مروان بن معاویہ فزاری نے کہا: ہمیں منصور بن حیان نے حدیث بیان کی کہا: ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں بیان کیا کہا: میں حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو راز داری سے کیا فرماتے تھے؟ آپ ناراض ہو ئے اور کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی راز نہیں بتا یا جس کو اور لوگوں سے چھپایا ہو۔البتہ آپ نے مجھے چار باتیں ارشاد فر ما ئی تھیں۔اس نے پو چھا: امیر المومنین! وہ کیا باتیں ہیں؟ انھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو شخص اپنے والد پر لعنت کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور جو شخص غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے اس پر اللہ لعنت کرے اور جو شخص کسی بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ لعنت کرے اور جس شخص نے زمین (کی حد بندی) کا نشان بدلا اس پر اللہ لعنت کرے۔
حضرت ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا تو ایک آدمی ان کے پاس آ کر کہنے لگا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رازدارانہ انداز میں آپ کو کیا بتاتے تھے؟ تو انہوں نے ناراض ہو کر فرمایا، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چپکے چپکے کوئی ایسی بات نہیں بتائی جو لوگوں سے چھپاتے ہوں، ہاں آپ نے مجھے چار باتیں بتائی تھیں، اس نے کہا، اے امیر المؤمنین، وہ کیا باتیں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے باپ پر لعنت بھیجے، اللہ اس پر لعنت بھیجے اور اللہ اس پر لعنت بھیجے جو اللہ کے سوا کسی کے لیے ذبح کرے اور اللہ اس پر لعنت بھیجے جو کسی بدعتی کو جگہ یا پناہ دے اور اللہ اس پر لعنت بھیجے جو زمین (کی حد بندیوں کے) نشانات مٹائے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5124
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے رافضہ، شیعہ اور امامیہ کی تردید ہوتی ہے، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ باتیں صرف حضرت علی کو اپنا وصی بنا کر فرمائیں تھیں، کسی اور کو ان سے آگاہ نہیں فرمایا، جبکہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اعلانیہ، کھلے طور پر اس کا اظہار کر رہے ہیں، کہ آپ نے ہمیں دوسروں سے الگ کچھ احکام نہیں بتائے اور والدین پر لعنت بھیجنے سے مراد ان کو صراحتا سب و شتم کرنا یا دوسروں کے والدین کو گالی گلوچ دے کر اپنے والدین کو جوابا گالی گلوچ کروانا ہے اور غیراللہ کے لیے ذبح کرنے سے مراد کسی بھی شخص کا بت، کسی نبی یا رسول یا کعبہ کے نام سے ذبح کرنا ہے، مسلمان کرے یا یہودی و عیسائی، یہ فعل حرام ہے اور یہ ذبیحہ حلال نہیں ہے، اگر اس کی تعظیم و توقیر کے لیے کیا ہے، یا اس کی بندگی تقرب و خوشنودی کے لیے کیا ہے، تو یہ کفر ہے، اگر یہ حرکت کرنے والا مسلمان ہے، تو وہ مرتد ہو گا، (شرح نووی) علامہ علاؤ الدین حصفکی نے لکھا ہے، امیر یا کسی بڑے آدمی کے آنے پر جانور ذبح کرنا حرام ہے، کیونکہ یہ بھی اهلال لغيرالله ہے، خواہ اس پر اللہ ہی کا نام لیا جائے (کیونکہ اس سے اس کا تقرب و خوشنودی مقصود ہوتی ہے)(ردالمختار، علی ھامش رد مختار ج 5 ص 270) آج کل لوگ مزاروں پر، ان کو نفع و نقصان کا مالک سمجھ کر، کہ وہ اس کو کسی مصیبت سے نجات دلا سکتے ہیں، یا اس کا کوئی کام کر سکتے ہیں، مثلا اولاد، کاروبار میں برکت، تو یہ تعظیم و توقیر عبادت ہے اور یہ صورت کفر ہے، جب کہ علامہ شامی نے لکھا ہے، کسی انسان کا تقرب بطور عبادت حاصل کرنا کفر ہے، (رد مختار، ج 5، ص 270۔ مطبوعہ استنبول) اور کسی امیر کبیر، صدر و وزیراعظم کی آمد پر جانور ذبح کرنا، اگر ان کی مہمان نوازی، اور تواضع کے لیے ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر اس کو یہ دکھلانا مطلوب ہو، میں آپ کی خاطر یہ قربان کر رہا ہوں اور یہ محض آپ کی تعظیم کے لیے ہے، تو پھر علامہ شامی، یہ ذبیحہ حرام ہو گا۔ علامہ سعیدی نے خود تسلیم کیا ہے، اس باب کی حدیث اور فقہاء کی عبارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بزرگ کی تعظیم کی خاطر کسی جانور کو ذبح کرے تو وہ ذبیحہ حرام ہو گا تاہم یہ کفر نہیں ہے، کفر اس وقت ہو گا، جب وہ اس بزرگ کی تعظیم بطور عبادت کرے۔ (شرح صحیح مسلم، ج 6، ص 178) ۔ مزاروں پر جا کر ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والوں یا سجدہ کرنے والوں کو کیا کہا جائے گا، یا ان کے لیے نذر ماننے والوں کو کیا کہیں گے، ان چیزوں کا ایصال ثواب سے کیا تعلق ہے، صدقہ کرنے کے لیے مزار پر تو جانے کی ضرورت نہیں ہے، کیا کبھی کسی نے والدین کے لیے صدقہ کرنے کے لیے بھی ان کی قبروں کا رخ کیا ہے، کہ وہاں جا کر جانور ذبح کریں یا رقم تقسیم کریں، آوی محدثا کا معنی کسی بدعتی یا فسادی کی توقیر و تعظیم کرنا یا انہیں تحفظ و پناہ دینا، تفصیل کتاب الحج میں گزر چکی ہے، غير منار الارض، کا مقصد دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے حد بندی کرنے والی علامات یا نشانیوں کو تبدیل کرنا۔