صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
6. باب فضل من مات له ولد فاحتسب، وقال الله عز وجل: {وبشر الصابرين} :
باب: اس شخص کی فضیلت جس کی کوئی اولاد مر جائے اور وہ اجر کی نیت سے صبر کرے۔
حدیث نمبر: 1251
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَمُوتُ لِمُسْلِمٍ ثَلَاثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ فَيَلِجَ النَّارَ إِلَّا تَحِلَّةَ الْقَسَمِ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا.
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے اگر تین بچے مر جائیں تو وہ دوزخ میں نہیں جائے گا اور اگر جائے گا بھی تو صرف قسم پوری کرنے کے لیے۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ (قرآن کی آیت یہ ہے) تم میں سے ہر ایک کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہو گا۔ [صحيح البخاري/كتاب الجنائز/حدیث: 1251]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | أحاديث |
|---|---|---|
| 👤←👥أبو هريرة الدوسي | صحابي | |
👤←👥سعيد بن المسيب القرشي، أبو محمد سعيد بن المسيب القرشي ← أبو هريرة الدوسي | أحد العلماء الأثبات الفقهاء الكبار | |
👤←👥محمد بن شهاب الزهري، أبو بكر محمد بن شهاب الزهري ← سعيد بن المسيب القرشي | الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه | |
👤←👥سفيان بن عيينة الهلالي، أبو محمد سفيان بن عيينة الهلالي ← محمد بن شهاب الزهري | ثقة حافظ حجة | |
👤←👥علي بن المديني، أبو الحسن علي بن المديني ← سفيان بن عيينة الهلالي | ثقة ثبت إمام أعلم أهل عصره بالحديث وعلله |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
6656
| لا يموت لأحد من المسلمين ثلاثة من الولد تمسه النار إلا تحلة القسم |
صحيح البخاري |
1251
| لا يموت لمسلم ثلاثة من الولد فيلج النار إلا تحلة القسم |
صحيح مسلم |
6703
| دفنت ثلاثة قال لقد احتظرت بحظار شديد من النار |
صحيح مسلم |
6704
| دفنت ثلاثة قالت نعم قال لقد احتظرت بحظار شديد من النار |
صحيح مسلم |
6698
| لا يموت لإحداكن ثلاثة من الولد فتحتسبه إلا دخلت الجنة |
صحيح مسلم |
6698
| لا يموت لأحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم |
جامع الترمذي |
1060
| لا يموت لأحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم |
سنن النسائى الصغرى |
1878
| قدمت ثلاثة فقال رسول الله لقد احتظرت بحظار شديد من النار |
سنن النسائى الصغرى |
1877
| ما من مسلمين يموت بينهما ثلاثة أولاد لم يبلغوا الحنث إلا أدخلهما الله بفضل رحمته إياهم الجنة يقال لهم ادخلوا الجنة فيقولون حتى يدخل آباؤنا ادخلوا الجنة أنتم وآباؤكم |
سنن النسائى الصغرى |
1876
| لا يموت لأحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم |
سنن ابن ماجه |
1603
| لا يموت لرجل ثلاثة من الولد فيلج النار إلا تحلة القسم |
موطا امام مالك رواية ابن القاسم |
239
| لا يموت لاحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم |
مسندالحميدي |
1050
| لا يموت لمسلم ثلاثة من الولد، فيلج النار إلا تحلة القسم |
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1251 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1251
حدیث حاشیہ:
نابالغ بچوں کی وفات پر اگر ماں باپ صبر کریں تو اس پر ثواب ملتا ہے۔
قدرتی طور پر اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑا غم ہے اور اسی لیے اگر کوئی اس پر یہ سمجھ کر صبر کرے کہ اللہ تعالی ہی نے یہ بچہ دیا تھا اور اب اسی نے اٹھا لیا تو اس حادثہ کی سنگینی کے مطابق اس پرثواب بھی اتنا ہی ملے گا۔
اس کے گنا ہ معاف ہو جائیں گے۔
اور آخرت میں اس کی جگہ جنت میں ہوگی۔
آخر میں یہ بتایا ہے کہ جہنم سے یوں تو ہر مسلمان کو گزرنا ہوگا، لیکن جو مومن بندے اس کے مستحق نہیں ہوں گے، ان کا گزرنا بس ایسا ہی ہوگا جیسے قسم پوری کی جارہی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس پر قرآن مجید کی آیت بھی لکھی ہے۔
بعض علماء نے اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ پل صراط چونکہ ہے ہی جہنم پر اور اس سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔
اب جو نیک ہے وہ اس سے بآسانی گزر جائے گا، لیکن بدعمل یا کافر اس سے گزر نہ سکیں گے اورجہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے گزر نے سے یہی مراد ہے۔
یہاں اس بات کا بھی لحاظ رہے کہ حدیث میں نابالغ اولاد کے مرنے پر اس اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
بالغ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ بالغ اور خصوصاً جوان اولاد کی موت کا سانحہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی اللہ تعالی سے سفارش کرتے ہیں۔
بعض روایتوں میں ایک بچے کی موت پر بھی یہی وعدہ موجود ہے۔
جہاں تک صبر کا تعلق ہے وہ بہر حال بالغ کی موت پر بھی ملے گا۔
الغرض دوزخ کے اوپر سے گزرنے کا مطلب پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے جو دوزخ کے پشت پر نصب ہے۔
پس مومن کا دوزخ میں جانا یہی پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے۔
آیت شریفہ ﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا﴾ کا یہی مفہوم ہے۔
نابالغ بچوں کی وفات پر اگر ماں باپ صبر کریں تو اس پر ثواب ملتا ہے۔
قدرتی طور پر اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑا غم ہے اور اسی لیے اگر کوئی اس پر یہ سمجھ کر صبر کرے کہ اللہ تعالی ہی نے یہ بچہ دیا تھا اور اب اسی نے اٹھا لیا تو اس حادثہ کی سنگینی کے مطابق اس پرثواب بھی اتنا ہی ملے گا۔
اس کے گنا ہ معاف ہو جائیں گے۔
اور آخرت میں اس کی جگہ جنت میں ہوگی۔
آخر میں یہ بتایا ہے کہ جہنم سے یوں تو ہر مسلمان کو گزرنا ہوگا، لیکن جو مومن بندے اس کے مستحق نہیں ہوں گے، ان کا گزرنا بس ایسا ہی ہوگا جیسے قسم پوری کی جارہی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس پر قرآن مجید کی آیت بھی لکھی ہے۔
بعض علماء نے اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ پل صراط چونکہ ہے ہی جہنم پر اور اس سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔
اب جو نیک ہے وہ اس سے بآسانی گزر جائے گا، لیکن بدعمل یا کافر اس سے گزر نہ سکیں گے اورجہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے گزر نے سے یہی مراد ہے۔
یہاں اس بات کا بھی لحاظ رہے کہ حدیث میں نابالغ اولاد کے مرنے پر اس اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
بالغ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ بالغ اور خصوصاً جوان اولاد کی موت کا سانحہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی اللہ تعالی سے سفارش کرتے ہیں۔
بعض روایتوں میں ایک بچے کی موت پر بھی یہی وعدہ موجود ہے۔
جہاں تک صبر کا تعلق ہے وہ بہر حال بالغ کی موت پر بھی ملے گا۔
الغرض دوزخ کے اوپر سے گزرنے کا مطلب پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے جو دوزخ کے پشت پر نصب ہے۔
پس مومن کا دوزخ میں جانا یہی پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے۔
آیت شریفہ ﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا﴾ کا یہی مفہوم ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1251]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1251
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ ”فضیلت“ کو اختیار کیا ہے تاکہ اس سلسلے میں مختلف احادیث میں تطبیق دی جائے، چنانچہ ایک حدیث میں نابالغ بچوں کے مرنے پر دخول جنت کی بشارت ہے، دوسری میں جہنم سے حجاب بننے کا ذکر ہے اور تیسری میں صرف قسم کو پورا کرنے کے لیے دوزخ پر وارد ہونے کا بیان ہے۔
مذکورہ احادیث میں فضیلت ہی کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ دخول جنت تو دوزخ میں جانے اور پھر اس سے نکلنے کے بعد بھی ہو سکتا ہے، اس لیے دوسری حدیث سے پتہ چلا کہ دخول جنت، دوزخ میں داخل ہوئے بغیر ہو گا۔
تیسری حدیث کے مطابق جہنم پر ورود صرف قسم کو پورا کرنے کے لیے کارروائی کے طور پر ہو گا۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ﴿٧١﴾) (مریم: 71/19)
”تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا جہنم پر گزر نہ ہو۔
یہ ایک طے شدہ بات ہے جو تیرے رب کے ذمہ ہے۔
“ جہنم کے اوپر سے گزرنے والے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور ایسے وہ لوگ ہوں گے جن کے لیے اللہ کی طرف سے پہلے ہی بھلائی مقدر ہو چکی ہے۔
(2)
والدین کے لیے یہ بہت بڑی بشارت ہے۔
اگرچہ احادیث میں یہ خوشخبری دو یا تین بچوں کے فوت ہونے پر ہے، لیکن امام بخاری ؒ کے عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بشارت ایک بچے کے فوت ہونے پر بھی ہے، بلکہ ناتمام مولود پر بھی یہ فضیلت حاصل ہو گی، لیکن اس فضیلت کے حصول کے لیے شرط یہ ہے کہ اس قسم کے صدمے کی چوٹ لگتے ہی صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”جب میں دنیا میں کسی بندے کی پسندیدہ چیز کو لے لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے اور مجھ سے اجر کی امید رکھتا ہے تو اسے ضرور جنت میں داخلہ ملے گا۔
“(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6424) (3)
احادیث میں صراحت ہے کہ مرنے والے بچے نابالغ ہوں، کیونکہ وہ معصوم ہوں گے جن کی سفارش قبول کی جائے گی۔
ورنہ صدمے کے اعتبار سے بڑی عمر کے بچوں کی وفات کا صدمہ زیادہ ہوتا ہے۔
والله أعلم۔
(1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ ”فضیلت“ کو اختیار کیا ہے تاکہ اس سلسلے میں مختلف احادیث میں تطبیق دی جائے، چنانچہ ایک حدیث میں نابالغ بچوں کے مرنے پر دخول جنت کی بشارت ہے، دوسری میں جہنم سے حجاب بننے کا ذکر ہے اور تیسری میں صرف قسم کو پورا کرنے کے لیے دوزخ پر وارد ہونے کا بیان ہے۔
مذکورہ احادیث میں فضیلت ہی کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ دخول جنت تو دوزخ میں جانے اور پھر اس سے نکلنے کے بعد بھی ہو سکتا ہے، اس لیے دوسری حدیث سے پتہ چلا کہ دخول جنت، دوزخ میں داخل ہوئے بغیر ہو گا۔
تیسری حدیث کے مطابق جہنم پر ورود صرف قسم کو پورا کرنے کے لیے کارروائی کے طور پر ہو گا۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا ﴿٧١﴾) (مریم: 71/19)
”تم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا جہنم پر گزر نہ ہو۔
یہ ایک طے شدہ بات ہے جو تیرے رب کے ذمہ ہے۔
“ جہنم کے اوپر سے گزرنے والے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور ایسے وہ لوگ ہوں گے جن کے لیے اللہ کی طرف سے پہلے ہی بھلائی مقدر ہو چکی ہے۔
(2)
والدین کے لیے یہ بہت بڑی بشارت ہے۔
اگرچہ احادیث میں یہ خوشخبری دو یا تین بچوں کے فوت ہونے پر ہے، لیکن امام بخاری ؒ کے عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بشارت ایک بچے کے فوت ہونے پر بھی ہے، بلکہ ناتمام مولود پر بھی یہ فضیلت حاصل ہو گی، لیکن اس فضیلت کے حصول کے لیے شرط یہ ہے کہ اس قسم کے صدمے کی چوٹ لگتے ہی صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”جب میں دنیا میں کسی بندے کی پسندیدہ چیز کو لے لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے اور مجھ سے اجر کی امید رکھتا ہے تو اسے ضرور جنت میں داخلہ ملے گا۔
“(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6424) (3)
احادیث میں صراحت ہے کہ مرنے والے بچے نابالغ ہوں، کیونکہ وہ معصوم ہوں گے جن کی سفارش قبول کی جائے گی۔
ورنہ صدمے کے اعتبار سے بڑی عمر کے بچوں کی وفات کا صدمہ زیادہ ہوتا ہے۔
والله أعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1251]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 239
مسلمانوں کے (نابالغ) بچے جنت میں ہیں
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يموت لاحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم.“»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں سے جس کے تین بچے فوت ہو جائیں تو اسے (جہنم کی) آگ نہیں چھوئے گی سوائے قسم پوری کرنے کے۔“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 239]
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يموت لاحد من المسلمين ثلاثة من الولد فتمسه النار إلا تحلة القسم.“»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں سے جس کے تین بچے فوت ہو جائیں تو اسے (جہنم کی) آگ نہیں چھوئے گی سوائے قسم پوری کرنے کے۔“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 239]
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 235/1 ح 557، ك 16 ب 13 ح 38، التمهيد 346/6، الاستذكار: 511 ● و أخرجه البخاري 6656،، ومسلم 2632، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مسلمان کو صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دربار رحمت اور فضل و کرم سے بہت بڑا اجر ملتا ہے۔
➋ مسلمانوں کے (نابالغ) بچے جنت میں ہیں۔
➌ ایک صحابی کا بچہ فوت ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: «أَمَا تَرْضَى أَلَّا تَأْتِيَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ إِلَّا جَاءَ يَسْعَى حَتَّى يَفْتَحَهُ لَكَ؟» کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت کے جس دروازے کی طرف سے آؤ تو تمہارا بچہ بھاگتا ہوا آئے اور تمہارے لئے دروازہ کھول دے؟ [مسند على بن الجعد:1075 وسنده صحيح، مسند أحمد 436/3، 34،35/5، سنن النسائي 22/4 ح 1871، 118/4 ح 2090]
● معلوم ہوا کہ صبر کرنے والے والدین کا فوت شدہ بچہ قیامت کے دن ان کے لئے جنت کے دروازے کھولے گا۔
➍ ”سوائے قسم پوری کرنے کے“ میں قران مجید کی آیت «وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا» اور تم میں سے ہر آدمی اس پر وارد ہو گا۔ [سورة مريم: 71] کی طرف اشارہ ہے۔ [فتح الباري 661/11 ح 6656، طبع دارالسلام]
◄ مزید تفصیل کے لئے مذکورہ آیت کی تفسیر و کتب تفاسیر کی طرف رجوع کریں۔
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 235/1 ح 557، ك 16 ب 13 ح 38، التمهيد 346/6، الاستذكار: 511 ● و أخرجه البخاري 6656،، ومسلم 2632، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مسلمان کو صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دربار رحمت اور فضل و کرم سے بہت بڑا اجر ملتا ہے۔
➋ مسلمانوں کے (نابالغ) بچے جنت میں ہیں۔
➌ ایک صحابی کا بچہ فوت ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: «أَمَا تَرْضَى أَلَّا تَأْتِيَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ إِلَّا جَاءَ يَسْعَى حَتَّى يَفْتَحَهُ لَكَ؟» کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت کے جس دروازے کی طرف سے آؤ تو تمہارا بچہ بھاگتا ہوا آئے اور تمہارے لئے دروازہ کھول دے؟ [مسند على بن الجعد:1075 وسنده صحيح، مسند أحمد 436/3، 34،35/5، سنن النسائي 22/4 ح 1871، 118/4 ح 2090]
● معلوم ہوا کہ صبر کرنے والے والدین کا فوت شدہ بچہ قیامت کے دن ان کے لئے جنت کے دروازے کھولے گا۔
➍ ”سوائے قسم پوری کرنے کے“ میں قران مجید کی آیت «وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا» اور تم میں سے ہر آدمی اس پر وارد ہو گا۔ [سورة مريم: 71] کی طرف اشارہ ہے۔ [فتح الباري 661/11 ح 6656، طبع دارالسلام]
◄ مزید تفصیل کے لئے مذکورہ آیت کی تفسیر و کتب تفاسیر کی طرف رجوع کریں۔
[موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 15]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1876
جس کی تین اولاد مر جائیں اس کے ثواب کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں سے جس شخص کے بھی تین بچے مر جائیں، تو اسے جہنم کی آگ صرف قسم ۱؎ پوری کرنے ہی کے لیے چھوئے گی۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1876]
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں سے جس شخص کے بھی تین بچے مر جائیں، تو اسے جہنم کی آگ صرف قسم ۱؎ پوری کرنے ہی کے لیے چھوئے گی۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1876]
1876۔ اردو حاشیہ: قسم سے مراد قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: (وان منکم الا واردھا کان علی ربک حتما مقضیا) (مریم 71: 19) ”اور تم میں سے ہر شخص جہنم میں جائے گا، یہ تیرے رب کے ذمے حتمی اور طے شدہ بات ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ ہر شخص کو صراط (پل صراط) پر سے گزرنا پڑے گا جو جہنم کے اوپر ہے تاکہ اس میں گناہو کے موجود اثرات جہنم کی تپش یا آگ سے ختم ہو جائیں اور وہ پاک صاف ہو کر جنت میں داخل ہو۔ چونکہ انسان طبعاً خطکار ہے، لہٰذا ہر انسان کا صراط پر سے گزرنا معقول ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ معصوم انسان، مثلاً: انبیاء علیہم السلام بجلی کی طرح گزر جائیں گے۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1876]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1877
جس کی تین اولاد مر جائیں اس کے ثواب کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان ماں باپ کے تین نابالغ بچے مر جائیں، تو اللہ تعالیٰ ان کو ان پر اپنی رحمت کے فضل سے جنت میں داخل کرے گا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”ان سے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ، تو وہ کہیں گے (ہم نہیں داخل ہو سکتے) جب تک کہ ہمارے والدین داخل نہ ہو جائیں، (پھر) کہا جائے گا: (جاؤ) اپنے والدین کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1877]
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان ماں باپ کے تین نابالغ بچے مر جائیں، تو اللہ تعالیٰ ان کو ان پر اپنی رحمت کے فضل سے جنت میں داخل کرے گا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”ان سے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ، تو وہ کہیں گے (ہم نہیں داخل ہو سکتے) جب تک کہ ہمارے والدین داخل نہ ہو جائیں، (پھر) کہا جائے گا: (جاؤ) اپنے والدین کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1877]
1877۔ اردو حاشیہ: اللہ تعالیٰ یہ استحقاق جنت ان والدین کو عطا فرمائے گا جنھوں نے بچوں کی وفات پر صبر و رضا کے ثبوت کے ساتھ ساتھ ایمان و تقویٰ کی زندگی گزاری ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ایسے اہل ایمان کے بارے میں ان بچوں کی سفارش قبول فرمائے گا اور انہیں پہلے مرحلے ہی میں جنت میں داخل فرما دے گا۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1877]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1603
جس کا بچہ مر جائے اس کے ثواب کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے تین بچے انتقال کر جائیں، وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا مگر قسم پوری کرنے کے لیے ۱؎۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1603]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے تین بچے انتقال کر جائیں، وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا مگر قسم پوری کرنے کے لیے ۱؎۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1603]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان کو اپنی اولاد سے فطری طور پر زیادہ محبت ہوتی ہے۔
اس لئے اولاد کی وفات پر صبر کرنے پر خصوصی ثواب ہے۔
(2)
الولد (اولاد)
میں بچے اور بچیاں دونوں شامل ہیں۔
خواہ بچے فوت ہوں یا بچیاں ثواب برابر ہے۔
(3)
یہ ثواب ماں اور باپ دونوں کےلئے ہے۔
(4)
قسم پوری کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ جہنم پر سے گزرے گا جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
جیسے کہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا﴾ (مریم: 71)
تم میں سے ہر ایک اس پر ضرور وارد ہونے والا ہے۔
یہ تیرے رب کا قطعی فیصلہ ہے۔
نیک مومن آسانی سے پار ہوجایئں گے۔
گناہ گار مومن اور کافر جہنم میں گر جایئں گے۔
اس کے بعد مومنوں کو اپنے اپنے وقت پر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔
اور کافر ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہ جایئں گے۔
فوائد و مسائل:
(1)
انسان کو اپنی اولاد سے فطری طور پر زیادہ محبت ہوتی ہے۔
اس لئے اولاد کی وفات پر صبر کرنے پر خصوصی ثواب ہے۔
(2)
الولد (اولاد)
میں بچے اور بچیاں دونوں شامل ہیں۔
خواہ بچے فوت ہوں یا بچیاں ثواب برابر ہے۔
(3)
یہ ثواب ماں اور باپ دونوں کےلئے ہے۔
(4)
قسم پوری کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ جہنم پر سے گزرے گا جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
جیسے کہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا﴾ (مریم: 71)
تم میں سے ہر ایک اس پر ضرور وارد ہونے والا ہے۔
یہ تیرے رب کا قطعی فیصلہ ہے۔
نیک مومن آسانی سے پار ہوجایئں گے۔
گناہ گار مومن اور کافر جہنم میں گر جایئں گے۔
اس کے بعد مومنوں کو اپنے اپنے وقت پر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔
اور کافر ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہ جایئں گے۔
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1603]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1060
اس شخص کے ثواب کا بیان جس نے کوئی لڑکا ذخیرہ آخرت کے طور پر پہلے بھیج دیا ہو۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے تین بچے فوت ہو جائیں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر قسم پوری کرنے کے لیے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1060]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے تین بچے فوت ہو جائیں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر قسم پوری کرنے کے لیے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1060]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تحلۃ القسم سے مراداللہ تعالیٰ کافرمان ﴿وإن منكم إلا واردها﴾ (تم میں سے ہرشخص اس جہنم میں واردہوگا) ہے اور وارد سے مراد پُل صراط پرسے گزرناہے۔
وضاحت:
1؎:
تحلۃ القسم سے مراداللہ تعالیٰ کافرمان ﴿وإن منكم إلا واردها﴾ (تم میں سے ہرشخص اس جہنم میں واردہوگا) ہے اور وارد سے مراد پُل صراط پرسے گزرناہے۔
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1060]
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1050
1050- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جس بھی مسلمان کے تین بچے فوت ہوجائیں، تو وہ صرف قسم پوری کرنے کے لیے جہنم میں داخل ہوگا۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1050]
فائدہ:
«تحلة القسم» سے مراد پل صراط سے گزرنا ہے۔
«تحلة القسم» سے مراد پل صراط سے گزرنا ہے۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1049]
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6698
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا:"تم میں سے جس عورت کے تین بچے فوت ہوئے اور اس نے ثواب حاصل کرنے کی نیت کی تووہ جنت میں داخل ہو گی۔"تو ان میں سے ایک عورت نے کہا:یا دو؟ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا:"یا دو۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6698]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایک بچے کے بارے میں سوال کرنے کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے،
مگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے،
"اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
میں اپنے جس مومن بندے کی اہل دنیا سے محبوب شخصیت فوت کرتا ہوں اور وہ اس پر میری رضا چاہتا ہے تو میں اس کو جنت میں داخل کروں گا،
(بخاری،
کتاب الرقاق)
فوائد ومسائل:
ایک بچے کے بارے میں سوال کرنے کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے،
مگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے،
"اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
میں اپنے جس مومن بندے کی اہل دنیا سے محبوب شخصیت فوت کرتا ہوں اور وہ اس پر میری رضا چاہتا ہے تو میں اس کو جنت میں داخل کروں گا،
(بخاری،
کتاب الرقاق)
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6698]
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6698
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا:"تم میں سے جس عورت کے تین بچے فوت ہوئے اور اس نے ثواب حاصل کرنے کی نیت کی تووہ جنت میں داخل ہو گی۔"تو ان میں سے ایک عورت نے کہا:یا دو؟ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا:"یا دو۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6698]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایک بچے کے بارے میں سوال کرنے کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے،
مگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے،
"اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
میں اپنے جس مومن بندے کی اہل دنیا سے محبوب شخصیت فوت کرتا ہوں اور وہ اس پر میری رضا چاہتا ہے تو میں اس کو جنت میں داخل کروں گا،
(بخاری،
کتاب الرقاق)
فوائد ومسائل:
ایک بچے کے بارے میں سوال کرنے کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے،
مگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے،
"اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
میں اپنے جس مومن بندے کی اہل دنیا سے محبوب شخصیت فوت کرتا ہوں اور وہ اس پر میری رضا چاہتا ہے تو میں اس کو جنت میں داخل کروں گا،
(بخاری،
کتاب الرقاق)
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6698]
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6703
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا ایک بچہ لے کر آئی اور درخواست کی، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اس کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں، میں اپنے تین بچے دفن کر چکی ہوں، آپ نے فرمایا"کیا تونے تین بچے دفن کیے ہیں؟"اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا:" تونے آگ سے مضبوط باڑبنالی ہے۔"عمر بن حفص نے عن جدہ اپنے دادے سے کہا باقی راویوں نے صرف عن مطلق کہا، [صحيح مسلم، حديث نمبر:6703]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے،
مسلمانوں کے نابالغ بچے جنتی ہیں اور ایک مومن انسان کے لیے دوزخ سے حفاظت کا ذریعہ ہیں اور نابالغ بچہ چونکہ معصوم ہوتا ہے،
اس لیے جس طرح وہ مچل سکتا ہے،
بالغ بچہ اس طرح مچل کر اپنے والدین کی نجات کے لیے اصرار نہیں کر سکتا،
اسے خود اپنی فکر ہوتی ہے۔
فوائد ومسائل:
ان حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے،
مسلمانوں کے نابالغ بچے جنتی ہیں اور ایک مومن انسان کے لیے دوزخ سے حفاظت کا ذریعہ ہیں اور نابالغ بچہ چونکہ معصوم ہوتا ہے،
اس لیے جس طرح وہ مچل سکتا ہے،
بالغ بچہ اس طرح مچل کر اپنے والدین کی نجات کے لیے اصرار نہیں کر سکتا،
اسے خود اپنی فکر ہوتی ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6703]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6656
6656. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے تین بچے فوت ہو جائیں تو اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم کو پورا کرنے کے لیے ایسا ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6656]
حدیث حاشیہ:
قسم سے مراد اللہ کا یہ فرمودہ ہے ﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا﴾ یعنی تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو دوزخ پر سے ہو کر نہ جائے۔
قسم سے مراد اللہ کا یہ فرمودہ ہے ﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا﴾ یعنی تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو دوزخ پر سے ہو کر نہ جائے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6656]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6656
6656. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے تین بچے فوت ہو جائیں تو اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم کو پورا کرنے کے لیے ایسا ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6656]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں لفظ قسم استعمال ہوا ہے جس سے مراد یمین یا حلف ہے۔
روایت میں قسم سے مراد اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا﴾ ”تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو دوزخ پر سے ہو کر نہ جائے۔
“ (مریم: 71/19)
اس ارشاد باری تعالیٰ میں لفظ مقدر ہے۔
اصل عبارت یوں ہے:
”اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو دوزخ پر سے گزر کر نہ جائے۔
“ (عمدة القاري: 706/15) (2)
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس میں قسم مقدر (پوشیدہ)
نہیں بلکہ آیت سابقہ پر عطف ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
”آپ کے پروردگار کی قسم! ہم انہیں اور ان کے ساتھ شیطانوں کو ضرور جمع کریں گے۔
“ اس قسم پر عطف ڈالا گیا ہے۔
(فتح الباري: 661/11) (3)
واضح رہے کہ وارد ہونے سے مراد داخل ہونا نہیں بلکہ اوپر سے گزرنا ہے۔
واللہ أعلم
(1)
اس حدیث میں لفظ قسم استعمال ہوا ہے جس سے مراد یمین یا حلف ہے۔
روایت میں قسم سے مراد اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا﴾ ”تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو دوزخ پر سے ہو کر نہ جائے۔
“ (مریم: 71/19)
اس ارشاد باری تعالیٰ میں لفظ مقدر ہے۔
اصل عبارت یوں ہے:
”اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو دوزخ پر سے گزر کر نہ جائے۔
“ (عمدة القاري: 706/15) (2)
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس میں قسم مقدر (پوشیدہ)
نہیں بلکہ آیت سابقہ پر عطف ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
”آپ کے پروردگار کی قسم! ہم انہیں اور ان کے ساتھ شیطانوں کو ضرور جمع کریں گے۔
“ اس قسم پر عطف ڈالا گیا ہے۔
(فتح الباري: 661/11) (3)
واضح رہے کہ وارد ہونے سے مراد داخل ہونا نہیں بلکہ اوپر سے گزرنا ہے۔
واللہ أعلم
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6656]


سعيد بن المسيب القرشي ← أبو هريرة الدوسي