الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
60. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ
60. باب: اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related About] Wudu From Camel Meat
حدیث نمبر: 81
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عبد الله بن عبد الله الرازي، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن البراء بن عازب، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الوضوء من لحوم الإبل , فقال: " توضئوا منها " , وسئل عن الوضوء من لحوم الغنم , فقال: " لا تتوضئوا منها ". قال: وفي الباب عن جابر بن سمرة، واسيد بن حضير. قال ابو عيسى: وقد روى الحجاج بن ارطاة هذا الحديث، عن عبد الله بن عبد الله، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن اسيد بن حضير، والصحيح حديث عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن البراء بن عازب، وهو قول احمد , وإسحاق، وروى عبيدة الضبي، عن عبد الله بن عبد الله الرازي، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ذي الغرة الجهني، وروى حماد بن سلمة هذا الحديث، عن الحجاج بن ارطاة فاخطا فيه، وقال فيه: عن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابيه، عن اسيد بن حضير والصحيح، عن عبد الله بن عبد الله الرازي، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن البراء بن عازب، قال إسحاق: صح في هذا الباب حديثان، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، حديث البراء، وحديث جابر بن سمرة، وهو قول احمد , وإسحاق، وقد روي عن بعض اهل العلم من التابعين وغيرهم، انهم لم يروا الوضوء من لحوم الإبل، وهو قول سفيان الثوري، واهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ , فَقَالَ: " تَوَضَّئُوا مِنْهَا " , وَسُئِلَ عَنِ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ , فَقَالَ: " لَا تَتَوَضَّئُوا مِنْهَا ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَأُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق، وَرَوَى عُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ذِي الْغُرَّةِ الْجُهَنِيِّ، وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ فَأَخْطَأَ فِيهِ، وَقَالَ فِيهِ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ وَالصَّحِيحُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ إِسْحَاق: صَحَّ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثَانِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدِيثُ الْبَرَاءِ، وَحَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْا الْوُضُوءَ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اونٹ کے گوشت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس سے وضو کرو اور بکری کے گوشت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس سے وضو نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں جابر بن سمرہ اور اسید بن حضیر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- یہی قول احمد، عبداللہ اور اسحاق بن راہویہ کا ہے،
۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس باب میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے دو حدیثیں صحیح ہیں: ایک براء بن عازب کی (جسے مولف نے ذکر کیا اور اس کے طرق پر بحث کی ہے) اور دوسری جابر بن سمرہ کی،
۴- یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ ان لوگوں کی رائے ہے کہ اونٹ کے گوشت سے وضو نہیں ہے اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 72 (184)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 67 (494)، (تحفة الأشراف: 1783)، مسند احمد (4/288) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: لوگ اوپر والی روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہاں وضو سے مراد وضو لغوی ہے، لیکن یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ وضو ایک شرعی لفظ ہے جسے بغیر کسی دلیل کے لغوی معنی پر محمول کرنا درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (494)
61. بَابُ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ
61. باب: شرمگاہ (عضو تناسل) چھونے پر وضو کا بیان۔
Chapter: Wudu For Touching The Penis
حدیث نمبر: 82
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، قال: حدثنا يحيى بن سعيد القطان، عن هشام بن عروة، قال: اخبرني ابي، عن بسرة بنت صفوان، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من مس ذكره فلا يصل حتى يتوضا ". قال: وفي الباب عن ام حبيبة , وابي ايوب , وابي هريرة، واروى ابنة انيس، وعائشة، وجابر، وزيد بن خالد، وعبد الله بن عمرو. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح , قال: هكذا رواه غير واحد مثل هذا، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن بسرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلَا يُصَلِّ حَتَّى يَتَوَضَّأَ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ , وَأَبِي أَيُّوبَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وأَرْوَى ابْنَةِ أُنَيْسٍ، وَعَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ , قَالَ: هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ هَذَا، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بُسْرَةَ.
بسرہ بنت صفوان رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنی شرمگاہ (عضو تناسل) چھوئے تو جب تک وضو نہ کر لے نماز نہ پڑھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بسرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ام حبیبہ، ابوایوب، ابوہریرہ، ارویٰ بنت انیس، عائشہ، جابر، زید بن خالد اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- کئی لوگوں نے اسے اسی طرح ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے اور عروہ نے بسرہ سے روایت کیا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 70 (181)، سنن النسائی/الطہارة 118 (163)، والغسل 30 (147)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 63 (679) (تحفة الأشراف: 15785)، موطا امام مالک/الطہارة 15 (58 مسند احمد (6/406)، 407)، سنن الدارمی/الطہارة 50 (751) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہشام کے بعض شاگردوں نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور بعض نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان مروان کے واسطے کا ذکر کیا ہے، جن لوگوں نے عروۃ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ان کی روایت منقطع نہیں ہے کیونکہ عروہ کا بسرۃ سے سماع ثابت ہے، پہلے عروہ نے اسے مروان کے واسطے سے سنا پھر بسرۃ سے جا کر انہوں نے اس کی تصدیق کی جیسا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (479)
حدیث نمبر: 83
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) وروى ابو اسامة , وغير واحد هذا الحديث، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن مروان، عن بسرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، حدثنا بذلك إسحاق بن منصور، حدثنا ابو اسامة بهذا.(مرفوع) وَرَوَى أَبُو أُسَامَةَ , وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَرْوَانَ، عَنْ بُسْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ بِهَذَا.
ابواسامہ اور کئی اور لوگوں نے اس حدیث کو بسند «ہشام بن عروہ عن أبیہ عن مروان بسرة عن النبی صلی الله علیہ وسلم» روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (82)
حدیث نمبر: 84
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) وروى هذا الحديث ابو الزناد، عن عروة , عن بسرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، حدثنا بذلك علي بن حجر، قال: حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن ابيه، عن عروة، عن بسرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، وهو قول غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وبه يقول الاوزاعي، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قال محمد: واصح شيء في هذا الباب حديث بسرة، وقال ابو زرعة: حديث ام حبيبة في هذا الباب صحيح، وهو حديث العلاء بن الحارث، عن مكحول، عن عنبسة بن ابي سفيان، عن ام حبيبة، وقال محمد: لم يسمع مكحول من عنبسة بن ابي سفيان، وروى مكحول، عن رجل، عن عنبسة غير هذا الحديث، وكانه لم ير هذا الحديث صحيحا.(مرفوع) وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ بُسْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ بُسْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ الْأَوْزَاعِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ بُسْرَةَ، وقَالَ أَبُو زُرْعَةَ: حَدِيثُ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثُ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، وقَالَ مُحَمَّدٌ: لَمْ يَسْمَعْ مَكْحُولٌ مِنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، وَرَوَى مَكْحُولٌ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَكَأَنَّهُ لَمْ يَرَ هَذَا الْحَدِيثَ صَحِيحًا.
نیز اسے ابوالزناد نے «بسند عروہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے۔
۱- یہی صحابہ اور تابعین میں سے کئی لوگوں کا قول ہے اور اسی کے قائل اوزاعی، شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ ہیں،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ بسرہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے،
۳- ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ رضی الله عنہا کی حدیث ۱؎ (بھی) اس باب میں صحیح ہے،
۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مکحول کا سماع عنبسہ بن ابی سفیان سے نہیں ہے ۲؎، اور مکحول نے ایک آدمی سے اور اس آدمی نے عنبسہ سے ان کی حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث روایت کی ہے، گویا امام بخاری اس حدیث کو صحیح نہیں مانتے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ام حبیبہ رضی الله عنہا کی حدیث کی تخریج ابن ماجہ نے کی ہے (دیکھئیے: «باب الوضوء من مس الذكر» رقم ۴۸۱)۔
۲؎: یحییٰ بن معین، ابوزرعہ، ابوحاتم اور نسائی نے بھی یہی بات کہی ہے، لیکن عبدالرحمٰن دحیم نے ان لوگوں کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے مکحول کا عنبسہ سے سماع ثابت کیا ہے (دحیم اہل شام کی حدیثوں کے زیادہ جانکار ہیں)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (83)
62. بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ
62. باب: عضو تناسل کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
Chapter: [What Has Been Related About] Not Performing Wudu For Touching The Penis
حدیث نمبر: 85
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ملازم بن عمرو، عن عبد الله بن بدر، عن قيس بن طلق بن علي هو الحنفي، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " وهل هو إلا مضغة منه؟ او بضعة منه؟ ". قال: وفي الباب عن ابي امامة. قال ابو عيسى: وقد روي عن غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وبعض التابعين، انهم لم يروا الوضوء من مس الذكر، وهو قول اهل الكوفة، وابن المبارك، وهذا الحديث احسن شيء روي في هذا الباب، وقد روى هذا الحديث ايوب بن عتبة، ومحمد بن جابر، عن قيس بن طلق، عن ابيه، وقد تكلم بعض اهل الحديث في محمد بن جابر , وايوب بن عتبة، وحديث ملازم بن عمرو، عن عبد الله بن بدر، اصح واحسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ هُوَ الْحَنَفِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَهَلْ هُوَ إِلَّا مُضْغَةٌ مِنْهُ؟ أَوْ بَضْعَةٌ مِنْهُ؟ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَعْضِ التَّابِعِينَ، أَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْا الْوُضُوءَ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَهَذَا الْحَدِيثُ أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ , وَأَيُّوبَ بْنِ عُتْبَةَ، وَحَدِيثُ مُلَازِمِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ، أَصَحُّ وَأَحْسَنُ.
طلق بن علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (عضو تناسل کے سلسلے میں) فرمایا: یہ تو جسم ہی کا ایک لوتھڑا یا ٹکڑا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوامامہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۲- صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے نیز بعض تابعین سے بھی مروی ہے کہ عضو تناسل کے چھونے سے وضو واجب نہیں، اور یہی اہل کوفہ اور ابن مبارک کا قول ہے،
۳- اس باب میں مروی احادیث میں سے یہ سب سے اچھی حدیث ہے،
۴- ایوب بن عتبہ اور محمد بن جابر نے بھی اس حدیث کو قیس بن طلق نے «عن أبیہ» سے روایت کیا ہے۔ بعض محدثین نے محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ کے سلسلے میں کلام کیا ہے،
۵- ملازم بن عمرو کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن بدر سے روایت کیا ہے، سب سے صحیح اور اچھی ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 71 (182)، سنن النسائی/الطہارة 119 (165)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 64 (483) (تحفة الأشراف: 5023) مسند احمد (4/22، 23) (صحیح) (سند میں قیس کے بارے میں قدرے کلام ہے، لیکن اکثر علماء نے توثیق کی ہے)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث اور پچھلی حدیث میں تعارض ہے، اس تعارض کو محدثین نے ایسے دور کیا ہے کہ طلق بن علی کی یہ روایت بسرہ رضی الله عنہا کی روایت سے پہلے کی ہے، اس لیے طلق رضی الله عنہ کی حدیث منسوخ ہے، رہی ان تابعین کی بات جو عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو بسرہ کی حدیث نہیں پہنچی ہو گی۔ کچھ علما نے اس تعارض کو ایسے دور کیا ہے کہ بسرہ کی حدیث بغیر کسی حائل (رکاوٹ) کے چھونے کے بارے میں ہے، اور طلق کی حدیث بغیر کسی حائل (پردہ) کے چھونے کے بارے میں ہے۔
۲؎: طلق بن علی رضی الله عنہ کی اس حدیث کے تمام طریق میں ملازم والا طریق سب سے بہتر ہے، نہ یہ کہ بسرہ کی حدیث سے طلق کی حدیث بہتر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (483)
63. بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِنَ الْقُبْلَةِ
63. باب: بوسہ لینے سے وضو کے نہ ٹوٹنے کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related About] Not Performing Wudu For Kissing
حدیث نمبر: 86
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، وهناد , وابو كريب , واحمد بن منيع، ومحمود بن غيلان , وابو عمار الحسين بن حريث , قالوا: حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن حبيب بن ابي ثابت، عن عروة، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " قبل بعض نسائه، ثم خرج إلى الصلاة ولم يتوضا , قال: قلت: من هي إلا انت , قال: فضحكت ". قال ابو عيسى: وقد روي نحو هذا، عن غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وهو قول سفيان الثوري، واهل الكوفة، قالوا: ليس في القبلة وضوء , وقال مالك بن انس، والاوزاعي، والشافعي، واحمد، وإسحاق: في القبلة وضوء , وهو قول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وإنما ترك اصحابنا حديث عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا، لانه لا يصح عندهم لحال الإسناد , قال: وسمعت ابا بكر العطار البصري يذكر، عن علي بن المديني، قال: ضعف يحيى بن سعيد القطان هذا الحديث جدا، وقال: هو شبه لا شيء , قال: وسمعت محمد بن إسماعيل يضعف هذا الحديث , وقال: حبيب بن ابي ثابت لم يسمع من عروة، وقد روي عن إبراهيم التيمي، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قبلها ولم يتوضا , وهذا لا يصح ايضا، ولا نعرف لإبراهيم التيمي سماعا من عائشة، وليس يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الباب شيء.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ , وَأَبُو كُرَيْبٍ , وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , وأَبو عَمَّارٍ الْحسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِهِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ , قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هِيَ إِلَّا أَنْتِ , قَالَ: فَضَحِكَتْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالُوا: لَيْسَ فِي الْقُبْلَةِ وُضُوءٌ , وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالْأَوْزَاعِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: فِي الْقُبْلَةِ وُضُوءٌ , وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَإِنَّمَا تَرَكَ أَصْحَابُنَا حَدِيثَ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا، لِأَنَّهُ لَا يَصِحُّ عِنْدَهُمْ لِحَالِ الْإِسْنَادِ , قَالَ: وسَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، قَالَ: ضَعَّفَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ هَذَا الْحَدِيثَ جِدًّا، وَقَالَ: هُوَ شِبْهُ لَا شَيْءَ , قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ , وقَالَ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَهَا وَلَمْ يَتَوَضَّأْ , وَهَذَا لَا يَصِحُّ أَيْضًا، وَلَا نَعْرِفُ لِإِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ، وَلَيْسَ يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَابِ شَيْءٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کا بوسہ لیا، پھر آپ نماز کے لیے نکلے اور وضو نہیں کیا، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنی خالہ ام المؤمنین عائشہ سے) کہا: وہ آپ ہی رہی ہوں گی؟ تو وہ ہنس پڑیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم سے اسی طرح مروی ہے اور یہی قول سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا ہے کہ بوسہ لینے سے وضو (واجب) نہیں ہے، مالک بن انس، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ بوسہ لینے سے وضو (واجب) ہے، یہی قول صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا ہے،
۲- ہمارے اصحاب نے عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث پر جو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے محض اس وجہ سے عمل نہیں کیا کہ یہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ۲؎،
۳- یحییٰ بن قطان نے اس حدیث کی بہت زیادہ تضعیف کی ہے اور کہا ہے کہ یہ «لاشیٔ» کے مشابہ ہے ۳؎،
۴- نیز میں نے محمد بن اسماعیل (بخاری) کو بھی اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا، انہوں نے کہا کہ حبیب بن ثابت کا سماع عروۃ سے نہیں ہے،
۵- نیز ابراہیم تیمی نے بھی عائشہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔ لیکن یہ روایت بھی صحیح نہیں کیونکہ عائشہ سے ابراہیم تیمی کے سماع کا ہمیں علم نہیں۔ اس باب میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 69 (179، 180)، سنن النسائی/الطہارة 121 (170)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 69 (502)، (تحفة الأشراف: 17371)، مسند احمد (6/207) (صحیح) (سند میں حبیب بن ابی ثابت اور عروہ کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مؤلف نے صراحت کی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی آپ نے سابق وضو ہی پر نماز پڑھی، بوسہ لینے سے نیا وضو نہیں کیا، اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور یہی قول راجح ہے۔
۲؎: لیکن امام شوکانی نے نیل الأوطار میں اور علامہ البانی نے صحیح أبی داود (رقم ۱۷۱- ۱۷۲) میں متابعات اور شواہد کی بنیاد پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، نیز دیگر بہت سے ائمہ نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھئیے مذکورہ حوالے)۔
۳؎: «لاشئی» کے مشابہ ہے یعنی ضعیف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (502)
64. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ مِنَ الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ
64. باب: قے اور نکسیر سے وضو کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related About] Wudu For Vomit And Nosebleeds
حدیث نمبر: 87
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو عبيدة بن ابي السفر وهو احمد بن عبد الله الهمداني الكوفي، وإسحاق بن منصور , قال ابو عبيدة: حدثنا , وقال إسحاق: اخبرنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثني ابي، عن حسين المعلم، عن يحيى بن ابي كثير، قال: حدثني عبد الرحمن بن عمرو الاوزاعي، عن يعيش بن الوليد المخزومي، عن ابيه، عن معدان بن ابي طلحة، عن ابي الدرداء، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " قاء، فافطر، فتوضا، فلقيت ثوبان في مسجد دمشق، فذكرت ذلك له، فقال: صدق انا صببت له وضوءه ". قال ابو عيسى: وقال إسحاق بن منصور: معدان بن طلحة. قال ابو عيسى: وابن ابي طلحة اصح. قال ابو عيسى: وقد راى غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم من التابعين، الوضوء من القيء والرعاف , وهو قول سفيان الثوري، وابن المبارك، واحمد، وإسحاق , وقال بعض اهل العلم: ليس في القيء والرعاف وضوء , وهو قول مالك، والشافعي، وقد جود حسين المعلم هذا الحديث، وحديث حسين اصح شيء في هذا الباب، وروى معمر هذا الحديث، عن يحيى بن ابي كثير فاخطا فيه، فقال: عن يعيش بن الوليد، عن خالد بن معدان، عن ابي الدرداء، ولم يذكر فيه الاوزاعي، وقال: عن خالد بن معدان، وإنما هو: معدان بن ابي طلحة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ وَهُوَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: حَدَّثَنَا , وَقَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَاءَ، فَأَفْطَرَ، فَتَوَضَّأ، فَلَقِيتُ ثَوْبَانَ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: صَدَقَ أَنَا صَبَبْتُ لَهُ وَضُوءَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وقَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ: مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَابْنُ أَبِي طَلْحَةَ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ التَّابِعِينَ، الْوُضُوءَ مِنَ الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ فِي الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ وُضُوءٌ , وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَقَدْ جَوَّدَ حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَدِيثُ حُسَيْنٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ، وَرَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فَأَخْطَأَ فِيهِ، فَقَالَ: عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْأَوْزَاعِيَّ، وَقَالَ: عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، وَإِنَّمَا هُوَ: مَعْدَانُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قے کی تو روزہ توڑ دیا اور وضو کیا (معدان کہتے ہیں کہ) پھر میں نے ثوبان رضی الله عنہ سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ابو الدرداء نے سچ کہا، میں نے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم پر پانی ڈالا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو (ٹوٹ جاتا) ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎ اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو نہیں ٹوٹتا یہ مالک اور شافعی کا قول ہے ۲؎،
۲- حدیث کے طرق کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حسین المعلم کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصوم 32 (2391)، (تحفة الأشراف: 10964)، مسند احمد (5/195، و6/443)، سنن الدارمی/الصوم 24 (1769)، (ولفظ الجمیع ”قاء فأفطر“) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے، لیکن اس حدیث سے استدلال دو باتوں پر موقوف ہے: ایک یہ کہ: حدیث میں لفظ یوں ہو «قاء فتوضأ» قے کی تو وضو کیا جب کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے، زیادہ تر مصادر حدیث میں زیادہ رواۃ کی روایتوں میں «قاء فأفطر» قے کی تو روزہ توڑ لیا ہے «فأفطر» کے بعد بھی «فتوضأ» کا لفظ نہیں ہے، یا اسی طرح ہے جس طرح اس روایت میں ہے، یعنی «قاء فأفطرفتوضأ» یعنی قے کی تو روزہ توڑ لیا، اور اس کے بعد وضو کیا اور اس لفظ سے وضو کا وجوب ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ قے کے بعد آدمی کمزور ہو جاتا ہے اس لیے روزہ توڑ لیتا ہے، اور نظافت کے طور پر وضو کر لیتا ہے، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تو اور زیادہ نظافت پسند تھے، نیز یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا صرف فعل تھا جس کے ساتھ آپ کا کوئی حکم بھی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر «قاء فتوضأ» کا لفظ ہی محفوظ ہو تو «فتوضأ» کی فاء سبب کے لیے ہو، یعنی یہ ہوا کہ قے کی اس لیے وضو کیا اور یہ بات متعین نہیں ہے، بلکہ یہ فاء تعقیب کے لیے بھی ہو سکتی ہے، یعنی یہ ہوا کہ قے کی اور اس کے بعد وضو کیا۔
۲؎: ان لوگوں کی دلیل جابر رضی الله عنہ کی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو ایک تیر آ کر لگا اور خون بہنے لگا لیکن اس نے اپنی نماز جاری رکھی اور اسی حال میں رکوع اور سجدہ کرتا رہا ظاہر ہے اس کی اس نماز کا علم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو یقیناً رہا ہو گا کیونکہ اس کی یہ نماز بحالت پہرہ داری تھی جس کا حکم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسے دیا تھا، اس کے باوجود آپ نے اسے وضو کرنے اور نماز کے لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (111)
65. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ بِالنَّبِيذِ
65. باب: نبیذ سے وضو کرنے کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related About] Wudu' With Nabidh
حدیث نمبر: 88
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا شريك عن ابي فزارة، عن ابي زيد، عن عبد الله بن مسعود، قال: سالني النبي صلى الله عليه وسلم: " ما في إداوتك؟ فقلت: نبيذ , فقال: تمرة طيبة وماء طهور، قال: فتوضا منه ". قال ابو عيسى: وإنما روي هذا الحديث، عن ابي زيد، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وابو زيد رجل مجهول عند اهل الحديث، لا تعرف له رواية غير هذا الحديث، وقد راى بعض اهل العلم الوضوء بالنبيذ، منهم سفيان الثوري وغيره، وقال بعض اهل العلم: لا يتوضا بالنبيذ، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق , وقال إسحاق: إن ابتلي رجل بهذا فتوضا بالنبيذ وتيمم احب إلي. قال ابو عيسى: وقول من يقول: لا يتوضا بالنبيذ اقرب إلى الكتاب، واشبه لان الله تعالى قال: فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا سورة النساء آية 43.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي فَزَارَةَ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا فِي إِدَاوَتِكَ؟ فَقُلْتُ: نَبِيذٌ , فَقَالَ: تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ وَمَاءٌ طَهُورٌ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو زَيْدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، لَا تُعْرَفُ لَهُ رِوَايَةٌ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ بِالنَّبِيذِ، مِنْهُمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق , وقَالَ إِسْحَاق: إِنِ ابْتُلِيَ رَجُلٌ بِهَذَا فَتَوَضَّأَ بِالنَّبِيذِ وَتَيَمَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَوْلُ مَنْ يَقُولُ: لَا يُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ أَقْرَبُ إِلَى الْكِتَابِ، وَأَشْبَهُ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة النساء آية 43.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارے مشکیزے میں کیا ہے؟ تو میں نے عرض کیا: نبیذ ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: کھجور بھی پاک ہے اور پانی بھی پاک ہے تو آپ نے اسی سے وضو کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوزید محدثین کے نزدیک مجہول آدمی ہیں اس حدیث کے علاوہ کوئی اور روایت ان سے جانی نہیں جاتی،
۲- بعض اہل علم کی رائے ہے نبیذ سے وضو جائز ہے انہیں میں سے سفیان ثوری وغیرہ ہیں، بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نبیذ سے وضو جائز نہیں ۲؎ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کو یہی کرنا پڑ جائے تو وہ نبیذ سے وضو کر کے تیمم کر لے، یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے،
۳- جو لوگ نبیذ سے وضو کو جائز نہیں مانتے ان کا قول قرآن سے زیادہ قریب اور زیادہ قرین قیاس ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «فإن لم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» جب تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو (النساء: 43) پوری آیت یوں ہے: «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون ولا جنبا إلا عابري سبيل حتى تغتسلوا وإن كنتم مرضى أو على سفر أو جاء أحد منكم من الغآئط أو لامستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحواء بوجوهكم وأيديكم إن الله كان عفوا غفورا»

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 42 (84)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 37 (384)، (تحفة الأشراف: 9603)، مسند احمد (1/402) (ضعیف) (سند میں ابو زید مجہول راوی ہیں۔)»

وضاحت:
۱؎: نبیذ ایک مشروب ہے جو کھجور، کشمش، شہد گیہوں اور جو وغیرہ سے بنایا جاتا ہے۔
۲؎: یہی جمہور علما کا قول ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: «فإن لم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» (سورة النساء: 43) تو جب پانی نہ ہو تو نبیذ سے وضو کرنے کے بجائے تیمم کر لینا چاہیئے، اور باب کی اس حدیث کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے جو استدلال کے لیے احتجاج کے لائق نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (384)، //، ضعيف أبي داود (14 / 84)، المشكاة (480)، ضعيف سنن ابن ماجة (84) //
66. بَابٌ في الْمَضْمَضَةِ مِنَ اللَّبَنِ
66. باب: دودھ پینے پر کر کلی کرنے کا بیان۔
Chapter: [About] Rinsing Out The Mouth After Drinking Milk
حدیث نمبر: 89
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم شرب لبنا، فدعا بماء، فمضمض، وقال: " إن له دسما ". قال: وفي الباب عن سهل بن سعد الساعدي، وام سلمة. قال ابو عيسى: وهذا حسن صحيح، وقد راى بعض اهل العلم المضمضة من اللبن، وهذا عندنا على الاستحباب، ولم ير بعضهم المضمضة من اللبن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ لَبَنًا، فَدَعَا بِمَاءٍ، فَمَضْمَضَ، وَقَالَ: " إِنَّ لَهُ دَسَمًا ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمَضْمَضَةَ مِنَ اللَّبَنِ، وَهَذَا عِنْدَنَا عَلَى الِاسْتِحْبَابِ، وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمُ الْمَضْمَضَةَ مِنَ اللَّبَنِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دودھ پیا تو پانی منگوا کر کلی کی اور فرمایا: اس میں چکنائی ہوتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سہل بن سعد ساعدی، اور ام سلمہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ کلی دودھ پینے سے ہے، اور یہ حکم ہمارے نزدیک مستحب ۱؎ ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 52 (211)، والأشربة 12 (5609)، صحیح مسلم/الطہارة 24 (358)، سنن ابی داود/ الطہارة 77 (196)، سنن النسائی/الطہارة 25 (187)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 68 (498)، (تحفة الأشراف: 5833)، مسند احمد (1/223، 227، 329، 337، 373) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بعض لوگوں نے اسے واجب کہا ہے، ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ ابن ماجہ کی ایک روایت (رقم ۴۹۸) میں «مضمضوا من اللبن» امر کے صیغے کے ساتھ آیا ہے اور امر میں اصل وجوب ہے، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب استحباب پر محمول کرنے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو اور یہاں استحباب پر محمول کئے جانے کی دلیل موجود ہے کیونکہ ابوداؤد نے (برقم ۱۹۶) انس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دودھ پیا تو نہ کلی کی اور نہ وضو ہی کیا، اس کی سند حسن ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (498)
67. بَابٌ في كَرَاهَةِ رَدِّ السَّلاَمِ غَيْرَ مُتَوَضِّئٍ
67. باب: بغیر وضو سلام کا جواب دینے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: It Is Disliked To Retum The Salam If One Does Not Have Wudu
حدیث نمبر: 90
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي , ومحمد بن بشار , قالا: حدثنا ابو احمد محمد بن عبد الله الزبيري، عن سفيان، عن الضحاك بن عثمان، عن نافع، عن ابن عمر " ان رجلا سلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يبول، فلم يرد عليه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وإنما يكره هذا عندنا، إذا كان على الغائط والبول، وقد فسر بعض اهل العلم ذلك، وهذا احسن شيء روي في هذا الباب. قال ابو عيسى: وفي الباب عن المهاجر بن قنفذ، وعبد الله بن حنظلة، وعلقمة بن الفغواء، وجابر، والبراء.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَليٍّ , وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ هَذَا عِنْدَنَا، إِذَا كَانَ عَلَى الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ ذَلِكَ، وَهَذَا أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ الْفَغْوَاءِ، وَجَابِرٍ، وَالْبَرَاءِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور ہمارے نزدیک سلام کا جواب دینا اس صورت میں مکروہ قرار دیا جاتا ہے جب آدمی پاخانہ یا پیشاب کر رہا ہو، بعض اہل علم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے ۱؎،
۲- یہ سب سے عمدہ حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے،
۳- اور اس باب میں مہاجر بن قنفذ، عبداللہ بن حنظلہ، علقمہ بن شفواء، جابر اور براء بن عازب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض28 (370)، سنن ابی داود/ الطہارة 8 (16)، سنن النسائی/الطہارة 33 (37)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 27 (353)، ویأتی عند المؤلف برقم: 2720 (تحفة الأشراف: 7696) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور یہی راجح ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پیشاب کی حالت میں ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا، نہ کہ وضو کے بغیر سلام کا جواب جائز نہیں، اور جن حدیثوں میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فراغت کے بعد وضو کیا اور پھر آپ نے جواب دیا تو یہ استحباب پر محمول ہے، نیز یہ بات آپ کو خاص طور پر پسند تھی کہ آپ اللہ کا نام بغیر طہارت کے نہیں لیتے تھے، اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پر سلام ہی نہیں کرنا چاہیئے، یہ حکم وجوبی ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (54)، صحيح أبي داود (12 و 13)

Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.