الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
حدیث نمبر: 4559
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن نافع ، عن ابن عمر : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " بعث سرية قبل نجد وفيهم ابن عمر، وان سهمانهم بلغت اثني عشر بعيرا، ونفلوا سوى ذلك بعيرا، فلم يغيره رسول الله صلى الله عليه وسلم ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بَعَثَ سَرِيَّةً قِبَلَ نَجْدٍ وَفِيهِمْ ابْنُ عُمَرَ، وَأَنَّ سُهْمَانَهُمْ بَلَغَتِ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنُفِّلُوا سِوَى ذَلِكَ بَعِيرًا، فَلَمْ يُغَيِّرْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
لیث نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک دستہ بھیجا، ان میں ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کے حصے بارہ بارہ اونٹ تک پہنچ گئے اور اس کے علاوہ انہیں ایک ایک اونٹ زائد (بھی) ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (فیصلے) کو تبدیل نہیں کیا
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ نجد کی طرف روانہ کیا، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی ان میں شریک تھے، اور ان کے حصے میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور اس کے علاوہ بطور انعام ایک اونٹ ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کوئی تبدیلی نہ فرمائی۔
حدیث نمبر: 4560
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا علي بن مسهر ، وعبد الرحيم بن سليمان ، عن عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: " بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية إلى نجد، فخرجت فيها، فاصبنا إبلا وغنما، فبلغت سهماننا اثني عشر بعيرا اثني عشر بعيرا، ونفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعيرا بعيرا "،وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، وَعَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً إِلَى نَجْدٍ، فَخَرَجْتُ فِيهَا، فَأَصَبْنَا إِبِلًا وَغَنَمًا، فَبَلَغَتْ سُهْمَانُنَا اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنَفَّلَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعِيرًا بَعِيرًا "،
علی بن مسہر اور عبدالرحیم بن سلیمان نے عبیداللہ بن عمر سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی جانب ایک دستہ بھیجا، میں بھی اس میں گیا۔ ہمیں اونٹ اور بکریاں ملیں تو ہمارے حصے بارہ بارہ اونٹوں تک پہنچ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایک اونٹ زائد بھی دیا
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ نجد کی طرف بھیجا، میں بھی اس کے ساتھ نکلا اور ہمیں بہت سے اونٹ اور بکریاں غنیمت میں حاصل ہوئیں، اس لیے ہمارا عمومی حصہ بارہ بارہ اونٹ بنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بطور انعام ایک ایک اونٹ دیا۔
حدیث نمبر: 4561
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
۔ قطان نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ سے عبیداللہ کی مذکورہ بالا سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4562
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه ابو الربيع ، وابو كامل ، قالا: حدثنا حماد ، عن ايوب ، ح وحدثنا ابن المثنى ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن ابن عون ، قال: كتبت إلى نافع اساله عن النفل، فكتب إلي ان ابن عمر كان في سرية. ح وحدثنا ابن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني موسى . ح وحدثنا هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني اسامة بن زيد كلهم، عن نافع بهذا الإسناد نحو حديثهم.وحَدَّثَنَاه أَبُو الرَّبِيعِ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ أَسْأَلُهُ عَنِ النَّفَلِ، فَكَتَبَ إِلَيَّ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى . ح وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ نَافِعٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِهِمْ.
ایوب نے ہمیں حدیث بیان کی، اور (ایک دوسری سند سے) ابن عون نے کہا: میں نے غنیمت کے بارے میں پوچھنے کے لیے نافع کی طرف خط لکھا، انہوں نے مجھے جواب بھی لکھا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ دستے میں تھے۔۔۔، نیز موسیٰ اور اسامہ بن زید نے بھی حدیث بیان کی، ان سب (ایوب، ابن عون، موسیٰ اور اسامہ) نے نافع سے اسی سند کے ساتھ انہی کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی
امام صاحب یہی حدیث مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں، ابن عون کہتے ہیں، میں نے نافع کو خط لکھ کر زائد حصہ (انعام) کے بارے میں سوال کیا تو اس نے مجھے لکھا، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما ایک دستہ میں شریک تھے اور اساتذہ سے بھی نافع کی مذکورہ بالا سند سے مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
حدیث نمبر: 4563
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا سريج بن يونس ، وعمرو الناقد واللفظ لسريج، قالا: حدثنا عبد الله بن رجاء ، عن يونس ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: " نفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم نفلا سوى نصيبنا من الخمس، فاصابني شارف والشارف المسن الكبير "،وحَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَاللَّفْظُ لِسُرَيْجٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " نَفَّلَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَلًا سِوَى نَصِيبِنَا مِنَ الْخُمْسِ، فَأَصَابَنِي شَارِفٌ وَالشَّارِفُ الْمُسِنُّ الْكَبِيرُ "،
عبداللہ بن رجاء نے یونس سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خمس سے ہمارے حصے کے سوا اضافی بھی دیا تو مجھے ایک شارف ملا۔۔ اور شارف سے مراد پختہ عمر کا (مضبوط) اونٹ ہے
حضرت سالم اپنے باپ (ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں ہمارے حصہ سے الگ جس میں سے انعام دیا تو مجھے بھی ایک شارف یعنی عمر رسیدہ اونٹنی ملی۔
حدیث نمبر: 4564
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا هناد بن السري ، حدثنا ابن المبارك . ح وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب كلاهما، عن يونس ، عن ابن شهاب ، قال: بلغني عن ابن عمر ، قال: نفل رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية بنحو حديث ابن رجاء.وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ كِلَاهُمَا، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: نَفَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ رَجَاءٍ.
ابن مبارک اور ابن وہب دونوں نے یونس کے حوالے سے زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث پہنچی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستے کو زائد دیا۔۔ ابن رجاء کی حدیث کی طرح
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ کو نفل (زائد حصہ) دیا، جیسا کہ مذکورہ بالا ابن رجاء کی روایت میں ہے۔
حدیث نمبر: 4565
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث ، حدثني ابي ، عن جدي ، قال: حدثني عقيل بن خالد ، عن ابن شهاب ، عن سالم ، عن عبد الله : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كان " ينفل بعض من يبعث من السرايا لانفسهم، خاصة سوى قسم عامة الجيش والخمس في ذلك واجب كله ".وحَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ " يُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ يَبْعَثُ مِنَ السَّرَايَا لِأَنْفُسِهِمْ، خَاصَّةً سِوَى قَسْمِ عَامَّةِ الْجَيْشِ وَالْخُمْسُ فِي ذَلِكَ وَاجِبٌ كُلِّهِ ".
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات عام لشکر کی تقسیم سے ہٹ کر بعض دستوں کو، جنہیں آپ روانہ فرماتے تھے، خصوصی طور پر ان کے لیے زائد عطیات دیتے تھے، اور خمس ان سب مہموں میں واجب تھا
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن دستوں کو بھیجتے، ان کو خصوصی طور پر انہیں کے لیے عطیہ دیتے، جو عام لشکر کے حصہ سے زائد ہوتا، لیکن خمس تمام مالوں میں واجب تھا۔
13. باب اسْتِحْقَاقِ الْقَاتِلِ سَلَبَ الْقَتِيلِ:
13. باب: قاتلوں کو مقتول کا سامان دلانا۔
حدیث نمبر: 4566
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، اخبرنا هشيم ، عن يحيي بن سعيد ، عن عمر بن كثير بن افلح ، عن ابي محمد الانصاري وكان جليسا لابي قتادة، قال: قال ابو قتادة واقتص الحديث،حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ جَلِيسًا لِأَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو قَتَادَةَ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ،
ہشیم نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے عمر بن کثیر بن افلح سے اور انہوں نے ابومحمد انصاری سے روایت کی اور وہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے ہم نشیں تھے، انہوں نے کہا: حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔۔ اور انہوں (ابومحمد) نے حدیث بیان کی
ابو محمد انصاری، جو ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہم نشین ہیں، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے تیسرے نمبر پر آنے والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4567
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن يحيي بن سعيد ، عن عمر بن كثير ، عن ابي محمد مولى ابي قتادة: ان ابا قتادة ، قال: وساق الحديث،وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ: أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ ، قَالَ: وَسَاقَ الْحَدِيثَ،
لیث نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے عمر بن کثیر بن افلح سے، انہوں نے ابومحمد (المعروف بہ) مولیٰ ابوقتادہ سے روایت کی کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔۔ اور حدیث بیان کی
ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام سے روایت ہے کہ ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا اور آگے مندرجہ ذیل حدیث ہے۔
حدیث نمبر: 4568
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو الطاهر ، وحرملة واللفظ له، اخبرنا عبد الله بن وهب ، قال: سمعت مالك بن انس ، يقول: حدثني يحيي بن سعيد ، عن عمر بن كثير بن افلح ، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة ، قال: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين، فلما التقينا كانت للمسلمين جولة، قال: فرايت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين، فاستدرت إليه حتى اتيته من ورائه فضربته على حبل عاتقه واقبل علي، فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت ثم ادركه الموت، فارسلني، فلحقت عمر بن الخطاب، فقال: ما للناس؟، فقلت: امر الله، ثم إن الناس رجعوا وجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه، قال: فقمت، فقلت: من يشهد لي، ثم جلست، ثم قال: مثل ذلك، فقال: فقمت، فقلت من يشهد لي، ثم جلست، ثم قال: ذلك الثالثة، فقمت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك يا ابا قتادة؟، فقصصت عليه القصة، فقال رجل من القوم: صدق يا رسول الله، سلب ذلك القتيل عندي فارضه من حقه، وقال ابو بكر الصديق: لا ها الله إذا لا يعمد إلى اسد من اسد الله، يقاتل عن الله وعن رسوله، فيعطيك سلبه؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدق فاعطه إياه "، فاعطاني، قال: فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لاول مال تاثلته في الإسلام، وفي حديث الليث، فقال ابو بكر: كلا لا يعطيه اضيبع من قريش ويدع اسدا من اسد الله، وفي حديث الليث لاول مال تاثلته.وحَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاسْتَدَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ فَضَرَبْتُهُ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ وَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَأَرْسَلَنِي، فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَا لِلنَّاسِ؟، فَقُلْتُ: أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ، قَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي، ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي، ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: ذَلِكَ الثَّالِثَةَ، فَقُمْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟، فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْ حَقِّهِ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: لَا هَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسُدِ اللَّهِ، يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَعَنْ رَسُولِهِ، فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ "، فَأَعْطَانِي، قَالَ: فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَلَّا لَا يُعْطِيهِ أُضَيْبِعَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعُ أَسَدًا مِنْ أُسُدِ اللَّهِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ.
امام مالک بن انس کہتے ہیں: مجھے یحییٰ بن سعید نے عمر بن کثیر بن افلح سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابومحمد سے اور انہوں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حنین کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، جب (دشمن سے) ہمارا سامنا ہوا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچی۔ کہا: میں نے مشرکوں میں سے ایک آدمی دیکھا جو مسلمانوں کے ایک آدمی پر غالب آ گیا تھا، میں گھوم کر اس کی طرف بڑھا حتی کہ اس کے پیچھے آ گیا اور اس کی گردن کے پٹھے پر وار کیا، وہ (اسے چھوڑ کر) میری طرف بڑھا اور مجھے اس زور سے دبایا کہ مجھے اس (دبانے) سے موت کی بو محسوس ہونے لگی، پھر اس کو موت نے آ لیا تو اس نے مجھے چھوڑ دیا، اس کے بعد میری حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کا حکم ہے۔ پھر لوگ واپس پلٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: "جس نے کسی کو قتل کیا، (اور) اس کے پاس اس کی کوئی دلیل (نشانی وغیرہ) ہو تو اس (مقتول) سے چھینا ہوا سامان اسی کا ہو گا۔" کہا: تو میں کھڑا ہوا اور کہا: میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ نے اسی طرح ارشاد فرمایا۔ کہا: تو میں کھڑا ہوا اور کہا: میرے حق میں کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ نے تیسری بار یہی فرمایا۔ کہا: میں پھر کھڑا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوقتادہ! تمہارا کیا معاملہ ہے؟" تو میں نے آپ کو یہ واقعہ سنایا۔ اس پر لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے سچ کہا ہے۔ اس مقتول کا چھینا ہوا سامان میرے پاس ہے، آپ انہیں ان کے حق سے (دستبردار ہونے پر) مطمئن کر دیجیے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر سے، جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑائی کرتا ہے، نہیں چاہیں گے کہ وہ اپنے مقتول کا چھینا ہوا سامان تمہیں دے دیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہوں نے سچ کہا: وہ انہی کو دے دو۔" تو اس نے (وہ سامان) مجھے دے دیا، کہا: میں نے (اسی سامان میں سے) زرہ فروخت کی اور اس (کی قیمت) سے (اپنی) بنو سلمہ (کی آبادی) میں ایک باغ خرید لیا۔ وہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام (کے زمانے) میں بنایا۔ لیث کی حدیث میں ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر قریش کے ایک چھوٹے سے لگڑ بگھے کو عطا نہیں کریں گے۔لیث کی حدیث میں ہے: (انہوں نے کہا) وہ پہلا مال تھا جو میں نے بنایا
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، تو جب دشمن کے ساتھ ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے (پھر حملہ کیا) تو میں نے ایک مشرک آدمی کو دیکھا، وہ ایک مسلمان پر غلبہ پا رہا ہے تو میں اس کی طرف گھوم گیا حتی کہ اس کے پیچھے سے آ گیا اور اس کے شانہ کے پٹھے پر تلوار ماری اور وہ میری طرف بڑھا اور مجھے اس قدر زور سے بھینچا کہ مجھے موت نظر آنے لگی، پھر اسے موت نے آ لیا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا، لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کیا، اللہ کو یہی منظور ہے، پھر لوگ واپس پلٹے، (دشمن کے مقابلہ میں آئے اور جنگ کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہے اور اس پر شہادت موجود ہے تو مقتول سے چھینا ہوا مال اس (قاتل) کو ملے گا۔ تو میں کھڑا ہو گیا، پھر میں نے سوچا، میرے حق میں گواہی کون دے گا؟ اس لیے میں بیٹھ گیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات دہرائی تو میں کھڑا ہو گیا، پھر میں نے اپنے آپ سے پوچھا، میرے حق میں گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بات فرمائی، تیسری مرتبہ تو میں کھڑا ہوا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ اے ابو قتادہ تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل واقعہ سنا دیا تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! اس نے سچ کہا ہے، اس مقتول سے چھینا ہوا مال میرے پاس ہے تو اس کو اس کے حق کے سلسلہ میں راضی کر دیں کہ یہ مجھے بخوشی دے دے۔ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! ایسی صورت میں، آپ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کی طرف اس لیے رخ نہ فرمائیں گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کی سلب تجھے دے دیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر نے سچ کہا، سلب اسے دے دو۔ تو اس نے سلب مجھے دے دی تو میں نے وہ زرہ فروخت کر کے اس کے عوض بنو سلمہ میں ایک باغ خرید لیا اور وہ سب سے پہلا مال تھا، جو میں نے اسلام کے دور میں حاصل کیا اور لیث کی حدیث میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ہرگز نہیں، آپ وہ مال قریش کی ایک لومڑی کو نہیں دیں گے کہ اس کی خاطر اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظرانداز کر دیں اور لیث کی حدیث میں ہے، وہ پہلا مال تھا جو میں نے سمیٹا۔

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.