سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد حجاج کے خیمے کے قریب آ کر بلند آواز دی تو حجاج باہر نکل آیا اور اس کے جسم پر کسم سے رنگی ہوئی ایک چادر تھی۔ حجاج نے (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے عرض کی کہ اے ابوعبدالرحمن! کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر تو سنت (کی پیروی) چاہتا ہے تو (تجھے وقوف کے لیے) چلنا چاہیے؟ حجاج نے عرض کی کیا اسی وقت؟ انہوں نے کہا ہاں۔ حجاج نے کہا کہ مجھے اتنی مہلت دیجئیے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں پھر چلوں۔ پس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سواری سے اتر پڑے (اور انتظار کرتے رہے) یہاں تک کہ حجاج نکلا پس وہ میرے (سالم بن عبداللہ) اور میرے والد محترم (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کے درمیان چلنے لگا۔ (سالم بن عبداللہ کہتے ہیں) میں نے حجاج سے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو خطبہ مختصر پڑھنا اور وقوف میں عجلت کرنا تو وہ حجاج عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف دیکھنے لگا جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ دیکھا تو کہا کہ وہ (سالم) صحیح کہتے ہیں اور عبدالملک (شام کے بادشاہ) نے حجاج کو (جو گورنر تھا اور مکہ بھی اسی کے زیر اقتدار تھا) یہ لکھ بھیجا تھا کہ حج میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مخالفت نہ کرنا۔