(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه: ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "ارايتم إن كان اسلم، وغفار خيرا من الحليفين اسد وغطفان، اترونهم خسروا؟". قالوا: نعم. قال:"فإنهم خير منهم". قال:"افرايتم إن كانت مزينة، وجهينة خيرا من تميم وعامر بن صعصعة ومد بها صوته اترونهم خسروا؟". قالوا: نعم. قال:"فإنهم خير منهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ أَسْلَمُ، وَغِفَارٌ خَيْرًا مِنَ الْحَلِيفَيْنِ أَسَدٍ وَغَطَفَانَ، أَتُرَوْنَهُمْ خَسِرُوا؟". قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ:"فَإِنَّهُمْ خَيْرٌ مِنْهُمْ". قَالَ:"أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَتْ مُزَيْنَةُ، وَجُهَيْنَةُ خَيْرًا مِنْ تَمِيمٍ وَعَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ أَتُرَوْنَهُمْ خَسِرُوا؟". قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ:"فَإِنَّهُمْ خَيْرٌ مِنْهُمْ".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ اگر (قبیلہ) اسلم و غفار دونوں حلیف اسد و غطفان سے بہتر ہوں تو کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ آخر الذکر ٹوٹے و خسارے میں رہے؟“(یعنی اسد و غطفان کے لوگ)، صحابہ نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک وہ (اسلم و غفار) ان سے بہتر ہیں۔“ پھر فرمایا: ”بتاؤ اگر مزینہ و جہینہ بنوتمیم و بنوعامر بن صعصعہ سے بہتر ہوں“ تو آپ کی آواز بلند ہوگئی، ”کیا یہ آخر الذکر خسارے میں ہوں گے؟“ عرض کیا: یقیناً برباد ہوں گے، فرمایا: ”یہ ان سے بہتر ہیں۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 2557 سے 2559) دورِ جاہلیت میں جہینہ، مزینہ، اسلم اور غفار کے قبیلے بنوتمیم، بنوغطفان اور بنوعامر بن صعصعہ وغیرہ قبیلوں کے مقابلے میں کم درجہ سمجھے جاتے تھے، پھر جب اسلام آیا تو پہلے چاروں قبیلوں نے اسلام قبول کرنے میں پیش قدمی کی اس لئے شرف و فضیلت میں بنوتمیم وغیرہ قبائل سے یہ لوگ بڑھ گئے۔ اس حدیث سے ان قبائل کی فضیلت و منزلت ثابت ہوئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2565]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3515]، [مسلم 2522]، [ابن حبان 7390، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه