الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
حدیث نمبر: 4569
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، اخبرنا يوسف بن الماجشون ، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف ، عن ابيه ، عن عبد الرحمن بن عوف ، انه قال: " بينا انا واقف في الصف يوم بدر نظرت عن يميني وشمالي، فإذا انا بين غلامين من الانصار حديثة اسنانهما تمنيت لو كنت بين اضلع منهما، فغمزني احدهما، فقال: يا عم هل تعرف ابا جهل، قال: قلت: نعم، وما حاجتك إليه يا ابن اخي؟، قال: اخبرت انه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم، والذي نفسي بيده لئن رايته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجل منا، قال: فتعجبت لذلك، فغمزني الآخر، فقال: مثلها قال: فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يزول في الناس، فقلت: الا تريان هذا صاحبكما الذي تسالان عنه؟، قال: فابتدراه فضرباه بسيفيهما حتى قتلاه، ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه، فقال: ايكما قتله، فقال كل واحد منهما: انا قتلت، فقال: هل مسحتما سيفيكما؟، قالا: لا، فنظر في السيفين، فقال: كلاكما قتله "، وقضى بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح، والرجلان معاذ بن عمرو بن الجموح، ومعاذ بن عفراء.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ نَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَشِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بَيْنَ غُلَامَيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا تَمَنَّيْتُ لَوْ كُنْتُ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا، فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا، فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا، قَالَ: فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ، فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، فَقَالَ: مِثْلَهَا قَالَ: فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَزُولُ فِي النَّاسِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَرَيَانِ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِ عَنْهُ؟، قَالَ: فَابْتَدَرَاهُ فَضَرَبَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمَا قَتَلَهُ، فَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُ، فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟، قَالَا: لَا، فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: كِلَاكُمَا قَتَلَهُ "، وَقَضَى بِسَلَبِهِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَالرَّجُلَانِ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَمُعَاذُ بْنُ عَفْرَاءَ.
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: بدر کے دن جب میں صف میں کھڑا تھا، میں نے اپنی دائیں اور بائیں طرف نظر دوڑائی تو میں انصار کے دو لڑکوں کے درمیان میں کھڑا تھا، ان کی عمریں کم تھیں، میں نے آرزو کی، کاش! میں ان دونوں کی نسبت زیادہ طاقتور آدمیوں کے درمیان ہوتا، (اتنے میں) ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ لگا کر متوجہ کیا اور کہا: چچا! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ کہا: میں نے کہا: ہاں، بھتیجے! تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا: مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا وجوداس وقت تک اس کے وجود سے الگ نہیں ہو گا یہاں تک کہ ہم میں سے جلد تر مرنے والے کو موت آ جائے۔ کہا: میں نے اس پر تعجب کیا تو دوسرے نے مجھے متوجہ کیا اور وہی بات کہی، کہا: پھر زیادہ دیر نہ گزری کہ میری نظر ابوجہل پر پڑی، وہ لوگوں میں گھوم رہا تھا۔ تو میں نے (ان دونوں سے) کہا: تم دیکھ نہیں رہے؟ یہ ہے تمہارا (مطلوبہ) بندہ جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے۔ کہا: وہ دونوں یکدم اس کی طرف لپکے اور اس پر اپنی تلواریں برسا دیں حتی کہ اسے قتل کر دیا، پھر پلٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ نے پوچھا: "تم دونوں میں سے اسے کس نے قتل کیا ہے؟" ان دونوں میں سے ہر ایک نے جواب دیا: میں نے اسے قتل کیا ہے۔ آپ نے پوچھا: "کیا تم دونوں نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟" انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے دونوں تلواریں دیکھیں اور فرمایا: "تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔" اور اس کے سازوسامان کا فیصلہ آپ نے عاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کے حق میں دیا۔ اور وہ دونوں جوان معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہم تھے
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوہ بدر کے موقع پر صف میں کھڑا ہوا تھا، اس اثناء میں میں نے اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو میں دو نو عمر انصاری لڑکوں کے درمیان تھا، میں نے آرزو کی، اے کاش، میں ان سے زور آور، طاقتور آدمیوں کے درمیان ہوتا تو ان میں سے ایک نے مجھے دبایا، (کچوکا لگایا) اور پوچھا، اے چچا جان! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا، ہاں اور تجھے اس سے کیا کام ہے؟ اے میرے بھتیجے، اس نے جواب دیا، مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتا ہے اور اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں نے اسے دیکھ لیا، تو میں اس سے اس وقت تک جدا نہیں ہوں گا، جب تک ہم میں سے وہ مر نہ جائے، جس کی موت پہلے آنی ہے تو مجھے اس کی اس بات سے حیرت ہوئی، اتنے میں مجھے دوسرے نے دبایا اور پہلے والی بات کہی، تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ابوجہل کو لوگوں میں گھومتے پھرتے دیکھا تو میں نے کہا، کیا دیکھ رہے ہو؟ یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم دونوں پوچھ رہے تھے تو وہ دونوں اس پر جھپٹے اور اپنی اپنی تلوار سے اسے نشانہ بنایا حتی کہ اسے قتل کر دیا، (قریب الموت کر دیا) پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ تو ان میں سے ہر ایک نے کہا، میں نے قتل کیا ہے تو آپ نے پوچھا: کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟ ان دونوں نے کہا، جی نہیں، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواروں کو دیکھا اور فرمایا: دونوں نے قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سلب کا فیصلہ معاذ بن عمرو بن جموح کے حق میں دیا، (اور وہ دونوں معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء تھے)
حدیث نمبر: 4570
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن سرح ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني معاوية بن صالح ، عن عبد الرحمن بن جبير ، عن ابيه ، عن عوف بن مالك ، قال: " قتل رجل من حمير رجلا من العدو، فاراد سلبه، فمنعه خالد بن الوليد وكان واليا عليهم، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عوف بن مالك فاخبره، فقال لخالد: ما منعك ان تعطيه سلبه؟، قال: استكثرته يا رسول الله، قال: ادفعه إليه، فمر خالد، بعوف فجر بردائه، ثم قال: هل انجزت لك ما ذكرت لك من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فسمعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستغضب، فقال: لا تعطه يا خالد لا تعطه يا خالد، هل انتم تاركون لي امرائي؟ إنما مثلكم ومثلهم كمثل رجل استرعي إبلا او غنما، فرعاها ثم تحين سقيها فاوردها حوضا، فشرعت فيه، فشربت صفوه وتركت كدره فصفوه لكم وكدره عليهم "،وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ رَجُلًا مِنَ الْعَدُوِّ، فَأَرَادَ سَلَبَهُ، فَمَنَعَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَكَانَ وَالِيًا عَلَيْهِمْ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لِخَالِدٍ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تُعْطِيَهُ سَلَبَهُ؟، قَالَ: اسْتَكْثَرْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ادْفَعْهُ إِلَيْهِ، فَمَرَّ خَالِدٌ، بِعَوْفٍ فَجَرَّ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ أَنْجَزْتُ لَكَ مَا ذَكَرْتُ لَكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتُغْضِبَ، فَقَالَ: لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي أُمَرَائِي؟ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُهُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِيَ إِبِلًا أَوْ غَنَمًا، فَرَعَاهَا ثُمَّ تَحَيَّنَ سَقْيَهَا فَأَوْرَدَهَا حَوْضًا، فَشَرَعَتْ فِيهِ، فَشَرِبَتْ صَفْوَهُ وَتَرَكَتْ كَدْرَهُ فَصَفْوُهُ لَكُمْ وَكَدْرُهُ عَلَيْهِمْ "،
معاویہ بن صالح نے عبدالرحمان بن جبیر سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حمیر کے ایک آدمی نے دشمن کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور اس کا سلب (مقتول کا سازوسامان) لینا چاہا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کر دیا اور وہ ان پر امیر تھے، چنانچہ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ (اپنے حمیری ساتھی کی حمایت کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا تو آپ نے خالد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "تمہیں اس کے مقتول کا سامان اسے دینے سے کیا امر مانع ہے؟" انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے اسے زیادہ سمجھا۔ آپ نے فرمایا: "وہ (سامان) ان کے حوالے کر دو۔" اس کے بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ان کی چادر کھینچی اور کہا: کیا میں نے پورا کر دیا جو میں نے آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کہا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن لی تو آپ کو غصہ آ گیا اور فرمایا: "خالد! اسے مت دو، خالد! اسے مت دو۔ کیا تم میرے (مقرر کیے ہوئے) امیروں کو میرے لیے چھوڑ سکتے ہو (کہ میں اصلاح کروں، تم طعن و تشنیع نہ کرو!) تمہاری اور ان کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جسے اونٹوں یا بکریوں کا چرواہا بنایا گیا، اس نے انہیں چرایا، پھر ان کو پانی پلانے کے وقت کا انتظار کیا اور انہیں حوض پر لے گیا، انہوں نے اس میں سے پینا شروع کیا تو انہوں نے اس کا صاف پانی پی لیا اور گدلا چھوڑ دیا تو صاف پانی تمہارے لیے ہے اور گدلا ان کا
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حمیری آدمی نے دشمن کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور اس کی سلب لینی چاہی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ جو ان کے امیر تھے، نے اسے روک دیا، حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد سے پوچھا، تو نے اسے سلب دینے سے کیوں انکار کیا؟ اس نے کہا، میں نے اسے زیادہ محسوس کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے حوالہ کر دو۔ اس کے بعد حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عوف رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سے گزرے تو اس نے ان (خالد) کی چادر کھینچ لی، پھر کہا، کیا میں نے تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، وہ پورا کر دیا؟ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اور فرمایا: اسے نہ دو، اے خالد، اسے نہ دو، اے خالد۔ کیا تم میری خاطر، میرے امیروں پر طعن کرنے سے باز نہیں رہو گے؟ بس تمہاری مثال اور ان کی مثال اس آدمی کی ہے، جس کو اونٹوں کا یا بکریوں کا چرواہا مقرر کیا گیا، اس نے ان کو چرایا، پھر اس نے ان کو پانی پلانے کے وقت کا انتظار کیا اور انہیں حوض پر لے گیا، انہوں نے اسے پینا شروع کیا اور اس کا صاف صاف پانی پی لیا اور اس کا گدلا پانی چھوڑ دیا تو گھاٹ کا خالص پانی تمہارے لیے ہے اور گدلا ان کے لیے ہے۔
حدیث نمبر: 4571
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا صفوان بن عمرو ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، عن ابيه ، عن عوف بن مالك الاشجعي ، قال: خرجت مع من خرج مع زيد بن حارثة في غزوة مؤتة، ورافقني مددي من اليمن وساق الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحوه غير، انه قال: في الحديث، قال عوف: فقلت يا خالد اما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بالسلب للقاتل، قال: بلى ولكني استكثرته.وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ مَنْ خَرَجَ مَعَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ فِي غَزْوَةِ مُؤْتَةَ، وَرَافَقَنِي مَدَدِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ غَيْرَ، أَنَّهُ قَالَ: فِي الْحَدِيثِ، قَالَ عَوْفٌ: فَقُلْتُ يَا خَالِدُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ، قَالَ: بَلَى وَلَكِنِّي اسْتَكْثَرْتُهُ.
صفوان بن عمرو نے عبدالرحمان بن جبیر بن نفیر سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جانے والوں کے ساتھ روانہ ہوا، یمن سے مدد کے لیے آنے والا ایک آدمی بھی میرا رفیق سفر ہوا۔۔، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی طرح حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے حدیث میں کہا: عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا: خالد! کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلب (مقتول کے سازوسامان) کا فیصلہ قاتل کے حق میں کیا تھا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! لیکن میں نے اسے زیادہ خیال کیا
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ غزوہ موتہ میں شرکت کرنے والوں کے ساتھ نکلا اور یمن سے مدد کے لیے آنے والا ایک آدمی میرا رفیق سفر بنا، آگے مذکورہ بالا حدیث بیان کی، لیکن اس حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ عوف رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں نے کہا، اے خالد رضی اللہ تعالی عنہ! کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلب قاتل کو دینے کا فیصلہ دیا ہے؟ اس نے کہا، کیوں نہیں، لیکن میں اس کو زیادہ خیال کرتا ہوں۔
حدیث نمبر: 4572
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا عمر بن يونس الحنفي ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثني إياس بن سلمة ، حدثني ابي سلمة بن الاكوع ، قال: " غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم هوازن، فبينا نحن نتضحى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ جاء رجل على جمل احمر، فاناخه ثم انتزع طلقا من حقبه، فقيد به الجمل ثم تقدم يتغدى مع القوم وجعل ينظر وفينا ضعفة ورقة في الظهر وبعضنا مشاة، إذ خرج يشتد، فاتى جمله، فاطلق قيده ثم اناخه وقعد عليه، فاثاره فاشتد به الجمل فاتبعه رجل على ناقة ورقاء، قال سلمة: وخرجت اشتد، فكنت عند ورك الناقة ثم تقدمت حتى كنت عند ورك الجمل، ثم تقدمت حتى اخذت بخطام الجمل، فانخته فلما وضع ركبته في الارض اخترطت سيفي، فضربت راس الرجل فندر ثم جئت بالجمل اقوده عليه رحله وسلاحه، فاستقبلني رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه، فقال: من قتل الرجل؟، قالوا: ابن الاكوع، قال: له سلبه اجمع ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَوَازِنَ، فَبَيْنَا نَحْنُ نَتَضَحَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ، فَأَنَاخَهُ ثُمَّ انْتَزَعَ طَلَقًا مِنْ حَقَبِهِ، فَقَيَّدَ بِهِ الْجَمَلَ ثُمَّ تَقَدَّمَ يَتَغَدَّى مَعَ الْقَوْمِ وَجَعَلَ يَنْظُرُ وَفِينَا ضَعْفَةٌ وَرِقَّةٌ فِي الظَّهْرِ وَبَعْضُنَا مُشَاةٌ، إِذْ خَرَجَ يَشْتَدُّ، فَأَتَى جَمَلَهُ، فَأَطْلَقَ قَيْدَهُ ثُمَّ أَنَاخَهُ وَقَعَدَ عَلَيْهِ، فَأَثَارَهُ فَاشْتَدَّ بِهِ الْجَمَلُ فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ عَلَى نَاقَةٍ وَرْقَاءَ، قَالَ سَلَمَةُ: وَخَرَجْتُ أَشْتَدُّ، فَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَأَنَخْتُهُ فَلَمَّا وَضَعَ رُكْبَتَهُ فِي الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي، فَضَرَبْتُ رَأْسَ الرَّجُلِ فَنَدَرَ ثُمَّ جِئْتُ بِالْجَمَلِ أَقُودُهُ عَلَيْهِ رَحْلُهُ وَسِلَاحُهُ، فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَالَ: مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ؟، قَالُوا: ابْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ: لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ ".
ایاس بن سلمہ نے کہا: مجھے میرے والد حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حنین کی جنگ لڑی، اس دوران میں ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کا کھانا کھا رہے تھے کہ سرخ اونٹ پر ایک آدمی آیا، اسے بٹھایا، پھر اس نے اپنے پٹکے سے چمڑے کی ایک رسی نکالی اور اس سے اونٹ کو باندھ دیا، پھر وہ لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے آگے بڑھا اور جائزہ لینے لگا، ہم میں کمزوری اور ہماری سواریوں میں دبلا پن موجود تھا، ہم میں کچھ پیدل بھی تھے، اچانک وہ دوڑتا ہوا نکلا، اپنے اونٹ کے پاس آیا، اس کی رسی کھولی، پھر اسے بٹھایا، اس پر سوار ہوا اور اسے اٹھایا تو وہ (اونٹ) اسے لے کر دوڑ پڑا۔ (یہ دیکھ کر) خاکستری رنگ کی اونٹنی پر ایک آدمی اس کے پیچھے لگ گیا۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی دوڑتا ہوا نکلا، میں (پیچھا کرنے والے مسلمان کی) اونٹنی کے پچھلے حصے کے پاس پہنچ گیا، پھر میں آگے بڑھا یہاں تک کہ اونٹ کے پچھلے حصے کے پاس پہنچ گیا، پھر میں آگے بڑھا حتی کہ میں نے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور اسے بٹھا دیا، جب اس نے اپنا گھٹنا زمین پر رکھا تو میں نے اپنی تلوار نکالی اور اس شخص کے سر پر وار کیا تو وہ (گردن سے) الگ ہو گیا، پھر میں اونٹ کو نکیل سے چلاتا ہوا لے آیا، اس پر اس کا پالان اور (سوار کا) اسلحہ بھی تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سمیت میرا استقبال کیا اور پوچھا: "اس آدمی کو کس نے قتل کیا؟" لوگوں نے کہا: ابن اکوع رضی اللہ عنہ نے۔ آپ نے فرمایا: "اس کا چھینا ہوا سازوسامان اسی کا ہے
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہوازن سے جنگ لڑی اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کا کھانا کھا رہے تھے کہ اس دوران ایک آدمی سرخ اونٹ پر آیا اور اس نے اسے بٹھا دیا اور اپنی کمر سے اس کے لیے تسمہ نکال کر اس کے ساتھ اونٹ کو باندھ دیا، پھر لوگوں کے ساتھ صبح کا کھانا کھانے کے لیے آگے بڑھا اور جائزہ لینے لگا، ہم میں کمزور لوگ تھے یا کمزوری تھی اور سواریوں کی کمی تھی اور ہم میں سے بعض لوگ پیدل تھے، پھر اپنے اونٹ کے پاس آیا، اس کا تسمہ کھولا، پھر اسے بٹھایا اور اس پر سوار ہو گیا اور اسے اٹھایا اور اونٹ اسے لے کر دوڑ پڑا، ایک آدمی نے خاکستری اونٹنی پر اس کا تعاقب کیا اور میں اونٹنی کی سرین تک پہنچا، پھر آگے بڑھ گیا حتی کہ اونٹ کی سرین تک جا پہنچا، پھر آگے بڑھا حتی کہ میں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر اس کو بٹھا لیا تو جب اس نے اپنا گھٹنا زمین پر رکھا میں نے اپنی تلوار سونت لی اور اس آدمی کی گردن (سر) اڑا دی تو وہ گر پڑا، پھر میں اونٹ کو کھینچ لایا، اس کا پالان اور اسلحہ اس پر تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ میرا استقبال کیا اور پوچھا، اس آدمی کو کس نے قتل کیا ہے۔ لوگوں نے کہا، ابن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تمام سلب اس کی ہے۔
14. باب التَّنْفِيلِ وَفِدَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِالأَسَارَى:
14. باب: قیدیوں کے ذریعے مسلمان قیدیوں کو آزاد کروانے کا بیان۔
Chapter: Additional rewards, and ransoming muslims in return for prisoners
حدیث نمبر: 4573
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا عمر بن يونس ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثني إياس بن سلمة ، حدثني ابي ، قال: " غزونا فزارة، وعلينا ابو بكر امره رسول الله صلى الله عليه وسلم علينا، فلما كان بيننا وبين الماء ساعة، امرنا ابو بكر فعرسنا ثم شن الغارة، فورد الماء فقتل من قتل عليه وسبى، وانظر إلى عنق من الناس فيهم الذراري فخشيت ان يسبقوني إلى الجبل، فرميت بسهم بينهم وبين الجبل، فلما راوا السهم وقفوا، فجئت بهم اسوقهم وفيهم امراة من بني فزارة عليها قشع من ادم، قال: القشع النطع معها ابنة لها من احسن العرب، فسقتهم حتى اتيت بهم ابا بكر، فنفلني ابو بكر ابنتها، فقدمنا المدينة وما كشفت لها ثوبا، فلقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال: يا سلمة هب لي المراة، فقلت: يا رسول الله، والله لقد اعجبتني وما كشفت لها ثوبا، ثم لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغد في السوق، فقال لي: يا سلمة هب لي المراة لله ابوك، فقلت: هي لك يا رسول الله، فوالله ما كشفت لها ثوبا، فبعث بها رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهل مكة، ففدى بها ناسا من المسلمين كانوا اسروا بمكة ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: " غَزَوْنَا فَزَارَةَ، وَعَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا، فَلَمَّا كَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمَاءِ سَاعَةٌ، أَمَرَنَا أَبُو بَكْرٍ فَعَرَّسْنَا ثُمَّ شَنَّ الْغَارَةَ، فَوَرَدَ الْمَاءَ فَقَتَلَ مَنْ قَتَلَ عَلَيْهِ وَسَبَى، وَأَنْظُرُ إِلَى عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ فِيهِمُ الذَّرَارِيُّ فَخَشِيتُ أَنْ يَسْبِقُونِي إِلَى الْجَبَلِ، فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ بَيْنهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ، فَلَمَّا رَأَوْا السَّهْمَ وَقَفُوا، فَجِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ وَفِيهِمُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ عَلَيْهَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ، قَالَ: الْقَشْعُ النِّطَعُ مَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، فَسُقْتُهُمْ حَتَّى أَتَيْتُ بِهِمْ أَبَا بَكْرٍ، فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ: يَا سَلَمَةُ هَبْ لِي الْمَرْأَةَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِي وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، ثُمَّ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَدِ فِي السُّوقِ، فَقَالَ لِي: يَا سَلَمَةُ هَبْ لِي الْمَرْأَةَ لِلَّهِ أَبُوكَ، فَقُلْتُ: هِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، فَفَدَى بِهَا نَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا أُسِرُوا بِمَكَّةَ ".
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے بنوفزارہ سے جنگ لڑی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سربراہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمارا امیر بنایا تھا، جب ہمارے اور چشمے کے درمیان ایک گھڑی کی مسافت رہ گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہمیں حکم دیا اور رات کے آخری حصے میں ہم اتر پڑے، پھر انہوں نے دھاوا بول دیا اور پانی پر پہنچ گئے، میں نے ان لوگوں کی ایک قطار سی دیکھی، اس میں عورتیں اور بچے تھے، مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک پہنچ جائیں گے، چنانچہ میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر پھینکا، جب انہوں نے تیر دیکھا تو ٹھہر گئے (انہیں یقین ہو گیا کہ وہ تیر کا نشانہ بنیں گے)، میں انہیں ہانکتا ہوا لے آیا، ان میں بنوفزارہ کی ایک عورت تھی، اس (کے جسم) پر رنگے ہوئے چمڑے کی چادر تھی۔۔ قَشع، چمڑے کی بنی ہوئی چادر ہوتی ہے۔۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں سے تھی۔ میں نے انہیں آگے لگایا حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا، انہوں نے اس کی بیٹی مجھے انعام میں دے دی۔ ہم مدینہ آئے اور میں نے (ابھی تک) اس کا کپڑا نہیں کھولا تھا کہ بازار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی، آپ نے فرمایا: "سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔" میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے اور (ابھی تک) میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا، پھر اگلے دن بازار (ہی) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: "سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو، اللہ تمہارے باپ کو برکت دے!" میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ آپ کے لیے ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکہ بھیج دیا اور اس کے بدلے مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کو چھڑا لیا جو مکہ میں قید کیے گئے تھے
حضرت سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بنو فزارہ سے جنگ کرنے کے لیے نکلے، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے امیر تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہمارا امیر مقرر کیا تھا، جب ہمارے اور پانی کے درمیان ایک گھڑی کی مسافت رہ گئی تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، پھر انہوں نے سخت حملہ کیا اور پانی پر پہنچ گئے، اس پر قابل قتل لوگوں کو قتل کیا اور (دوسروں کو) قیدی بنایا اور میں ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا، جس میں ان کے بیوی بچے تھے تو مجھے خطرہ پیدا ہوا، وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک پہنچ جائیں گے، اس لیے میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان تیر پھینکا، جب انہوں نے تیر دیکھا تو ٹھہر گئے اور میں ان کو ہانک لایا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت تھی، جو پرانی پوستین (چمڑے کی قمیص) اوڑھے ہوئے تھی، اس کے ساتھ اس کی انتہائی خوبصورت بیٹی تھی، میں نے ان کو ہانکا حتی کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لے آیا تو ابوبکر نے انعام کے طور پر اس کی بیٹی مجھے دے دی تو ہم مدینہ پہنچ گئے، لیکن میں نے اس کا ابھی تک کپڑا نہیں اٹھایا تھا تو بازار میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمہ! یہ عورت مجھے ہبہ کر دو۔ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! مجھے یہ بہت پسند ہے اور میں نے اس سے تعلقات بھی قائم نہیں کیے، پھر اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مجھے بازار میں مل گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے سلمہ! عورت مجھے ہبہ کر دو، تم کتنے اچھے ہو۔ تو میں نے عرض کیا، یہ آپ کی ہے، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں اٹھایا تو آپ نے اسے مکہ والوں کے ہاں، کچھ مسلمان لوگوں کے فدیہ کے طور پر بھیج دیا، جو مکہ میں قیدی بنا لیے گئے تھے۔
15. باب حُكْمِ الْفَيْءِ:
15. باب: جو مال کافروں کا بغیر لڑائی کے ہاتھ آئے اس کا بیان۔
Chapter: Ruling on Fai' (Booty acquired without fighting)
حدیث نمبر: 4574
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن حنبل ، ومحمد بن رافع ، قالا: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر احاديث منها، وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما قرية اتيتموها واقمتم فيها، فسهمكم فيها وايما قرية عصت الله ورسوله، فإن خمسها لله ولرسوله ثم هي لكم ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا قَرْيَةٍ أَتَيْتُمُوهَا وَأَقَمْتُمْ فِيهَا، فَسَهْمُكُمْ فِيهَا وَأَيُّمَا قَرْيَةٍ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنَّ خُمُسَهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ ثُمَّ هِيَ لَكُمْ ".
ہمام بن منبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ احادیث ہیں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، پھر انہوں نے چند احادیث ذکر کیں، ان میں سے یہ بھی تھی: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ جس بستی میں آؤ اور اس میں قیام کرو (بغیر جنگ کے تمہاری تحویل میں آ جائے) تو اس میں تمہارے لیے (دوسرے مسلمانوں کی طرح ایک) حصہ ہے اور جس بستی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی (اور تم نے لڑ کر اسے حاصل کیا) تو اس کا خمس اللہ اور اس کے رسول کا حصہ ہے، پھر وہ (باقی سب) تمہارا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس بستی میں جاؤ اور اس میں اقامت اختیار کرو تو اس میں تمہارا حصہ ہو گا اور جس بستی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو اس کا پانچواں حصہ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، پھر وہ باقی مال تمہارا ہے۔
حدیث نمبر: 4575
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، ومحمد بن عباد ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم واللفظ لابن ابي شيبة، قال إسحاق اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس ، عن عمر ، قال: " كانت اموال بني النضير مما افاء الله على رسوله مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب، فكانت للنبي صلى الله عليه وسلم خاصة، فكان ينفق على اهله نفقة سنة وما بقي يجعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله "،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: " كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَةٍ وَمَا بَقِيَ يَجْعَلُهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ "،
قتیبہ بن سعید، محمد بن عباد، ابوبکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم نے ہمیں حدیث بیان کی، الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں۔ اسحاق نے کہا کہ ہمیں خبر دی، جبکہ دوسروں نے کہا کہ ہمیں حدیث بیان کی سفیان نے عمرو سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے مالک بن اوس سے اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: بنونضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے جو اللہ نے اپنے رسول کو (بطور فے) عطا کیے جس پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔ تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھے۔ آپ (ان میں سے) اپنے اہل و عیال کے لیے ایک سال کا خرچ لیتے اور جو بچ جاتا اسے اللہ کی راہ میں (جہاد کی) تیاری کے لیے جنگی سواریوں اور اسلحے پر لگا دیتے
امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی سند سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ بنو نضیر کے اموال، ان اموال میں سے تھے، جو اللہ نے اپنے رسول کی طرف لوٹائے تھے، مسلمانوں نے ان کی خاطر اپنے گھوڑے دوڑائے، نہ اونٹ، اس لیے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھے تو آپ اپنے گھر والوں کو سال بھر کا خرچہ دیتے تھے اور باقی مال کو جنگی سواریوں اور اسلحہ پر جہاد کی تیاری و اہتمام کے لیے خرچ کر دیتے تھے۔
حدیث نمبر: 4576
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: اخبرنا سفيان بن عيينة ، عن معمر ، عن الزهري بهذا الإسناد.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ روایت کی۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد سے، زہری ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4577
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني عبد الله بن محمد بن اسماء الضبعي ، حدثنا جويرية ، عن مالك ، عن الزهري : ان مالك بن اوس حدثه، قال: " ارسل إلي عمر بن الخطاب، فجئته حين تعالى النهار، قال: فوجدته في بيته جالسا على سرير مفضيا إلى رماله متكئا على وسادة من ادم، فقال لي: يا مال إنه قد دف اهل ابيات من قومك وقد امرت فيهم برضخ فخذه، فاقسمه بينهم، قال: قلت: لو امرت بهذا غيري، قال: خذه يا مال، قال: فجاء يرفا، فقال: هل لك يا امير المؤمنين في عثمان ، وعبد الرحمن بن عوف ، والزبير ، وسعد ؟، فقال عمر: نعم فاذن لهم، فدخلوا ثم جاء، فقال: هل لك في عباس ، وعلي ؟، قال: نعم، فاذن لهما، فقال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين هذا الكاذب الآثم الغادر الخائن، فقال: القوم اجل يا امير المؤمنين، فاقض بينهم وارحهم، فقال مالك بن اوس: يخيل إلي انهم قد كانوا قدموهم لذلك، فقال عمر : اتئدا انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا نورث ما تركنا صدقة، قالوا: نعم، ثم اقبل على العباس، وعلي، فقال: انشدكما بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض اتعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا نورث ما تركناه صدقة، قالا: نعم، فقال عمر: إن الله جل وعز كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم بخاصة لم يخصص بها احدا غيره، قال: ما افاء الله على رسوله من اهل القرى فلله وللرسول سورة الحشر آية 7، ما ادري هل قرا الآية التي قبلها ام لا، قال: فقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم بينكم اموال بني النضير، فوالله ما استاثر عليكم ولا اخذها دونكم حتى بقي هذا المال، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ياخذ منه نفقة سنة ثم يجعل ما بقي اسوة المال، ثم قال: انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض اتعلمون ذلك؟، قالوا: نعم، ثم نشد عباسا، وعليا بمثل ما نشد به القوم اتعلمان ذلك؟، قالا: نعم، قال: فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجئتما تطلب ميراثك من ابن اخيك ويطلب هذا ميراث امراته من ابيها، فقال ابو بكر : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما نورث ما تركناه صدقة "، فرايتماه كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق، ثم توفي ابو بكر وانا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وولي ابي بكر، فرايتماني كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إني لصادق بار راشد تابع للحق، فوليتها ثم جئتني انت وهذا وانتما جميع وامركما واحد، فقلتما: ادفعها إلينا، فقلت: إن شئتم دفعتها إليكما، على ان عليكما عهد الله ان تعملا فيها بالذي كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخذتماها بذلك، قال: اكذلك؟، قالا: نعم، قال: ثم جئتماني لاقضي بينكما ولا والله لا اقضي بينكما بغير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنها فرداها إلي،وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ : أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَوْسٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: " أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ لِي: يَا مَالُ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ فَخُذْهُ، فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي، قَالَ: خُذْهُ يَا مَالُ، قَالَ: فَجَاءَ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَالزُّبَيْرِ ، وَسَعْدٍ ؟، فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَدَخَلُوا ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ ، وَعَلِيٍّ ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ: الْقَوْمُ أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَأَرِحْهُمْ، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ : اتَّئِدَا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ، قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ: مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ سورة الحشر آية 7، مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لَا، قَالَ: فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا، وَعَلِيًّا بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ "، فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيتُهَا ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، فَقُلْتُمَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا، عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَعْمَلَا فِيهَا بِالَّذِي كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذْتُمَاهَا بِذَلِكَ، قَالَ: أَكَذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَا وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ،
امام مالک نے زہری سے روایت کی کہ انہیں مالک بن اوس نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف قاصد بھیجا، دن چڑھ چکا تھا کہ میں ان کے پاس پہنچا۔ کہا: میں نے ان کو ان کے گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے پایا، انہوں نے اپنا جسم کھجور سے بنے ہوئے بان کے ساتھ لگایا ہوا تھا اور چمڑے کے تکیے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی، تو انہوں نے مجھ سے کہا: اے مال (مالک)! تمہاری قوم میں سے کچھ خاندان لپکتے ہوئے آئے تھے تو میں نے ان کے لیے تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے، اسے لو اور ان میں تقسیم کر دو۔ کہا: میں نے کہا: اگر آپ میرے سوا کسی اور کو اس کا حکم دے دیں (تو کیسا رہے؟) انہوں نے کہا: اے مال! تم لے لو۔ کہا: (اتنے میں ان کے مولیٰ) یرفا ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: امیر المومنین! کیا آپ کو عثمان، عبدالرحمان بن عوف، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم (کے ساتھ ملنے) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ تو اس نے ان کو اجازت دی۔ وہ اندر آ گئے، وہ پھر آیا اور کہنے لگا: کیا آپ کو عباس اور علی رضی اللہ عنہما (کے ساتھ ملنے) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ تو اس نے ان دونوں کو بھی اجازت دے دی۔ تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المومنین! میرے اور اس جھوٹے، گناہ گار، عہد شکن اور خائن کے درمیان فیصلہ کر دیں۔ کہا: اس پر ان لوگوں نے کہا: ہاں، امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ان کو (جھگڑے کے عذاب سے) راحت دلا دیں۔۔ مالک بن اوس نے کہا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کو اسی غرض سے اپنے آگے بھیجا تھا۔۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں رکو، میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا، ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا"؟ ان سب نے کہا: ہاں۔ پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "تمہارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم جو کچھ چھوڑیں گے، صدقہ ہو گا"؟ ان دونوں نے کہا: ہاں۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص چیز عطا کی تھی جو اس نے آپ کے علاوہ کسی کے لیے مخصوص نہیں کی تھی، اس نے فرمایا ہے: "جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹایا وہ اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے"۔۔ مجھے پتہ نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے والی آیت بھی پڑھی یا نہیں۔۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے اموال تم سب میں تقسیم کر دیے، اللہ کی قسم! آپ نے (اپنی ذات کو) تم پر ترجیح نہیں دی اور نہ تمہیں چھوڑ کر وہ مال لیا، حتی کہ یہ مال باقی بچ گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے سال بھر کا خرچ لیتے، پھر جو باقی بچ جاتا اسے (بیت المال کے) مال کے مطابق (عام لوگوں کے فائدے کے لیے) استعمال کرتے۔ انہوں نے پھر کہا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر انہوں نے عباس اور علی رضی اللہ عنہ کو وہی قسم دی جو باقی لوگوں کو دی تھی (اور کہا): کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ پھر کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں ہوں تو آپ دونوں آئے، آپ اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہے تھے۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا، ہم جو چھوڑیں گے، صدقہ ہے۔" تو تم نے انہیں جھوٹا، گناہ گار، عہد شکن اور خائن خیال کیا تھا اور اللہ جانتا ہے وہ سچے، نیکوکار، راست رَو اور حق کے پیروکار تھے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جانشیں بنا تو تم نے مجھے جھوٹا، گناہ گار، عہد شکن اور خائن خیال کیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں سچا، نیکوکار، راست رَو اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں، میں اس کا منتظم بنا، پھر تم اور یہ میرے پاس آئے، تم دونوں اکٹھے ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے۔ تم نے کہا: یہ (اموال) ہمارے سپرد کر دو۔ میں نے کہا: اگر تم چاہو تو میں اس شرط پر یہ تم دونوں کے حوالے کر دیتا ہوں کہ تم دونوں پر اللہ کے عہد کی پاسداری لازمی ہو گی، تم بھی اس میں وہی کرو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو تم نے اس شرط پر اسے لے لیا۔ انہوں نے پوچھا: کیا ایسا ہی ہے؟ ان دونوں نے جواب دیا۔ ہاں۔ انہوں نے کہا: پھر تم (اب) دونوں میرے پاس آئے ہو کہ میں تم دونوں کے درمیان فیصلہ کروں۔ نہیں، اللہ کی قسم! میں قیامت کے قائم ہونے تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور فیصلہ نہیں کروں گا۔ اگر تم اس کے انتظام سے عاجز ہو تو وہ مال مجھے واپس کر دو
حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے پیغام ارسال کیا تو میں دن چڑھنے کے بعد ان کے پاس آیا تو میں نے انہیں اپنے گھر میں چار پائی کے بان پر چمڑے کے تکیہ کے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے پایا تو انہوں نے مجھے کہا، اے مال یعنی اے مالک رضی اللہ تعالی عنہ تیری قوم کے کچھ لوگ تیزی سے آئے تھے میں نے انہیں تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے تو وہ لے لو اور ان میں بانٹ دو، میں نے کہا، اے کاش، آپ کسی اور کو حکم دیتے! انہوں نے کہا، اے مال، اسے لے لو، اتنے میں (ان کا غلام) یرفا آ گیا اور کہنے لگا، اے امیر المؤمنین! کیا آپ عثمان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر اور سعد رضی اللہ تعالی عنہم کو اجازت دینے کے لیے تیار ہیں؟ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ہاں، تو اس نے انہیں اجازت دے دی، وہ اندر آ گئے، پھر غلام دوبارہ آ کر کہنے لگا کیا آپ عباس اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اجازت دینے پر رضامند ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں، تو اس نے ان دونوں کو اجازت دے دی تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آ کر کہا، اے امیر المؤمنین، آپ میرے اور اس جھوٹے گناہ گار، عہد شکن اور خائن کا فیصلہ کر دیں، باقی صحابہ نے بھی ان کی تائید کی کہ اے امیر المؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ان کو راحت بخشیے، حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے (عباس، علی رضی اللہ تعالی عنہما نے) انہیں آگے بھیجا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ذرا ٹھہر جاؤ، میں تم سے اس اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں، جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا وارث نہیں بنایا جائے گا ہم نے جو کچھ چھوڑا صدقہ ہو گا؟ سب نے کہا، جی ہاں، پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا، میں تمہیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، جس کی اجازت سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا وارث نہیں بنایا جائے گا، جو کچھ ہم نے چھوڑا، وہ صدقہ ہو گا۔ دونوں نے کہا، ہاں، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ عزت و جلال والے نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک چیز خاص کی تھی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کے لیے خاص نہیں کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ نے بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول کی طرف جو کچھ لوٹایا ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے،
حدیث نمبر: 4578
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال ابن رافع حدثنا، وقال الآخران اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: ارسل إلي عمر بن الخطاب، فقال: إنه قد حضر اهل ابيات من قومك، بنحو حديث مالك غير ان فيه، فكان ينفق على اهله منه سنة، وربما قال: معمر يحبس قوت اهله منه سنة ثم يجعل ما بقي منه مجعل مال الله عز وجل.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، بِنَحْوِ حَدِيثِ مَالِكٍ غَيْرَ أَنَّ فِيهِ، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهُ سَنَةً، وَرُبَّمَا قَالَ: مَعْمَرٌ يَحْبِسُ قُوتَ أَهْلِهِ مِنْهُ سَنَةً ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ مِنْهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی، انہوں نے مالک بن اوس بن حدثان سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف پیغام بھیجا اور کہا: تمہاری قوم میں سے کچھ گھرانوں کے لوگ آئے تھے۔۔ مالک کی حدیث کی طرح، البتہ انہوں نے اس میں کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے سال بھر اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے۔ اور (حدیث بیان کرتے ہوئے) بسا اوقات معمر نے کہا: آپ اس سے اپنے گھر والوں کی سال بھر کی کم از کم خوراک الگ کر لیتے، پھر جو بچتا اسے اللہ کے مال (بیت المال) کے مصارف پر لگاتے
حضرت مالک بن اوس بن حدثان بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے میری طرف پیغام بھیجا اور میرے آنے پر کہا، واقعہ یہ ہے کہ تیری قوم کے کچھ گھرانے آئے تھے، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ اس حدیث میں یہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے گھر والوں پر سال بھر خرچہ کرتے تھے اور بسا اوقات معمر نے یہ کہا، آپصلی اللہ علیہ وسلم اس سے گھر والوں کے لیے سال بھر کی خوراک روک لیتے تھے یا جمع کر لیتے تھے، پھر جو کچھ باقی بچ رہتا، اس کو اللہ کے مال کی طرح قرار دیتے۔

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.