الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں
14. بَابُ مَا جَاءَ فِيمَا يُعْتَدُّ بِهِ مِنَ السَّخْلِ فِي الصَّدَقَةِ
14. بکریوں کی تعداد میں بچوں کو بھی شمار کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 674
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن سفيان بن عبد اللٰه، ان عمر بن الخطاب بعثه مصدقا فكان يعد على الناس بالسخل. فقالوا: اتعد علينا بالسخل؟ ولا تاخذ منه شيئا فلما قدم على عمر بن الخطاب ذكر له ذلك فقال عمر: نعم تعد عليهم بالسخلة، يحملها الراعي، ولا تاخذها ولا تاخذ الاكولة، ولا الربى ولا الماخض ولا فحل الغنم، وتاخذ الجذعة والثنية وذلك عدل بين غذاء الغنم وخياره. عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَهُ مُصَدِّقًا فَكَانَ يَعُدُّ عَلَى النَّاسِ بِالسَّخْلِ. فَقَالُوا: أَتَعُدُّ عَلَيْنَا بِالسَّخْلِ؟ وَلَا تَأْخُذُ مِنْهُ شَيْئًا فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ تَعُدُّ عَلَيْهِمْ بِالسَّخْلَةِ، يَحْمِلُهَا الرَّاعِي، وَلَا تَأْخُذُهَا وَلَا تَأْخُذُ الْأَكُولَةَ، وَلَا الرُّبَّى وَلَا الْمَاخِضَ وَلَا فَحْلَ الْغَنَمِ، وَتَأْخُذُ الْجَذَعَةَ وَالثَّنِيَّةَ وَذَلِكَ عَدْلٌ بَيْنَ غِذَاءِ الْغَنَمِ وَخِيَارِهِ.
حضرت سفیان بن عبداللہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے متصدق (یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والا) کر کے بھیجا، تو وہ بکریوں میں بچے کو بھی شمار کرتے تھے، لوگوں نے کہا: تم بچوں کو شمار میں داخل کرتے ہو لیکن بچہ نہیں لیتے ہو، تو جب آئے وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس، بیان کیا اُن سے یہ امر، تو کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے: ہاں ہم گنتے ہیں بچوں کو بلکہ اس بچے کو جس کو چرواہا اٹھا کر چلتا ہے، لیکن نہیں لیتے اس کو نہ موٹی بکری کو جو کھانے کے واسطے موٹی کی جائے

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7397، 7398، 7410، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6806، 6808، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10079، والطبراني فى "الكبير"، 6395
امام نوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔، شركة الحروف نمبر: 551، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 674ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: والسخلة الصغيرة حين تنتج. والربى التي قد وضعت فهي تربي ولدها، والماخض هي الحامل. والاكولة هي شاة اللحم التي تسمن لتؤكلقَالَ مَالِكٌ: وَالسَّخْلَةُ الصَّغِيرَةُ حِينَ تُنْتَجُ. وَالرُّبَّى الَّتِي قَدْ وَضَعَتْ فَهِيَ تُرَبِّي وَلَدَهَا، وَالْمَاخِضُ هِيَ الْحَامِلُ. وَالْأَكُولَةُ هِيَ شَاةُ اللَّحْمِ الَّتِي تُسَمَّنُ لِتُؤْكَلَ
اور نہ اس بکری کو جو اپنے بچے کو پالتی ہو، اور نہ حاملہ کو اور نہ نر کو، اور لیتے ہیں ہم ایک سال یا دو سال کی بکری کو جو متوسط ہے، نہ بچہ ہے نہ بوڑھی ہے نہ بہت عمدہ ہے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 551، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 674ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وقال مالك: في الرجل تكون له الغنم لا تجب فيها الصدقة، فتوالد قبل ان ياتيها المصدق بيوم واحد، فتبلغ ما تجب فيه الصدقة بولادتها.
قال مالك: إذا بلغت الغنم باولادها ما تجب فيه الصدقة، فعليه فيها الصدقة. وذلك ان ولادة الغنم منها. وذلك مخالف لما افيد منها باشتراء او هبة او ميراث. ومثل ذلك، العرض. لا يبلغ ثمنه ما تجب فيه الصدقة. ثم يبيعه صاحبه فيبلغ بربحه ما تجب فيه الصدقة. فيصدق ربحه مع راس المال. ولو كان ربحه فائدة او ميراثا، لم تجب فيه الصدقة، حتى يحول عليه الحول من يوم افاده او ورثه
وقَالَ مَالِكٌ: فِي الرَّجُلِ تَكُونُ لَهُ الْغَنَمُ لَا تَجِبُ فِيهَا الصَّدَقَةُ، فَتَوَالَدُ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهَا الْمُصَدِّقُ بِيَوْمٍ وَاحِدٍ، فَتَبْلُغُ مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ بِوِلَادَتِهَا.
قَالَ مَالِكٌ: إِذَا بَلَغَتِ الْغَنَمُ بِأَوْلَادِهَا مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ، فَعَلَيْهِ فِيهَا الصَّدَقَةُ. وَذَلِكَ أَنَّ وِلَادَةَ الْغَنَمِ مِنْهَا. وَذَلِكَ مُخَالِفٌ لِمَا أُفِيدَ مِنْهَا بِاشْتِرَاءٍ أَوْ هِبَةٍ أَوْ مِيرَاثٍ. وَمِثْلُ ذَلِكَ، الْعَرْضُ. لَا يَبْلُغُ ثَمَنُهُ مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ. ثُمَّ يَبِيعُهُ صَاحِبُهُ فَيَبْلُغُ بِرِبْحِهِ مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ. فَيُصَدِّقُ رِبْحَهُ مَعَ رَأْسِ الْمَالِ. وَلَوْ كَانَ رِبْحُهُ فَائِدَةً أَوْ مِيرَاثًا، لَمْ تَجِبْ فِيهِ الصَّدَقَةُ، حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ أَفَادَهُ أَوْ وَرِثَهُ

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 551، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 674ب3
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: فغذاء الغنم منها، كما ربح المال منهقَالَ مَالِكٌ: فَغِذَاءُ الْغَنَمِ مِنْهَا، كَمَا رِبْحُ الْمَالِ مِنْهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر کسی شخص کی بکریاں نصاب سے کم ہوں اور مصدق کے آنے سے ایک دن پہلے وہ بکریاں بچہ جنیں، اور نصاب پورا ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی، اس لیے کہ اولاد بکریوں میں داخل ہے، اور یہ مسئلہ مخالف ہے اس مسئلہ کے کہ ایک شخص کے پاس نصاب سے کم بکریاں ہوں پھر خرید یا میراث یا ہبہ کی وجہ سے اور بکریاں آ جائیں، نظیر اس مسئلہ کی یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس کسی قسم کا اسباب ہو جس کی قیمت نصاب سے کم ہو، پھر وہ اس کو اس قدر نفع سے بیچے جو نصاب کو پہنچ جائے تو زکوٰۃ نفع کی راس المال کے ساتھ لازم آئے گی، اور اگر نفع اس کا ہبہ یا میراث ہوتا تو زکوٰۃ واجب نہ ہوتی جب تک اس پر ایک سال نہ گزرتا یا میراث کے زور سے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 552، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 674ب4
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
غير ان ذلك يختلف في وجه آخر. انه إذا كان للرجل من الذهب او الورق ما تجب فيه الزكاة، ثم افاد إليه مالا ترك ماله، الذي افاد فلم يزكه مع ماله الاول حين يزكيه، حتى يحول على الفائدة الحول من يوم افادها. ولو كانت لرجل غنم، او بقر او إبل، تجب في كل صنف منها الصدقة. ثم افاد إليها بعيرا، او بقرة، او شاة، صدقها مع صنف ما افاد من ذلك حين يصدقه، إذا كان عنده من ذلك الصنف الصنف الذي افاد، نصاب ماشية.
قال مالك: وهذا احسن ما سمعت في ذلك
غَيْرَ أَنَّ ذَلِكَ يَخْتَلِفُ فِي وَجْهٍ آخَرَ. أَنَّهُ إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، ثُمَّ أَفَادَ إِلَيْهِ مَالًا تَرَكَ مَالَهُ، الَّذِي أَفَادَ فَلَمْ يُزَكِّهِ مَعَ مَالِهِ الْأَوَّلِ حِينَ يُزَكِّيهِ، حَتَّى يَحُولَ عَلَى الْفَائِدَةِ الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ أَفَادَهَا. وَلَوْ كَانَتْ لِرَجُلٍ غَنَمٌ، أَوْ بَقَرٌ أَوْ إِبِلٌ، تَجِبُ فِي كُلِّ صِنْفٍ مِنْهَا الصَّدَقَةُ. ثُمَّ أَفَادَ إِلَيْهَا بَعِيرًا، أَوْ بَقَرَةً، أَوْ شَاةً، صَدَّقَهَا مَعَ صِنْفِ مَا أَفَادَ مِنْ ذَلِكَ حِينَ يُصَدِّقُهُ، إِذَا كَانَ عِنْدَهُ مِنْ ذَلِكَ الصِّنْفِ الصِّنْفُ الَّذِي أَفَادَ، نِصَابُ مَاشِيَةٍ.
قَالَ مَالِكٌ: وَهَذَا أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي ذَلِكَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: سو بچے بکریوں کے بکریوں میں داخل ہیں، جیسے کہ نفع مال کا اس مال میں داخل ہے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 552، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
15. بَابُ الْعَمَلِ فِي صَدَقَةِ عَامَيْنِ إِذَا اجْتَمَعَا
15. جب دو سال کی زکوٰۃ کسی پر واجب ہو جائے اس کے طریقے کا بیان
حدیث نمبر: 675Q
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: الامر عندنا في الرجل تجب عليه الصدقة. وإبله مائة بعير. فلا ياتيه الساعي حتى تجب عليه صدقة اخرى. فياتيه المصدق وقد هلكت إبله إلا خمس ذود. قال مالك: ياخذ المصدق من الخمس ذود، الصدقتين اللتين وجبتا على رب المال. شاتين: في كل عام شاة. لان الصدقة إنما تجب على رب المال يوم يصدق ماله. فإن هلكت ماشيته او نمت. فإنما يصدق المصدق زكاة ما يجد يوم يصدق. وإن تظاهرت على رب المال صدقات غير واحدة، فليس عليه ان يصدق إلا ما وجد المصدق عنده. فإن هلكت ماشيته او وجبت عليه فيها صدقات، فلم يؤخذ منه شيء حتى هلكت ماشيته كلها، او صارت إلى ما لا تجب فيه الصدقة، فإنه لا صدقة عليه ولا ضمان فيما هلك. او مضى من السنين.قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الرَّجُلِ تَجِبُ عَلَيْهِ الصَّدَقَةُ. وَإِبِلُهُ مِائَةُ بَعِيرٍ. فَلَا يَأْتِيهِ السَّاعِي حَتَّى تَجِبَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ أُخْرَى. فَيَأْتِيهِ الْمُصَدِّقُ وَقَدْ هَلَكَتْ إِبِلُهُ إِلَّا خَمْسَ ذَوْدٍ. قَالَ مَالِكٌ: يَأْخُذُ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْخَمْسِ ذَوْدٍ، الصَّدَقَتَيْنِ اللَّتَيْنِ وَجَبَتَا عَلَى رَبِّ الْمَالِ. شَاتَيْنِ: فِي كُلِّ عَامٍ شَاةٌ. لِأَنَّ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا تَجِبُ عَلَى رَبِّ الْمَالِ يَوْمَ يُصَدِّقُ مَالَهُ. فَإِنْ هَلَكَتْ مَاشِيَتُهُ أَوْ نَمَتْ. فَإِنَّمَا يُصَدِّقُ الْمُصَدِّقُ زَكَاةَ مَا يَجِدُ يَوْمَ يُصَدِّقُ. وَإِنْ تَظَاهَرَتْ عَلَى رَبِّ الْمَالِ صَدَقَاتٌ غَيْرُ وَاحِدَةٍ، فَلَيْسَ عَلَيْهِ أَنْ يُصَدِّقَ إِلَّا مَا وَجَدَ الْمُصَدِّقُ عِنْدَهُ. فَإِنْ هَلَكَتْ مَاشِيَتُهُ أَوْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ فِيهَا صَدَقَاتٌ، فَلَمْ يُؤْخَذْ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى هَلَكَتْ مَاشِيَتُهُ كُلُّهَا، أَوْ صَارَتْ إِلَى مَا لَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ، فَإِنَّهُ لَا صَدَقَةَ عَلَيْهِ وَلَا ضَمَانَ فِيمَا هَلَكَ. أَوْ مَضَى مِنَ السِّنِينَ.
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ایک اور اختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس سونا یا چاندی نصاب کے موافق ہو پھر وہ اور مال کمائے تو اس فائدہ کی زکوٰۃ دینا لازم نہ آئے گی جب تک اس پر ایک سال نہ گزرے، اور اگر کسی کے پاس بکریاں یا گائیں یا اونٹ ہر ایک قسم مقدارِ نصاب کے ہو پھر اور بکریاں یا گائیں یا اونٹ حاصل کرے تو ان کی زکوٰۃ پہلے ہم جنس جانوروں کے ساتھ مل کر لازم آئے گی۔
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: یہ تقریر بہت اچھی ہے اس باب میں جو میں نے سنا سب تقریروں سے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 552، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
16. بَابُ النَّهْيِ عَنِ التَّضْيِيقِ عَلَى النَّاسِ فِي الصَّدَقَةِ
16. زکوٰۃ میں لوگوں کو تنگ کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 675
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: مر على عمر بن الخطاب بغنم من الصدقة فراى فيها شاة حافلا ذات ضرع عظيم، فقال عمر: ما هذه الشاة؟ فقالوا: شاة من الصدقة، فقال عمر : " ما اعطى هذه اهلها وهم طائعون، لا تفتنوا الناس لا تاخذوا حزرات المسلمين نكبوا عن الطعام" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: مُرَّ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِغَنَمٍ مِنَ الصَّدَقَةِ فَرَأَى فِيهَا شَاةً حَافِلًا ذَاتَ ضَرْعٍ عَظِيمٍ، فَقَالَ عُمَرُ: مَا هَذِهِ الشَّاةُ؟ فَقَالُوا: شَاةٌ مِنَ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ عُمَرُ : " مَا أَعْطَى هَذِهِ أَهْلُهَا وَهُمْ طَائِعُونَ، لَا تَفْتِنُوا النَّاسَ لَا تَأْخُذُوا حَزَرَاتِ الْمُسْلِمِينَ نَكِّبُوا عَنِ الطَّعَامِ"
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بکریاں آئیں زکوٰۃ کی۔ اس میں ایک بکری دیکھی بہت دودھ والی، تو پوچھا آپ نے: یہ بکری کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: زکوٰۃ کی بکری ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے مالک نے کبھی اس کو خوشی سے نہ دیا ہوگا۔ لوگوں کو فتنے میں نہ ڈالو، ان کے بہترین اموال نہ لو، اور باز آؤ ان کے رزق چھین لینے سے۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7754، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم:1282، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2394، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10011، شركة الحروف نمبر: 553، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 28»
حدیث نمبر: 676
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، انه قال: اخبرني رجلان من اشجع، ان محمد بن مسلمة الانصاري كان ياتيهم مصدقا، فيقول لرب المال: " اخرج إلي صدقة مالك" فلا يقود إليه شاة فيها وفاء من حقه إلا قبلها وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلَانِ مِنْ أَشْجَعَ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ يَأْتِيهِمْ مُصَدِّقًا، فَيَقُولُ لِرَبِّ الْمَالِ: " أَخْرِجْ إِلَيَّ صَدَقَةَ مَالِكَ" فَلَا يَقُودُ إِلَيْهِ شَاةً فِيهَا وَفَاءٌ مِنْ حَقِّهِ إِلَّا قَبِلَهَا
حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت ہے کہ خبر دی مجھ کو دو شخصوں نے قبیلہ اشجع سے کہ محمد بن مسلمہ انصاری آتے تھے زکوٰۃ لینے کو تو کہتے تھے صاحبِ مال سے: لاؤ میرے پاس زکوٰۃ اپنے مال کی، پھر وہ جو بکری لے کر آتا، اگر وہ زکوٰۃ کے لائق ہوتی تو قبول کر لیتے۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7405، 7755، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2250، والشافعي فى «الاُم» ‏‏‏‏ برقم: 57/2 والشافعي فى «المسنده» برقم: 427/1، شركة الحروف نمبر: 554، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 28ق»
حدیث نمبر: 676ب
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: السنة عندنا والذي ادركت عليه اهل العلم ببلدنا انه لا يضيق على المسلمين في زكاتهم وان يقبل منهم ما دفعوا من اموالهمقَالَ مَالِك: السُّنَّةُ عِنْدَنَا وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا أَنَّهُ لَا يُضَيَّقُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فِي زَكَاتِهِمْ وَأَنْ يُقْبَلَ مِنْهُمْ مَا دَفَعُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک سنّت یہ ہے اور اسی پر ہم نے اپنے شہر کے اہلِ علم کو پایا کہ زکوٰۃ لینے میں مسلمانوں پر تنگی نہ کی جائے، اور جو وہ دیں قبول کیا جائے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 554، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 28ق»
17. بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ وَمَنْ يَجُوزُ لَهُ أَخْذُهَا
17. صدقہ لینا اور جن لوگوں کو لینا درست ہے ان کا بیان
حدیث نمبر: 677
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا تحل الصدقة لغني إلا لخمسة: لغاز في سبيل الله، او لعامل عليها، او لغارم، او لرجل اشتراها بماله، او لرجل له جار مسكين فتصدق على المسكين فاهدى المسكين للغني" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا لِخَمْسَةٍ: لِغَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ لِعَامِلٍ عَلَيْهَا، أَوْ لِغَارِمٍ، أَوْ لِرَجُلٍ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ، أَوْ لِرَجُلٍ لَهُ جَارٌ مِسْكِينٌ فَتُصُدِّقَ عَلَى الْمِسْكِينِ فَأَهْدَى الْمِسْكِينُ لِلْغَنِيِّ"
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکوٰۃ درست نہیں مالدار کو مگر پانچ آدمیوں کو درست ہے: پہلے غازی جو جہاد کرتا ہو اللہ کی راہ میں، دوسرے جو عامل ہو زکوٰۃ کا یعنی زکوٰۃ کو وصول اور تحصیل کرتا ہو، تیسرے مدیون یعنی جو قرضدار ہو، چوتھے جو زکوٰۃ کے مال کو خرید لے اپنے مال کے عوض میں، پانچویں جو مسکین ہمسایہ کے پاس سے بطورِ ہدیہ کے آئے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه وأبو داود فى «سننه» برقم: 1635، 1637، وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 402، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2368، 2374، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1485، 1486، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1841، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13288، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11440، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7151، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 10784، شركة الحروف نمبر: 555، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 29»

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.