296. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، ان سے سوال کیا گیا: آیا حائضہ عورت میری خدمت کر سکتی ہے یا بحالت جنابت میرے قریب آ سکتی ہے؟ حضرت عروہ نے فرمایا: میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح کی عورتیں میری بھی خدمت بجا لاتی ہیں۔ کسی شخص پر اس سلسلے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مجھے حضرت عائشہ ؓ نے بتایا کہ وہ بحالت حیض رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک میں کنگھی کیا کرتی تھیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺ اس وقت مسجد میں اعتکاف فرما ہوتے۔ آپ اپنا سر مبارک قریب کر دیتے اور حضرت عائشہ ؓ حائضہ ہونے کے باوجود اپنے حجرے ہی سے کنگھی کر دیا کرتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:296]
حدیث حاشیہ: 1۔
یہود کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے کہ وہ بحالت حیض عورت کے ساتھ کھانے پینے اور ایک مکان میں ساتھ رہنے کو ممنوع خیال کرتے تھے۔
امام بخاری ؒ ان کے غیر معقول رویے پر تنبیہ کرنا، نیز قرآنی ہدایت کہ ان دنوں میں عورتوں کے قریب نہ جاؤ اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے صرف مباشرت و جماع کی ممانعت ہے، حائضہ عورت کا قرب و مس ممنوع نہیں۔
امام بخاری نے اس عنوان سے ہمیں آگاہ فرمایا ہے کہ حائضہ عورت اپنے خاوند کے تمام امور خدمت سرانجام دے سکتی ہے۔
سر دھوسکتی ہے، اس میں کنگھی کر سکتی ہے، خاوند کا سر گود میں رکھ کر اسے آرام پہنچا سکتی ہے اور کھانا وغیرہ پکا سکتی ہے۔
حدیث سے بالوں میں کنگھی کرنا اور انھیں سنوارنا تو ثابت ہے، لیکن انھیں دھونے کا ذکر اس روایت میں نہیں ہے، دراصل امام بخاری ؒ نے اس روایت کے بیان کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے، کیونکہ اس روایت کے دوسرے طرق سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ بحالت حیض سر مبارک دھوتی تھیں۔
(صحیح بخاري، الحیض، حدیث: 301) حضرت عائشہ ؓ حیض کے عذر کی وجہ سے مسجد میں نہ آسکتی تھیں۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ کھڑکی سے اپنا سر مبارک باہر نکالتے، حضرت عائشہ ؓ اسے دھو دیتیں اور اس میں کنگھی کر دیتی تھیں۔
لفظ "ترجیل" بالوں کو درست کرنے سے کنایہ ہے، خواہ بالوں کو سنوارنا دھونے کی صورت میں ہو یا کنگھی کرنے کی شکل میں۔
2۔
دوسری حدیث میں حضرت عروہ ؓ سے سوال کیا گیا کہ آیا بیوی حیض یا جنابت کی حالت میں اپنے خاوند کی خدمت کر سکتی ہےاور اس کے قریب آسکتی ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
انھوں نے بطور دلیل حضرت عائشہ ؓ کی روایت پیش کردی کہ وہ بھی بحالت حیض رسول اللہ ﷺ کے بال سنوار دیا کرتی تھیں، اس میں حائضہ سے خدمت لینے کی وضاحت ہے، لیکن بحالت جنابت خدمت لینے کا مسئلہ اس روایت میں بیان نہیں ہوا۔
اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں حضرت عروہ ؒ نے حیض پر قیاس کرتے ہوئے جنابت کو اس کے ساتھ ملا دیا، کیونکہ حیض قذر اور گندگی ہے۔
جب اس گندگی کی حالت میں خد مت لینے کی اجازت ہے تو جنابت تو ایک معنوی نجاست ہے۔
اس حالت میں تو بدرجہ اولیٰ خدمت لینے کی اجازت ہونی چاہیے اور انھوں نے بال سنوار نے پر دیگر خدمات کو قیاس کر کے اس میں عموم پیدا کیا ہے، اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل بھی معلوم ہوئے۔
حائضہ کا بدن اور پسینہ پاک ہے۔
حائضہ عورت مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی۔
معتکف کے لیے جماع اور اس کے مقدمات ممنوع ہیں۔
(فتح الباری: 521/1) 3۔
حائضہ عورت کے اپنے خاوند كا سر دھونے اور اس میں کنگھی کرنے کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں۔
البتہ حضرت ابن عباس ؓ کے متعلق ابن ابی شیبہ ؒ نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک دفعہ اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے فرمایا کہ بیٹے تمھارے بال اتنے پراکندہ کیوں ہیں؟ عرض کیا کہ بیوی اُم عمار ہی میرے بال سنوارتی ہےاوروہ ان دنوں حیض میں مبتلا ہے، حضرت میمونہ ؓ نے فرمایا:
حیض اس کے ہاتھ میں سرایت نہیں کر گیا کہ اس سے کوئی خدمت نہ لی جائے۔
رسول اللہ ﷺ آرام کرنے کے لیے ہماری گود میں سر رکھ دیتے تھے، جبکہ ہم حیض میں مبتلا ہوتی تھیں۔
(المصنف لا بن أبي شیبة: 366/1)