سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
15. بَابُ : لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِوَلِيٍّ
15. باب: بغیر ولی کے نکاح جائز نہ ہونے کا بیان۔
Chapter: No marriage except with a guardian
حدیث نمبر: 1879
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا معاذ بن معاذ ، حدثنا ابن جريج ، عن سليمان بن موسى ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما امراة لم ينكحها الولي فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فإن اصابها فلها مهرها بما اصاب منها، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ لَمْ يُنْكِحْهَا الْوَلِيُّ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ أَصَابَهَا فَلَهَا مَهْرُهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنِ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت کا نکاح اس کے ولی نے نہ کیا ہو، تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے، اگر مرد نے ایسی عورت سے جماع کر لیا تو اس جماع کے عوض عورت کے لیے اس کا مہر ہے، اور اگر ولی اختلاف کریں تو حاکم اس کا ولی ہو گا جس کا کوئی ولی نہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 20 (2083، 20848)، سنن الترمذی/النکاح 14 (1102)، (تحفة الأشراف: 16462)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/66، 166، 260)، سنن الدارمی/النکاح 11 (2230) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Aishah that : the Messenger of Allah said: “Any woman whose marriage is not arranged by her guardian, her marriage is invalid, her marriage is invalid, her marriage is invalid. If (the man) has had intercourse with her, then the Mahr belongs to her in return for his intimacy with her. And if there is any dispute then the ruler is the guardian of the one who does not have a guardian.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن أبي داود2083عائشة بنت عبد اللهنكحت بغير إذن مواليها فنكاحها باطل ثلاث مرات إن دخل بها فالمهر لها بما أصاب منها إن تشاجروا فالسلطان ولي من لا ولي له
   سنن ابن ماجه1879عائشة بنت عبد اللهأيما امرأة لم ينكحها الولي فنكاحها باطل إن أصابها فلها مهرها بما أصاب منها إن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له
   بلوغ المرام836عائشة بنت عبد الله أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل ،‏‏‏‏ فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها ،‏‏‏‏ فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1879 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1879  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نکاح میں جس طرح لڑکی کی رضامندی ضروری ہے، اسی طرح اس کے سرپرست کی اجازت بھی ضروری ہے جیسے کہ حدیث 1870 میں بھی اشارہ ہے۔

(2)
ولی کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاً غیر قانونی ہے لہٰذا اگر سرپرست اجازت دینے سے انکار کر دے تو میاں بیوی میں جدائی کرا دی جائے گی۔

(3)
مقاربت کے بعد جدائی ہونے کی صورت میں مرد کے ذمے پورا حق مہر ادا کرنا لازمی ہو گا۔

(4)
اسلامی سلطنت میں بادشاہ کو نکاح کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل ہے۔
اسی طرح بادشاہ کے نائب مقامی حکام بھی یہ حق رکھتے ہیں۔
موجودہ حالات میں اس قسم کے فیصلے عدالتیں کرتی ہیں۔
پنچایت میں بھی یہ معاملہ حل کیا جاسکتا ہے۔

(5)
اگر کوئی بچی لاوارث ہو اور اس کا کوئی قریبی رشتہ دار نہ ہو جو سرپرست کے طور پر اس کے مفادات کا خیال کر سکے تو اس صورت میں بھی اسلامی سطلنت کو سرپرست کا کردار ادا کرنا چاہیے۔

(6)
مسئلہ ولایت نکاح کی مزید تحقیق و تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں از حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1879   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 836  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی خاتون نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ پھر اگر شوہر نے اس سے دخول (مباشرت) کیا ہے تو اس عورت کیلئے حق مہر ہے، اس کی شرمگاہ کو حلال کرنے کے بدلہ میں۔ پھر اگر اولیاء میں جھگڑا ہو جائے تو پھر جس کا کوئی ولی نہیں اس کا ولی حاکم وقت ہے۔ نسائی کے علاوہ اسے چاروں نے روایت کیا ہے، ابو عوانہ، ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 836»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الولي، حديث:2083، والترمذي، النكاح، حديث:1102، وابن ماجه،النكاح، حديث:1879، وأحمد:6 /166، وابن حبان (الإحسان):6 /151، حديث:4063، والحاكم:2 /168.»
تشریح:
1. یہ حدیث ولایت کو شرط قرار دینے کی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح کسی صورت میں نہیں کر سکتی۔
جمہور کا یہی موقف ہے اور ان کی تائید اس مضمون کی احادیث سے ہوتی ہے۔
سبل السلام میں ہے کہ امام حاکم فرماتے ہیں: اس مسئلے کے بارے میں ازواج مطہرات‘ حضرت عائشہ‘ حضرت ام سلمہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن سے صحیح روایات منقول ہیں‘ نیز فرماتے ہیں کہ اس مضمون سے متعلقہ روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں‘ پھر اس سلسلے میں انھوں نے تیس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا شمار کیا ہے۔
(سبل السلام)2. احناف ولی کی شرط کے سرے سے قائل ہی نہیں‘ جب عورت اپنے کفو سے شادی کرے۔
انھوں نے اس مسئلے کو بیع پر قیاس کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے‘ مگر یہ کسے معلوم نہیں کہ قیاس کی نص کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔
ان احادیث میں سے بعض پر انھوں (احناف) نے بے جا گفتگو اور کلام کیا ہے۔
اور بعض حضرات نے‘ جنھیں دراصل اس فن میں کوئی بصیرت حاصل نہیں‘ ان احادیث پر بے بنیاد اعتراضات کیے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 836   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.