حدثنا عقبة بن مكرم العمي ، وابو بكر بن نافع ، قالا: حدثنا غندر ، حدثنا شعبة ، عن خالد ، قال: سمعت عبد الله بن الحارث يحدث، عن عبد الله بن عمر ، انه امر رجلا إذا اخذ مضجعه قال: " اللهم خلقت نفسي وانت توفاها لك مماتها ومحياها، إن احييتها فاحفظها وإن امتها فاغفر لها، اللهم إني اسالك العافية "، فقال له رجل: اسمعت هذا من عمر؟، فقال: من خير من عمر، من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن نافع في روايته: عن عبد الله بن الحارث، ولم يذكر سمعت.حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ خَالِدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ أَمَرَ رَجُلًا إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ قَالَ: " اللَّهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا، إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا وَإِنْ أَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ "، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَسَمِعْتَ هَذَا مِنْ عُمَرَ؟، فَقَالَ: مِنْ خَيْرٍ مِنْ عُمَرَ، مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ابْنُ نَافِعٍ فِي رِوَايَتِهِ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ سَمِعْتُ.
عقبہ بن مُکرم اور ابوبکر بن نافع نے کہا: ہمیں غندر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے خالد سے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نے عبداللہ بن حارث کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے ایک شخص سے کہا کہ جب وہ اپنے بستر پر جائے تو یہ دعا کرے: "اے اللہ! میری جان کو تو نے پیدا کیا اور تو ہی اس کو موت دے گا، اس جان کی موت بھی اور زندگی بھی تیرے ہی لیے ہے، اگر تو اس کو زندہ رکھے تو اس کی حفاظت فرمانا اور اگر تو اس کو موت دے تو اس کی مغفرت کرنا، اے اللہ! میں تجھ سے عافیت مانگتا ہوں۔" ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ان سے جو حضرت عمر سے زیادہ افضل ہیں (میں نے یہ حدیث) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سنی ہے۔) ابن نافع نے اپنی روایت میں کہا: عبداللہ بن حارث سے روایت ہے، یہ نہیں کہا: میں نے سنا۔
عبد اللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں تو انہوں نے ایک آدمی کو فرمایا جب وہ اپنے بستر پر جائے تو یوں کہے۔ اے میرے اللہ! تونے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور توہی جب چاہے گا۔ میری روح قبض کر لے گا۔میرا مرنا اور جینا تیرے ہی اختیار میں ہے، اگر تونے نفس کو (مجھے) زندہ رکھے تو(ہر گناہ و بلا سے اور ہر فتنہ و فساد سے) اس کی حفاظت فر اور اگر تو اس کو موت دے دے تو اسے معاف فر اور اسے (میرے نفس کو) بخش دے اے میرے اللہ! میں تجھ سے معافی اور عافیت کا سائل ہوں، یعنی تو میرے لیے معافی کا اور دنیا و آخرت میں عافیت کا فیصلہ فرما:"تو اس آدمی نے ان سے پوچھا:" کیا آپ نے یہ دعا اپنے والد ماجد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہے؟ انھوں نے جواب دیا۔ اس ہستی سے جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے!
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6888
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ دعا بھی عبدیت کے جذبات سے بھر پور ہے اور اللہ کے حضور میں عبدیت و نیاز مندی اور اظہار عاجزی و بے بسی ہے، سب سے زیادہ اس کی رحمت کو آواز دیتی ہے۔