الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں
حدیث نمبر: 677ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: الامر عندنا في قسم الصدقات، ان ذلك لا يكون إلا على وجه الاجتهاد من الوالي، فاي الاصناف كانت فيه الحاجة والعدد، اوثر ذلك الصنف بقدر ما يرى الوالي، وعسى ان ينتقل ذلك إلى الصنف الآخر بعد عام او عامين او اعوام، فيؤثر اهل الحاجة والعدد حيثما كان ذلك، وعلى هذا ادركت من ارضى من اهل العلمقَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي قَسْمِ الصَّدَقَاتِ، أَنَّ ذَلِكَ لَا يَكُونُ إِلَّا عَلَى وَجْهِ الْاجْتِهَادِ مِنَ الْوَالِي، فَأَيُّ الْأَصْنَافِ كَانَتْ فِيهِ الْحَاجَةُ وَالْعَدَدُ، أُوثِرَ ذَلِكَ الصِّنْفُ بِقَدْرِ مَا يَرَى الْوَالِي، وَعَسَى أَنْ يَنْتَقِلَ ذَلِكَ إِلَى الصِّنْفِ الْآخَرِ بَعْدَ عَامٍ أَوْ عَامَيْنِ أَوْ أَعْوَامٍ، فَيُؤْثَرُ أَهْلُ الْحَاجَةِ وَالْعَدَدِ حَيْثُمَا كَانَ ذَلِكَ، وَعَلَى هَذَا أَدْرَكْتُ مَنْ أَرْضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک زکوٰۃ کی تقسیم کا یہ حکم ہے کہ یہ کام حاکم کی رائے پر موقوف ہے، جس قسم کے لوگ زیادہ حاجت رکھتے ہوں یا شمار میں زیادہ ہوں اُن کو دے، جب تک اس کی رائے میں مناسب ہو، پھر سال دو سال یا زیادہ کے بعد دوسری قسم کے لوگوں کو بھی دے سکتا ہے، بہرحال اہلِ حاجت اور عدد کو مقدم رکھے جہاں ہو۔ میں نے اپنے ملک میں اہلِ علم کو اسی پر پایا۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 555، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 29»
حدیث نمبر: 677ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: وليس للعامل على الصدقات فريضة مسماة إلا على قدر ما يرى الإمامقَالَ مَالِك: وَلَيْسَ لِلْعَامِلِ عَلَى الصَّدَقَاتِ فَرِيضَةٌ مُسَمَّاةٌ إِلَّا عَلَى قَدْرِ مَا يَرَى الْإِمَامُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: عامل کا کچھ حصہ مقرر نہیں ہے زکوٰۃ میں، بلکہ حاکم کو اختیار ہے کہ جس قدر مناسب ہو دے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 555، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 29»
18. بَابُ مَا جَاءَ فِي أَخْذِ الصَّدَقَاتِ وَالتَّشْدِيدِ فِيهَا
18. زکوٰۃ دینے والوں پر سختی کا بیان
حدیث نمبر: 678
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، انه بلغه، ان ابا بكر الصديق ، قال: " لو منعوني عقالا لجاهدتهم عليه" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ ، قَالَ: " لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا لَجَاهَدْتُهُمْ عَلَيْهِ"
امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر نہ دیں گے رسی بھی اونٹ باندھنے کی تو میں جہاد کروں گا ان پر۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، و البخاري فى «صحيحه» برقم: 1400، 1456، 6925، 7285، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 20، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1556، والترمذي فى «جامعه» برقم:2607، والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 2445، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19/1، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13286، شركة الحروف نمبر: 556، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 30»
حدیث نمبر: 679
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، انه قال: شرب عمر بن الخطاب لبنا فاعجبه، فسال الذي سقاه: " من اين هذا اللبن؟" فاخبره انه ورد على ماء قد سماه، فإذا نعم من نعم الصدقة، وهم يسقون فحلبوا لي من البانها فجعلته في سقائي فهو هذا، فادخل عمر بن الخطاب يده فاستقاءه وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّهُ قَالَ: شَرِبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَبَنًا فَأَعْجَبَهُ، فَسَأَلَ الَّذِي سَقَاهُ: " مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ؟" فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ وَرَدَ عَلَى مَاءٍ قَدْ سَمَّاهُ، فَإِذَا نَعَمٌ مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَةِ، وَهُمْ يَسْقُونَ فَحَلَبُوا لِي مِنْ أَلْبَانِهَا فَجَعَلْتُهُ فِي سِقَائِي فَهُوَ هَذَا، فَأَدْخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَدَهُ فَاسْتَقَاءَهُ
سیدنا زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دودھ پیا تو بھلا معلوم ہوا۔ پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا؟ جو لایا تھا وہ بولا کہ میں ایک پانی پر گیا تھا اور اس کا نام بیان کیا، وہاں پر جانور زکوٰۃ کے پانی پی رہے تھے، لوگوں نے ان کا دودھ نچوڑ کر مجھے دیا، میں نے اپنی مشک میں رکھ لیا، وہ یہی دودھ تھا جو آپ نے پیا۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر قے کی۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13286، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4031، والبيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 5771، والشافعي فى «الاُم» ‏‏‏‏ برقم: 84/2
شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے اور شیخ احمد سلیمان نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔، شركة الحروف نمبر: 556، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 31»
حدیث نمبر: 679ب
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: الامر عندنا ان كل من منع فريضة من فرائض الله عز وجل، فلم يستطع المسلمون اخذها، كان حقا عليهم جهاده حتى ياخذوها منهقَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ كُلَّ مَنْ مَنَعَ فَرِيضَةً مِنْ فَرَائِضِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَمْ يَسْتَطِعِ الْمُسْلِمُونَ أَخْذَهَا، كَانَ حَقًّا عَلَيْهِمْ جِهَادُهُ حَتَّى يَأْخُذُوهَا مِنْهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو کوئی اس چیز کو جو اللہ کی طرف سے مقرر ہے روکے اور مسلمانوں کو لینے نہ دے تو مسلمانوں پر جہاد کرنا اس شخص سے لازم ہے، یہاں تک کہ لے لیں اس حق کو۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 556، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 31»
حدیث نمبر: 680
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان عاملا لعمر بن عبد العزيز كتب إليه يذكر: ان رجلا منع زكاة ماله، فكتب إليه عمر:" ان دعه ولا تاخذ منه زكاة مع المسلمين" قال: فبلغ ذلك الرجل فاشتد عليه، وادى بعد ذلك زكاة ماله، فكتب عامل عمر إليه يذكر له ذلك، فكتب إليه عمر ان خذها منه وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عَامِلًا لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ إِلَيْهِ يَذْكُرُ: أَنَّ رَجُلًا مَنَعَ زَكَاةَ مَالِهِ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ:" أَنْ دَعْهُ وَلَا تَأْخُذْ مِنْهُ زَكَاةً مَعَ الْمُسْلِمِينَ" قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، وَأَدَّى بَعْدَ ذَلِكَ زَكَاةَ مَالِهِ، فَكَتَبَ عَامِلُ عُمَرَ إِلَيْهِ يَذْكُرُ لَهُ ذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ أَنْ خُذْهَا مِنْهُ
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ ایک عامل نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو لکھا کہ ایک شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا، حضرت عمر رحمہ اللہ نے جواب میں لکھا کہ چھوڑ دے اس کو اور مسلمانوں کے ساتھ اور زکوٰۃ نہ لیا کر اس سے۔ یہ خبر اس شخص کو پہنچی، اس کو برا معلوم ہوا اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی۔ بعد اس کے عامل نے حضرت عمر رحمہ اللہ کو اطلاع دی، انہوں نے جواب میں لکھا کہ لے لے زکوٰۃ کو اس شخص سے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف،
شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے اور شیخ احمد سلیمان نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔، شركة الحروف نمبر: 556، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 32»
19. بَابُ زَكَاةِ مَا يُخْرَصُ مِنْ ثِمَارِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ
19. پھلوں اور میووں کی زکوٰۃ کا بیان
حدیث نمبر: 681
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، عن الثقة عنده، عن سليمان بن يسار ، وعن بسر بن سعيد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " فيما سقت السماء والعيون والبعل العشر، وفيما سقي بالنضح نصف العشر" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ الثِّقَةِ عِنْدَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ وَالْبَعْلُ الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ"
حضرت سلیمان بن یسار اور حضرت بسر بن سعید سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بارانی اور زیرِ چشمہ یا تالاب کی زمین میں اور اس کھجور میں جس کو پانی کی حاجت نہ ہو دسواں حصہ زکوٰۃ کا ہے، اور جو زمین پانی سینچ کر تر کی جائے اس میں بیسواں حصہ زکوٰۃ کا ہے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح لغيره، وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 639، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1816، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7583، 7584، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4943، شركة الحروف نمبر: 557، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 33»
حدیث نمبر: 682
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن مالك، عن زياد بن سعد ، عن ابن شهاب ، انه قال: " لا يؤخذ في صدقة النخل الجعرور، ولا مصران الفارة، ولا عذق ابن حبيق، قال: وهو يعد على صاحب المال ولا يؤخذ منه في الصدقة" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا يُؤْخَذُ فِي صَدَقَةِ النَّخْلِ الْجُعْرُورُ، وَلَا مُصْرَانُ الْفَارَةِ، وَلَا عَذْقُ ابْنِ حُبَيْقٍ، قَالَ: وَهُوَ يُعَدُّ عَلَى صَاحِبِ الْمَالِ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهُ فِي الصَّدَقَةِ"
ابن شہاب زہری نے کہا کہ کھجور کی زکوٰۃ میں جعرور (ایک قسم کی خراب کھجور ہے جو سوکھنے سے کوڑا ہو جاتی ہے) اور مصران الفارہ اور عذق بن حبیق نہ لی جائیں گی، اور مثال ان کی بکریوں کی سی ہے کہ صاحبِ مال کے مال کے شمار میں سب قسم کی شمار کی جائیں گی، لیکن لی نہ جائیں گی۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه الشافعي فى «الاُم» ‏‏‏‏ برقم: 31/2، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2313، شركة الحروف نمبر: 558، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 34»
حدیث نمبر: 682ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: وإنما مثل ذلك الغنم تعد على صاحبها بسخالها، والسخل لا يؤخذ منه في الصدقة وقد يكون في الاموال ثمار لا تؤخذ الصدقة منها، من ذلك البردي وما اشبهه لا يؤخذ من ادناه كما لا يؤخذ من خياره، قال: وإنما تؤخذ الصدقة من اوساط المال قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا مِثْلُ ذَلِكَ الْغَنَمُ تُعَدُّ عَلَى صَاحِبِهَا بِسِخَالِهَا، وَالسَّخْلُ لَا يُؤْخَذُ مِنْهُ فِي الصَّدَقَةِ وَقَدْ يَكُونُ فِي الْأَمْوَالِ ثِمَارٌ لَا تُؤْخَذُ الصَّدَقَةُ مِنْهَا، مِنْ ذَلِكَ الْبُرْدِيُّ وَمَا أَشْبَهَهُ لَا يُؤْخَذُ مِنْ أَدْنَاهُ كَمَا لَا يُؤْخَذُ مِنْ خِيَارِهِ، قَالَ: وَإِنَّمَا تُؤْخَذُ الصَّدَقَةُ مِنْ أَوْسَاطِ الْمَالِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مثال اس کی بکریوں کی ہے کہ بکریوں کے شمار میں بچوں کو بھی گن لیں گے مگر بچے زکوٰۃ میں نہ لیے جائیں گے، اور کبھی پھل ایسے ہوتے ہیں جو زکوٰۃ میں لینے کے قابل نہیں ہوتے بوجہ عمدگی کے، جیسے کھجور میں سے بروئی اور جو مشابہ ہے اس کے، اسی طرح جو پھل خراب ہوں وہ بھی نہیں لیے جائیں گے، بلکہ متوسط قسم کا مال لیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 558، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 34»
حدیث نمبر: 682ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا انه لا يخرص من الثمار إلا النخيل والاعناب، فإن ذلك يخرص حين يبدو صلاحه ويحل بيعه، وذلك ان ثمر النخيل والاعناب يؤكل رطبا وعنبا، فيخرص على اهله للتوسعة على الناس، ولئلا يكون على احد في ذلك ضيق، فيخرص ذلك عليهم ثم يخلى بينهم وبينه ياكلونه كيف شاءوا، ثم يؤدون منه الزكاة على ما خرص عليهم قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَا يُخْرَصُ مِنَ الثِّمَارِ إِلَّا النَّخِيلُ وَالْأَعْنَابُ، فَإِنَّ ذَلِكَ يُخْرَصُ حِينَ يَبْدُو صَلَاحُهُ وَيَحِلُّ بَيْعُهُ، وَذَلِكَ أَنَّ ثَمَرَ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ يُؤْكَلُ رُطَبًا وَعِنَبًا، فَيُخْرَصُ عَلَى أَهْلِهِ لِلتَّوْسِعَةِ عَلَى النَّاسِ، وَلِئَلَّا يَكُونَ عَلَى أَحَدٍ فِي ذَلِكَ ضِيقٌ، فَيُخْرَصُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ يُخَلَّى بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ يَأْكُلُونَهُ كَيْفَ شَاءُوا، ثُمَّ يُؤَدُّونَ مِنْهُ الزَّكَاةَ عَلَى مَا خُرِصَ عَلَيْهِمْ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ کسی پھل کا تخمینہ نہ کیا جائے گا مگر کھجور اور انگور کا، اُن کا تخمینہ کیا جائے گا جب وہ نکل آئیں، اور اُن کی پیدائش کا بہتری کے ساتھ حال معلوم ہو جائے، اور بیع اُن کی درست ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کھجور اور انگور پکنے کے بعد کھائے جاتے ہیں تو اس کا اندازہ کر لیں گے تاکہ لوگوں کو دقت نہ ہو اور اس کے مالک کو سپرد کر دیں گے کھائیں اس کو یا بیچیں۔ پھر زکوٰۃ ادا کریں گے اس حساب سے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 558، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 34»

Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.