹھ کھڑے ہوئے، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے۔ اب کی بار انہوں نے تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو اسرائیل کے ایک بادشاہ نے ایک آدمی کو پکڑا اور اسے شراب پینے، بچے کو قتل کرنے، زنا کرنے اور خنزیر کا گوشت کھانے میں اختیار دیتے ہوئے کسی (‏‏‏‏ایک جرم کا ارتکاب کرنے پر مجبور کیا)، وگرنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے شراب پی لی۔ لیکن جب شراب پی تو وہ ان تمام جرائم سے نہ رک سکا جو وہ اس سے چاہتے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا تھا: جو آدمی شراب پیئے گا، چالیس دن اس کی نماز قبول نہ ہو گی، جو آدمی اس حال میں مرے گا کہ اس کے مثانے میں کچھ شراب ہو تو اس پر جنت حرام ہو گی اور اگر وہ (‏‏‏‏شراب نوشی کے بعد) چالیس دنوں کے اندر اندر مر گیا تو وہ جاہلیت والی موت مرے گا۔
2517. ایوب علیہ السلام کی بیماری کا واقعہ
“ अय्यूब अलैहिस्सलाम की बीमारी की घटना ”
حدیث نمبر: 3872
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
-" إن نبي الله ايوب صلى الله عليه وسلم لبث به بلاؤه ثمان عشرة سنة فرفضه القريب والبعيد إلا رجلين من إخوانه كانا يغدوان إليه ويروحان، فقال احدهما لصاحبه ذات يوم: تعلم والله لقد اذنب ايوب ذنبا ما اذنبه احد من العالمين فقال له صاحبه: وما ذاك؟ قال: منذ ثمان عشرة سنة لم يرحمه الله فيكشف ما به فلما راحا إلى ايوب لم يصبر الرجل حتى ذكر ذلك له، فقال ايوب: لا ادري ما تقولان غير ان الله تعالى يعلم اني كنت امر بالرجلين يتنازعان، فيذكران الله فارجع إلى بيتي فاكفر عنهما كراهية ان يذكر الله إلا في حق، قال: وكان يخرج إلى حاجته فإذا قضى حاجته امسكته امراته بيده حتى يبلغ، فلما كان ذات يوم ابطا عليها واوحي إلى ايوب ان * (اركض برجلك هذا مغتسل بارد وشراب) * فاستبطاته فتلقته تنظر وقد اقبل عليها قد اذهب الله ما به من البلاء وهو احسن ما كان فلما راته قالت: اي بارك الله فيك هل رايت نبي الله هذا المبتلى، والله على ذلك ما رايت اشبه منك إذ كان صحيحا، فقال: فإني انا هو، وكان له اندران (اي بيدران): اندر للقمح واندر للشعير، فبعث الله سحابتين، فلما كانت إحداهما على اندر القمح افرغت فيه الذهب حتى فاض وافرغت الاخرى في اندر الشعير الورق حتى فاض".-" إن نبي الله أيوب صلى الله عليه وسلم لبث به بلاؤه ثمان عشرة سنة فرفضه القريب والبعيد إلا رجلين من إخوانه كانا يغدوان إليه ويروحان، فقال أحدهما لصاحبه ذات يوم: تعلم والله لقد أذنب أيوب ذنبا ما أذنبه أحد من العالمين فقال له صاحبه: وما ذاك؟ قال: منذ ثمان عشرة سنة لم يرحمه الله فيكشف ما به فلما راحا إلى أيوب لم يصبر الرجل حتى ذكر ذلك له، فقال أيوب: لا أدري ما تقولان غير أن الله تعالى يعلم أني كنت أمر بالرجلين يتنازعان، فيذكران الله فأرجع إلى بيتي فأكفر عنهما كراهية أن يذكر الله إلا في حق، قال: وكان يخرج إلى حاجته فإذا قضى حاجته أمسكته امرأته بيده حتى يبلغ، فلما كان ذات يوم أبطأ عليها وأوحي إلى أيوب أن * (اركض برجلك هذا مغتسل بارد وشراب) * فاستبطأته فتلقته تنظر وقد أقبل عليها قد أذهب الله ما به من البلاء وهو أحسن ما كان فلما رأته قالت: أي بارك الله فيك هل رأيت نبي الله هذا المبتلى، والله على ذلك ما رأيت أشبه منك إذ كان صحيحا، فقال: فإني أنا هو، وكان له أندران (أي بيدران): أندر للقمح وأندر للشعير، فبعث الله سحابتين، فلما كانت إحداهما على أندر القمح أفرغت فيه الذهب حتى فاض وأفرغت الأخرى في أندر الشعير الورق حتى فاض".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏اللہ تعالیٰ کے نبی ایوب علیہ السلام اٹھارہ برس بیمار رہے۔ قریب و بعید کے تمام رشتہ دار بےرخی کر گئے، البتہ ان کے دو بھائی صبح و شام ان کے پاس آتے جاتے تھے۔ ایک دن ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: آیا تو جانتا ہے، اللہ کی قسم! (‏‏‏‏میرا خیال یہ ہے کہ) ایوب نے کوئی ایسا گناہ کیا ہے، جو جہانوں میں سے کسی فرد نے نہیں کیا؟ اس کے ساتھی نے کہا: وہ کون سا؟ اس نے کہا: (‏‏‏‏دیکھو) اٹھارہ سال ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم نہیں کیا کہ اس کی بیماری دور کر دے۔ جب وہ بوقت شام ایوب کے پاس آئے تو ایک نے بے صبری میں وہ بات ذکر کر دی۔ ایوب علیہ السلام نے (‏‏‏‏ان کا الزام سن کر) کہا: جو کچھ تم کہہ رہے ہو، اس قسم کی کوئی بات میرے علم میں تو نہیں ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ دو آدمیوں کے پاس سے میرا گزر ہوتا تھا، وہ آپس میں جھگڑ رہے ہوتے تھے، وہ مجھے اللہ تعالیٰ ّ کا واسطہ دے دیتے اور میں اپنے گھر واپس چلا جاتا تھا اور اس وجہ سے ان دونوں کی طرف سے کفارہ ادا کر دیتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہوں نے مجھے ناحق انداز میں اللہ تعالیٰ کا واسطہ نہ دیا ہو۔ ایوب علیہ السلام قضائے حاجت کے لیے باہر جاتے تھے، جب وہ قضائے حاجت کر لیتے تو ان کی بیوی ان کو ہاتھ سے پکڑ کر سہارا دیتی تھی، حتیٰ کہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ جاتے تھے۔ ایک دن وہ لیٹ ہو گئے اور (‏‏‏‏ ان کی بیوی ان کے انتظار میں رہی) اور اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی: ‏‏‏‏اپنا پاؤں مارو، یہ نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے۔ (‏‏‏‏سورۂ ص: ۴۲) ا‏‏‏‏دھر ان کی بیوی کو خیال آ رہا تھا کہ وہ دیر کر رہے ہیں۔ جب وہ واپس پلٹے تو اللہ تعالیٰ ان کی تمام بیماریاں دور کر چکے تھے اور وہ بہت حسین لگ رہے تھے۔ جب ان کی بیوی نے ان کو دیکھا تو (‏‏‏‏نہ پہچان سکی اور ان سے) پوچھا: اللہ تعالیٰ تجھ میں برکت پیدا کرے، کیا تو نے اللہ کے نبی، جو بیمار ہیں، کو دیکھا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہیں کہ جب وہ نبی صحتمند تھے تو تجھ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا: میں وہی (‏‏‏‏ایوب) ہوں (‏‏‏‏اب اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے)۔ ایوب علیہ السلام کے دو کھلیان تھے، ایک گندم کا تھا اور ایک جو کا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے دو بدلیاں بھیجیں، ایک بدلی گندم والے کھلیان پر آ کر سونا برسنے لگی اور دوسری جو والے کھلیان پر آ کر چاندی برسنے لگی، (‏‏‏‏اس طرح اللہ تعالیٰ نے صحت بھی دے دی اور مال کثیر بھی عطا کر دیا)۔

Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.