(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا الاسود بن قيس، حدثني ثعلبة بن عباد العبدي من اهل البصرة، انه شهد خطبة يوما لسمرة بن جندب، قال: قال سمرة: بينما انا وغلام من الانصار نرمي غرضين لنا حتى إذا كانت الشمس قيد رمحين او ثلاثة في عين الناظر من الافق اسودت حتى آضت كانها تنومة، فقال احدنا لصاحبه: انطلق بنا إلى المسجد، فوالله ليحدثن شان هذه الشمس لرسول الله صلى الله عليه وسلم في امته حدثا، قال: فدفعنا، فإذا هو بارز" فاستقدم، فصلى، فقام بنا كاطول ما قام بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا، قال: ثم ركع بنا كاطول ما ركع بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا، ثم سجد بنا كاطول ما سجد بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا، ثم فعل في الركعة الاخرى مثل ذلك، قال: فوافق تجلي الشمس جلوسه في الركعة الثانية، قال: ثم سلم، ثم قام فحمد الله واثنى عليه، وشهد ان لا إله إلا الله وشهد انه عبده ورسوله"، ثم ساق احمد بن يونس خطبة النبي صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ، حَدَّثَنِي ثَعْلَبَةُ بْنُ عِبَادٍ الْعَبْدِيُّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةً يَوْمًا لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ سَمُرَةُ: بَيْنَمَا أَنَا وَغُلَامٌ مِنْ الْأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضَيْنِ لَنَا حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ مِنَ الْأُفُقِ اسْوَدَّتْ حَتَّى آضَتْ كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ، فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا، قَالَ: فَدَفَعْنَا، فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ" فَاسْتَقْدَمَ، فَصَلَّى، فَقَامَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسُ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"، ثُمَّ سَاقَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ خُطْبَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اسود بن قیس کہتے ہیں کہ ثعلبہ بن عباد عبدی (جو اہل بصرہ میں سے ہیں) نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر رہے، سمرہ رضی اللہ عنہ نے (خطبہ میں) کہا: میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے اپنا اپنا نشانہ لگا رہے تھے یہاں تک کہ جب دیکھنے والوں کی نظر میں سورج دو نیزہ یا تین نیزہ کے برابر رہ گیا تو اسی دوران وہ دفعۃً سیاہ ہو گیا پھر گویا وہ تنومہ ۱؎ ہو گیا، تو ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: تم ہمارے ساتھ مسجد چلو کیونکہ اللہ کی قسم سورج کا یہ حال ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا، تو ہم چلے تو دیکھتے ہیں کہ مسجد بھری ۲؎ ہے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور آپ نے نماز پڑھائی، اور ہمارے ساتھ اتنا لمبا قیام کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی نماز میں اتنا لمبا قیام نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ اتنا لمبا رکوع کیا کہ اتنا لمبا رکوع کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۳؎ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ اتنا لمبا سجدہ آپ نے کبھی بھی کسی نماز میں ہمارے ساتھ نہیں کیا تھا اور ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دوسری رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج روشن ہو گیا، پھر آپ نے سلام پھیرا، پھر کھڑے ہوئے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور گواہی دی کہ ”اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“، پھر احمد بن یونس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا خطبہ بیان کیا۔
وضاحت: ۱؎: یہ ایک قسم کا پودا ہے جس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ ۲؎: «فإذا هو بَارِزٌ» میں غلطی ہوئی ہے، صحیح «فإذا هو بأُزُزٍ» ہے، «أُزُزْ» جس کے معنی بھیڑ اور بڑے مجمع کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب ہم مسجد پہنچے تو دیکھا کہ لوگ مسجد میں جمع ہیں اور وہ بھری ہوئی ہے۔ ۳؎: ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کو قرات کی آواز دور ہونے کے سبب سنائی نہ دے رہی ہو، ویسے یہ حدیث ضعیف ہے صحیح روایات میں جہری قرات کا تذکرہ موجود ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 280 (الجمعة 45) (562)، سنن النسائی/الکسوف 15 (1485)، 19 (1496)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 152 (1264)، (تحفة الأشراف: 4573)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/14، 16، 17، 19، 23) (ضعیف)» (اس کے راوی ثعلبہ لین الحدیث ہیں)
Narrated Samurah ibn Jundub: When, a boy from the Ansar and I were shooting (arrows) towards two of our targets, the sun was sighted by the people at the height of two or three lances above the horizon. It became black like the black herb called tannumah. One of us said to his companion: Let us go to the mosque; by Allah, this incident of the sun will surely bring something new in the community of the Messenger of Allah ﷺ. As we reached it, we suddenly saw that he (the Prophet) had already come out (of his house). He stepped forward for a long time as much as he could do so in the prayer. But we did not hear his voice. He then performed a bowing and prolonged it as much as he could do in the prayer. But we did not hear his voice. He then prostrated himself with us and prolonged it which he never did in the prayer before. But we did not hear his voice. He then did similarly in the second rak'ah. The sun became bright when he sat after the second rak'ah. Then he uttered the salutation. He then stood up, praised Allah, and extolled Him, and testified that there was no god but Allah and testified that he was His servant and Messenger. Ahmad ibn Yunus then narrated the address of the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1180
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (1490) أخرجه الترمذي (562 وسنده حسن) والنسائي (1485 وسنده حسن) وصححه ابن خزيمة (1397 وسنده حسن)
صلى فقام بنا كأطول ما قام بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا قال ثم ركع بنا كأطول ما ركع بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا ثم سجد بنا كأطول ما سجد بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا ثم فعل في الركعة الأخرى مثل ذلك قال فوافق تجلي الشمس جلوسه في الركعة الثانية قال ثم
صلى فقام كأطول قيام قام بنا في صلاة قط ما نسمع له صوتا ثم ركع بنا كأطول ركوع ما ركع بنا في صلاة قط ما نسمع له صوتا ثم سجد بنا كأطول سجود ما سجد بنا في صلاة قط لا نسمع له صوتا ثم فعل ذلك في الركعة الثانية مثل ذلك قال فوافق تجلي الشمس جلوسه في الركعة الثاني
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1184
1184۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں ہر رکعت میں ایک ایک رکوع کا ذکر ہے اور یہ کہ قرأت بھی سنائی نہ دیتی تھی اور احناف کے مسلک کی بنیاد یہی حدیث ہے۔ لیکن جن روایات میں ایک ایک رکعت میں دو دو رکوع کا ذکر ہے۔ وہ صحیحین (بخاری و مسلم) کی روایات ہیں۔ جو سند کے اعتبار سے ابوداؤد کی اس روایت سے زیادہ قوی ہیں۔ دوسرے ان میں ایک زیادتی ہے جو ثقہ راویوں کی طرف سے ہو تو مقبول ہوتی ہے۔ اس طرح جہری قرأءت کا اضافہ بھی صحیح روایات سے ثابت ہے، بنابریں نماز کسوف میں قرأءت بھی جہری ہونی چاہیے اور رکوع بھی کم از کم دو ہوں۔ تو زیادہ بہتر ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1184
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1485
´سورج گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔` ثعلبہ بن عباد العبدی بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر ہوئے، تو انہوں نے اپنے خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک حدیث ذکر کی، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دن میں اور ایک انصاری لڑکا دونوں تیر سے نشانہ بازی کر رہے تھے، یہاں تک کہ سورج دیکھنے والے کی نظر میں افق سے دو تین نیزے کے برابر اوپر آ چکا تھا کہ اچانک وہ سیاہ ہو گیا، ہم میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: چلو مسجد چلیں، قسم اللہ کی اس سورج کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کی امت میں ضرور کوئی نیا واقعہ رونما کرے گا، پھر ہم مسجد گئے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے وقت میں پایا جب آپ لوگوں کی طرف نکلے، پھر آپ آگے بڑھے اور آپ نے نماز پڑھائی، تو اتنا لمبا قیام کیا کہ ایسا قیام آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے رکوع کیا تو اتنا لمبا رکوع کیا کہ ایسا رکوع آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے ہمارے ساتھ سجدہ کیا تو اتنا لمبا سجدہ کیا کہ ایسا سجدہ آپ نے کبھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا، ہم آپ کی آواز سن نہیں رہے تھے، پھر آپ نے ایسے ہی دوسری رکعت میں بھی کیا، دوسری رکعت میں آپ کے بیٹھنے کے ساتھ ہی سورج صاف ہو گیا، تو آپ نے سلام پھیرا، اور اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی، اور گواہی دی کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور گواہی دی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (یہ حدیث مختصر ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1485]
1485۔ اردو حاشیہ: ➊ ”ہم آپ کی آواز نہیں سنتے تھے۔“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے بلند آواز سے قرأت نہیں کی بلکہ اپنے سماع کی نفی کی ہے کہ اجتماع اتنا زیادہ تھا اور ہم اتنی دور تھے کہ ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ حقیقتاً یہ الفاظ آپ کی جہر پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ کی آواز تو تھی مگر ہمیں سنائی نہیں دیتی تھی۔ ➋ اس روایت میں صرف ایک رکوع اور ایک سجدے کا ذکر ہے۔ دراصل یہ روایت مختصر ہے۔ مقصد رکوع اور سجدے کی طوالت کا اظہار ہے نہ کہ تعداد کا بیان۔ حقیقتاً دو رکوع تھے اور دوسجدے جیسا کہ دوسری مشہور روایات میں صراحتاً ذکر ہے، ورنہ ایک سجدے کا تو کوئی بھی قائل نہیں، نیز بعض محققین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ اس صورت میں مذکورہ بالا تطبیق کی ضرورت نہیں رہتی۔ مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 17؍5۔ 9، وضعیف سنن النسائی، رقم: 1483، وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشارعواد، حدیث: 1264)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1485
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1496
´سورج گرہن کی نماز میں بلند آواز سے قرأت نہ کرنے کا بیان۔` سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھائی (وہ کہتے ہیں) کہ ہم آپ کی آواز نہیں سن رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1496]
1496۔ اردو حاشیہ: اس مسئلے کی تفصیلی بحث کے لیے حدیث نمبر: 1482 و 1485 کے فوائدومسائل دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1496
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1264
´سورج اور چاند گرہن کی نماز کا بیان۔` سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گہن کی نماز پڑھائی، تو ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1264]
اردو حاشہ: فائده: گزشتہ احادیث میں طویل قراءت کا ذکر ہے۔ اورحدیث کے الفاظ سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قراءت جہری تھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1264
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 562
´گرہن کی نماز میں قرأت کا طریقہ۔` سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گرہن کی نماز پڑھائی تو ہم آپ کی آواز نہیں سن پا رہے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 562]
اردو حاشہ: 1؎: ایک تویہ حدیث ضعیف ہے، دوسرے'آواز نہیں سننا'اس لیے بھی ہوسکتاہے کہ سمرہ رضی اللہ عنہ آپﷺ سے دور کھڑے ہوں۔ نوٹ:
(سندمیں 'ثعلبہ' لین الحدیث ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 562