سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
Chapter: The virtues of the Companions of the Messenger of Allah (saws)
15. بَابُ : فَضْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
15. باب: علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
Chapter: The Virtue of `Ali ibn Abi Talib (ra)
حدیث نمبر: 116
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو الحسين ، اخبرني حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد بن جدعان ، عن عدي بن ثابت ، عن البراء بن عازب ، قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجته التي حج، فنزل في بعض الطريق فامر الصلاة جامعة، فاخذ بيد علي رضي الله عنه، فقال:" الست اولى بالمؤمنين من انفسهم؟" قالوا: بلى، قال:" الست اولى بكل مؤمن من نفسه؟" قالوا: بلى، قال:" فهذا ولي من انا مولاه، اللهم وال من والاه، اللهم عاد من عاداه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، أَخْبَرَنِي حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ الَّتِي حَجَّ، فَنَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ فَأَمَرَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟" قَالُوا: بَلَى، قَالَ:" أَلَسْتُ أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟" قَالُوا: بَلَى، قَالَ:" فَهَذَا وَلِيُّ مَنْ أَنَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، اللَّهُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاهُ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر آئے، آپ نے راستے میں ایک جگہ نزول فرمایا اور عرض کیا: «الصلاة جامعة»، یعنی سب کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا، پھر علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: کیا میں مومنوں کی جانوں کا مومنوں سے زیادہ حقدار نہیں ہوں؟، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں ہر مومن کا اس کی جان سے زیادہ حقدار نہیں ہوں؟، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (علی) دوست ہیں اس کے جس کا میں دوست ہوں، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، جو علی سے عداوت رکھے تو اس سے عداوت رکھ ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع سے لوٹتے وقت غدیرخم میں بیان فرمائی، یہ مکہ اور مدینہ کے بیچ جحفہ میں ایک مقام کا نام ہے، اس حدیث سے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل پر استدلال درست نہیں: ۱۔ کیونکہ اس کے لئے شیعہ مذہب میں حدیث متواتر چاہیے، اور یہ متواتر نہیں ہے ۲۔ ولی اور مولیٰ مشترک المعنی لفظ ہیں، اس لئے کوئی خاص معنی متعین ہو یہ ممنوع ہے، ۳۔ امام معہود و معلوم کے لئے مولیٰ کا اطلاق اہل زبان کے یہاں مسلم نہیں، ۴۔ خلفاء ثلاثہ (ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم) کی تقدیم اجماعی مسئلہ ہے، اور اس اجماع میں خود علی رضی اللہ عنہ شامل ہیں، ۵۔ اگر اس سے خلافت بلافصل مراد ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہرگز اس سے عدول نہ کرتے، وہ اہل زبان اور منشاء نبوی کو ہم سے بہتر جاننے والے تھے، ۶۔ اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی جائے اور ان کے بغض سے اجتناب کیا جائے، اور یہ اہل سنت و الجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص امہات المومنین اور آل رسول سے محبت کی جائے، اور ان سے بغض و عداوت کا معاملہ نہ رکھا جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1797، ومصباح الزجاجة: 48)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/281) (صحیح)» ‏‏‏‏ (لیکن یہ سند ضعیف ہے، اس میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، اور عدی بن ثابت ثقہ ہیں، لیکن تشیع سے مطعون ہیں، لیکن اصل حدیث شواہد کی وجہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1750)

It was narrated that Bara' bin 'Azib said: "We returned with the Messenger of Allah from his Hajj that he had performed, and we stopped at some point on the road. He commanded that prayer should be performed in congregation, then he took the hand of 'Ali and said: 'Am I not dearer to the believers than their own selves?' They said: 'Yes indeed.' He said: 'Am I not dearer to every believer than his own self?' They said: 'Yes indeed.' He said: 'This man is the friend of those whose master I am.' O Allah, take as friends those who take him as a friend, and take as enemies those who take him as an enemy.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
علي بن زيد بن جدعان: ضعيف وأصل الحديث ((من كنت مولاه فعلي مولاه)) صحيح متواتر
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 379

   سنن ابن ماجه116براء بن عازبهذا ولي من أنا مولاه اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 116 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث116  
اردو حاشہ:
(1)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضلیت میں یہ کلمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائے تھے جب حجۃ الوداع سے واپس پر غدیرخم مقام پر پہنچے تھے۔
اس محبت و موالات کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب یمن سے واپس آئے تو کچھ لوگ ان پر شاکی تھے۔ (2)
بعض لوگوں نے اس حدیث سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ دوستی کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔

(3)
اس سے خوارج کی، جنہوں نے علی کی فضیلت کا انکار کیا اور ان غالی شیعہ کی مذمت ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی زندگی میں خدا کہا تھا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں سزائے موت دی۔
دیکھئے: (صحيح البخاري‘ استتابة المرتدين‘ حديث: 6922)

(4)
اس حدیث سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھنا ضروری ہے، نہ کہ بغض و عناد۔

(5)
بعض کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھیے، (الصحيحة‘ حديث: 1750)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 116   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.