الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
حدیث نمبر: 4599
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابن نمير ، حدثنا هشام ، قال: قال ابي : فاخبرت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لقد حكمت فيهم بحكم الله عز وجل ".وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: قَالَ أَبِي : فَأُخْبِرْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
عروہ نے کہا: مجھے بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے ان کے بارے میں اللہ عزوجل کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے
حضرت عروہ بیان کرتے ہیں مجھے یہ بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ان کے بارے میں اللہ عزوجل کا فیصلہ کیا ہے۔
حدیث نمبر: 4600
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابن نمير ، عن هشام ، اخبرني ابي ، عن عائشة " ان سعدا قال: وتحجر كلمه للبرء، فقال: اللهم إنك تعلم ان ليس احد احب إلي ان اجاهد فيك من قوم كذبوا رسولك صلى الله عليه وسلم واخرجوه، اللهم فإن كان بقي من حرب قريش شيء فابقني اجاهدهم فيك، اللهم فإني اظن انك قد وضعت الحرب بيننا وبينهم فإن كنت وضعت الحرب بيننا وبينهم فافجرها، واجعل موتي فيها، فانفجرت من لبته، فلم يرعهم وفي المسجد معه خيمة من بني غفار إلا والدم يسيل إليهم، فقالوا: يا اهل الخيمة ما هذا الذي ياتينا من قبلكم؟، فإذا سعد جرحه يغذ دما فمات منها "،حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ سَعْدًا قَالَ: وَتَحَجَّرَ كَلْمُهُ لِلْبُرْءِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنْ لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أُجَاهِدَ فِيكَ مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْرَجُوهُ، اللَّهُمَّ فَإِنْ كَانَ بَقِيَ مِنْ حَرْبِ قُرَيْشٍ شَيْءٌ فَأَبْقِنِي أُجَاهِدْهُمْ فِيكَ، اللَّهُمَّ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّكَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَإِنْ كُنْتَ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَافْجُرْهَا، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِيهَا، فَانْفَجَرَتْ مِنْ لَبَّتِهِ، فَلَمْ يَرُعْهُمْ وَفِي الْمَسْجِدِ مَعَهُ خَيْمَةٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ إِلَّا وَالدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهِمْ، فَقَالُوا: يَا أَهْلَ الْخَيْمَةِ مَا هَذَا الَّذِي يَأْتِينَا مِنْ قِبَلِكُمْ؟، فَإِذَا سَعْدٌ جُرْحُهُ يَغِذُّ دَمًا فَمَاتَ مِنْهَا "،
ابن نمیر نے ہشام سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے میرے والد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے، جب ان کا زخم بھر رہا تھا، (تو دعا کرتے ہوئے) کہا: اے اللہ! تو جانتا ہے کہ مجھے تیرے راستے میں، اس قوم کے خلاف جہاد سے بڑھ کر کسی کے خلاف جہاد کرنا محبوب نہیں جنہوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور نکالا۔ اگر قریش کی جنگ کا کوئی حصہ باقی ہے تو مجھے زندہ رکھ تاکہ میں تیرے راستے میں ان سے جہاد کروں۔ اے اللہ! میرا خیال ہے کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی ختم کر دی ہے۔ اگر تو نے ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی واقعی ختم کر دی ہے تو اس (زخم) کو پھاڑ دے اور مجھے اسی میں موت عطا فرما، چنانچہ ان کی ہنسلی سے خون بہنے لگا، لوگوں کو۔۔ اور مسجد میں ان کے ساتھ بنو غفار کا خیمہ تھا۔۔ اس خون نے ہی خوفزدہ کیا جو ان کی طرف بہہ رہا تھا۔ انہوں نے پوچھا: اے خیمے والو! یہ کیا ہے جو تمہاری جانب سے ہماری طرف آ رہا ہے؟ تو وہ سعد رضی اللہ عنہ کا زخم تھا جس سے مسلسل خوب بہہ رہا ہے، چنانچہ وہ اسی (کیفیت) میں فوت ہو گئے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، جبکہ ان کا زخم ٹھیک ہو رہا تھا، اے اللہ! تو خوب جانتا ہے، مجھے اس سے زیادہ کوئی چیز عزیز (محبوب) نہیں ہے کہ میں تیری خاطر ان لوگوں سے لڑوں، جنہوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا ہے اور اسے وطن سے نکال دیا ہے، اے اللہ! اگر قریش سے جنگ کا ابھی کچھ حصہ باقی ہے تو مجھے باقی رکھ تاکہ میں تیری خاطر ان سے جنگ لڑوں، اے اللہ! میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ ختم کر دی ہے تو اگر واقعی تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ ختم کر دی ہے تو تو زخم کو جاری کر دے اور اس کو میری موت کا سبب بنا دے تو وہ زخم ان کی ہنسلی سے بہنے لگا تو انہیں (ساتھ کے خیمہ والوں) خوف زدہ نہ کیا، مسجد میں ان کے ساتھ بنو غفار کا بھی ایک خیمہ تھا، مگر اس چیز نے کہ خون ان کی طرف بہتا آ رہا ہے تو انہوں نے پوچھا، اے خیمہ والو، تمہاری طرف سے ہماری طرف کیا چیز آ رہی ہے، دیکھا تو حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کا زخم بہہ رہا تھا اور وہ اس سے فوت ہو گئے۔
حدیث نمبر: 4601
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا علي بن الحسين بن سليمان الكوفي ، حدثنا عبدة ، عن هشام بهذا الإسناد نحوه غير انه، قال: فانفجر من ليلته فما زال يسيل حتى مات، وزاد في الحديث قال: فذاك حين يقول الشاعر: الا يا سعد سعد بني معاذ فما فعلت قريظة، والنضير لعمرك إن سعد بني معاذ غداة تحملوا لهو الصبور تركتم قدركم لا شيء فيها وقدر القوم حامية تفور، وقد قال الكريم ابو حباب: اقيموا قينقاع ولا تسيروا وقد كانوا ببلدتهم ثقالا كما ثقلت بميطان الصخور.وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فَانْفَجَرَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَمَا زَالَ يَسِيلُ حَتَّى مَاتَ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ قَالَ: فَذَاكَ حِينَ يَقُولُ الشَّاعِرُ: أَلَا يَا سَعْدُ سَعْدَ بَنِي مُعَاذٍ فَمَا فَعَلَتْ قُرَيْظَةُ، وَالنَّضِيرُ لَعَمْرُكَ إِنَّ سَعْدَ بَنِي مُعَاذٍ غَدَاةَ تَحَمَّلُوا لَهُوَ الصَّبُورُ تَرَكْتُمْ قِدْرَكُمْ لَا شَيْءَ فِيهَا وَقِدْرُ الْقَوْمِ حَامِيَةٌ تَفُورُ، وَقَدْ قَالَ الْكَرِيمُ أَبُو حُبَابٍ: أَقِيمُوا قَيْنُقَاعُ وَلَا تَسِيرُوا وَقَدْ كَانُوا بِبَلْدَتِهِمْ ثِقَالًا كَمَا ثَقُلَتْ بِمَيْطَانَ الصُّخُورُ.
عبدہ نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے کہا: اسی رات سے خوب بہنے لگا اور مسلسل بہتا رہا حتی کہ وہ وفات پا گئے۔ اور انہوں نے حدیث میں یہ اضافہ کیا، کہا: یہی وقت ہے جب (ایک کافر) شاعر کہتا ہے: اے سعد! بنو معاذ کے (گھرانے کے) سعد! وہ کیا تھا جو بنو قریظہ نے کیا اور (وہ کیا تھا جو) بنونضیر نے کیا؟ تمہاری زندگی کی قسم! بنو معاذ کا سعد، جس صبح ان لوگوں نے سزا برداشت کی، خوب صبر کرنے والا تھا۔ تم (اوس کے) لوگوں نے اپنی ہڈیاں اس طرح چھوڑیں کہ ان میں کچھ باقی نہ بچا تھا جبکہ قوم (بنو خزرج) کی ہانڈیاں گرم تھیں، ابل رہی تھیں (انہوں نے اپنے حلیف بنو نضیر کا ساتھ دیا تھا۔) ایک کریم انسان ابوحباب (رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول) نے کہا تھا: (بنو) قینقاع! مقیم رہو، مت جاو۔ وہ لوگ اپنے شہر میں بہت وزن رکھتے تھے (باوقعت تھے) جس طرح جبلِ میطان کی چٹانیں بہت وزن رکھتی ہیں
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، جس میں یہ اضافہ ہے، اس رات زخم بہنے لگا اور وہ مسلسل بہتا رہا حتی کہ وہ وفات پا گئے اور اس وقت ایک کافر شاعر (جبل بن جوال ثعلبی) نے یہ شعر کہے:اے سعد! سعد بن معاز سنو، قریظہ اور نضیر نے کیا کیا، تمہاری زندگی کی قسم! سعد بن معاذ جس صبح ان لوگوں نے مصائب برداشت کیے، وہ بہت صابر تھے، تم نے اپنی ہانڈی خالی چھوڑ دی جبکہ قوم خزرج کی ہانڈی گرم ہے اور جوش مار رہی ہے، معزز شخص ابو حباب نے کہا تھا، بنو قینقاع ٹھہرے رہو، مت جاؤ، حالانکہ بنو قریظہ اپنے علاقہ میں جمے ہوئے تھے، جس طرح میطان پہاڑ کے پتھر بھاری ہیں۔
23. باب الْمُبَادَرَةِ بِالْغَزْوِ، وَتَقْدِيمِ أَهَمِّ الْأَمْرَينِ الْمُتَعَارِضَيْنِ
23. باب: جہاد میں جلدی کرنا اور دونوں کا کام ضروری ہوں تو کس کو پہلے کرنا۔
Chapter: Hastening to fight, and giving precedence to the more urgent of two tasks when a choice must be made
حدیث نمبر: 4602
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني عبد الله بن محمد بن اسماء الضبعي ، حدثنا جويرية بن اسماء ، عن نافع ، عن عبد الله ، قال: نادى فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم انصرف عن الاحزاب " ان لا يصلين احد الظهر إلا في بني قريظة "، فتخوف ناس فوت الوقت فصلوا دون بني قريظة، وقال آخرون: لا نصلي إلا حيث امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن فاتنا الوقت، قال: فما عنف واحدا من الفريقين.وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: نَادَى فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ انْصَرَفَ عَنْ الْأَحْزَابِ " أَنْ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الظُّهْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ "، فَتَخَوَّفَ نَاسٌ فَوْتَ الْوَقْتِ فَصَلَّوْا دُونَ بَنِي قُرَيْظَةَ، وَقَالَ آخَرُونَ: لَا نُصَلِّي إِلَّا حَيْثُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ فَاتَنَا الْوَقْتُ، قَالَ: فَمَا عَنَّفَ وَاحِدًا مِنَ الْفَرِيقَيْنِ.
حضرت عبداللہ (بن عمر رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، جس روز آپ جنگِ احزاب سے لوٹےہم میں منادی کرائی کہ کوئی شخص بنو قریظہ کے سوا کہیں اور نمازِ ظہر ادا نہ کرے۔ کچھ لوگوں کو وقت نکل جانے کا خوف محسوس ہوا تو انہوں نے بنو قریظہ (پہنچنے) سے پہلے ہی نماز پڑھ لی، جبکہ دوسروں نے کہا: چاہے وقت ختم ہو جائے ہم وہیں نماز پڑھیں گے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ کہا: تو آپ نے فریقین میں سے کسی کو بھی ملامت نہ کی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احزاب سے لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں اعلان کروایا، کوئی انسان بنو قریظہ کے ہاں پہنچنے سے پہلے نماز نہ پڑھے، تو کچھ لوگ نماز کا وقت نکلنے سے ڈر گئے تو انہوں نے بنو قریظہ کے ہاں پہنچنے سے پہلے پڑھ لی اور دوسرے صحابہ نے کہا، ہم تو وہیں نماز پڑھیں گے، جہاں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کا حکم دیا ہے، اگرچہ وقت نکل ہی جائے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک فریق کو بھی ملامت نہ کی۔
24. باب رَدِّ الْمُهَاجِرِينَ إِلَى الأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمْ مِنَ الشَّجَرِ وَالثَّمَرِ حِينَ اسْتَغْنَوْا عَنْهَا بِالْفُتُوحِ:
24. باب: انصار نے جو مہاجرین کو دیا تھا وہ ان کو واپس ہونا جب اللہ تعالیٰ نے غنی کر دیا مہاجرین کو۔
Chapter: The Muhajirun returned to the Ansar the gifts of trees and fruits when they became independent of means through the conquests
حدیث نمبر: 4603
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن انس بن مالك ، قال: " لما قدم المهاجرون من مكة، المدينة قدموا وليس بايديهم شيء، وكان الانصار اهل الارض والعقار، فقاسمهم الانصار على ان اعطوهم انصاف ثمار اموالهم كل عام، ويكفونهم العمل والمئونة، وكانت ام انس بن مالك وهي تدعى ام سليم، وكانت ام عبد الله بن ابي طلحة كان اخا لانس لامه، وكانت اعطت ام انس رسول الله صلى الله عليه وسلم عذاقا لها، فاعطاها رسول الله صلى الله عليه وسلم ام ايمن مولاته ام اسامة بن زيد، قال ابن شهاب: فاخبرني انس بن مالك: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما فرغ من قتال اهل خيبر وانصرف إلى المدينة، رد المهاجرون إلى الانصار منائحهم التي كانوا منحوهم من ثمارهم، قال: فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى امي عذاقها، واعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم ام ايمن مكانهن من حائطه، قال ابن شهاب: وكان من شان ام ايمن، ام اسامة بن زيد انها كانت وصيفة لعبد الله بن عبد المطلب، وكانت من الحبشة، فلما ولدت آمنة رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ما توفي ابوه، فكانت ام ايمن تحضنه حتى كبر رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعتقها، ثم انكحها زيد بن حارثة ثم توفيت بعد ما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمسة اشهر ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ مِنْ مَكَّةَ، الْمَدِينَةَ قَدِمُوا وَلَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ، وَكَانَ الْأَنْصَارُ أَهْلَ الْأَرْضِ وَالْعَقَارِ، فَقَاسَمَهُمْ الْأَنْصَارُ عَلَى أَنْ أَعْطَوْهُمْ أَنْصَافَ ثِمَارِ أَمْوَالِهِمْ كُلَّ عَامٍ، وَيَكْفُونَهُمُ الْعَمَلَ وَالْمَئُونَةَ، وَكَانَتْ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَهِيَ تُدْعَى أُمَّ سُلَيْمٍ، وَكَانَتْ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ كَانَ أَخًا لِأَنَسٍ لِأُمِّهِ، وَكَانَتْ أَعْطَتْ أُمُّ أَنَسٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِذَاقًا لَهَا، فَأَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ أَيْمَنَ مَوْلَاتَهُ أُمَّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمَّا فَرَغَ مِنْ قِتَالِ أَهْلِ خَيْبَرَ وَانْصَرَفَ إِلَى الْمَدِينَةِ، رَدَّ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى الْأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمُ الَّتِي كَانُوا مَنَحُوهُمْ مِنْ ثِمَارِهِمْ، قَالَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُمِّي عِذَاقَهَا، وَأَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ أَيْمَنَ مَكَانَهُنَّ مِنْ حَائِطِهِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَ مِنْ شَأْنِ أُمِّ أَيْمَنَ، أُمِّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهَا كَانَتْ وَصِيفَةً لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَكَانَتْ مِنْ الْحَبَشَةِ، فَلَمَّا وَلَدَتْ آمِنَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا تُوُفِّيَ أَبُوهُ، فَكَانَتْ أُمُّ أَيْمَنَ تَحْضُنُهُ حَتَّى كَبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْتَقَهَا، ثُمَّ أَنْكَحَهَا زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ ثُمَّ تُوُفِّيَتْ بَعْدَ مَا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسَةِ أَشْهُرٍ ".
ابن شہاب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو اس حالت میں آئے کہ ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا، جبکہ انصار زمین اور جائدادوں والے تھے۔ تو انصار نے ان کے ساتھ اس طرح حصہ داری کی کہ وہ انہیں ہر سال اپنے اموال کی پیداوار کا آدھا حصہ دیں گے اور یہ (مہاجرین) انہیں محنت و مشقت سے بے نیاز کر دیں گے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ، جو ام سلیم کہلاتی تھیں اور عبداللہ بن ابی طلحہ جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے، کی بھی والدہ تھیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی (انہی) والدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کے اپنے کچھ درخت دیے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اپنی آزاد کردہ کنیز، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ، ام ایمن رضی اللہ عنہا کو عنایت کر دیے تھے۔ ابن شہاب نے کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل خیبر کے خلاف جنگ سے فارغ ہوئے اور مدینہ واپس آئے تو مہاجرین نے انصار کو ان کے وہ عطیے واپس کر دیے جو انہوں نے انہیں اپنے پھلوں (کھیتوں باغوں) میں سے دیے تھے۔ کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ کو ان کے کھجور کے درخت واپس کر دیے اور ام ایمن رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جگہ اپنے باغ میں سے (ایک حصہ) عطا فرما دیا۔ ابن شہاب نے کہا: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی والدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے حالات یہ ہیں کہ وہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد گرامی) عبداللہ بن عبدالمطلب کی کنیز تھیں، اور وہ حبشہ سے تھیں، اپنے والد کی وفات کے بعد جب حضرت آمنہ کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی تو ام ایمن رضی اللہ عنہا آپ کو گود میں اٹھاتیں اور آپ کی پرورش میں شریک رہیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہو گئے تو آپ نے انہیں آزاد کر دیا، پھر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح کرا دیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ ماہ بعد فوت ہو گئیں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجرین، مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا اور انصار زمین اور جائیداد کے مالک تھے تو انصار نے انہیں اس شرط پر حصہ دار بنا لیا کہ مہاجر کام کاج کریں گے اور انصار کو محنت و مشقت سے بے نیاز کر دیں گے اور انصار کو ہر سال پیداوار کا آدھا حصہ دیں گے اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ جنہیں ام سلیم کے نام سے پکارا جاتا تھا اور عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بھی والدہ تھی، جو حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کے ماں کی طرف سے بھائی تھے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کھجور کے درخت دئیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درخت اپنی آزاد کردہ لونڈی، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ ام ایمن کو عنایت فرما دئیے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ خیبر سے فارغ ہو کر مدینہ پلٹے تو مہاجروں نے انصار کے وہ عطیات واپس کر دئیے جو انہوں نے انہیں پھلوں کی صورت میں دئیے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ کو بھی ان کے کھجور کے درخت واپس کر دئیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جگہ ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے باغ سے درخت دے دئیے، ابن شہاب بیان کرتے ہیں اور ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اسامہ بن زید کی والدہ ہیں، جو عبداللہ بن عبدالمطلب کی لونڈی تھی اور حبشہ کی باشندہ تھی تو جب حضرت آمنہ کے ہاں، اپنے باپ کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کرتی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسےآزاد کر دیا، پھر اس کی شادی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دی، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پانچ ماہ بعد وفات پا گئی۔
حدیث نمبر: 4604
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وحامد بن عمر البكراوي ، ومحمد بن عبد الاعلى القيسي كلهم، عن المعتمر واللفظ لابن ابي شيبة، حدثنا معتمر بن سليمان التيمي ، عن ابيه ، عن انس : ان رجلا، وقال حامد، وابن عبد الاعلى " ان الرجل كان يجعل للنبي صلى الله عليه وسلم النخلات من ارضه، حتى فتحت عليه قريظة، والنضير، فجعل بعد ذلك يرد عليه ما كان اعطاه، قال انس: وإن اهلي امروني ان آتي النبي صلى الله عليه وسلم، فاساله ما كان اهله اعطوه او بعضه؟، وكان نبي الله صلى الله عليه وسلم قد اعطاه ام ايمن، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فاعطانيهن فجاءت ام ايمن فجعلت الثوب في عنقي، وقالت: والله لا نعطيكاهن وقد اعطانيهن، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم يا ام ايمن: اتركيه ولك كذا وكذا، وتقول: كلا والذي لا إله إلا هو، فجعل يقول: كذا، حتى اعطاها عشرة امثاله او قريبا من عشرة امثاله ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ كُلُّهُمْ، عَنْ الْمُعْتَمِرِ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَجُلًا، وَقَالَ حَامِدٌ، وَابْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى " أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَجْعَلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلاتِ مِنْ أَرْضِهِ، حَتَّى فُتِحَتْ عَلَيْهِ قُرَيْظَةُ، وَالنَّضِيرِ، فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ يَرُدُّ عَلَيِهِ مَا كَانَ أُعْطَاهُ، قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ أَهْلِي أَمَرُونِي أَنْ آتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلَهُ مَا كَانَ أَهْلُهُ أَعْطَوْهُ أَوْ بَعْضَهُ؟، وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْطَاهُ أُمَّ أَيْمَنَ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِيهِنَّ فَجَاءَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَجَعَلَتِ الثَّوْبَ فِي عُنُقِي، وَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا نُعْطِيكَاهُنَّ وَقَدْ أَعْطَانِيهِنَّ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُمَّ أَيْمَنَ: اتْرُكِيهِ وَلَكِ كَذَا وَكَذَا، وَتَقُولُ: كَلَّا وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: كَذَا، حَتَّى أَعْطَاهَا عَشْرَةَ أَمْثَالِهِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ عَشْرَةِ أَمْثَالِهِ ".
ابوبکر بن ابی شیبہ، حامد بن عمر بکراوی اور محمد بن عبدالاعلیٰ قیسی، سب نے معتمر سے حدیث بیان کی۔۔ الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں۔ ہمیں معتمر بن سلیمان تیمی نے اپنے والد کے واسطے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ کوئی آدمی۔۔ جبکہ حامد اور عبدالاعلیٰ نے کہا: کوئی مخصوص آدمی۔۔ اپنی زمین سے کھجوروں کے کچھ درخت (فقرائے مہاجرین کی خبر گیری کے لیے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص کر دیتا تھا، حتی کہ قریظہ اور بنونضیر آپ کے لیے فتح ہو گئے تو اس کے بعد جو کسی نے آپ کو دیا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کرنا شروع کر دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ سے وہ سب یا اس کا کچھ حصہ مانگوں، جو ان کے گھر والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو دے دیا تھا۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے وہ سب کا سب مجھے دے دیا، اس پر ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں، میرے گلے میں کپڑا ڈالا اور کہنے لگیں: اللہ کی قسم! ہم وہ (درخت) تمہیں نہیں دیں گے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہمیں دے چکے ہیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ام ایمان! اسے چھوڑ دو، اتنا اتنا تمہارا ہوا وہ کہتی تہیں: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! اور آپ اسی طرح فرماتے رہے حتی کہ آپ نے اسے دس گنا یا تقریبا دس گنا عطا فرما دیا
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کوئی آدمی اپنی زمین سے کچھ کھجوروں کے درخت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیتا حتی کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے علاقے فتح کر لیے گئے تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کو جو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیا، اس کو واپس کرنے لگے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میرے گھر والوں نے مجھے کہا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپصلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کروں کہ میرے گھر والوں نے آپ کو جو درخت دئیے تھے، وہ سب یا ان میں سے بعض واپس کر دیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہ ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کو دے چکے تھے، میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درخت مجھے دے دئیے تو حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا نے آ کر میرے گلے میں کپڑا ڈال لیا اور کہا، اللہ کی قسم! آپ وہ درخت تمہیں نہیں دے سکتے، جبکہ وہ مجھے دے چکے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام ایمن! اسے چھوڑ دے، میں تمہیں اتنے اتنے درخت دیتا ہوں۔ اور وہ کہتی رہی ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے، اتنے لے لو حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس سے دس گنا یا اس سے دس گنا کے قریب درخت دئیے۔
25. باب جَوَازِ الْأَكُلِ مِنْ طَعَامِ الْغَنِيمَةِ فِي دَارِ الْحَرْبِ
25. باب: غنیمت کے مال میں اگر کھانا ہو تو دار الحرب میں اس کا کھانا درست ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 4605
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان يعني ابن المغيرة ، حدثنا حميد بن هلال ، عن عبد الله بن مغفل ، قال: " اصبت جرابا من شحم يوم خيبر، قال: فالتزمته، فقلت: لا اعطي اليوم احدا من هذا شيئا، قال: " فالتفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم متبسما ".حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ: " أَصَبْتُ جِرَابًا مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ، قَالَ: فَالْتَزَمْتُهُ، فَقُلْتُ: لَا أُعْطِي الْيَوْمَ أَحَدًا مِنْ هَذَا شَيْئًا، قَالَ: " فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَبَسِّمًا ".
ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حمید بن ہلال نے عبداللہ بن مغفل سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: خیبر کے دن مجھے چربی کا (بھرا ہوا) چمڑے کا ایک تھیلا ملا۔ کہا: میں نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور کہا: آج کے دن میں اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دوں گا۔ کہا: میں نے مڑ کر دیکھاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن مجھے ایک چمڑے کی تھیلی ملی جس میں چربی تھی تو میں نے اس کو اپنے پاس رکھ لیا اور جی میں کہا، آج میں اس میں کسی کو کچھ نہیں دوں گا، میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔
حدیث نمبر: 4606
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن بشار العبدي ، حدثنا بهز بن اسد ، حدثنا شعبة ، حدثني حميد بن هلال ، قال: سمعت عبد الله بن مغفل ، يقول: " رمي إلينا جراب فيه طعام وشحم يوم خيبر، فوثبت لآخذه، قال: فالتفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستحييت منه "، وحدثناه محمد بن المثنى ، حدثنا ابو داود ، حدثنا شعبة بهذا الإسناد غير انه، قال: جراب من شحم ولم يذكر الطعام.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ ، يَقُولُ: " رُمِيَ إِلَيْنَا جِرَابٌ فِيهِ طَعَامٌ وَشَحْمٌ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَوَثَبْتُ لِآخُذَهُ، قَالَ: فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ "، وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ وَلَمْ يَذْكُرِ الطَّعَامَ.
بہز بن اسد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی، کہا: مجھے حمید بن ہلال نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کو یہ بتاتے ہوئے سنا: خیبر کے دن ہماری طرف چمڑے کا ایک تھیلا پھینکا گیا جس میں کھانا اور چربی تھی، میں اسے پکڑنے کے لیے جھپٹا۔ کہا: میں نے مڑ کر دیکھا تو (پیچھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ تو مجھے آپ سے بہت حیا آئی۔ ابوداود نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے "چربی کا (بھرا ہوا) تھیلا" کہا، کھانے کا ذکر نہیں کیا
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن ہماری طرف ایک چمڑے کی تھیلی پھینکی گئی، جس میں خوراک اور چربی تھی، میں اس کو اٹھانے کے لیے جھپٹا میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم سے شرما گیا۔
26. باب كِتَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ يَدْعُوهُ إِلَى الإِسْلاَمِ:
26. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا بیان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے کے لیے شام کے بادشاہ ہرقل کو لکھا تھا۔
Chapter: The Prophet (saws) wrote to Heraclius, the ruler of Syria, inviting him to Islam
حدیث نمبر: 4607
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، وابن ابي عمر ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد واللفظ لابن رافع، قال ابن رافع، وابن ابي عمر: حدثنا، وقال الآخران اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، عن ابن عباس : ان ابا سفيان اخبره من فيه إلى فيه، قال: انطلقت في المدة التي كانت بيني وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فبينا انا بالشام إذ جيء بكتاب من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى هرقل يعني عظيم الروم، قال: وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى، فدفعه عظيم بصرى إلى هرقل، فقال هرقل: هل هاهنا احد من قوم هذا الرجل الذي يزعم انه نبي؟، قالوا: نعم، قال: فدعيت في نفر من قريش، فدخلنا على هرقل فاجلسنا بين يديه، فقال: ايكم اقرب نسبا من هذا الرجل الذي يزعم انه نبي؟، فقال ابو سفيان: فقلت: انا فاجلسوني بين يديه واجلسوا اصحابي خلفي ثم دعا بترجمانه، فقال له: قل لهم إني سائل هذا عن الرجل الذي يزعم انه نبي فإن كذبني فكذبوه، قال: فقال ابو سفيان: وايم الله لولا مخافة ان يؤثر علي الكذب لكذبت ثم، قال: لترجمانه سله كيف حسبه فيكم؟، قال: قلت: هو فينا ذو حسب، قال: فهل كان من آبائه ملك؟، قلت: لا، قال: فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل ان يقول ما قال؟، قلت: لا، قال: ومن يتبعه اشراف الناس ام ضعفاؤهم، قال: قلت: بل ضعفاؤهم، قال: ايزيدون ام ينقصون؟، قال: قلت: لا بل يزيدون، قال: هل يرتد احد منهم عن دينه بعد ان يدخل فيه سخطة له؟، قال: قلت: لا، قال: فهل قاتلتموه؟، قلت: نعم، قال: فكيف كان قتالكم إياه؟، قال: قلت: تكون الحرب بيننا وبينه سجالا يصيب منا ونصيب منه، قال: فهل يغدر؟، قلت: لا ونحن منه في مدة لا ندري ما هو صانع فيها؟، قال: فوالله ما امكنني من كلمة ادخل فيها شيئا غير هذه، قال: فهل قال هذا القول احد قبله؟، قال: قلت: لا، قال لترجمانه: قل له إني سالتك عن حسبه فزعمت انه فيكم ذو حسب، وكذلك الرسل تبعث في احساب قومها، وسالتك هل كان في آبائه ملك، فزعمت ان لا فقلت لو كان من آبائه ملك قلت رجل يطلب ملك آبائه، وسالتك عن اتباعه اضعفاؤهم ام اشرافهم، فقلت: بل ضعفاؤهم وهم اتباع الرسل، وسالتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل ان يقول ما قال، فزعمت ان لا فقد عرفت انه لم يكن ليدع الكذب على الناس ثم يذهب فيكذب على الله، وسالتك هل يرتد احد منهم عن دينه بعد ان يدخله سخطة له فزعمت ان لا وكذلك الإيمان إذا خالط بشاشة القلوب، وسالتك هل يزيدون او ينقصون فزعمت انهم يزيدون وكذلك الإيمان حتى يتم، وسالتك هل قاتلتموه فزعمت انكم قد قاتلتموه فتكون الحرب بينكم وبينه سجالا ينال منكم وتنالون منه وكذلك الرسل تبتلى ثم تكون لهم العاقبة، وسالتك هل يغدر فزعمت انه لا يغدر وكذلك الرسل لا تغدر، وسالتك هل قال هذا القول احد قبله فزعمت ان لا فقلت لو قال هذا القول احد قبله قلت رجل ائتم بقول قيل قبله، قال: ثم قال: بم يامركم؟ قلت: يامرنا بالصلاة والزكاة والصلة والعفاف، قال: إن يكن ما تقول فيه حقا فإنه نبي وقد كنت اعلم انه خارج ولم اكن اظنه منكم، ولو اني اعلم اني اخلص إليه لاحببت لقاءه، ولو كنت عنده لغسلت عن قدميه وليبلغن ملكه ما تحت قدمي، قال: ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقراه، فإذا فيه بسم الله الرحمن الرحيم " من محمد رسول الله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى، اما بعد، فإني ادعوك بدعاية الإسلام اسلم تسلم، واسلم يؤتك الله اجرك مرتين، وإن توليت فإن عليك إثم الاريسيين ويا اهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم ان لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون، فلما فرغ من قراءة الكتاب ارتفعت الاصوات عنده وكثر اللغط، وامر بنا فاخرجنا، قال: فقلت لاصحابي حين خرجنا: لقد امر امر ابن ابي كبشة إنه ليخافه ملك بني الاصفر، قال: فما زلت موقنا بامر رسول الله صلى الله عليه وسلم انه سيظهر حتى ادخل الله علي الإسلام "
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيهِ، قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ يَعْنِي عَظِيمَ الرُّومِ، قَالَ: وَكَانَ دَحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ، فَقَالَ هِرَقْلُ: هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ لَهُ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ، قَال: فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ لَكَذَبْتُ ثُمَّ، قَالَ: لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ؟، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ؟، قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟، قُلْتُ: لَا، قَالَ: وَمَنْ يَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟، قَالَ: قُلْتُ: لَا بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟، قَالَ: قُلْتُ: تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟، قُلْتُ: لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا؟، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ، فَقُلْتَ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَهُ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَدْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: بِمَ يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ، قَالَ: إِنْ يَكُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَكُنْ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ " مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، وَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَكَثُرَ اللَّغْطُ، وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، قَالَ: فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ "
معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں روبرو بتایا، کہا: (معاہدہ صلح کی) اس مدت کے دوران میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تھی، میں سفر پر گیا۔ کہا: اس اثنا میں، جب میں شام میں تھا، ہر قل، یعنی شامِ روم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک خط لایا گیا۔ کہا: اسے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ لے کر آئے اور حاکم بُصریٰ کے حوالے کیا، بصریٰ کے حاکم نے وہ ہرقل تک پہنچا دیا تو ہرقل نے کہا: کیا اس شخص کی قوم میں سے، جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے، کوئی شخص یہاں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا: تو قریش کے کچھ افراد سمیت مجھے بلایا گیا، ہم ہرقل کے پاس آئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا: تم میں سے نسب میں اس آدمی کے سب سے زیادہ قریب کون ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابوسفیان نے کہا: میں نے جواب دیا: میں ہوں۔ تو ان لوگوں نے مجھے ان کے سامنے بٹھا دیا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا، پھر اس نے اپنے ترجمان کو بلایا اور اس سے کہا: ان سے کہہ دو: میں اس آدمی سے اس شخص کے بارے میں پوچھنے لگا ہوں جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے، اگر یہ میرے سامنے جھوٹ بولے تو تم لوگ اس کی تکذیب کر دینا۔ کہا: ابوسفیان نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی تو میں جھوٹ بولتا۔ پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا: اس سے پوچھو: تم میں اس کا حسب (خاندان) کیسا ہے؟ کہا: میں نے جواب دیا: وہ ہم میں حسب والا ہے۔ اس نے پوچھا: کیا اس کے آباء و اجداد میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے پوچھا: کیا اس نے (نبوت کے حوالے سے) کو کہا، اس کے کہنے سے پہلے تم اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھے؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے پوچھا: اس کے پیروکار کون لوگ ہیں؟ بڑے لوگ ہیں یا کمزور لوگ ہیں؟ میں نے جواب دیا: بلکہ کمزور لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ کہا: میں نے جواب دیا: نہیں، بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا ان میں سے کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اسے ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوتا ہے؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے پوچھا: کیا تم نے اس سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے جواب دیا: ہاں۔ اس نے پوچھا: تو تمہاری اس سے جنگ کیسی رہی؟ میں نے جواب دیا: ہمارے اور اس کے درمیان جنگ کنویں کے ڈول کی طرح ہے، وہ ہمیں نقصان پہنچاتا ہے اور ہم اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا وہ بدعہدی کرتا ہے؟ میں نے جواب دیا: نہیں، ہم اس کی جانب سے (کی گئی) صلح کے زمانے میں ہیں، ہمیں معلوم نہیں، وہ اس میں کیا کرے گا۔ کہا: اللہ کی قسم! اس ایک کلمے کے سوا اس میں کوئی اور بات ملانا میرے لیے ممکن نہ ہوا۔ اس نے پوچھا: کیا اس سے پہلے کسی نے وہ بات کہی ہے؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے اپنے ترجمان سے کہا: ان سے کہو: میں نے تم سے اس کے حسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ تم میں (اونچے) حسب والا ہے۔ رسول اسی طرح ہوتے ہیں، اپنی قوم کے اعلیٰ خاندانوں میں بھیجے جاتے ہیں۔ اور میں نے پوچھا: کیا اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے دعویٰ کیا: نہیں، میں نے (دل میں) کہا: اگر اس کے آباء و اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا: وہ آدمی اپنے آباء کی بادشاہت حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے اس کے پیروکاروں کے بارے میں پوچھا: وہ کمزور لوگ ہیں یا اشراف ہیں؟ تو تم نے کہا: بلکہ وہ کمزور لوگ ہیں، رسولوں کے پیروکار وہی لوگ ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ جو وہ کہتا ہے اس سے پہلے تم اس پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے تو تم نے کہا: نہیں، اس طرح میں جان گیا کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ نہ بولے مگر اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی اس سے ناراض ہو کر اس کے دین سے نکلا ہے؟ تو تم نے کہا: نہیں، ایمان جب دلوں میں رچ بس جاتا ہے تو اسی طرح ہوتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں، ایمان ایسا ہی ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا تم نے اس سے لڑائی کی؟ تو تم نے کہا کہ (ہاں) تم نے اس سے لڑائی کی ہے اور تمہارے اور اس کے درمیان جنگ ڈول کی طرح ہے، وہ تم میں سے لوگوں کو قتل کرتا ہے اور تم اس کے لوگوں میں سے قتل کرتے ہو، رسول اسی طرح ہوتے ہیں، انہیں آزمایا جاتا ہے، پھر انجام انہی کے حق میں ہوتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے؟ تو تم نے کہا کہ وہ عہد شکنی نہیں کرتا اور رسول اسی طرح ہوتے ہیں، وہ بدعہدی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا: کیا اس سے پہلے کسی نے یہ بات کہی (کہ وہ اللہ کا رسول ہے؟) تو تم نے کہا: نہیں، میں نے (دل میں) کہا: اگر کسی نے اس سے پہلے یہ بات کہی ہوتی تو میں کہتا: یہ آدمی وہی بات کہنا چاہتا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے۔ کہا: پھر اس نے پوچھا: وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ میں نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکاۃ، صلہ رحمی اور پاکبازی کا حکم دیتا ہے۔ اس نے کہا: اگر تم جو اس کے بارے میں کہتے ہو، سچ ہے، تو بلاشبہ وہ نبی ہے اور میں جانتا تھا کہ اس کا ظہور ہونے والا ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہو گا، اور اگر مجھے علم ہو جائے کہ میں ان تک پہنچ سکتا ہوں تو میں ان سے ملنے کو محبوب رکھوں۔ اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کے پاؤں دھوتا اور ان کی حکومت اس زمین تک پہنچ کر رہے گی جو میرے قدموں کے نیچے ہے۔ کہا: پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا تو اس میں (لکھا) تھا: اللہ کے نام سے جو بہت زیادہ رحم کرنے والا، ہمیشہ مہربانی کرنے والا ہے، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ، روم ہرقل کے نام، اس پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کا اتباع کیا، اس کے بعد، میں تمہیں اسلام کے بلاوے کے ساتھ دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کر لو، سلامتی پا لو گے، اسلام قبول کر لو، اللہ تمہیں دو بار اجر دے گا اور اگر تم نے منہ موڑ لیا تو کسانوں (عام لوگوں) کا گناہ (جو تمہارے پیچھے چلتے ہیں) تم پر ہو گا۔ اور "اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک جیسی ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں، ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے، پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو کہہ دیں، (تم) گواہ رہو کہ ہم فرماں بردار (اسلام قبول کرنے والے) ہیں۔" جب وہ خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے پاس آوازیں بلند ہونے لگیں اور شور بڑھ گیا، اس نے ہمارے بارے میں حکم دیا تو ہمیں باہر بھیج دیا گیا۔ کہا: جب ہم باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو بہت بڑا ہو گیا ہے، اس سے تو بنو اصفر (اہل روم) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے۔ کہا: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں مجھے ہمیشہ یقین رہا کہ وہ غالب آئیں گے، یہاں تک کہ اللہ نے مجھ میں اوپر سے (غالب کر کے) اسلام داخل کر دیا
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو سفیان نے روبرو بتایا کہ میں اس معاہدہ کے دوران جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا، میں شام میں ہی تھا کہ شاہ روم کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب لایا گیا اور لانے والے دحیہ کلبی رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اس نے اسے بصریٰ کے حاکم کے حوالہ کیا اور بصریٰ کے حاکم نے وہ ہرقل کو دے دیا تو ہرقل نے پوچھا، کیا ادھر اس آدمی کی قوم کا کوئی فرد موجود ہے، جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا، جی ہاں تو مجھے قریش کے کچھ افراد کے ساتھ بلایا گیا تو ہم ہرقل کے پاس پہنچے، اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا، تم میں سے زیادہ قریبی اس انسان کا رشتہ دار کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابو سفیان نے بتایا، میں نے کہا، میں ہوں تو درباریوں نے مجھے اس کے سامنے بٹھا دیا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھایا، پھر اس نے اپنی ترجمانی کرنے والے کو بلایا اور اسے کہا، ان قریشیوں کو کہہ دے، میں اس (ابو سفیان) سے اس انسان کے بارے میں سوال کرنے والا ہوں، جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے تو اگر یہ جھوٹ بولے تو اسے جھٹلا دینا، ابو سفیان نے بتایا، اللہ کی قسم! اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ میرا جھوٹ نقل کیا جائے گا تو میں جھوٹ بولتا، پھر اس نے اپنے مترجم سے کہا، اس سے پوچھو، تم میں اس کا خاندان کیسا ہے؟ میں نے کہا، وہ ہم میں اچھے حسب والا ہے، اس نے پوچھا، کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟میں نے کہا، نہیں، اس نے پوچھا، کیا اس کے اس دعویٰ سے پہلے تم اس پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے تھے؟میں نے کہا، جی نہیں، اس نے پوچھا، اس کے پیروکار کون ہیں؟ بڑے لوگ یا ماتحت لوگ؟ (یعنی اعلیٰ طبقہ یا ادنیٰ طبقہ)میں نے کہا، بلکہ فروتر طبقہ (کمزور لوگ)اس نے پوچھا، کیا وہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ میں نے کہا، جی نہیں، گھٹ نہیں رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں، اس نے پوچھا، کیا ان میں سے کوئی دین سے ناراض ہو کر پیچھے بھی ہٹتا ہے جبکہ وہ پہلے دین کو قبول کر چکا ہو؟میں نے کہا، نہیں، اس نے پوچھا تو کیا تم نے اس سے جنگ لڑی ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں، (لڑی ہے) اس نے پوچھا تو اس سے جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟میں نے کہا، ہمارے اور اس کے درمیان لڑائی ڈولوں کی طرح ہے، وہ ہمیں نقصان پہنچاتا ہے، ہم اس کو نقصان پہنچاتے ہیں۔اس نے پوچھا، کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے؟ میں نے کہا، جی نہیں اور ہمارا اس کے ساتھ صلح کا معاہدہ ہوا ہے، ہم نہیں جانتے، وہ اس کا کیا حشر کرتا ہے۔ ابوسفیان نے کہا، اللہ کی قسم! میں اس کے سوا کوئی عیب لگانے والا بول نہ بول سکا، اس نے پوچھا، کیا اس سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ میں نے کہا، جی نہیں، اس نے اپنے مترجم سے کہا، اس سے کہہ دو، میں نے تجھ سے اس کے خاندان کے بارے میں سوال کیا تو نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ وہ اچھے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور رسولوں کے بارے میں اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ اپنی قوم کے بہترین نسب کے مالک ہوتے ہیں۔اور میں نے تجھ سے سوال کیا کہ کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تو نے کہا، جی نہیں، میں نے سوچ لیا، اگر اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ ہوتا تو میں خیال کر لیتا، ایک آدمی ہے، جو اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہی کا طالب ہے۔اور میں نے تجھ سے اس کے پیروکاروں کے بارے میں پوچھا، کیا وہ زیردست کمزور لوگ ہیں یا صاحب حیثیت، سردار ہیں؟ تو نے کہا، (جی نہیں) وہ تو کمتر حیثیت کے لوگ ہیں (میں نے سوچ لیا) رسولوں کے پیروکار ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور میں نے تم سے سوال کیا، اس نے جو دعویٰ کیا ہے، اس سے پہلے تم اس پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے تھے؟ تو تو نے کہا کہ نہیں تو میں نے خوب جان لیا، یہ ممکن نہیں ہے کہ جو لوگوں کی طرف جھوٹی بات منسوب نہ کرے، پھر اللہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے لگےاور میں نے تم سے سوال کیا کیا ان میں سے کوئی ایک اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد دین کو ناپسند کرتے ہوئے واپس لوٹ آتا ہے تو تو نے کہا، جی نہیں، ایمان کی صورت یہی ہے، جب وہ دلوں میں رچ بس جاتا ہے یا ان میں اتر جاتا ہے۔اور میں نے تجھ سے پوچھا، کیا وہ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ تو تو نے کہا، وہ بڑھ رہے ہیں، ایمان کی حالت یہی ہے حتی کہ وہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے اور میں نے تم سے سوال کیا، کیا تم نے اس سے جنگ لڑی ہے؟ تو تو نے کہا، تم نے ان سے جنگ لڑی ہے اور لڑائی تمہارے درمیان ڈولوں کی طرح تقسیم ہوتی ہے، وہ تمہیں نقصان پہنچاتا ہے اور تم اسے نقصان پہنچاتے ہو، رسولوں کی یہی صورت ہے، انہیں آزمایا جاتا ہے، پھر انجام ان کے حق میں ہوتا ہے۔اور میں نے تم سے سوال کیا، کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے تو تو نے کہا، وہ عہد شکنی نہیں کرتا، رسولوں کی صورت یہی ہے، وہ عہد شکنی نہیں کرتے۔اور میں نے تم سے سوال کیا، کیا اس سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ تو تو نے کہا، نہیں تو میں نے کہا (دل میں) اگر یہ دعویٰ اس سے پہلے کسی نے کیا ہوتا تو میں سوچ لیتا، ایک آدمی ہے ایسی بات کی اقتدا کر رہا ہے جو اس سے پہلے کہی جا چکی ہے،پھر اس نے پوچھا، وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا، وہ ہمیں نماز، زکاۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کی تلقین کرتا ہے، اس نے کہا، اگر جو کچھ تو اس کے بارے میں کہتا ہے، سچ ہے تو وہ یقینا نبی ہے۔اور میں خوب جانتا ہوں وہ ظاہر ہونے والا ہے، لیکن میں اسے تم (عربوں) میں سے گمان نہیں کرتا تھا اور اگر میں جان لوں کہ میں اس تک پہنچ جاؤں گا تو میں اس کی ملاقات کو پسند کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو میں ان کے قدم دھوتا اور اس کا اقتدار یقینا یہاں تک پہنچ کر رہے گا، پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ منگوایا اور اسے پڑھا اس میں یہ لکھا تھا، "اللہ کے نام سے جو انتہائی مہربان اور بار بار رحم فرمانے والا ہے، اللہ کے رسول محمد کی طرف سے، رومیوں کے بڑے ہرقل کے نام، سلامتی اس کے لیے جس نے ہدایت کو اختیار کیا، اس کے بعد میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، مسلمان ہو جاؤ، بچ جاؤ گے اور مسلمان ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں دگنا اجر دے گا اور اگر تم نے اعراض کیا تو کسانوں کا گناہ بھی تیرے ذمہ ہے اور اے اہل کتاب ایسے بول کی طرف لوٹ آؤ، جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترکہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم اللہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں گے، اگر ہم اعراض کریں تو تم کہہ دو، گواہ ہو جاؤ، ہم تو مسلمان ہیں۔
حدیث نمبر: 4608
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه حسن الحلواني ، وعبد بن حميد، قالا: حدثنا يعقوب وهو ابن إبراهيم بن سعد ، حدثنا ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب بهذا الإسناد وزاد في الحديث، وكان قيصر لما كشف الله عنه جنود فارس مشى من حمص إلى إيلياء شكرا لما ابلاه الله، وقال في الحديث من محمد عبد الله ورسوله، وقال: إثم اليريسيين، وقال: بداعية الإسلام.وحَدَّثَنَاه حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، وَكَانَ قَيْصَرُ لَمَّا كَشَفَ اللَّهُ عَنْهُ جُنُودَ فَارِسَ مَشَى مِنْ حِمْصَ إِلَى إِيلِيَاءَ شُكْرًا لِمَا أَبْلَاهُ اللَّهُ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَقَالَ: إِثْمَ الْيَرِيسِيِّينَ، وَقَالَ: بِدَاعِيَةِ الْإِسْلَامِ.
صالح نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور حدیث میں یہ اضافہ کیا: جب اللہ نے قیصر (کے سر پر سے) فارس کے لشکروں کو ہتا دیا تو وہ اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے، جو اللہ نے اس پر کی تھی، پیدل چل کر حمص سے ایلیاء گیا، اور انہوں نے حدیث میں (یوں) کہا: "اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے۔" اور انہوں نے (اریسین کے بجائے یاء کے ساتھ) یریسین اور "اسلام کی طرف بلانے والے کلمے کے ساتھ (دعوت دیتا ہوں) " کے الفاظ کہے
امام صاحب یہی حدیث اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے ابن شہاب کے اس واسطہ سے بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ قیصر شاہ روم سے جب اللہ تعالیٰ نے ایرانی فوج کو شکست دلوا دی تو وہ اللہ کی اس نعمت و احسان کے شکرانہ کے طور پر حمص سے چل کر ایلیاء (بیت المقدس) آیا اور اس حدیث میں ہے، (محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے) اور اس میں ہے، (الاريسين)

Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.